جوش جب کوئی تسلی دیتا ہے کچھ اور بھی جی گھبراتا ہے

اپنے میں جو اب بھولے سے کبھی راحت کا تقاضا پاتا ہے
حالات پہ میرے کر کے نظر دل مجھ سے بہت شرماتا ہے

الجھن سی یکایک ہوتی ہے دم رکتا ہے دل بھر آتا ہے
جب کوئی تسلی دیتا ہے کچھ اور بھی جی گھبراتا ہے

کس سے ملوں اور کس سے مدد لوں، ہائے مِری محرومی دل
آغازِ محبت ہی میں زمانہ مجھ سے تمہیں چُھڑواتا ہے

آرام سرکنے والا ہے کس شے پہ غرہ ہے تجھ کو
دنیا یہ بدلنے والی ہے کس چیز پہ تو اتراتا ہے

کس طرح یہ دل کا رنج ہٹے اللہ میں کیا تدبیر کروں
آنسو ہیں کہ ابلے پڑتے ہیں دل ہے کہ وہ بیٹھا جاتا ہے

اعلان سحر کو ہوتا ہے یوں حُسن کی شاہنشاہی کا
گردوں پہ سنہرا اک پرچم مشرق کی طرف لہراتا ہے

مشکل میں ہوں اپنی فطرت سے انجام پہ یوں رہتی ہے نظر
جب سازِ مُسرت چِھڑتے ہیں بے ساختہ رونا آتا ہے

انداز و ادا سے اے دنیا تو لاکھ سنور کر سامنے آ
یہ جوش فقیر آزاد منش کب دھیان میں تجھ کو لاتا ہے
 
آخری تدوین:
Top