اصلاح و مشورہ

نور وجدان

لائبریرین
ایک پرانی غزل جو میری پہلی پروان تھی ۔ شاعری میں عروض کا علم میرے لیے بالکل نیا تھا۔ مجھے معلوم بھی تب ہوا جب میں نے اپنی فیس بک کی وال پر ایک ادنی سی کوشش کر ڈالی ۔ دیکھنے والے اہلِ زبان تھے وزن بتانے لگ گئے ۔ پریشان ہوکر گوگل سرفنگ کی تو عروض کی ایک سائیٹ مل گئی ۔ بس شعر وہاں پر لکھ لکھ کر بناتی رہی ۔۔۔ پھر یہاں کا پتا چلا تو یہاں بھی آگئی ۔ یہاں مجھے دو ہستیوں نے شاعری کا فن سکھایا ۔۔اس میں طاق اس لیے نہیں ہو پائی کیونکہ میں نے ایک سال گزر جانے کے بعد دوبارہ کوشش کی ۔۔ میں ان دو ہستیوں کی تہِ دل سے مشکور ہوں ۔میرے محفل میں آنے کا سبب بھی یہ دو ہستیاں ہیں ۔وہ کہتے ہیں نہ جس گھر میں بزرگ نہ ہو وہاں رحمت نہیں ہوتی ۔۔۔ محترم الف عین اور محترم محمد یعقوب آسی ۔۔۔ان حضرات کی تہِ دل سے مشکور ان کی دعاؤں کی طالب ۔۔۔آپ کو سلامت رکھے اللہ تعالیٰ ۔۔۔


1۔جو ناز تھا وفا پر ، وہ ہے فگار کیسا
نفرت بنی مقدر ،چاہوں میں پیار کیسا
÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷

رسمِ جفا نبھائی ،بچھڑا بھی انتقاماً
کیوں دل میں ایسی نفرت، یہ تھا غبار کیسا

÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷
3۔پامال دل کے ارماں کرکے ہوا پشیماں
افسوس سے مٹے غم تو اضطرار کیسا
÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷

4۔توحید میرا ایماں، کعبہ ہے میرا قبلہ
تم بت پرست لوگوں سے مانگوں پیار کیسا
÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷

5۔وہ کاٹ دار آنکھیں دیکھیں خمار سے جب
پیکر تراش کر ہیں کرتی حصار کیسا
÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷
6۔اچھی نہیں توقع بے رحم لوگ سارے۔۔۔!
مَطلب کی یاری پر ہو بھی انحصار کیسا
÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷

اے نُورؔ دل بجھا اب ہر سمت تیرگی ہے
گُل ہیں چراغ سارے اب اِنتظار کیسا
 
آخری تدوین:

بہت شکریہ۔
آپ کی اس کاوش میں عروض کا کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہے؛ ایک آدھ جگہ کچھ رکاوٹ سی محسوس ہوتی ہے، بتانے میں کچھ مانع نہیں تھا، تاہم میں چاہتا ہوں کہ آپ خود اس کو پکڑیں۔

شعر کے تقاضے عروض پر بس نہیں ہو جاتے، عروض تو ناپ تول کا ایک ذریعہ ہو گیا؛ اور اس نے بتا دیا کہ آپ کا کلام کلامِ منظوم بن گیا۔ شعر کلامِ منظوم سے بہت آگے کی بات ہے اور وہ آپ کو پتہ ہی ہے۔ یہیں اردو محفل فورم پر بہت تفصیلی اور مفید مواد میسر ہے؛ فراغت کے وقت میں دیکھ لیجئے گا۔
 

نور وجدان

لائبریرین
استادِ محترم طبیعت میں سستی کے ساتھ کچھ زیادہ فطین میں نہیں. یہ لڑی پڑھی ہے. بڑی سیر حاصل گفتگو ہے. آپ نے تو ایک ایک نقطہ بہت جامع کرکے بتایا. شعری محاسن پر جتنا سیکھا جاسکتا وہ مشق کرکے اور ریاضت کرکے. مطالعہ کو جب تک کام نہ لایا جائے. وزن تو میں خود چیک کرتی ہوں ..آگے آپ کی توجہ کی طالب
 

