غزل " نادم تھی بے لگام ہوا، سوچتی رہی" برائے اصلاح

ایک اور غزل
مضارع مثمن اخرب مکفوف محذوف
مفعول فاعلاتُ مفاعیل فاعلن
نادِم تھی بے لگام ہوا، سوچتی رہی
اکثر بجھا کے میرا دیا، سوچتی رہی
اظہارِ عشق کو بھی زمانے گزر گئے
میں منتظر رہا، وہ سدا سوچتی رہی
میں وقت کی صلیب پہ لٹکا رہا اِک عمر
مارے یا چھوڑ دے،یہ قضا سوچتی رہی
اس کی ہر ایک سوچ کا محور تھا صرف میں
جانے وہ مجھ کو پا کے بھی کیا سوچتی رہی
میں کب کا مر چکا ہوں جدائی میں، وہ مگر
مجھ سے بچھڑ کے میرا بھلا سوچتی رہی
 
ماشا اللہ اچھی کوشش ہے۔
اصلاح دینا تو استاد محترم کا کام ہے میں اک سرسری نظر میں دیکھنے پر بس اتنا ہی کہہ پاؤنگا کہ:
ایک اور غزل
مضارع مثمن اخرب مکفوف محذوف
مفعول فاعلاتُ مفاعیل فاعلن
نادِم تھی بے لگام ہوا، سوچتی رہی
اکثر بجھا کے میرا دیا، سوچتی رہی
' ہوا بے لگام اگر ہے تو نادم ہونا چہ معنٰی دارد؟ نادم تھی تو بے لگام نہیں ہو سکتی۔

اظہارِ عشق کو بھی زمانے گزر گئے
میں منتظر رہا، وہ سدا سوچتی رہی
یہ پتا نہیں چل پا رہا کہ اظہارِ عشق کیا کس نے تھا؟ آپ منتظر تھے وہ سوچ میں تھی۔ تو کیا کوئی تیسرا تھا جو اظہار عشق کر گیا؟

میں وقت کی صلیب پہ لٹکا رہا اِک عمر
مارے یا چھوڑ دے،یہ قضا سوچتی رہی

اس کی ہر ایک سوچ کا محور تھا صرف میں
جانے وہ مجھ کو پا کے بھی کیا سوچتی رہی

میں کب کا مر چکا ہوں جدائی میں، وہ مگر
مجھ سے بچھڑ کے میرا بھلا سوچتی رہی
بات سمجھ نہیں آئی۔ آپ اگر مر گئے تو کوئی آپ کا بھلا کیسے سوچ سکتا ہے؟
 
ماشا اللہ اچھی کوشش ہے۔
اصلاح دینا تو استاد محترم کا کام ہے میں اک سرسری نظر میں دیکھنے پر بس اتنا ہی کہہ پاؤنگا کہ:
کاشف بھائی آپ کی توجہ اور راہنمائی کے لیے ممنون ہوں۔
بے لگام کی جگہ تیز گام بھی ہو سکتا ہے مگر کچھ بہتر سوچتا ہوں۔
یہ کیسا رہے گا " اظہارِ عشق کرکے بھی کچھ بات نہ بنی"
میں کب کا مرچکا تھا جدائی میں، وہ مگر
مجھ سے بچھڑ کے میرا بھلا سوچتی رہی
یہاں یہ قیاس کیا ہے کہ اسے خبر ہی نہ ہوئی کہ میں نے جدائی میں جان دے دی کیونکہ میں اس کے بغیر رہ ہی نہیں سکتا تھا۔ یا یوں کہ اسے معلوم تھا کہ میں اس سے بچھڑ کے زندہ نہیں رہوں گا مگر وہ خود کو دھوکہ دیتی رہی کہ جدائی میرے لیے بہتر تھی۔
 
کاشف بھائی آپ کی توجہ اور راہنمائی کے لیے ممنون ہوں۔
بے لگام کی جگہ تیز گام بھی ہو سکتا ہے مگر کچھ بہتر سوچتا ہوں۔
یہ کیسا رہے گا " اظہارِ عشق کرکے بھی کچھ بات نہ بنی"
آپ خود دیکھیں اگلا مصرع "میں منتظر رہا، وہ سدا سوچتی رہی" آپ کس بات کے منتظر تھے۔ اظہار کے نا؟ لیکن اس کا اشارہ تک موجود نہیں کہیں۔

میں کب کا مرچکا تھا جدائی میں، وہ مگر
مجھ سے بچھڑ کے میرا بھلا سوچتی رہی
یہاں یہ قیاس کیا ہے کہ اسے خبر ہی نہ ہوئی کہ میں نے جدائی میں جان دے دی کیونکہ میں اس کے بغیر رہ ہی نہیں سکتا تھا۔ یا یوں کہ اسے معلوم تھا کہ میں اس سے بچھڑ کے زندہ نہیں رہوں گا مگر وہ خود کو دھوکہ دیتی رہی کہ جدائی میرے لیے بہتر تھی۔
میرا خیال ہے اسے اور بہتر کیاجا سکتا ہے۔
 

الف عین

لائبریرین
میرے خیال میں یہ دونوں اشعار درست ہیں۔ ہوا پہلے بے لگام تھی، لیکن دیا بجھا کر نادم ضرور ہو سکتی ہے، اس وقت بے لگام نہیں رہی!!
اظہار عشق تو ظاہر ہے کہ شاعر صاحب نے ہی کیا ہو گا۔ جواب کا منتظر رہا اور محترمہ سوچتی ہی رہیں کہ جواب دون تو کیا دوں؟
البتہ تیسرے شعر میں اعتراض بجا ہے کچھ حد تک۔ عروضی اعتبار سے صرف ایک غلطی ہے۔
میں وقت کی صلیب پہ لٹکا رہا اِک عمر
عمر کی ع نہیں گرائی جا سکتی، الف گرایا جا سکتا ہے۔
 
میرے خیال میں یہ دونوں اشعار درست ہیں۔ ہوا پہلے بے لگام تھی، لیکن دیا بجھا کر نادم ضرور ہو سکتی ہے، اس وقت بے لگام نہیں رہی!!
اظہار عشق تو ظاہر ہے کہ شاعر صاحب نے ہی کیا ہو گا۔ جواب کا منتظر رہا اور محترمہ سوچتی ہی رہیں کہ جواب دون تو کیا دوں؟
البتہ تیسرے شعر میں اعتراض بجا ہے کچھ حد تک۔ عروضی اعتبار سے صرف ایک غلطی ہے۔
میں وقت کی صلیب پہ لٹکا رہا اِک عمر
عمر کی ع نہیں گرائی جا سکتی، الف گرایا جا سکتا ہے۔
بہت شکریہ استادِ محترم
اس پہ مجھے شروع سے ہی شک تھا اس لیے ایک اور صورت یوں سوچ رکھی تھی۔
"لٹکا رہا میں وقت کی سولی پہ ایک عمر"
اس کے بارے میں کیارائے ہے؟
 
Top