اے خُدا میں کہوں تجھے کیسے!

نور وجدان

لائبریرین
اے خُدا میں کہوں تجھے کیسے!
کچھ دوا میرے دکھ کی تو بھی کر!
زندگی کی کٹھن تھی جو راہیں
ان کا میں نے مقابلہ ہے کیا
جیسے ساحل کنارے کی ہو چٹاں
موج در موج شور سہتی رہی
حوصلہ میرا ہے رہا قائم
اور ہمیشہ رہا ہے تجھ پہ یقیں
زندگی کی اُداس شاموں میں
میں نے سینچا شجر ہے خوابوں کا
یہ دُعا کو جو ہاتھ اٹھے ہیں رہے
اور جھکا سر رہا ہے سجدے میں
تیری چاہت کو جو خوشی جانا .
اپنا بھی میں نے تجھ کو مانا ہے
شدتوں کا اثر ہوا کتنا ؟
آسماں نے زمیں کو تھاما کیا ؟
اے خُدا ! سنی تو نے بھی آخر!
کچھ دوا میرے دکھ کی تو نے کی!
سینہ معمور درد سے ہے رہا ،
ساتھ اپنا نواز تو نے دیا،
زندگی کو سنوار تو نے دیا ،
اب اجر بے حساب مجھ کو دے،
مجھ کو اپنی جناب میں لے لے،
رحمتوں کے ابر میں رکھ مجھ کو !
ذات میری اجال اب تو دے !
 
آخری تدوین:

شکیب

محفلین
حوصلہ میرا ہے رہا قائم
یہ اوراس طرح کے مصرعوں میں دانستہ ترتیب ادھر ادھر کی ہے یا کوئی اور بات ہے؟
اے خُدا ! سنی تو نے بھی آخر!
وزن کی کمی ہے۔
رحمتوں کے ابر میں رکھ مجھ کو !
آپ نے اَبَ رْ کہا ہے، اصل میں اَ بْ رْ ہے(ب ساکن)، یوں کر سکتی ہیں
ابرِ رحمت سے ڈھانپ دے مجھ کو
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
اے خُدا میں کہوں تجھے کیسے!
کچھ دوا میرے دکھ کی تو بھی کر!
زندگی کی کٹھن تھی جو راہیں
ان کا میں نے مقابلہ ہے کیا
جیسے ساحل کنارے کی ہو چٹاں
موج در موج شور سہتی رہی
حوصلہ میرا ہے رہا قائم
اور ہمیشہ رہا ہے تجھ پہ یقیں
زندگی کی اُداس شاموں میں
میں نے سینچا شجر ہے خوابوں کا
یہ دُعا کو جو ہاتھ اٹھے ہیں رہے
اور جھکا سر رہا ہے سجدے میں
تیری چاہت کو جو خوشی جانا .
اپنا بھی میں نے تجھ کو مانا ہے
شدتوں کا اثر ہوا کتنا ؟
آسماں نے زمیں کو تھاما کیا ؟
اے خُدا ! سنی تو نے بھی آخر!
کچھ دوا میرے دکھ کی تو نے کی!
سینہ معمور درد سے ہے رہا ،
ساتھ اپنا نواز تو نے دیا،
زندگی کو سنوار تو نے دیا ،
اب اجر بے حساب مجھ کو دے،
مجھ کو اپنی جناب میں لے لے،
رحمتوں کے ابر میں رکھ مجھ کو !
ذات میری اجال اب تو دے !

