خدماتِ ضیا الحق ! وسعت اللہ خان ۔ بی بی سی اردو

فاتح

لائبریرین
خدماتِ ضیا الحق !
وسعت اللہ خان ۔ بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد

بہت لوگ کہتے ہیں کہ ضیا الحق کا دور گھٹن اور سختی کا زمانہ تھا۔لیکن اس گھٹن اور سختی کے سبب سیاسی ، عمرانی اور نفسیاتی سطح پر کیا کچھ ایکسپوز ہوا۔اس جانب دھیان کیوں نہیں جاتا۔
مثلاً اگر ضیا الحق کا دور نہ ہوتا تو یہ کیسے پتہ چلتا کہ کس طرح ایک فردِ واحد نظریے سے لے کر ثقافت و روایات اور افراد تک ہر شے اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی عظیم الشان صلاحیت رکھتا ہے۔
اگر یہ دور نہ آتا تو ہمیں کیسے معلوم ہوتا کہ کس طرح پارلیمانی جمہوریت کو دھاندلی سے پاک کرنے کا نعرہ لگانے والی کچھ سیاسی جماعتیں ڈکٹیٹر کی لچھے داری میں الجھ کر اپنی بچی کھچی نظریاتی عصمت بھی لٹوا سکتی ہیں۔
اور کس انداز سے ایک دو نمبر متوازی نظامِ سیاست و عدالت تخلیق کرکے آئین کے پاؤں میں گھنگرو باندھے جاتے ہیں۔اور کس طرح عورتوں اور اقلیتوں کو جعلی نظامِ پارلیمان کی پیداوار روبوٹس کے زریعے بنیادی حقوق سے بھی قانونی طور پر محروم کیا جاسکتا ہے۔
کس ترکیب سے سماج کو بنیاد پرستی اور ہیروئن کی لت لگوا کر ہاتھ میں کلاشنکوف تھمائی جاتی ہے۔
اگر ضیا الحق کا دور نہ آتا تو یہ کیسے معلوم ہوتا کہ کونسے اہلِ قلم فراز کے اس شعر کے اہل ہیں کہ
بس اس قدر تھا کہ دربار سے بلاوا تھا
گداگرانِ سخن کے ہجوم سامنے تھے​

یہ کیسے معلوم ہوتا کہ جن لوگوں کو علما و مشائخ کی ٹوپی پہنائی جا رہی ہے ان میں سے کتنے مردانِ درویش ہیں اور کتنے فرقہ دسترخوانیہ سے تعلق رکھتے ہیں۔

خود صحافت و صحافیوں کی تربیت جس طرح سے ضیا الحق دور میں ہوئی کیا کسی اور زمانے میں ممکن تھی ؟؟؟
اسیر جراتِ پرواز آزمانے لگے
وہ تازیانے لگے، ہوش سب ٹھکانے لگے​

اور سب سے بڑھ کر سنسر شپ کا سنہری تجربہ !! عالم یہ تھا کہ محکمہ اطلاعات کا غریب افسر
صادق از بنگال، جعفر از دکن
ننگِ ملت، ننگِ دیں، ننگِ وطن​
جیسے مشہور شعر میں سے دوسرا مصرعہ یہ کہہ کر اخباری کاپی سے اکھاڑ دیتا تھا کہ اس سے فحاشی کی بو آتی ہے۔حتی کہ صحافی ’برہنہ ذہنیت‘ یا ’ ننگے پاؤں‘ لکھتے ہوئے بھی کئی بار سوچتا تھا۔

وزیرِ اطلاعات محمود اعظم فاروقی ، راجہ ظفرالحق اور سیکرٹری اطلاعات جنرل مجیب کے ہوتے ہوئے کس مائی کے لال میں جرات تھی کہ قائدِ اعظم کی گیارہ اگست والی تقریر اور علامہ اقبال کے
گلا تو گھونٹ دیا اہلِ مدرسہ نے ترا
کہاں سے آئے صدا لاالہ الا اللہ​
جیسے غیر شرعی اشعار شائع کرسکے۔

