اردو کی چند فاش غلطیاں

سید عمران

محفلین
دل دُکھتا ہے جب ان الفاظ کو غلط بولا جاتا ہے جو کچھ عرصہ پہلے تک بالکل صحیح بولے جاتے تھے،
مثلاً اِفطار اور مُبارَک۔۔۔ ۔۔اب یہ الفاظ اَفطار اور مبارِک ہوگئے ہیں۔

ان فاش غلطیوں کو اغلاط العوام کہتے ہیں، یعنی جو غلطیاں عوام میں عام ہوگئی ہوں۔

جیسے پہلے ’’بات میری سمجھ میں نہیں آتی ‘‘تھی جبکہ آج کل ’’بات مجھے سمجھ نہیں آتی‘‘ ۔
کبھی ’’مجھ کو جانا، مجھ کو کھانا اور مجھ کو لکھنا‘‘ ہوتا تھا۔ آج ’’میں نے جانا، میں نے کھانا اور میں نے لکھنا‘‘ ہوگیا۔
ہمارے بچپن میں ’’پیٹ میں درد ہوتا تھا‘‘ اب جگہ جگہ سنتے ہیں کہ ’’درد ہورہی ہے‘‘ ۔
پہلے جو کام ’’اچھی طرح سے‘‘ ہوتا تھا وہ اب ’’اچھے سے‘‘ ہوتا ہے۔
اس وقت تو دنگ ہی رہ گئے جب غایت ادب کا اظہار کرتے ہوئے ’’اب میں رخصت ہوتا ہوں‘‘ کی جگہ کہا گیا ’’اب میں دفع ہوتا ہوں‘‘۔
جن اہل علم کے یہاں’’مرخص ہونا‘‘ کو ’’مخنث ہونا‘‘ کہنا نہایت فحش غلطی مانی جاتی تھی اب ان کے یہاں ’’ہمارے یہاں‘‘ کی جگہ ’’ہمارے ہاں، تمہارے ہاں‘‘ سب چلتا ہے۔
آگے آگے دیکھیے دِکھتا ہے کیا۔۔۔
ناطقہ سربہ گریباں ، خامہ انگشت بدنداں ہے، کیا کہیے!!!

روشن ہوا جہاں
 
کسی بھی بڑی زبان کو ادائیگی میں ایسے مسائل کا سامنا ہوتا ہےاور میری ذاتی رائے میں زبان کو اتنا کنجوس یا تنگ دامن نہیں ہونا چاہیے کہ وہ تبدیلیوں کو سمو نا سکے۔ یہ چھوٹی موٹی اونچ نیچ سب زبانوں میں ہوتی ہے اور یہ اتنی فاش بھی نہیں کہ گناہ کبیرہ لگنے لگے۔
 

فرخ منظور

لائبریرین
دل دُکھتا ہے جب ان الفاظ کو غلط بولا جاتا ہے جو کچھ عرصہ پہلے تک بالکل صحیح بولے جاتے تھے،
مثلاً اِفطار اور مُبارَک۔۔۔ ۔۔اب یہ الفاظ اَفطار اور مبارِک ہوگئے ہیں۔

