محبت۔۔۔۔۔۔۔۔نور سعدیہ شیخ

نور وجدان

لائبریرین
محبت کی حقیقت اور معنویت کیا ہے؟ میری زندگی میں نظریات کے تغیر نے محبت کو سمجھنے میں مدد دی ہے۔ نظریہ محبت روحوں کے تعلقات سے منبطق ہے. روح کے کششی سرے قربت اور مخالف سرے مخالفت میں جاتے ہیں. بنیادی طور پر درجہ بندی کشش اور مخالفت کی ہوتی ہے. اِن روحوں سے نکلتی ''نورانی شعاعیں'' ایک سپیکڑیم بناتی ہیں. ارواح کی کشش کا دائرہ بڑا یا چھوٹا ہوسکتا ہے.اور ان کی دوسری درجہ بندی دائروی وسعت کرتی ہے اور یوں انواع و اقسام کی ارواح تغیر کے ساتھ مرکز کے ساتھ مخالفت یا کشش کرتی ہیں. جن کا حلقہِ کشش بڑا ہوتا ہے وہی مرکز سے قریب ہوتی ہیں.

لوگ کہتے ہیں محبت کا سرچشمہ بدن ہے. انصال سے انتقال ہوتا ہے اور انتقال حواسِ خمسہ کا محتاج ہوتا ہے. اور یہی محبت اصل محبت ہے کہ محبت روپ بدلتی ہے یا کہ لیں لباس بدلتی ہے. محبت پھر خود ملبوس ہے جس کو میں اوڑھ لوں اور زمانے کے رواج کے مطابق اوڑھنی اتار پھینک دوں . دوسری صورت میں انصال کے بعد اتصال اور انتقال میں اس قدر موافقت ہو کہ یہ روح اور خاک دونوں کا ملزوم ٹھہرتی ہیں. محبت ملبوس کی طرح نہیں ہوتی مگر اس میں خاک ایک ملاوٹ کی طرح ہوتی ہے. دل نہ ہو میلا، بدن میلا اور رنگ کچیلا ..۔۔۔

محبت کی پہلی سیڑھی خاک سے چلتی روح کو بھنگ پلاتی ہے اور افیون کے دھونی میں 'من نشیلا ' تن بھلا ' بیٹھے لوگ ''دائروی رقص'' شروع کرتے نظر آتے ہیں اس رقص میں روح کے ساتھ ساتھ جسم بھی گھومتا ہے ۔اس پہیے (جسم)کو روح تحریک دیتی رہتی ہے یہاں تک کا تن اور من کا ہوش جاتا رہتا ہے. تب ایک روح تقسیم در تقسیم کے بعد تن کی نفی کا کلمہ پڑھ لیتی ہے اور مقام عین پالیتی ہے.

روحانی انتقال بجسمانی کے فوقیت رکھتا ہے. یہ درجہ آگہی کے دروازے پر لاکھڑا کرتا ہے. آگہی جنون بھی ہے اور عذاب بھی۔۔۔۔. یہ فہم بھی ہے اور ادراک بھی ۔۔۔۔۔ یہ راز بھی ہے اور انکشاف بھی ۔۔۔۔!!!

دروازے تک پہنچنے کے لیے لمحوں کی تپسا بھی اہمیت رکھتی ہے کہ پل بھر میں صدی بھر کا درد دے دیا جاتا ہے.اور پل پل درد کا انجیکشن ہوش سے ماورا کیے رکھتا ہے اور عاشق عین دروازے پر پہنچا دیا جاتا ہے. ''

کیا دروازے کھٹکھٹاؤ گے؟ شرم و آداب کے تمام التزامات کو بھول جاؤ گے؟''

یہاں روح سے موسیقی کے سُر نکلتے ہیں ان کی تال پر رقص جنوں کرتے کرتے دروازہ کھل جاتا ہے.۔۔ موسیقی کی تال پر ناچنے والے ایک دروازے سے دوسرے دروازے تک پہنچا دیے جاتے ہیں کہ اس جہاں میں ہوش و عقل ناکام و نامراد پلٹتے ہیں ۔ یہ سرشاری و مستی ، یہ عالمِ بے خبری انکشاف کے دروازے ہی نہاں کو عیاں کرتی ہے ۔ کہنے کو مد ہوشی بھی ایک نعمت ہے
 