نور سعدیہ شیخ ۔ آپ کی نظم اچھی ہے۔ مصرع بہ مصرع تبصرہ تو بہت طویل ہوجائے گا۔ بس کچھ باتیں بنیادی عرض کرتا ہوں۔ شعر میں الفاظ کی ترتیب کو جس قدر ہوسکے نثری ترتیب کے قریب رکھنا چاہیئے کہ یہی جملے یا بیان کی فطری ترتیب ہوتی ہے اور ہر آدمی کو بغیر کسی الجھن کے سمجھ میں آجاتی ہے ۔ اور اسی طرح گرامر کو بھی پرکھنا چاہیئے۔ دوسرے لفظون میں یہ سمجھئے کہ شعر لکھنے کے بعد اس کی نثر بنا کر دیکھ لیں کہ گرامر متاثر تو نہین ہورہی ۔ مثال کے طور پر پہلے ہی شعر کو لے لیجئے۔
اے خُدا میں کہوں تجھے کیسے!
کچھ دوا میرے دکھ کی تو بھی کر!
اس کی نثر یہ بنی ۔ اے خدا میں تجھے کیسے کہوں کہ میرے دکھ کی کچھ دوا تُو بھی کر۔ آپ کو فورا معلوم ہوجائےگا کہ اس مین کئی اغلاط ہیں۔ ایک تو یہ کہ یہاں تجھے کہ بجائے تجھ سے کا محل ہے ۔ دوسرے یہ کہ یہاں ’’ توُ بھی‘‘ کا استعمال بالکل ٹھیک نہیں ہے۔ تو بھی سے تو یہ معنی نکلتے ہیں کہ کوئی اور بھی دوا کرنے والا ہے ۔ اور یہ بات مدعا کے خلاف ہے۔
ایک اور مثال کے طور پر اس شعر کو دیکھ لیجئے:
یہ دُعا کو جو ہاتھ اٹھے ہیں رہے
اور جھکا سر رہا ہے سجدے میں
اس کی نثر : یہ ہاتھ جو دعا کو اٹھے رہے ہیں اور سر سجدے میں جھکا رہا ہے ۔ اب فورا معلوم ہوگیا کہ شعر مین الفاط کی ترتیب بہت ہی زیادہ آگے پیچھے ہوگئی ہے اور تعقید پیدا ہو رہی ہے ۔ کوشش کیجئے کی حرفِ اشارہ ( یہ ، وہ، اس، ان) وغیرہ کو مشار الیہ سے فورا پہلے رکھئے ۔ ذرا سے غور وفکر اور محنت کے بعد انہی الفاظ کو استعمال کرتے ہوئے مندرجہ ذیل صورت نکالنا کوئی مشکل نہیں ۔
ہاتھ اٹھے ہی رہے دعا میں مرے
اور سجدے میں سر جھکا ہی رہا

مجموعی طور پر گرامر کی اغلاط ہیں اس نظم میں ۔ بیان میں زمانہ ماضی اور حال کو خلط ملط کردیا گیا ہے ۔ اس کا خیال رکھنا چاہیئے ۔ امید ہے کہ یہ چھوٹی چھوٹی سی باتیں آپ کے کچھ کام آسکیں گی۔ اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ!
 

فاتح

لائبریرین
اچھی کوشش ہے سعدیہ۔ لیکن جو میں لکھنا چاہ رہا تھا اسے مجھ سے بہتر انداز میں ظہیر بھائی نے لکھ دیا۔
 

نور وجدان

لائبریرین
ماشاء اللہ
بلا شبہ خوب ہے
مناجات جیسی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔
حق تعالی قبول فرمائے آمین
بہت دعائیں


آمین ۔۔
یہ اوراس طرح کے مصرعوں میں دانستہ ترتیب ادھر ادھر کی ہے یا کوئی اور بات ہے؟

وزن کی کمی ہے۔

آپ نے اَبَ رْ کہا ہے، اصل میں اَ بْ رْ ہے(ب ساکن)، یوں کر سکتی ہیں
ابرِ رحمت سے ڈھانپ دے مجھ کو