ابن شبیر

محفلین
میں آپ کی ہمت کو سلام کرتا ہوں میری بہن آج کل اپنی غلطی کو ماننا بہت مشکل ہو گیا ہے ہر کوئی خود کو کامل سمجھتا ہے ۔میں آپ کی اس ہمت کو سلام کرتا ہوں کہ آپ نے اپنی غلطی کو تسلیم تو کیا مگر اس سے بڑی بات یہ ہے کہ آپ نے اپنے اس شوق کو چھوڑنے کے بجائے اس پر محنت کی اور اپنی راہ خود ہموار کر کے خود کو ایک عمدہ شاعرۃ تسلیم کروایا جس میں آپ کا ساتھ جن دو احباب نے دیا وہ واقعی آپ کے اساتذہ کہلانے کے حق دار ہیں ۔ اور میں نے سنا ہے کہ اگر کسی شخص سے کچھ سیکھنا ہو تو اس کی دل سے عزت کرنا پہلا مرحلہ ہے پھر جا کر طالب کچھ سیکھ پاتا ہے بغیر ادب و احترام کے کچھ حاصل نہیں۔ اور آپ کے قول سے بھی خوب ادب کی خوشبو آرہی ہے۔
 
آخری تدوین:

نور وجدان

لائبریرین
میں آپ کی ہمت کو سلام کرتا ہوں میری بہن آج کل اپنی غلطی کو ماننا بہت مشکل ہو گیا ہے ہر کوئی خود کو کامل سمجھتا ہے ۔میں آپ کی اس ہمت کو سلام کرتا ہوں کہ آپ نے اپنی غلطی کو تسلیم تو کیا مگر اس سے بڑی بات یہ ہے کہ آپ نے اپنے اس شوق کو چھوڑنے کے بجائے اس پر محنت کی اور اپنی راہ خود ہموار کر کے خود کو ایک عمدہ شاعرۃ تسلیم کروایا جس میں آپ کا ساتھ جن دو احباب نے دیا وہ واقعی آپ کے اساتذہ کہلانے کے حق دار ہیں ۔ اور میں نے سنا ہے کہ اگر کسی شخص سے کچھ سیکھنا ہو تو اس کی دل سے عزت کرنا پہلا مرحلہ ہے پھر جا کر طالب کچھ سیکھ پاتا ہے بغیر ادب و احترام کے کچھ حاصل نہیں۔ اور آپ کے قول سے بھی خوب ادب کی خوشبو آرہی ہے۔
آپ اسے میری ہمت پر محمول نہ کیجیے اور میں شاعر تک نہیں آپ نے عمدہ لکھ ڈالا۔۔ ابھی اساتذہ میری غلطیاں بتائیں گے تو آپ کو عمدگی کا اندازہ ہوجائے گا۔ اس کے علاوہ شکریہ ہمت پر سلام کا۔۔ ہمت نہیں کاہلی کہیے یہ غزل پچلے سال مئی میں لکھی ۔اب بھی ویسے کی ویسے ہی ہے ۔۔۔ اور کیا بتاؤں ۔۔کافی ہے
 

