میثم کا مادہ
وثم بیان کیا جاتا ہے جس کے معنیٰ توڑنے، کوٹنے، کچلنے اور پیس دینے کے ہیں۔
المنجد کے مطابق:
زوروں کی بارش جو زمین کو ادھیڑ کر رکھ دے، کے بیان میں یہ لفظ آتا ہے۔
گھوڑے کا زور زور سے پاؤں زمین پر مارنا اسی کے وسیلے سے بیان ہوتا ہے۔
دشمن کی صفوں کو چیر کر آگے نکلنے کے بیان میں بھی اس لفظ کا سہارا فصحائے عرب لیتے ہیں۔
جسیم اور کسرتی بدن والے شخص کو عربی میں وثیم کہتے ہیں۔
کمی کے معانی میں بھی آتا ہے۔
ان صورتوں کی مثالیں جو آسی صاحب نے دیں، وہی
المنجد میں بھی ہیں۔
فارسی میں یہ لفظ ایسے بھاگنے والے کے معنوں میں آتا ہے جس کے نقشِ ہائے پا زمین پر واضح طور پر ثبت ہو جائیں۔ اہلِ عرب میں بقولِ
وکی پیڈیا اور چند دیگر مصادر کے یہ آبِ رواں کا مفہوم بھی دیتا ہے۔
میثمِ تمار کو شیعہ حضرت علیؓ کے جانثار صحابہ میں شمار کرتے ہیں۔ ان کی روایات کے مطابق آپ نبیِ کریمﷺ کے صحابی بھی رہے۔ اہلِ تشیع میں یہ نام نسبتاً زیادہ رائج ہے اور کھیل کے میدانوں میں حال کے بعض ایرانی مشاہیر اس سے موسوم ہیں۔
شیعوں ہی کی بعض روایات کے مطابق، جن کی میں تصدیق نہیں کر سکا، اس کے معنیٰ جوان ہوتے ہوئے شیر اور جلانے والے کے بھی ہیں۔ قیاس کیا جا سکتا ہے کہ پہلے معنیٰ سے اہلِ زبان کے محاورے کے مطابق مستنبط کیے گئے ہوں گے۔