آپ کا مشورہ قبول کیا ہے

نور سعدیہ شیخ ۔ آپ کی نظم اچھی ہے۔ مصرع بہ مصرع تبصرہ تو بہت طویل ہوجائے گا۔ بس کچھ باتیں بنیادی عرض کرتا ہوں۔ شعر میں الفاظ کی ترتیب کو جس قدر ہوسکے نثری ترتیب کے قریب رکھنا چاہیئے کہ یہی جملے یا بیان کی فطری ترتیب ہوتی ہے اور ہر آدمی کو بغیر کسی الجھن کے سمجھ میں آجاتی ہے ۔ اور اسی طرح گرامر کو بھی پرکھنا چاہیئے۔ دوسرے لفظون میں یہ سمجھئے کہ شعر لکھنے کے بعد اس کی نثر بنا کر دیکھ لیں کہ گرامر متاثر تو نہین ہورہی ۔ مثال کے طور پر پہلے ہی شعر کو لے لیجئے۔
اے خُدا میں کہوں تجھے کیسے!
کچھ دوا میرے دکھ کی تو بھی کر!
اس کی نثر یہ بنی ۔ اے خدا میں تجھے کیسے کہوں کہ میرے دکھ کی کچھ دوا تُو بھی کر۔ آپ کو فورا معلوم ہوجائےگا کہ اس مین کئی اغلاط ہیں۔ ایک تو یہ کہ یہاں تجھے کہ بجائے تجھ سے کا محل ہے ۔ دوسرے یہ کہ یہاں ’’ توُ بھی‘‘ کا استعمال بالکل ٹھیک نہیں ہے۔ تو بھی سے تو یہ معنی نکلتے ہیں کہ کوئی اور بھی دوا کرنے والا ہے ۔ اور یہ بات مدعا کے خلاف ہے۔
ایک اور مثال کے طور پر اس شعر کو دیکھ لیجئے:
یہ دُعا کو جو ہاتھ اٹھے ہیں رہے
اور جھکا سر رہا ہے سجدے میں
اس کی نثر : یہ ہاتھ جو دعا کو اٹھے رہے ہیں اور سر سجدے میں جھکا رہا ہے ۔ اب فورا معلوم ہوگیا کہ شعر مین الفاط کی ترتیب بہت ہی زیادہ آگے پیچھے ہوگئی ہے اور تعقید پیدا ہو رہی ہے ۔ کوشش کیجئے کی حرفِ اشارہ ( یہ ، وہ، اس، ان) وغیرہ کو مشار الیہ سے فورا پہلے رکھئے ۔ ذرا سے غور وفکر اور محنت کے بعد انہی الفاظ کو استعمال کرتے ہوئے مندرجہ ذیل صورت نکالنا کوئی مشکل نہیں ۔
ہاتھ اٹھے ہی رہے دعا میں مرے
اور سجدے میں سر جھکا ہی رہا

مجموعی طور پر گرامر کی اغلاط ہیں اس نظم میں ۔ بیان میں زمانہ ماضی اور حال کو خلط ملط کردیا گیا ہے ۔ اس کا خیال رکھنا چاہیئے ۔ امید ہے کہ یہ چھوٹی چھوٹی سی باتیں آپ کے کچھ کام آسکیں گی۔ اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ!

بہت اچھے سے سمجھایا ہے ۔۔۔اسی طرح سمجھاتے رہیے آپ ۔۔بہت مدلل انداز میں سمجھایا ہے ۔ جزاک اللہ
اچھی کوشش ہے سعدیہ۔ لیکن جو میں لکھنا چاہ رہا تھا اسے مجھ سے بہتر انداز میں ظہیر بھائی نے لکھ دیا۔

