بھگت سنگھ کا قرض

یاز

محفلین
شکر ہے کہ کسی اور نے بھی 23 مارچ کی مناسبت سے بھگت سنگھ کے بارے میں لکھنے کا تردد کیا ہے۔
فاروق بلوچ کی مختصر تحریر اس لنک سے لے کر یہاں کاپی کر رہا ہوں۔

23 مارچ: شہید بھگت سنگھ کا دن
برطانوی پادری سی ایف اینڈریوز جو 1932ء میں ہندوستان آیا تھا نے کہیں لکھا کہ “ہندوستان کے موجودہ حالات انیس سو سال قبل کے سلطنتِ روم کے حالات کا عکس ہیں۔ روم میں بھی بظاہر ہندوستان جیسا ہی شاندار امن قائم تھا، مگر ظاہری پُرامن نظر آنے والے ہندوستان میں ایک سلگتا ہوا خلفشار موجود ہے جو اچانک آتش فشانی لاوے کی طرح دھرتی کو پھاڑ کر باہر آنا شروع ہو گیا ہے”. اُس دور میں H.S.R.A (ہندوستان سوشلسٹ ریولوشنری آرمی) کا قیام بلاجواز نہیں تھا اور نہ ہی یہ کوئی کھلنڈرے نوجوانوں کی مہم جوئی تھی۔ یہ اُس عہد کی سماجی انگڑائی نہیں تو سماجی خلفشار و بےچینی کا اظہار ضرور تھا. زار کے روس میں آنے والے سوشلسٹ انقلاب نے بلاشبہ پوری دنیا کو جھنجھوڑا تھا. پیرس کیمون کے بعد انسانی تاریخ میں پہلی بار اتنے بڑے پیمانے پر اہلِ حکم کے سر اوپر بجلی کڑکڑ کڑکی تھی، اور مفلوک الحال عوام، مزدوروں اور دہقانوں نے اقتدار طاقتوروں سے چھین کر اپنے ہاتھوں میں لے لیا تھا. اِس انقلاب کی بدولت دنیا بھر کے غلاموں اور محکوموں کو ایک حوصلہ مِلا تھا، باقی دنیا کی طرح اِس واقعے نے ہندوستان پر بھی اپنے اثرات مرتب کیے تھے. خصوصاً نوجوانوں کو اُس انقلابی تبدیلی سے تحرک میسر آیا تھا. بھگت سنگھ، سُکھ دیو، راج گُرو، چَندر شیکھر آزاد، بی کے دت اور دیگر نوجوان انقلابیوں کی جرات مندی نے پورے غلام ہندوستان کو جھنجوڑ کر رکھ دیا تھا. مگر ایک مارکسسٹ پارٹی کی عدم موجودگی کے سبب تبدیلی اور انقلاب کا سائنسی لائحہ عمل ترتیب نہ دیا جا سکا، جِس کا منطقی انجام انفرادی مسلح جدوجہد اور دہشت گردی ہی نکلا.
کسانوں کے ریڈکل رہنما لالہ لجپت رائے نے نومبر 1928ء میں لاہور ریلوے اسٹیشن پر سائمن کمیشن کے سامنے شدید عوامی احتجاجی مظاہرہ کیا، اِس دوران پنجاب پولیس نے احتجاجیوں پہ شدید ریاستی تشدد کیا جس میں لالہ لجپت رائے بہت زخمی ہو گئے اور نتیجتاً سترہ نومبر کو لالہ وفات پاگئے. لالہ لجپت رائے کی موت نے H.S.R.A کے نوجوانوں کو مسلح جدوجہد پہ اُکسایا. اِنتقاماً اُن سوشلسٹوں نے 8 اپریل 1929ء کو اسسٹنٹ سپریٹنڈنٹ پولیس جان پویانٹس سانڈرز کو گولی مار کر قتل کر دیا۔ بعد ازاں بھگت سنگھ نے دوسروں کامریڈوں کی مدد سے مرکزی قانون ساز اسمبلی کے اجلاس کے دوران سرکاری بنچوں پر احتجاجاً بےضرر بم پھینکے اور گرفتاری دے دی. اِن سوشلسٹوں پہ قائم مقدمہ پانچ ماہ تک چلتا رہا. اِس مقدمے کی کارروائی کے دوران اِنکے انقلابی بیانات اور نعروں نے ہندوستان کو تڑپا کر رکھ دیا. برطانوی سامراج کے ساتھ ساتھ ہندوستانی آزادی پسند مقامی بورژوا لیڈران بھی لرز اٹھے، کیونکہ اُس ریڈیکل رجحان کے ابھار کے سبب جدوجہد آزادی کی قیادت اِن نام نہاد قائدین کے ہاتھوں سے نکلنے کا خطرہ بن گئی تھی.
کامریڈ بھگت کی کہانی میں ایک قابلِ تقلید اور قابلِ تحسین امر یہ ہے کہ جب یہ انقلابی قانون ساز اسمبلی میں بم مارنے اور ساتھ ہی گرفتاری کا منصوبہ بنا رہے تھے تو بھگت کے ساتھیوں نے اُسے بذاتِ خود جانے روکا کیونکہ اُس کی مبینہ موت سے تحریک کو نقصان پہنچ سکتا تھا. مگر بھگت نے کہا کہ میرے علاوہ کوئی دوسرا اپنا موقف واضح پیش نہیں کر پائے گا. اِس طرح ایک انقلابی سچے لیڈر کی طرح بھگت نے قربانی کیلئے سب سے پہلے خود کو پیش کیا. حکومت نے لاہور سازش کیس آرڈیننس جاری کیا جس کے مطابق سماعت کے دوران وکیلِ صفائی، گواہان اور ملزمان کی موجودگی کی ضرورت ختم کر دی گئی۔ اُس دوران عدم تشدد کے علمبردار گاندھی جی اور برطانوی وائسرائے لارڈ اروِن کے مابین مذاکرات چل رہے تھے اور دونوں فریقین معاہدے کے لیے کچھ لے دے کی پالیسی پر چل رہے تھے. عوام اور خود کانگریس کے قائدین کی سوچ یہ تھی کہ مذاکرات کے دوران گاندھی جی رحم کی اپیل کر کے ان انقلابیوں کی زندگیاں بچا لیں گے۔ عوام میں اس معاہدے کے خلاف شدید نفرت اور غصہ اُبھرا تھا کیونکہ اس میں بھگت سنگھ، راج گرو اور سکھ دیو کو نظر انداز کر دیا گیا تھا. کانگریس ہی کے اہم رہنما ڈاکٹر سبھاش چندر بوس نے انتہائی غصے کے عالم میں کہا کہ “ہمارے اور برطانویوں کے درمیان خون کا ایک دریا اور لاشوں کا ایک پہاڑ کھڑا ہے۔ گاندھی کی جانب سے کیے گئے سمجھوتے کو ہم کسی صورت قبول نہیں کر سکتے.” گاندھی اور اروِن کی ملاقات ہی کے دن بھگت سنگھ اور اس کے ساتھیوں نے وائسرائے کو ایک خط بھیجا۔ رحم کی اپیل کی بجائے انہوں نے جنگی قیدیوں جیسے سلوک اور پھانسی کی بجائے گولی کے ذریعے موت کا مطالبہ کیا۔ بعد ازاں کراچی میں ہونے والی آل انڈیا کانگریس کمیٹی کے اجلاس میں یہ نعرہ لگتا رہا کہ “گاندھی کے معاہدے نے بھگت سنگھ کو مار ڈالا.” بہرحال سات اکتوبر 1930ء کا دن آگیا جب جسٹس اے آر کولڈ سٹریم نے کامریڈ بھگت سنگھ اور اُسکے ساتھیوں کو سزائے موت کا حکم جاری کیا. پھر 23 مارچ 1931ء کو اِن سوشلسٹ انقلابیوں کو لاہور کی جیل میں تختہ دار پہ لٹکا دیا گیا. کامریڈ اشفاق اللہ پھانسی کے دن گلے میں قرآن لٹکا کر پھانسی کے تختے پہ چڑھا تھا.
-جس دھج سے کوئی مقتل میں گیا، وہ شان سلامت رہتی ہے
-یہ جان تو آنی جانی ہے، اِس جان کی کوئی بات نہیں
مرزا غالب، ورڈز ورتھ، بائرن اور عمر خیام کی شاعری، رابندر ناتھ ٹیگور، لاجپت رائے، ارسطو‘ افلاطون‘ ڈیکارٹ‘ ہوبز‘ لاک‘ روسو‘ ٹالسٹائی‘ برٹرینڈ رسل‘ کارل مارکس اور اینگلز جیسے مفکرین کو پڑھنے والا نوجوان بھگت سنگھ آج دنیا بھر کے انقلابیوں کا ہیرو ہے. پاکستانی ماضی پرست ریاستی قوتوں اور قدامت پرست اشرافیہ نے بھگت کو غیر مسلم ہونے کی وجہ سے اُس کے حقیقی نظریات پر پردہ ڈالنے کی ہر ممکن کوشش کی ہے، جبکہ ہندوستان میں اُس کا تشخص محض ایک “حریت پسند” تک محدود کیا گیا ہے. حالانکہ اکیس جنوری 1930ء میں جب بھگت اور اُسکے ساتھیوں کو عدالت میں پیش کیا گیا تو انہوں نے یہ نعرے لگائے “لینن زندہ باد”، “سامراج مردہ باد”،”سوشلزم زندہ باد”. جبکہ اُنہوں نے سروں پہ سرخ پٹیاں باندھ رکھیں تھیں. عدالتی کارروائی کے دوران بھگت سنگھ نے ایک ٹیلی گرام پیش کر کے مطالبہ کیا کہ اُس ٹیلی گرام کو تیسری کیمونسٹ انٹرنیشنل تک پہنچایا جائے. ہندوستان کی خونی تقسیم کے بعد نام نہاد آزادی کے بیسیوں برس گزر جانے کے بعد بھی حکمران طبقات نے سماج کو ذلیل و خوار کر رکھا ہے، یہاں کے کروڑوں عوام کو برباد حال ہیں. مجبور و مقہور طبقات استحصال، کرپشن، سامراجی لوٹ مار، مسائل، غربت اور بیماریوں کے ہاتھوں تباہ ہو چکے ہیں۔ نئی نسل اگر یہ سماجی نظام تبدیل کرنا چاہتے ہیں تو بھگت سنگھ کی انقلابی میراث کو پھر سے تلاش کرتے ہوئے اس مقصد کی تکمیل کریں. شری رام بخشی نے اپنی کتاب “بھگت سنگھ اور اس کا نظریہ” میں بھگت سنگھ کا قول لکھا ہے کہ “انقلاب سے ہماری مراد ایک ایسے سماجی نظام کا قیام ہے جس میں پرولتاریہ کا اقتدار تسلیم ہو اور ایک عالمگیر فیڈریشن کے ذریعے نسلِ انسانی سرمایہ داری، مصائب اور سامراجی جنگوں کی غلامی سے آزادی پا لے”​
 