محکمہ اطلاعات نے ایڑھی چوٹی کا زور لگا دیا کہ کسی طرح محمد علی جناح کے افکار کو ٹخنوں سے اونچی شلوار بندھوادے اور محمد اقبال کو سرسیّد کی تصویر سے بدل دے۔

ایک صحافی کے بقول یہ تک پریس ایڈوائس آئی کہ اعوزباللہ من الشیطان الرجیم کے برابر میں ضیاء رجیم نہ چھاپا جائے۔

ضیا دور میں منطق کے شعبے میں بھی عظیم الشان کام ہوئے۔ انیس سو چوراسی میں ناجائز صدارت کو جائز کرنے کے لیے ریفرنڈم میں یہ سوال پوچھا گیا کہ کیا آپ نفاذِ شریعت چاہتے ہیں ۔اگر ہاں تو پھر جنرل محمد ضیاء الحق اگلے پانچ برس کے لیے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے صدر ہیں۔
اس پر معروف فلاسفر سیّد محمد تقی نے تبصرہ کیا کہ صاحب منطقی اعتبار سے ریفرنڈم والا سوال ایسا ہی ہے جیسے میں آپ سے پوچھوں کہ کیا آپ بینگن کو سبزی مانتے ہیں۔اگر ہاں تو پھر آم بھی آج سے سبزی ہے۔

اور تو اور شعبہ آبکاری بھی ضیائی اثرات سے نہ بچ سکا۔خیرپور کے ایک گوٹھ میں تکیے پر بھنگ گھوٹنے والے اللہ ڈینو ملنگ نے مجھ سے کہا۔آؤ تمہیں مارشل لائی بوٹی پلواؤں۔میں نے پوچھا یہ مارشل لائی بوٹی کیا بلا ہے۔کہنے لگا سائیں زبردست پتہ ہے۔ایک دفعہ میرے ہاتھ سے پی کر دیکھو۔لگے گا جیسے ٹکٹکی پر بندھ گئے ہو۔۔۔۔

ہائے کیا وقت تھا جو بیت گیا
اب جو سوچوں تو آنکھ بھر آوے​

http://www.bbc.com/urdu/pakistan/2009/07/090705_baat_say_baat_nj.shtml
 
آخری تدوین:

نور وجدان

لائبریرین
اگر ضیا نہ ہوتا تو حبیب جالب یہ نہ لکھتے

%D8%B8%D9%84%D9%85%D8%AA+%DA%A9%D9%88+%D8%B6%DB%8C%D8%A7%D8%8C+%D8%B5%D8%B1+%D8%B5%D8%B1+%DA%A9%D9%88+%D8%B5%D8%A8%D8%A7%D8%8C+%D8%A8%D9%86%D8%AF%DB%92+%DA%A9%D9%88+%D8%AE%D8%AF%D8%A7+%DA%A9%DB%8C%D8%A7+%D9%84%DA%A9%DA%BE%D9%86%D8%A7%DB%94+%D8%AD%D8%A8%DB%8C%D8%A8+%D8%AC%D8%A7%D9%84%D8%A8.jpg

لال بینڈ اس کو گاتے بھی نہیں
44

 
یعنی ضیا کے کریڈٹ پر کچھ اچھے کام بھی موجود ہیں :laughing:
ایک پیر صاحب گاؤ تکیے سے ٹیک لگائے نیم دراز تھے، اور ایک مرید بڑی تندہی سے کافی دیر سے ان کی ٹانگیں داب رہا تھا۔
پیر صاحب سرور کے عالم میں آنکھیں بند کئے یکایک ایک کیفیت میں کہنے لگے،" سبحان اللہ سبحان اللہ، ہم دونوں کو کتنا ثواب مل رہا ہے"۔
مرید نے جل کر کہا " سرکار پاؤں تو میں دبا رہا ہوں، خدمت تو میں کر رہا ہوں، ثواب تو مجھے ملے گا، آپ کو کس بات کا ثواب مل رہا ہے؟"
پیر صاحب نے بدمزہ ہوکر آنکھیں کھولیں ، اور خشونت کے عالم میں اپنی ٹانگیں سمیٹ کر پرے کرلیں اور کہنے لگے:
" لے فیر، ہن توں کلّا ای ثواب کمائی جا"۔۔۔۔۔۔
 
Top