بہت شکریہ فاتح بھائی بتاتے رہیے گا
 

نور وجدان

لائبریرین
نور سعدیہ شیخ ۔ آپ کی نظم اچھی ہے۔ مصرع بہ مصرع تبصرہ تو بہت طویل ہوجائے گا۔ بس کچھ باتیں بنیادی عرض کرتا ہوں۔ شعر میں الفاظ کی ترتیب کو جس قدر ہوسکے نثری ترتیب کے قریب رکھنا چاہیئے کہ یہی جملے یا بیان کی فطری ترتیب ہوتی ہے اور ہر آدمی کو بغیر کسی الجھن کے سمجھ میں آجاتی ہے ۔ اور اسی طرح گرامر کو بھی پرکھنا چاہیئے۔ دوسرے لفظون میں یہ سمجھئے کہ شعر لکھنے کے بعد اس کی نثر بنا کر دیکھ لیں کہ گرامر متاثر تو نہین ہورہی ۔ مثال کے طور پر پہلے ہی شعر کو لے لیجئے۔
اے خُدا میں کہوں تجھے کیسے!
کچھ دوا میرے دکھ کی تو بھی کر!
اس کی نثر یہ بنی ۔ اے خدا میں تجھے کیسے کہوں کہ میرے دکھ کی کچھ دوا تُو بھی کر۔ آپ کو فورا معلوم ہوجائےگا کہ اس مین کئی اغلاط ہیں۔ ایک تو یہ کہ یہاں تجھے کہ بجائے تجھ سے کا محل ہے ۔ دوسرے یہ کہ یہاں ’’ توُ بھی‘‘ کا استعمال بالکل ٹھیک نہیں ہے۔ تو بھی سے تو یہ معنی نکلتے ہیں کہ کوئی اور بھی دوا کرنے والا ہے ۔ اور یہ بات مدعا کے خلاف ہے۔
ایک اور مثال کے طور پر اس شعر کو دیکھ لیجئے:
یہ دُعا کو جو ہاتھ اٹھے ہیں رہے
اور جھکا سر رہا ہے سجدے میں
اس کی نثر : یہ ہاتھ جو دعا کو اٹھے رہے ہیں اور سر سجدے میں جھکا رہا ہے ۔ اب فورا معلوم ہوگیا کہ شعر مین الفاط کی ترتیب بہت ہی زیادہ آگے پیچھے ہوگئی ہے اور تعقید پیدا ہو رہی ہے ۔ کوشش کیجئے کی حرفِ اشارہ ( یہ ، وہ، اس، ان) وغیرہ کو مشار الیہ سے فورا پہلے رکھئے ۔ ذرا سے غور وفکر اور محنت کے بعد انہی الفاظ کو استعمال کرتے ہوئے مندرجہ ذیل صورت نکالنا کوئی مشکل نہیں ۔
ہاتھ اٹھے ہی رہے دعا میں مرے
اور سجدے میں سر جھکا ہی رہا

مجموعی طور پر گرامر کی اغلاط ہیں اس نظم میں ۔ بیان میں زمانہ ماضی اور حال کو خلط ملط کردیا گیا ہے ۔ اس کا خیال رکھنا چاہیئے ۔ امید ہے کہ یہ چھوٹی چھوٹی سی باتیں آپ کے کچھ کام آسکیں گی۔ اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ!

اچھی کوشش ہے سعدیہ۔ لیکن جو میں لکھنا چاہ رہا تھا اسے مجھ سے بہتر انداز میں ظہیر بھائی نے لکھ دیا۔

انہی نکات کو دیکھتے ہوئے ایک کوشش دوبارہ کی ۔۔۔ اسی وجہ سے کہ جو بھی خامیاں ہیں مزید آگاہ ہو سکوں ۔۔

اے خُدا تجھ سے میں کہوں کیسے !
درد کو میں بھی اب سہوں کیسے!
میرے دُکھ کی دَوا تُو کردے اب !
رنج سارے دھواں تُو کردے اب!
''پُرکٹھن زندگی کی راہوں میں۔۔۔!
آندھیوں کا مقابلہ تھا کیا !
جیسے ساحل کنارے کوئی چٹاں ،
موج در موج شور سہتی رہی ،
حوصلہ تب بھی تھا رہا قائم ،
تجھ پہ میرا یقیں رہا دائم ،
زندگی کی اُداس شاموں میں،
میں نے سینچا شجر تھا خوابوں کا ،
خواہشوں کا ہرا بھرا وہ درخت،
آندھیاں بھی اُکھاڑ تو نہ سکیں،
اور یقیں کو پچھاڑ بھی نہ سکیں ،
اے خُدا تجھ سے میں کہوں کیسے !
درد کو میں بھی اب سہوں کیسے!​
ہاتھ اٹھے ہی رہے دعا میں مرے،
اور سجدے میں سر جھکا ہی رہا،​
شدتوں کا اثر ہوا اتنا۔۔۔!
آسماں نے زمیں کو تھام لیا۔!
میری چاہت کو تو نے جان لیا۔۔!
رنگ میرا نکھر گیا ہے اب
روپ میرا سنور گیا ہے اب
اے خُدا ! سن لی تو نے بھی آخر!
کچھ دوا میرے دکھ کی تو نے کی!
ساتھ اپنا نواز کے یا رب
زندگی کو اُجال کے یارب
ہجر کو اب زوال دے یا رب
مجھ کو اب تو وصال دے یا رب
ابرِ رحمت میں رکھ کے اب یارب
مجھ کو اپنی جناب میں لے لے
اجر بھی بے حساب مجھ کو دے
 
