ایک شعر

جوش ملیح آبادی کو روزانہ شراب پینے کی عادت تھی۔لہٰذاشام ہوتے ہی ان کی بیگم اندر سے پیگ بنا بنا کر بھجواتیں جنھیں وہ چار گھنٹے میں ختم کردیتے اور پھر کھانا کھاتے۔ایک شام آزاد انصاری بھی ان کے ساتھ تھے‘ بیگم جوش کو آزاد سے حد درجہ کراہت تھی‘ ان کی موجودگی سے وہ سخت آزردہ خاطر ہو رہی تھیں۔جوش کے تقاضوں کے بعد بیگم نے اندر سے پوری بوتل باہر بھجوادی‘ جوش سوڈا آنے کے منتظر رہے ۔ آدھ گھنٹے بعد بھی جب سوڈا نہ ملا تو بیگم کو باہر طلب کرکے جوش نے نرمی سے یہ شعر پڑھا۔ ۔ ۔ ۔

کشتیٔ مئے کو حُکم روانی بھی بھیج دو۔ ۔ ۔ ۔
جب آگ بھیج دی ہے تو پانی بھی بھیج دو۔ ۔ ۔ ۔
(جوش)۔

ایک بار ہم بھی بیٹھے تھے کہیں رندوں کی محفل میں پیگ پہ پیگ چل رہے تھے ۔ ۔ ۔ ۔ہمارے ہی کِسی عزیز نے کہا بھئی ‛‛جوگی ‛‛ہم نے سُنا ہے شاعری کرنے لگے ہوتو اک شعر ہو جائے ۔ہم نے محفل میں بھرے گلاس کے پیگ کو دیکھا جس میں برف کے ٹُکڑے تھے اور پیگ کے گلاس کو کچھ برفیلا پسینہ آیا ہوا تھا تو ہم نے یہ خیال شعر میں باندھا اور شعر پڑھا ۔ ۔ ۔ ۔شعر ملاحظہ کیجیئے ۔ ۔ ۔ ۔


دردِ جگر کے ٹُکڑے ہیں ساقی ،اِنہیں مت برف جان ۔ ۔
یونہی نہیں ٹپکے ہیں کچھ آنسو مرے پیمانے سے ۔ ۔۔
(فہیم ملک جوگی)
 
خوب انتخاب

آپ نے بھی پی یا صرف تکتے رہے ۔۔۔۔۔۔۔؟
ڈھیروں دعائیں
آپ نے بھی پی یا صرف تکتے رہے ۔۔۔۔۔۔۔؟
ڈھیروں دعائیں
میں نظر سے پی رہا تھا تو یہ دل نے بد دعا دی۔ ۔ ۔ ۔
تیرا ہاتھ زندگی بھر کبھی جام تک نہ پہنچے۔ ۔ ۔ ۔
(شکیل بدایونی)

آپ کے لیے بھی ڈھیروں دعائیں ۔
 
شعر تو خیر آپ کا جیسا بھی ہے، یہ بتائیے شراب بھی مزے کی تھی یا وہ بھی بس۔۔۔۔۔۔۔۔
سب سے پہلے تاخیر کے لئے معذرت بلکہ کافی عرصہ بعد جواب دینے پہ دو دفعہ معذرت قبول کیجئے ۔ ۔ ۔ ۔
سر!پُرانی شراب تھی اب اچھی بُری کا اندازہ آپ اُس کے پُرانے پن ;) سے لگا لیجئے ۔ ۔ ۔ :)
 
Top