ان فاش غلطیوں کو اغلاط العوام کہتے ہیں، یعنی جو غلطیاں عوام میں عام ہوگئی ہوں۔

جیسے پہلے ’’بات میری سمجھ میں نہیں آتی ‘‘تھی جبکہ آج کل ’’بات مجھے سمجھ نہیں آتی‘‘ ۔
کبھی ’’مجھ کو جانا، مجھ کو کھانا اور مجھ کو لکھنا‘‘ ہوتا تھا۔ آج ’’میں نے جانا، میں نے کھانا اور میں نے لکھنا‘‘ ہوگیا۔
ہمارے بچپن میں ’’پیٹ میں درد ہوتا تھا‘‘ اب جگہ جگہ سنتے ہیں کہ ’’درد ہورہی ہے‘‘ ۔
پہلے جو کام ’’اچھی طرح سے‘‘ ہوتا تھا وہ اب ’’اچھے سے‘‘ ہوتا ہے۔
اس وقت تو دنگ ہی رہ گئے جب غایت ادب کا اظہار کرتے ہوئے ’’اب میں رخصت ہوتا ہوں‘‘ کی جگہ کہا گیا ’’اب میں دفع ہوتا ہوں‘‘۔
جن اہل علم کے یہاں’’مرخص ہونا‘‘ کو ’’مخنث ہونا‘‘ کہنا نہایت فحش غلطی مانی جاتی تھی اب ان کے یہاں ’’ہمارے یہاں‘‘ کی جگہ ’’ہمارے ہاں، تمہارے ہاں‘‘ سب چلتا ہے۔
آگے آگے دیکھیے دِکھتا ہے کیا۔۔۔
ناطقہ سربہ گریباں ، خامہ انگشت بدنداں ہے، کیا کہیے!!!

روشن ہوا جہاں

خیر یہ ایسی غلطیاں نہیں ہیں جس پر اتنا پریشان ہونا چاہیے کیونکہ جو گفتگو آپ نے درج کی ہے وہ عوامی زبان ہے۔ عوام کی زبان اہلِ علم سے ہمیشہ مختلف ہوتی ہے۔ البتہ آپ نے غالب کا شعر غلط لکھا ہے جس کا مجھے کافی قلق ہے کیونکہ بظاہر آپ اپنے آپ کو کافی عالم ظاہر کر رہے ہیں۔ غالب کا درست شعر یوں ہے۔
خامہ انگشت بہ دنداں کہ اسے کیا لکھیے
ناطقہ سر بہ گریباں کہ اسے کیا کہیے
 

وصی اللہ

محفلین
زبان کا ارتقاء اور ہے اور تنزلی اور۔۔۔
آخر گلابی اردو بھی کسی چڑیا کا نام ہے۔۔۔
زبان کوئی "تالاب" کی سی جامد شے نہیں بلکہ چلتی بہتی بل کھاتی، "زندہ رود" ہے۔۔۔ الفاظ بنتے ہیں بعض بچپن میں ہی مر جاتے ہیں کچھ جوانی کی دہلیز پر قدم رکھتے ہیں اور کچھ بڑھاپے کا دور بھی دیکھتے ہیں۔۔۔ کبھی بھی، کہیں بھی، کسی نے بھی زبان پر اس طرح کی قدغن نہیں لگائی۔۔۔ الفاظ میں معنوی تبدیلی بھی ہوتی اور یہ اپنے تلفظ میں بھی رد بدل ہوتا ہے۔۔۔۔کیا آج دلی یا لکھنو کی اُردو بولی جارہی ہے۔۔۔۔ کیا غالب کے دور میں ولی کے دور کی اُردو بولی گئی یا ولی کے دور میں قلی قطب شاہ کی اُردو کا رواج تھا۔۔۔۔ ایک جگہ کے بولنے والے۔۔۔آج، کل، پرسوں، اترسوں اور نرسوں کہتے تھے جبکہ دوسرے مقام کے آج، کل، پرسوں، نرسوں اور اترسوں کہتے تھے۔۔۔ لفظ "ذرا" جس کے معنی "قلیل" کے ہیں۔۔۔۔ لکھنؤ کے اساتذہ "ز" سے یعنی "ذرا" جبکہ دہلی کے اساتذہ "ذ" سے یعنی "ذرا" تحریر فرماتے تھے (حکم ہو تو اسناد پیش کی جاسکتی ہیں)۔۔۔ ساڑھی (ایک لباس) کو لکھنؤ کے لوگ "ساری" جبکہ دلی والے "ساڑی" لکھتے بولتے تھے۔۔۔۔ "سرسری" یعنی روا روی دلی والوں کی زبان تھی اور "سراسری" لکھنؤ کے باسیوں کی۔۔۔۔یہی حال محاوروں کا ہے لکھنؤ میں "کانٹوں پر گھسیٹنا" اور دلی میں "کانٹوں پر کھینچنا" مستعمل تھا۔۔۔ اس بارے میں دفتر کے دفتر لکھے جاسکتے ہیں۔۔۔۔براہ کرم اُردو زبان کو "تالاب" نہ بنائیں کہ اس سڑاند پیدا ہو۔۔۔ جہاں تک ضمائر کا تعلق ہے کہ "مجھے جانا ہے" یا "مجھ کو جانا ہے" اس پر بھی بات کی جاسکتی ہے۔۔۔۔ اگر آج کی اُردو "گلابی اُردو" ہے تو لکھنؤ کی "نیلی" تھی اور دلی کی؟؟؟؟؟؟۔۔۔۔ہمارا کام صرف یہ ہے کہ لٹھ اُٹھایا اور چڑھ دوڑے۔۔۔۔
 