معذرت یاز بھائی-آئندہ احتیاط کروں گا- ویسے گفتگو کا اہم حصہ ہیروازم بھی ہے- اور یہ بات بھی اسی طرف جاتی قائد اور رحمت علی بھی ہیرو کے زمرے میں آتے-
یوں یہ واضح ہورہا کہ ہیرو کی کسوٹی پر پورا اترنے کے لئے قومیت اور مذہب سے پہلے مسلک کی سرحد بھی عبور کرنا لازم ہے-
 

یاز

محفلین
معذرت یاز بھائی-آئندہ احتیاط کروں گا- ویسے گفتگو کا اہم حصہ ہیروازم بھی ہے- اور یہ بات بھی اسی طرف جاتی قائد اور رحمت علی بھی ہیرو کے زمرے میں آتے-
یوں یہ واضح ہورہا کہ ہیرو کی کسوٹی پر پورا اترنے کے لئے قومیت اور مذہب سے پہلے مسلک کی سرحد بھی عبور کرنا لازم ہے-

معذرت کی کوئی بات نہیں بھائی۔ آپ خوب سمجھتے ہیں۔
مسئلہ بس اتنا ہے کہ مناظروں سے دوری کو ہی بہتر خیال کرتا ہوں اب، اور وہ اس لئے کہ میں نے اس سے آج تک کسی کا بھلا ہوتے نہیں دیکھا۔ میں سمجھتا ہوں کہ ہر کسی کو اپنی اپنی رائے کہنے کا اتنا ہی حق ہے جتنا مجھے اس سے متفق یا غیرمتفق ہونے کا۔
میں چاہوں گا کہ زیرِنظر لڑی کو معلوماتِ عامہ کے زاویے سے دیکھا جائے، نہ کہ اپنا اپنا موقف منوانے کے مناظرے کے طور پر۔
 

زیک

مسافر
ویسے اہل بیت رضوان اللہ کے عاشق ایک سید زادہ نقوی کی طرف سے گستاخ اہل بیت مرزا غلام احمد کے زندیق گروہ کی وکالت میرے لیے ناقابل فہم ہے۔
نایاب تو انتہائی اچھے انسان ہیں اور ان کی بات ہی الگ ہے۔ مگر ایک سے زیادہ احمدی سید زادوں کو جانتا ہوں یہ کوئی انوکھی بات نہیں
 

نور وجدان

لائبریرین
یاز بھائی ۔۔۔۔۔۔۔۔کچھ اس قسم کا نفس مضمون قائد اعظم کے حوالے سے چاہیے جس میں یہ دو رائے ہوں ------قائد اعظم اصل میں برطانوی سامراج کا مہرہ تھے یا قائد اعظم انسانیت کے رہنما تھے ---چونکہ یہ ایک معلوماتی شراکت ہے اسی حوالے سے ایسا ہی مضمون شریک کریں تو عنایت ہوگی

علیحدہ لڑی میں ۔
 

نایاب

لائبریرین
ویسے اہل بیت رضوان اللہ کے عاشق ایک سید زادہ نقوی کی طرف سے گستاخ اہل بیت مرزا غلام احمد کے زندیق گروہ کی وکالت میرے لیے ناقابل فہم ہے۔ تقلیدِ امامِ عالی مقام حسینیت تو دین سے دوستی کا نام ہے نہ کہ دینی قوتوں کیخلاف قلمی لشکر کشی کا۔
میرے محترم بھائی
بچپن سے جوانی تک بہت " کٹر متشدد " مسلمانی کا حامل رہا ۔
اپنے مسلک اپنے فرقے کو ہزار احادیث سے ہر جگہ ہر بحث میں فوقیت دلانے کی کوشش میں وقت ضائع کرتا رہا ۔
اللہ سوہنا کروٹ کروٹ جنت سے نوازے محترم جناب غلام جیلانی برق صاحب کو ۔
ان کی لکھی کتاب " دو قران " جب پڑھی تو یہ راز کھلا کہ
یہی شیخ حرم ہے جو چرا کر بیچ کھاتا ہے گلیم بوذر و دلق اویس و چادر زہراء
بس قران پاک کی جانب متوجہ ہونا ہی مناسب جانا ۔۔۔۔۔
تو یہ حقیقت کھلی کہ " اسلام " سلامتی کا دیں اور انسان کی فلاح کا ضامن ہے ۔
جو انسان کی خدمت میں محو رہا وہی کامیاب ہوا ۔۔۔۔۔
خدا کے عاشق تو ہیں ہزاروں بنوں میں پھرتے ہیں مارے مارے
میں اس کا بندہ بنوں گا جس کو خدا کے بندوں سے پیار ہو گا
بس پھر فرقہ پرستی اور ہر جگہ مسلمانی کے اظہار سے دل اٹھ گیا ۔۔۔
پروانے کو چراغ ہے ، بلبل کو پھول بس
صدیق کے لئے ہے خدا کا رسول بس!