آخری تدوین:
محبت کی حقیقت اور معنویت کیا ہے. میری زندگی نے نظریات کے تغیر نے محبت کو سمجھنے میں مدد دی ہے. نظریہ محبت روحوں کے تعلقات سے منبطق ہے. روح کے کششی سرے قربت اور مخالف سرے مخالفت میں جاتے ہیں. بنیادی طور پر درجہ بندی کشش اور مخالفت کی ہے. ان روحوں سے نکلتی نورانی شعاعیں ایک سپیکڑیم بناتی ہیں. کسی کا دائرہ بڑا اور کسی کا چھوٹا ہوتا ہے. دوسری درجہ بندی دائروی وسعت کرتی ہے اور یوں انواع و اقسام کی ارواح تغیر کے ساتھ مرکز کے ساتھ مخالفت یا کشش کرتی ہیں. جن کا حلقہ کشش بڑا ہوتا ہے وہی مرکز سے قریب ہوتی ہیں.

لوگ کہتے ہیں محبت کا سرچشمہ بدن ہے. انصال سے انتقال ہوتا ہے. انتقال حواسِ خمسہ کا محتاج ہوتا ہے. اور یہی محبت اصل محبت ہے کہ محبت روپ بدلتی ہے یا کہ لیں لباس بدلتی ہے. محبت پھر خود ملبوس ہے جس کو میں اوڑھ لوں اور زمانے کے رواج کے مطابق اوڑھنی اتار پھینک دوں . دوسری صورت میں انصال کے بعد اتصال اور انتقال میں اس قدر موافقت ہو کہ روح اور خاک دونوں کا ملزوم ٹھہرتی ہیں. محبت ملبوس کی طرح نہیں ہوتی مگر اس میں خاک ملاوٹ کی طرح ہوتی ہے. دل نہ ہو میلا، بدن میلا اور رنگ کچیلا ..

محبت کی پہلی سیڑھی خاک سے چلتی روح کو بھنگ پلاتی اور افیون کے دھونی میں 'من نشیلا ' تن بھلا بیٹھے لوگ دائروی رقص شروع کرتے ہیں. جسم گھومتا ہے اور اس پہیے کو روح تحریک دیتی رہتی ہے یہاں تک کا تن اور من کا ہوش جاتا رہتا ہے. تب ایک روح تقسیم در تقسیم کے بعد تن کی نفی کا کلمہ پڑھ لیتی ہے اور مقام عین پالیتی ہے.
روحانی انتقال بجسمانی کے فوقیت رکھتا ہے. یہ درجہ آگہی کے دروازے پر لاکھڑا کرتا ہے. آگہی جنون بھی ہے اور عذاب بھی. دروازے تک پہنچنے کے لیے لمحوں کی تپسا بھی اہم رکھتی ہے کہ پل بھر میں صدی بھر کا درد دے دیا جاتا ہے. پل پل درد کا انجیکشن ہوش سے ماورا کیے رکھتا ہے اور عاشق عین دروازے پر پہنچا دیا جاتا ہے. کیا دروازے کھٹکھٹاؤ گے؟ شرم و آداب کے تمام التزام کو بھول جاؤ گے؟ یہاں روح سے موسیقی کے سُر نکلتے ہیں ان کی تال پر رقص جنوں کرتے کرتے دروازہ کھل جاتا ہے.
"یہاں روح سے موسیقی کے سر نکلتے ہیں ۔ ان کی تال پر رقص جنوں کرتے کرتے دروازہ کھل جاتا ہے"
اس لائن نے تو مار ڈالا ۔ بہت خوب سسٹر !
محبت کی تعریف آج تک کوئی نہیں کر پایا ۔ نہ ہی کوئی۔بیان کر پائےگا ۔ میں بس یہ کہا کرتی ہوں "جس تن لاگے ، وہ تن جانے"
آپ بہت اچھا لکھتی ہیں ۔ غالباً یہ آپ کی دوسری تحریر میری نظر سے گزر رہی ہے ۔ خوب !
 