شوکت پرویز

محفلین
نور سعدیہ شیخ صاحبہ!
آپ کی یہ غزل (بھی) بہت اچھی ہے۔ اور جیسا کہ یعقوب انکل نے فرما دیا ہے، اس میں کوئی عروضی غلطی بھی نہیں۔۔۔
اب عروض کے علاوہ کچھ دوسری باتوں کو دیکھتے ہیں:
1۔ اس غزل کی بحر ہے:
مثمن مشکول مسکّن (یا ۔ بحر مضارع مثمن اخرب):
اس میں دو مرتبہ "مفعول فاعلاتن" آتا ہے۔
یعنی
مفعول فاعلاتن ۔ مفعول فاعلاتن
۔۔۔۔
اس طرح کی بحر میں (یعنی جس میں دو مرتبہ ارکان کی تکرار آتی ہے) ہر مصرع دو ٹکڑوں پر مشتمل ہوتا ہے۔
اور ہر ٹکڑے پر بات (یا بات کا حصہ) مکمل ہونا چاہئے۔
مثلاً:
پامال دل کے ارماں کرکے ہوا پشیماں
افسوس سے مٹے غم تو اضطرار کیسا
اس شعر کو دیکھئے، آپ نے بخوبی دونوں ٹکڑوں میں بات مکمل کی ہے۔
۔۔۔
لیکن اس شعر کو دیکھئے:
اچھی نہیں توقع بے رحم لوگ سارے۔۔۔!
مَطلب کی یاری پر ہو بھی انحصار کیسا
پہلا مصرع درست ہے، لیکن دوسرا مصرع دیکھیں:
"ہو بھی" ایک ہی جملہ کا حصہ ہیں، اور انہیں دو ٹکڑوں میں نہیں توڑا جا سکتا۔
لیکن یہاں "ہو" پہلے حصہ میں آ رہا ہے، اور "بھی" دوسرے حصہ میں آ رہا ہے۔
 

شوکت پرویز

محفلین
اس بحر میں غالب کے دو اشعار دیکھیں:

حاصل سے ہاتھ دھو بیٹھ اے آرزو خرامی
دل جوشِ گریہ میں ہے ڈوبی ہوئی اسامی

اس شمع کی طرح سے جس کو کوئی بجھائے
میں بھی جلے ہوؤں میں ہوں داغِ نا تمامی
 

نور وجدان

لائبریرین
1۔جو ناز تھا وفا پر ، وہ ہے فگار کیسا
نفرت بنی مقدر ،چاہوں میں پیار کیسا
÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷

رسمِ جفا نبھائی ،بچھڑا بھی انتقاماً
کیوں دل میں ایسی نفرت، یہ تھا غبار کیسا

÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷
3۔پامال دل کے ارماں کرکے ہوا پشیماں
افسوس سے مٹے غم تو اضطرار کیسا
÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷

4۔توحید میرا ایماں، کعبہ ہے میرا قبلہ
تم بت پرستوں سے مانگوں میں پیار کیسا

÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷

5۔وہ کاٹ دار آنکھیں دیکھیں خمار سے جب
پیکر تراش کر یہ کرتی حصار کیسا
÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷
6۔اچھی نہیں توقع بے رحم لوگ سارے۔۔۔!
مَطلب کی یاری پر اب ہو انحصار کیسا

÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷

اے نُورؔ دل بجھا اب ہر سمت تیرگی ہے
گُل ہیں چراغ سارے اب اِنتظار کیسا
محترمشوکت پرویز شکریہ اور دیکھ بھی لیں ۔۔۔
 
آخری تدوین:

نور وجدان

لائبریرین
نور سعدیہ شیخ صاحبہ!
آپ کی یہ غزل (بھی) بہت اچھی ہے۔ اور جیسا کہ یعقوب انکل نے فرما دیا ہے، اس میں کوئی عروضی غلطی بھی نہیں۔۔۔
اب عروض کے علاوہ کچھ دوسری باتوں کو دیکھتے ہیں:
1۔ اس غزل کی بحر ہے:
مثمن مشکول مسکّن (یا ۔ بحر مضارع مثمن اخرب):
اس میں دو مرتبہ "مفعول فاعلاتن" آتا ہے۔
یعنی
مفعول فاعلاتن ۔ مفعول فاعلاتن
۔۔۔۔
اس طرح کی بحر میں (یعنی جس میں دو مرتبہ ارکان کی تکرار آتی ہے) ہر مصرع دو ٹکڑوں پر مشتمل ہوتا ہے۔
اور ہر ٹکڑے پر بات (یا بات کا حصہ) مکمل ہونا چاہئے۔
مثلاً:
پامال دل کے ارماں کرکے ہوا پشیماں
افسوس سے مٹے غم تو اضطرار کیسا
اس شعر کو دیکھئے، آپ نے بخوبی دونوں ٹکڑوں میں بات مکمل کی ہے۔
۔۔۔
لیکن اس شعر کو دیکھئے:
اچھی نہیں توقع بے رحم لوگ سارے۔۔۔!
مَطلب کی یاری پر ہو بھی انحصار کیسا
پہلا مصرع درست ہے، لیکن دوسرا مصرع دیکھیں:
"ہو بھی" ایک ہی جملہ کا حصہ ہیں، اور انہیں دو ٹکڑوں میں نہیں توڑا جا سکتا۔
لیکن یہاں "ہو" پہلے حصہ میں آ رہا ہے، اور "بھی" دوسرے حصہ میں آ رہا ہے۔
اگر بھی کی جگہ ''اب '' کر دیا جائے
مَطلب کی یاری پر ہو اب انحصار کیسا
ویسے اوپر والی پوسٹ میں بھی تبدیلی کردی ہے ۔۔
 

الف عین

لائبریرین
ذرا مفاہیم پر بھی غور کر لیں، یہ پتہ نہیں چلتا کہ کس کے بارے میں بات کہی جا رہی ہے، اپنے دل یا محبوب؟ کئی مصرعوں میں بات مکمل نہیں ہوتی۔
مثلاً
اچھی نہیں توقع بے رحم لوگ سارے
سے کیا سمجھا جائےِ؟ کیا یہ کہ سارے لوگ بے رحم (ہیں)، (ان سے) اچھی توقع نہیں (ہے)!!
 

شوکت پرویز

محفلین
جی نور صاحبہ!
آپ کی آخری شعر میں وہ "کمی" دور ہو گئی ہے جہ میں نے مراسلہ نمبر 7 میں بتائی تھی۔
لیکن الف عین انکل کی نشاندہی بھی دیکھیں۔
آپ کے ذہن میں کچھ باتیں ہوتی ہیں، اور اس بِنا پر آپ شعر کہتی ہیں۔ اب آپ کے ذہن میں وہ شعر (ان باتوں کی وجہ سے) واضح ہوتا ہے، لیکن چونکہ دوسرے وہ باتیں نہیں جانتے، وہ صرف آپ کا شعر پڑھتے ہیں، اسلئے وہ آپ کی منشا تک نہیں پہنچ سکتے۔
ہمیں اپنا شعر اس حد تک واضح کرنا چاہئے کہ قاری (عموماَ) اسے سمجھ جائے۔
(یہ باتیں میں نے یعقوب انکل کے کئی مراسلوں میں پڑھی ہیں :) )
 

نور وجدان

لائبریرین
1۔جو ناز تھا وفا پر ، وہ ہے فگار کیسا!
نفرت بنی مقدر ،چاہوں میں پیار کیسا!
÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷

رسمِ جفا نبھائی ،بچھڑا بھی انتقاما
کرتے رہے تھے نفرت تمہارا یہ پیار کیسا!

÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷
3۔پامال دل کے ارماں کرکے تھے تم پشیماں
کیا رنج سے مِٹا غم؟ اب اضطرار کیسا !

÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷

4۔توحید میرا ایماں، کعبہ ہے میرا قبلہ
تم بت پرست ٹھہرے، مانگوں میں پیار کیسا!

÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷

5۔یہ کاٹ دار آنکھیں الفت کی معتبر ہیں
پیکر تراش کر یہ کرتی حصار کیسا!
÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷
سارے ہی خود غرَض ہیں، بے سود ہے توقّع
مطلب کی دوستی پر ہو انحصار کیسا؟

÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷

اے نُورؔ دل بجھا اب ہر سمت تیرگی ہے
گُل ہیں چراغ سارے اب اِنتظار کیسا!

اب دیکھٰں
 
آخری تدوین:
Top