کو مشعل راہ بناتے انسان بننے کی راہ تلاشنے کی کوشش میں مصروف ہوں ۔
اللہ کے ہان کوئی نام نہیں کوئی نسب نہیں فقط " عمل " ہے ۔ وہ بھی فلاح انسانیت کے جذبے سے بھرپور نیت پر استوار ۔
میرے لیے صرف انسانیت اہم ہے اور انسان ہر مسلک و مذہب سے بڑھ کر ۔
میں کسی کی وکالت نہیں کرتا ۔ میں صرف اپنی قبر کی فکر کرتا ہوں ۔
میرا " سادات " سے منسلک ہونا میرے لیے کسی طور نافع نہیں بلکہ مزید سخت حساب کا سبب ہے ۔
اور میں اللہ کی پناہ مانگتا ہوں کہ کسی قبیلے کسی انسان کی دشمنی مجھے زیادتی میں ملوث نہ کر دے ۔
حق کہ حق دار کو حق پہنچانا ہی عدل و انصاف کا تقاضا ہے ۔۔۔
بہت دعائیں
 

یاز

محفلین
میرے محترم بھائی
بچپن سے جوانی تک بہت " کٹر متشدد " مسلمانی کا حامل رہا ۔
اپنے مسلک اپنے فرقے کو ہزار احادیث سے ہر جگہ ہر بحث میں فوقیت دلانے کی کوشش میں وقت ضائع کرتا رہا ۔
اللہ سوہنا کروٹ کروٹ جنت سے نوازے محترم جناب غلام جیلانی برق صاحب کو ۔
ان کی لکھی کتاب " دو قران " جب پڑھی تو یہ راز کھلا کہ
یہی شیخ حرم ہے جو چرا کر بیچ کھاتا ہے گلیم بوذر و دلق اویس و چادر زہراء
بس قران پاک کی جانب متوجہ ہونا ہی مناسب جانا ۔۔۔۔۔
تو یہ حقیقت کھلی کہ " اسلام " سلامتی کا دیں اور انسان کی فلاح کا ضامن ہے ۔
جو انسان کی خدمت میں محو رہا وہی کامیاب ہوا ۔۔۔۔۔
خدا کے عاشق تو ہیں ہزاروں بنوں میں پھرتے ہیں مارے مارے
میں اس کا بندہ بنوں گا جس کو خدا کے بندوں سے پیار ہو گا
بس پھر فرقہ پرستی اور ہر جگہ مسلمانی کے اظہار سے دل اٹھ گیا ۔۔۔
پروانے کو چراغ ہے ، بلبل کو پھول بس
صدیق کے لئے ہے خدا کا رسول بس!

کو مشعل راہ بناتے انسان بننے کی راہ تلاشنے کی کوشش میں مصروف ہوں ۔
اللہ کے ہان کوئی نام نہیں کوئی نسب نہیں فقط " عمل " ہے ۔ وہ بھی فلاح انسانیت کے جذبے سے بھرپور نیت پر استوار ۔
میرے لیے صرف انسانیت اہم ہے اور انسان ہر مسلک و مذہب سے بڑھ کر ۔
میں کسی کی وکالت نہیں کرتا ۔ میں صرف اپنی قبر کی فکر کرتا ہوں ۔
میرا " سادات " سے منسلک ہونا میرے لیے کسی طور نافع نہیں بلکہ مزید سخت حساب کا سبب ہے ۔
اور میں اللہ کی پناہ مانگتا ہوں کہ کسی قبیلے کسی انسان کی دشمنی مجھے زیادتی میں ملوث نہ کر دے ۔
حق کہ حق دار کو حق پہنچانا ہی عدل و انصاف کا تقاضا ہے ۔۔۔
بہت دعائیں

اللہ آپ کو خوش رکھے نایاب صاحب۔ ڈاکٹر غلام جیلانی برق کی کتاب کا ذکر کر کے آپ نے طبیعت خوش کر دی۔ "دو اسلام" اور "دو قرآن" ان کی دو بے مثال کتب ہیں۔ کاش ہر کوئی ان کو پڑھ سکے۔
 
بھگت سنگھ تو نہیں البتہ ہیرو ز کی تقسیم کے متعلق ایک دلچسپ ٹویٹ۔
آؤ اَج اک سودا کریئے تسیں اپنے غزنوی لے لؤ، نادر لے لؤ قاسم لے لؤ، بابر لے لؤ سانُوں ساڈے مرزے دے دیو، دُلے دے دیو وارث شاہ تے بُلھے دے دیو
 

