قافلہ مجھ کو یوں گزار گیا (خیام قادری)


قافلہ مجھ کو یوں گزار گیا
راستہ تھا پسِ غبار گیا

آئینہ توڑ تو دیا تو نے
یہ بتا کس کا اعتبار گیا

وادیِ عشق ہے کہ کوہِ ندا
پھر نہ لوٹا جو ایک بار گیا

کوہ سے تھا گراں یہ سنگِ فراق
جانے کیسے یہ دل سہار گیا

نصب صحرا میں ہے خیامِ خرد
دشت زادوں کا کاروبار گیا

اب تو خالی مکان ہے باقی
کب کا آنکھوں سے انتظار گیا

اب نہیں سامنے کوئی منزل
جیتنے والا بازی ہار گیا

سالکِ عشق تھا کہاں خیام
خرقہء ہجر جو اتار گیا​
 
محفل فورم صرف مطالعے کے لیے دستیاب ہے۔
Top