سید عمران

محفلین
۔آپ نے غالب کا شعر غلط لکھا ہے جس کا مجھے کافی قلق ہے
اگر غور فرمائیں تو شعر نہیں لکھا، نثر میں ایک جملہ لکھا ہے۔
جیسے اس سے ماقبل ایک جملہ لکھا۔۔۔
جو میر تقی میر کا ایک شعر تھا۔۔۔
ابتدائے عشق ہے روتا ہے کیا
آگے آگے دیکھیے ہو تا ہے کیا
 
آخری تدوین:

سید عمران

محفلین
۔۔۔روا روی دلی والوں کی زبان تھی اور "سراسری" لکھنؤ کے باسیوں کی۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پہلی بات: میں نے جو گزارشات عرض کی ہیں ان کا تعلق نہ دلی کی زبان سے ہے نہ لکھنو سے۔۔۔
دوسری بات: زبان دانی کی تصحیح اور معیار بھی کوئی چیز ہے یا اسے خود رو پودے کی مانند بلا کاٹ چھانٹ کے پھلنے پھولنے دیا جائے۔۔۔
تیسری بات: میں نے زبان کو تالاب میں محبوس کرکے سڑنے کی بات دور دور تک نہیں کی۔۔۔
وہ بات سارے فسانے میں جس کا ذکر نہ تھا
وہ بات ان کو بہت ناگوار گزری ہے
چوتھی بات: اگر کوئی کمتر سے بہتر کی بات کرے تو کیا اسے لٹھ اٹھانے سے تشبیہ دی جاسکتی ہے؟ کیا میری تحریر میں تلخی یا بد تہذیبی کا کوئی پہلو نمایاں ہے؟ میں نے تو بہت ہی ہلکے پھلکے انداز میں بات کی ہے۔ کیا لٹھ اٹھا کر چڑھ دوڑنے اور تلخی کا پہلو آپ کی تحریر میں نمایاں نہیں ہے؟
 
آخری تدوین:

سید عمران

محفلین

سید عمران

محفلین
خیر یہ ایسی غلطیاں نہیں ہیں جس پر اتنا پریشان ہونا چاہیے کیونکہ جو گفتگو آپ نے درج کی ہے وہ عوامی زبان ہے۔ عوام کی زبان اہلِ علم سے ہمیشہ مختلف ہوتی ہے۔
میری تحریر کا حاصل اب تک سب سے بہتر جس نے سمجھا وہ فرخ منظور صاحب ہیں۔ یقیناً عوامی زبان اور ہوتی ہے اور اہل علم کی زبان اور۔ بولنے کی زبان اور ہوتی ہے اور تحریر کا انداز اور۔
 

سید عمران

محفلین
بظاہر آپ اپنے آپ کو کافی عالم ظاہر کر رہے ہیں۔
بلا تصنع عرض کرتا ہوں کہ کسی بھی فن کا عالم نہیں ہوں، لہٰذا اس کا اظہار کیسے کرسکتا ہوں؟ حقیقت تو یہ ہے کہ ایک طالب علم ہوں، سیکھنے کے بالکل ابتدائی مرحلے میں۔۔۔
 