ربیع م

محفلین
میرے محترم بھائی
بچپن سے جوانی تک بہت " کٹر متشدد " مسلمانی کا حامل رہا ۔
اپنے مسلک اپنے فرقے کو ہزار احادیث سے ہر جگہ ہر بحث میں فوقیت دلانے کی کوشش میں وقت ضائع کرتا رہا ۔
اللہ سوہنا کروٹ کروٹ جنت سے نوازے محترم جناب غلام جیلانی برق صاحب کو ۔
ان کی لکھی کتاب " دو قران " جب پڑھی تو یہ راز کھلا کہ
یہی شیخ حرم ہے جو چرا کر بیچ کھاتا ہے گلیم بوذر و دلق اویس و چادر زہراء
بس قران پاک کی جانب متوجہ ہونا ہی مناسب جانا ۔۔۔۔۔
تو یہ حقیقت کھلی کہ " اسلام " سلامتی کا دیں اور انسان کی فلاح کا ضامن ہے ۔
جو انسان کی خدمت میں محو رہا وہی کامیاب ہوا ۔۔۔۔۔
خدا کے عاشق تو ہیں ہزاروں بنوں میں پھرتے ہیں مارے مارے
میں اس کا بندہ بنوں گا جس کو خدا کے بندوں سے پیار ہو گا
بس پھر فرقہ پرستی اور ہر جگہ مسلمانی کے اظہار سے دل اٹھ گیا ۔۔۔
پروانے کو چراغ ہے ، بلبل کو پھول بس
صدیق کے لئے ہے خدا کا رسول بس!

کو مشعل راہ بناتے انسان بننے کی راہ تلاشنے کی کوشش میں مصروف ہوں ۔
اللہ کے ہان کوئی نام نہیں کوئی نسب نہیں فقط " عمل " ہے ۔ وہ بھی فلاح انسانیت کے جذبے سے بھرپور نیت پر استوار ۔
میرے لیے صرف انسانیت اہم ہے اور انسان ہر مسلک و مذہب سے بڑھ کر ۔
میں کسی کی وکالت نہیں کرتا ۔ میں صرف اپنی قبر کی فکر کرتا ہوں ۔
میرا " سادات " سے منسلک ہونا میرے لیے کسی طور نافع نہیں بلکہ مزید سخت حساب کا سبب ہے ۔
اور میں اللہ کی پناہ مانگتا ہوں کہ کسی قبیلے کسی انسان کی دشمنی مجھے زیادتی میں ملوث نہ کر دے ۔
حق کہ حق دار کو حق پہنچانا ہی عدل و انصاف کا تقاضا ہے ۔۔۔
بہت دعائیں

دو قرآن پر خود صاحب کتاب کا آخری مؤقف جاننے کے لیے اوریا جان مقبول کے وہ کالمز لازمی پڑھئے گا جو جاوید چوہدری کے جواب میں تحریر کئے گئے تھے۔
 

ربیع م

محفلین

بہت خوب
گویا یہ درس عامۃ الناس کے لیے ہی دیا جاتا ہے کہ غیر مذاہب لوگوں کی تحاریر تعصب کو بالائے طاق رکھ کر پڑھی جانی چاہئے اس کے یہودی عیسائی ہندو یا قادیانی ہونے پر منہ نہیں بنا لینا چاہیے
یہ درس محض لوگوں کے لیے ہے
عمل کے لیے نہیں
جانکاری دینے کا بہت بہت شکریہ
 

زیک

مسافر
بہت خوب
گویا یہ درس عامۃ الناس کے لیے ہی دیا جاتا ہے کہ غیر مذاہب لوگوں کی تحاریر تعصب کو بالائے طاق رکھ کر پڑھی جانی چاہئے اس کے یہودی عیسائی ہندو یا قادیانی ہونے پر منہ نہیں بنا لینا چاہیے
یہ درس محض لوگوں کے لیے ہے
عمل کے لیے نہیں
جانکاری دینے کا بہت بہت شکریہ
اوریا مقبول جان کو پڑھنا جہالت سے بھی بڑھ کر ہے۔ آج تک اس کے کسی کالم میں کوئی بات سیکھنے کو نہیں ملی۔
 