نور وجدان

لائبریرین
اچھی تحرریر ہے نور سعدیہ شیخ ،
کا ، کی، کے ، کہ، نے ، پر ،
کی ترتیب دیکھ لیں اکثر مقامات پر مجھے درست معلوم نہیں ہورہی ۔ جس کی وجہ سے پڑھنے والوں کو مشکلات ہو سکتی ہیں ۔
شکریہ ۔۔ دیکھتی ہوں میں ۔۔۔:)
"یہاں روح سے موسیقی کے سر نکلتے ہیں ۔ ان کی تال پر رقص جنوں کرتے کرتے دروازہ کھل جاتا ہے"
اس لائن نے تو مار ڈالا ۔ بہت خوب سسٹر !
محبت کی تعریف آج تک کوئی نہیں کر پایا ۔ نہ ہی کوئی۔بیان کر پائےگا ۔ میں بس یہ کہا کرتی ہوں "جس تن لاگے ، وہ تن جانے"
آپ بہت اچھا لکھتی ہیں ۔ غالباً یہ آپ کی دوسری تحریر میری نظر سے گزر رہی ہے ۔ خوب !

خوشبو آتی ہے اور چلی جاتی کے مصداق نشان چھوڑ جاتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ '' جس تن لاگے ، وہ تن جانے '' ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ جملہ آپ کی اخفاء صفات یا جملہ صفات پر روشنی ڈال رہا ہے ۔
شکریہ بہنا ۔۔۔۔ اچھی وہ ذات ہے جس نے ہمیں اشرف المخلوقات بنادیا باقی لکھنا آتا نہیں ہے یونہی دل بہلانے کو لکھتی ہوں ۔۔ پسند آوری کا شکریہ ۔
:)
 
آخری تدوین:

آوازِ دوست

محفلین
فطرت انسان کو اپنے متعین خطوط پر چلنے کا پابند بناتی ہے اور انسان انجانے میں اپنی مجبوری کو اپنی خوبی سمجھنے لگ جاتا ہے۔ محبت ایک آئینہ ہے جِس میں ہر ایک اپنی سوچ کا عکس دیکھتا ہے۔ عملی دُنیا میں محبت کا اگلہ درجہ ضرورت اور آخری درجہ مجبوری ہے۔ ایثار، محبت سے بلند تر جذبہ ہے۔ عشق ایک مختلف دُنیا ہے اورعشق عموما" فطرت کی تعلیم کی نفی کرتا ہے۔ محبت شعور کی تسکین ہے اور عشق شعور سے تصادم۔ آپ نے اچھا لکھا ہے وقت اور تجربات کے ساتھ پختگی بھی آجائے گی۔
 

نایاب

لائبریرین
" خمار محبت " کیسے " جنوں " میں مبتلا کرتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بہت خوب لکھا ہے اس حقیقت بارے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بہت سی دعاؤں بھری داد
 

نور وجدان

لائبریرین
فطرت انسان کو اپنے متعین خطوط پر چلنے کا پابند بناتی ہے اور انسان انجانے میں اپنی مجبوری کو اپنی خوبی سمجھنے لگ جاتا ہے۔ محبت ایک آئینہ ہے جِس میں ہر ایک اپنی سوچ کا عکس دیکھتا ہے۔ عملی دُنیا میں محبت کا اگلہ درجہ ضرورت اور آخری درجہ مجبوری ہے۔ ایثار، محبت سے بلند تر جذبہ ہے۔ عشق ایک مختلف دُنیا ہے اورعشق عموما" فطرت کی تعلیم کی نفی کرتا ہے۔ محبت شعور کی تسکین ہے اور عشق شعور سے تصادم۔ آپ نے اچھا لکھا ہے وقت اور تجربات کے ساتھ پختگی بھی آجائے گی۔
ایک لائن کی سمجھ نہیں آئی ۔۔ آپ صاحب علم ہیں ۔ سوال بنتا ہے ۔
محبت میں مجبوری کی سمجھ آتی ہے ۔ آخری درجہ کیا عشق کی ابتدا نہیں ہے ؟ ابتدا میں ضرورت کا احتمال ؟ یہ مجھے کنفیوز کر رہا تھا ۔ اس لیے سوچا پوچھ لیا جائے
 

نور وجدان

لائبریرین
" خمار محبت " کیسے " جنوں " میں مبتلا کرتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بہت خوب لکھا ہے اس حقیقت بارے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بہت سی دعاؤں بھری داد
آپ کی دعا بہت بھاتی ہے اور نہ جانے کیوں بھاتی ہے اس کا معلوم نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شکریہ :)
 