سید عمران

محفلین
میر تقی میر دلی سے ہجرت کرکے لکھنؤ جارہے تھے۔ جس بیل گاڑی پر سوار تھے اس کا مالک کافی باتونی تھا۔ میر صاحب نے اس کی گفتگو سنی اور یہ کہہ کر کانوں پر کپڑا لپیٹ لیا کہ اس کی زبان سن کر کہیں میری زبان نہ بگڑ جائے۔
کیا یہ اہل علم اور اہل فن حضرات زبان کو جامد اور بدبودار کرنے کی راہوں سے ناآشنا تھے یا معاملہ کچھ اور تھا؟؟؟
اہل عرب عربی زبان کی لاجواب اور بے مثل فصاحت کے حامل ہونے کے باوجود نومولود بچوں کو محض زبان دانی کی فصاحت و بلاغت برقرار رکھنے اور اسے غیر معیاری آلائش سے آلودہ ہونے سے بچانے کے لیے دیہاتوں کی جانب روانہ کردیا کرتے تھے۔
زبان کا ارتقاء کبھی غیر معیاری الفاظ سے نہیں ہوتا۔ اگر ایسا ہوتا تو اہل علم حضرات ’’اب میں دفع ہوتا ہوں‘‘ جیسے الفاظ کو اپنے روز مرہ میں شامل کرلیتے۔
اب تک میں نے زبان میں جن باتوں کی کمی کی طرف اشارہ کیا ہے کیا واقعی وہ اتنے اعلیٰ معیار کی ہیں کہ انہیں اردو زبان کا ارتقاء کہا جاسکے؟؟؟
 

وصی اللہ

محفلین
پہلی بات: میں نے جو گزارشات عرض کی ہیں ان کا تعلق نہ دلی کی زبان سے ہے نہ لکھنو سے۔۔۔
دوسری بات: زبان دانی کی تصحیح اور معیار بھی کوئی چیز ہے یا اسے خود رو پودے کی مانند بلا کاٹ چھانٹ کے پھلنے پھولنے دیا جائے۔۔۔
تیسری بات: میں نے زبان کو تالاب میں محبوس کرکے سڑنے کی بات دور دور تک نہیں کی۔۔۔
وہ بات سارے فسانے میں جس کا ذکر نہ تھا
وہ بات ان کو بہت ناگوار گزری ہے
چوتھی بات: اگر کوئی کمتر سے بہتر کی بات کرے تو کیا اسے لٹھ اٹھانے سے تشبیہ دی جاسکتی ہے؟ کیا میری تحریر میں تلخی یا بد تہذیبی کا کوئی پہلو نمایاں ہے؟ میں نے تو بہت ہی ہلکے پھلکے انداز میں بات کی ہے۔ کیا لٹھ اٹھا کر چڑھ دوڑنے اور تلخی کا پہلو آپ کی تحریر میں نمایاں نہیں ہے؟
میں نے بھی یہی گزارش کی تھی کہ "معیار" کیا ہے؟؟ اس کی بنیاد کیا ہے؟؟ یا کیا ہونی چاہیے۔۔ کیا دلی معیار ہے یا لکھنو!!! کیا "مشکور" جیسا لفظ جس کے معنی جس کا شکر ادا کیا جائے ہے۔۔۔ "جو شکر ادا کرے" کے معنوں میں نہیں برتا جا رہا۔۔۔ اقبال، حالی اور سید سلیمان ندوی جیسے نابغوں نے "مشکور" "شکر ادا کرنے والا" کے معنوں میں برتا ہے۔۔۔ جی صاحب زبان خود رو ہوتی ہے۔۔۔اس کی کاٹ چھانٹ کا حق و اختیار معاشرے کے استعمال پر ہے۔۔ کیا "سیلفی" جیسا لفظ معاشرے کی پیداوار ہے یا کسی تنظیم، گروہ یا "ماہرین" کی تخلیق۔۔۔۔ کیا "امیر" کے معنی "دولت مند" معاشرے نے دیے ہیں یا کسی "فرد واحد" کی دین!!!! کیا انگریزی زبان میں انٹرنیٹ مذکر بولا جاتا ہے، کیا ہارڈ ڈسک یا ڈرائیو انگریزی میں مونث ہے؟؟؟؟ ہمارے ہاں موبائل تو مذکر ہے جبکہ اس میں استعمال کی جانے والی "سم" مونث۔۔۔ کون ہے جو تذکیر و تانیث کے صیغے بناتا ہے۔۔۔صاحب معاشرہ اور صرف معاشرہ۔۔۔۔ہر لفظ شروع میں "گنوارو" ہی ہوتا ہے۔۔۔ اُس کا استعمال اُسے فصیح بناتا ہے۔۔۔۔۔۔ایسی بیسیووں مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں جو گنوارو کہلائیں۔۔۔ جن پر وقت کے "نابغوں" نے آوازے کسے۔۔۔۔غیر معتبر اور غیر فصیح قرار دیا۔۔لیکن آج اُن کا استعمال نثر کی شان سمجھاجاتا ہے۔۔۔۔۔ میری بات کا مقصد کسی کی دل آزاری ہر گز ہرگز نہ تھا۔۔۔اگر کسی کا دل دکھا ہو تو بندہ معذرت خواہ ہے۔۔۔۔
 