یاز بھائی سردار سورن سنگھ کے قتل کے بعد کافی دلچسپ سے صورتحال پیدا ہو گئی۔
عوام الناس انکو تو ہیرو قرار دینے پر مصر ہے۔لیکن بھگت سنگھ کے نام پر شائد اب بھی چیخ اٹھے۔
 

یاز

محفلین
یاز بھائی سردار سورن سنگھ کے قتل کے بعد کافی دلچسپ سے صورتحال پیدا ہو گئی۔
عوام الناس انکو تو ہیرو قرار دینے پر مصر ہے۔لیکن بھگت سنگھ کے نام پر شائد اب بھی چیخ اٹھے۔

یہ بھی وہی معاملہ ہے جناب۔۔ یعنی ہمارے معاشرے میں ہیرو کہلانے کے لئے کم سے کم کرائے ٹیریا "مر جانا" ہے۔ قتل ہو جائیں تو یہی کرائے ٹیریا زیادہ بہتر انداز میں پورا ہوتا ہے۔
پڑھیئے: زندہ ہیرو کی تلاش

ویسے یہ بھی غنیمت ہے کہ اب کچھ لوگ کسی غیرمسلم کی تعریف میں بھی چند الفاظ بولنے کی جرات کر لیتے ہیں۔ یہ بھی شاید بڑھتی ملائیت کے ردِعمل میں ہے۔

بھگت سنگھ کا معاملہ اس ضمن میں کچھ الگ اس طرح سے ہے کہ بارہ چودہ سال تک تواتر ٹھونس دی گئی تاریخ میں کسی نئی بات کی شمولیت کو تسلیم کرنا یا کسی پہلے سے شامل بات کو نکال پانا۔۔۔دونوں ہی مشکل کام ہیں۔
 
آخری تدوین:

فاخر رضا

محفلین
کچھ عرصہ قبل ایک لڑی میں مہاتما گاندھی کے بارے میں بات چیت ہوئی تھی۔ اسی میں بات کرتے ہوئے میں نے بھگت سنگھ کا ذکر کیا تھا اور سارہ خان بہن کے استفسار پہ وعدہ کیا تھا کہ 23 مارچ یا اس سے پہلے اس بارے میں الگ لڑی میں تفصیلات لکھوں گا۔ اس معاملے میں 23 مارچ کی اہمیت اس لئے ہے کہ 23 مارچ 1931 وہ تاریخ ہے جب بھگت سنگھ کو لاہور میں پھانسی پہ لٹکا دیا گیا تھا۔
سو آج کچھ کوشش کرتا ہوں کہ بھگت سنگھ سے متعلق کچھ معلومات اس لڑی میں شیئر کر سکوں۔ یہ عرض کرتا چلوں کہ میں نے خود بھی بھگت سنگھ کے متعلق زیادہ نہیں پڑھا ہے۔ زیادہ تر مواد مختلف ویب سائٹس سے دیکھا ہے، سو وہیں سے شیئر کر رہا ہوں۔ اس پہ اعتراض اٹھایا جا سکتا ہے کہ اس میں کافی حد تک مبالغہ آرائی ہو۔ اس سے انکار نہیں کہ ہیروز کی گلوریفائی کرنے کے لئے زیبِ داستان کی خاطر واقعات کو بڑھا چڑھا کے پیش کیا جاتا ہے، لیکن اس سے بچنا کافی مشکل بلکہ کسی حد تک ناممکن سا ہے۔ کیا آپ کے خیال میں قائداعظم یا دیگر مشہور رہنماؤں کے متعلق جو کچھ ہمارے سامنے پیش کیا جاتا ہے، وہ سب کچھ سچ اور حقیقت پر مبنی ہی ہے۔ یقیناََ نہیں۔ اسی طرح بھگت سنگھ کو بھی اس مبینہ مبالغہ آرائی سے اسشتنا نہیں ہو گا۔