نور وجدان

لائبریرین

آوازِ دوست

محفلین
ایک لائن کی سمجھ نہیں آئی ۔۔ آپ صاحب علم ہیں ۔ سوال بنتا ہے ۔
محبت میں مجبوری کی سمجھ آتی ہے ۔ آخری درجہ کیا عشق کی ابتدا نہیں ہے ؟ ابتدا میں ضرورت کا احتمال ؟ یہ مجھے کنفیوز کر رہا تھا ۔ اس لیے سوچا پوچھ لیا جائے
دیکھئیے صاحبِ علم ہونا بڑی بات ہوتی ہے۔ ہم تو بس نادان سے طالب علم ہیں۔ آپ کے سوال کا جواب آسان ہےمحبت کا کوئی بھی درجہ عشق کو نہیں پُہنج سکتا کیونکہ دونوں کی بنیاد الگ الگ ہے۔ ایک مثال ذہن میں آتی ہے شائد کام کر جائے۔ آپ صلی اللہ و علیہِ و سلم سے صحابہ کرام کی والہانہ محبت تاریخِ اسلامی کے ہر ورق سے جھلکتی ہے مگر جنگِ اُحد کے موقع پر حضرت اویس قرنی کا آپ صلی اللہ و علیہِ و سلم کے ایک دانت کی شہادت کے بدلے اپنے تمام دانت توڑ دینا اظہارِ محبت سے زیادہ اظہارِ عشق ہے جِس میں شعور کی عمومی تعلیم کی نفی نظر آتی ہے۔ آپ کسی سے محبت اختیار کر سکتے ہیں اور پھر ترکِ محبت بھی آپ کے دائرہ اختیار میں آ سکتا ہے مگر عشق آپ کی قوتِ اختیار و اجتناب سے باہر کی چیز ہے۔ محبت قید ہے ،عشق آزادی مگر آپ کی پسند و ناپسند سے بےنیاز۔ وہ کیا خوب غزل کہی ہے کسی نے کہ: عشق گر ہوتا ہے تو بس ہوتا ہے یا ہوتا ہی نہیں :)
 

نور وجدان

لائبریرین
صاحب علم کی بحث چھوڑیں ۔۔۔ اکثر کسر نفسی سے کام لیتے ہیں ۔ میں تو آپ سے پوچھ رہی ہوں اور امید کرتی ہوں جواب ضرور دیں گے÷

اس میں تو اور الجھاؤ ہے ۔۔۔
اصحاب تو سراپا عشق تھے ۔
قرانِ پاک میں بھی اور احادیثِ مبارکہ میں بھی ۔۔۔۔

حضرت طلحہ رض نے جب احد میں خود کو آنحضرت ص کے سامنے کرکے ہاتھ آگے کردیا یہاں تک کہ ہاتھ شل ہوگیا۔ اور بیکار بھی ۔۔۔ کیا ذی شعور ایسا کر سکتے ؟؟؟ان کو دو دفعہ جنت کی بشارت ملی ۔۔۔ تب حضرت محمد ص نے کہا : او جب طلحہ ۔۔۔۔طلحہ پر جنت واجب ہوگئی ۔۔۔۔۔۔ اس کو میں کیا کہوں ؟ کیا یہ محبت ہے یا حضرت مصعب بن عمیر ۔۔۔ یا حضرت جعفر طیار۔۔ خود کو قربان کر دینا کیا ہوتا ہے ؟

اکثر لوگ ایسا کہتے آئے کہ عشق کے درجے اس طرح ترقی کی جانب چلتے ہیں :
1۔ ادب
2۔ پسنددیدگی
3۔ محبت
4۔ عشق

ہر درجے کی انتہا دوسرے درجے کی ابتدا ہے ۔۔ ایسا کیا غلط ہے ؟ اور ایک اور سوال

حضرت اویس کا فرق قربت اور ظاہریت کا تھا ۔۔۔ اصحاب کو قرب حاصل تھا اور ان کے عشق کو بھی جبکہ قرن میں رہنے والے سے دنیا نا واقف تھی ۔ آپ بتائیں کیا کہتے ۔
 
Top