سید عمران

محفلین
پہلے مراسلے میں آپ نے دلی اور لکھنو کی زبان کے درمیان الفاظ کا اختلاف بیان کیا۔۔۔ زبان کی غلطیاں بیان نہیں کیں۔۔۔
دوسرے مراسلے میں بھی آپ نے انگریزی الفاظ کے اردو میں استعمال کی بات کی ہے۔۔۔
اور اردو کی جو دیگر مثالیں دی ہیں ان کا شمار بھی کبھی عامیانہ پن میں نہیں کیا گیا۔۔۔
جبکہ میں نے زبان میں شامل ہونے والے ان الفاظ کی نشان دہی کی ہے جو اہل زبان کے نزدیک عامیانہ کہی جاتی ہیں۔
قابل غور بات یہ سامنے آرہی ہے کہ بگاڑ اور کمتر الفاظ کی حمایت میں تو آواز اٹھائی جارہی ہے اور
اس کے لیے ادھر ادھر کے دلائل بھی دیے جارہے ہیں۔ جبکہ اچھے اور بہتر الفاظ اختیار کرنے یا انہیں سراہنے کو کوئی تیار نہیں۔۔۔۔اس رویے کو کیا نام دیا جائے؟؟؟
زبان کے معیار کی حفاظت ہمیشہ مقتدر اہل زبان نے کی ہے۔۔۔ عوام نے تو بگاڑ پیدا کیا ہے۔۔۔اور زبان کے اس بگاڑ کو مہذب گھرانوں نے بھی قبول نہیں کیا۔۔۔
اپنے بزرگوں سے ’’اب میں دفع ہوتا ہوں‘‘ کہہ کر رخصتی کی اجازت طلب فرما کر اس کا تجربہ کیاجاسکتا ہے۔۔۔۔
 

سید عمران

محفلین
چوں کہ اب بحث کا رخ لاحاصل لفاظی کی طرف ہورہا ہے اس لیے میری طرف سے مزید کچھ عرض کرنے سے معذرت۔ جس کو اپنی زبان بہتر بنانی ہے وہ تو اس کے لیے کوشاں ہی رہتے ہیں ۔
باقی جس کو جہیز کی جگہ دہیج دینا اور مبارک باد کی جگہ آشیرباد لینا ہے وہ اپنے ’’دھندے‘‘سے لگے رہیں۔
 
Top