مقصد اس لڑی کا بھگت سنگھ کی زیادہ حمدوثنا نہیں ہے۔ بلکہ اس چیز کو ہائی لائٹ کرنا ہے کہ وہ بھی ہمارا ہی ہیرو تھا۔ اس نے بھی ہماری ہی خاطر جان دی تھی، اور وہ بھی صرف 23 سال کی عمر میں۔ لیکن بدقسمتی سے تاریخی حقائق کو تسلیم یا بیان کرنے میں ہماری سمت ایسی بگڑی کہ غیرمسلم ہونے کی وجہ سے اس کا ذکر تک آپ کو کہیں نہیں ملتا۔
رہِ آزادی کے بے شمار دیگر جانثاروں کی طرح بھگت سنگھ کا بھی اس مٹی پہ، ہم سب پہ ایک قرض ہے۔ میں اپنی سی کوشش کر رہا ہوں کہ اس قرض کو کسی حد تک چکایا جائے۔

پھانسی سے چند دن قبل جیل میں لی گئی بھگت سنگھ کی تصویر
Bhagat%20Singh.jpg
یہ ساری روداد اور تبصرے پڑھ کر یہ اندازہ ہوا کہ بھگت سنگھ ایک بہادر انسان تھا جو غلامی کی زندگی نہیں گزارنا چاہتا تھا. اس وجہ اس اسے ہیرو بھی کہ سکتے ہیں اور اس کی تعریف بھی کر سکتے ہیں. یہ کوئی جنت یا دوزخ میں جانے والا معاملہ نہیں ہے. اس کی تعریف کرنے سے اللہ ناراض نہیں ہوگا. بھگت سنگھ نے یہ کارنامے جنت کے حصول کے لئے کئے بھی نہیں تھے لہذا یہ تو بحث ہی فضول ہے کہ اس کا انجام آخرت میں کیا ہوگا. یہی بات آپ تمام ہیروز کے بارے میں کہ سکتے ہیں کہ یہ دیکھنا چاہیے کہ وہ اپنی جدوجہد کا کیا مقصد بتاتے ہیں. اس طرح ہم مذہب اور فرقوں سے نکل کر سوچنے کے قابل ہوجائیں گے
 

یاز

محفلین
آج یعنی 23 مارچ 2017 کو بھگت سنگھ کی 86ویں برسی ہے۔

شاید کہیں چند ایک تقریبات کا انعقاد بھی کیا جائے۔
ایک خبر کے مطابق
حوالہ
بھگت سنگھ کی 86ویں برسی کی تقریب کیلئے سیکیورٹی فراہم نہ کرنے پر لاہور ہائی کورٹ سے رجوع

لاہور(نامہ نگار خصوصی )بھگت سنگھ کی 86ویں برسی کی تقریب کے لئے سیکیورٹی فراہم نہ کرنے پر لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کرلیا گیا ،اس سلسلے میں بھگت سنگھ میموریل فاؤنڈیشن کے چیئرمین امتیاز رشید قریشی کی درخواست پر مسٹر جسٹس عابد عزیز شیخ کل 20مارچ کو سماعت کریں گے ۔درخواست میں موقف اختیا رکیا گیا ہے کہ یہ فاؤنڈیشن گزشتہ10سال سے 23مارچ کو بھگت سنگھ اور ان کے ساتھیوں سکھ دیو اور راج گرو کی پھانسی کی یاد میں تقریب منعقد کرتی آرہی ہے ،اس سال بھارتی ہائی کمشنر گوتھم بمبا ں والا کو مہمان خصوصی کے طور پر تقریب میں مدعو کیا گیا ہے ۔اس سلسلے میں ضلعی انتظامیاں اور پولیس حکام کو سیکیورٹی کے لئے درخواستیں دی گئیں تاہم کوئی شنوائی نہیں ہوئی ،درخواست میں کہاگیا ہے کہ حکومت کو اس سلسلے میں ہونے والی تقریب کے لئے سیکیورٹی فراہم کرنے کا حکم جاری کیا جائے ۔
 
Top