آخری تدوین:

فاتح

لائبریرین
انہی نکات کو دیکھتے ہوئے ایک کوشش دوبارہ کی ۔۔۔ اسی وجہ سے کہ جو بھی خامیاں ہیں مزید آگاہ ہو سکوں ۔۔

اے خُدا تجھ سے میں کہوں کیسے !
درد کو اب میں اور سہوں کیسے !
میرے دُکھ کی دَوا تُو کردے اب !
رنج سارے دھواں تُو کردے اب!
''پُرکٹھن زندگی کی راہوں میں۔۔۔!
آندھیوں کا مقابلہ تھا کیا !
جیسے ساحل کنارے کوئی چٹاں ،
موج در موج شور سہتی رہی ،
حوصلہ تب بھی تھا رہا قائم ،
تجھ پہ میرا یقیں رہا دائم ،
زندگی کی اُداس شاموں میں،
میں نے سینچا شجر تھا خوابوں کا ،
خواہشوں کا ہرا بھرا وہ درخت،
آندھیاں بھی اُکھاڑ تو نہ سکیں،
اور یقیں کو پچھاڑ بھی نہ سکیں ،
اے خُدا تجھ سے میں کہوں کیسے !
درد کو اب میں اور سہوں کیسے !
ہاتھ اٹھے ہی رہے دعا میں مرے،
اور سجدے میں سر جھکا ہی رہا،​
شدتوں کا اثر ہوا اتنا۔۔۔!
آسماں نے زمیں کو تھام لیا۔!
میری چاہت کو تو نے جان لیا۔۔!
رنگ میرا نکھر گیا ہے اب
روپ میرا سنور گیا ہے اب
اے خُدا ! سن لی تو نے بھی آخر!
کچھ دوا میرے دکھ کی تو نے کی!
ساتھ اپنا نواز کے یا رب
زندگی کو اُجال کے یارب
ہجر کو اب زوال دے یا رب
مجھ کو اب تو وصال دے یا رب
ابرِ رحمت میں رکھ کے اب یارب
مجھ کو اپنی جناب میں لے لے
اور اجر بے حساب مجھ کو دے۔​
پہلے کی نسبت بہتر ہے۔
دوسرے مصرع "درد کو اب میں اور سہوں کیسے" میں لفظ "اور" کا دو حرفی تلفظ صوتی طور پر برا لگ رہا ہے۔
آخری مصرع "اور اجر بے حساب مجھ کو دے" میں وزن اب بھی گر رہا ہے کیونکہ اجر" کا درست تلفظ ج کے سکون کے ساتھ فعل کے وزن پر ہے لیکن آپ اسے ج کی حرکت کے ساتھ فعو کے وزن پر باندھ رہی ہیں۔
 

نور وجدان

لائبریرین
پہلے کی نسبت بہتر ہے۔
دوسرے مصرع "درد کو اب میں اور سہوں کیسے" میں لفظ "اور" کا دو حرفی تلفظ صوتی طور پر برا لگ رہا ہے۔
آخری مصرع "اور اجر بے حساب مجھ کو دے" میں وزن اب بھی گر رہا ہے کیونکہ اجر" کا درست تلفظ ج کے سکون کے ساتھ فعل کے وزن پر ہے لیکن آپ اسے ج کی حرکت کے ساتھ فعو کے وزن پر باندھ رہی ہیں۔

سچ میں میں نے اس نظم سے بہت کچھ سیکھا ہے ۔ آپ میری رہنمائی کرتے رہیے گا ۔ ان دونوں کو میں میں بدل دیتی ہوں ۔۔۔ مزید کچھ آپ کہنا چاہیں تو ضرور کہیں ۔ مجھے سیکھنا ہے ۔
 
Top