راشد اشرف کی کتاب پر محمد سلیم الرحمٰن کا تبصرہ از: محمد حفیظ الرحمٰن

لاہور کے ہفت روزہ رسالے " ہم شہری " کے تازہ شمارے بابت پیر 13 اپریل تا اتوار 19 اپریل 2015 میں راشد اشرف صاحب کی کتاب " مولانا عبدالسلام نیازی " پر مشہور شاعر، ادیب اور مترجم جناب محمد سلیم الرحمٰن صاحب کا تبصرہ شائع ہوا ہے جو پورے صفحے پر محیط ہے اور رسالے کے صفحہ نمبر 42 پر موجود ہے ۔ اس شمارے کی تاریخ کے حساب سے ممکن ہے آج یا کل میں اگلا شمارہ آجائے اور یہ شمارہ واپس ہو جائے۔
 
راشد اشرف

شکریہ محمد حفیظ الرحمٰن

ٹیگ کرنے کا درست طریقہ یہ ہے کہ پہلے ایٹ کا نشان بنایا جائے @ پھر اس کے ساتھ ہی جگہ چھوڑے بغیر اس شخصیت کا نام لکھا جائے جسے محفل پر ٹیگ کرنا ہے ۔ پہلے ہم ایک خالی جگہ چھوڑ کر نام لکھتے ہیں تاکہ پتہ چل جائے کیا لکھنا ہے، پھر ایٹ کے بعد جگہ چھوڑے بغیر آپ کا نام لکھتے ہیں

@ محمد حفیظ الرحمٰن

محمد حفیظ الرحمٰن
 
آخری تدوین:
ہم سا ہوتو سامنے آئے
از محمد سلیم الرحمٰن​

راشد اشرف کو جو سوجھتی ہے خوب سوجھتی ہے۔ انٹر نیٹ پر اردو خود سوانحی کتابوں کا ڈھیر لگا دیا ہے۔ جس کا جی چاہے پڑھے۔ اصل میں انجنئیر ہیں۔ ادب سے گہرا لگاؤ ہے۔ کچھ مدت پہلے چراغ حسن حسرت کے بارے میں جتنے مضامین ہاتھ آئے انھیں کتابی صورت میں شائع کردیا۔ ہم لوگ اپنے محسنوں کو فراموش کرنے کے عادی ہیں۔ چراغ حسن حسرت کی یاد بھی ماند پڑنے لگی تھی۔ راشد اشرف نے قارئین کو دوبارہ ان کی طرف متوجہ کیا۔ حسرت صاحب جیسی نتھری ستھری نثر لکھنے والے ہمارے زمانے میں کم ہیں۔ اس کتاب میں بس ایک ہی نقص تھا (جس کا ذمہ دار راشد اشرف کو نہیں ٹھیرایا جا سکتا) اور وہ یہ کہ خاکوں اور یاد داشتوں میں تکرار بہت تھی۔ وہی باتیں، وہی واقعات مختلف اصحاب دہراتے چلے گئے۔ اب کے انھوں نے مولانا عبدالسلام نیازی کے بارے میں جتنے مضامین دستیاب ہوے انھیں کتابی صورت میں یکجا کر دیا۔ مولانا کا معاملہ یہ ہے کہ وہ افسانوی شخصیت بن کر رہ گئے ہیں۔ ان کے علم و فضل کے تو سبھی قائل نظر آتے ہیں لیکن خود مولانا کی لکھی ہوئی کوئی تصنیف اب دسترس میں نہیں۔ اس لیے بالکل اندازہ نہیں ہوتا کہ وہ روحانی، علمی اور ادبی لحاظ سے کس مرتبے پر فائز تھے۔ مقصود زاہدی کی نظر سے مولانا کی کئی مذہبی تصنیفات گزری تھیں۔ مسعود حسن شہاب دہلوی نے اپنے خاکے میں ان کی تحریر کا نمونہ بھی پیش کیا ہے مگر قطرے سے سمندر کا کیا سراغ مل سکتا ہے! یہاں پر سقراط کا خیال آتا ہے۔ فلسفے کی کوئی تاریخ سقراط کے ذکر کے بغیر مکمل نہیں ہو سکتی۔ لیکن سقراط نے ایک حرف نہیں لکھا۔ اگر اسے افلاطون جیسا ارادت مند نہ ملتا تو اس کے نام سے آج قدیم یونان کے متخصصین کے سوا کوئی آگاہ نہ ہوتا۔ افسوس کہ مولانا عبدالسلام نیازی کے جاننے والوں میں کوئی ایسا نہ تھا جو افلاطون کی طرح ان کے ارشادات اور ملفوظات قلم بند کر لیتا۔ ان کے حصے میں تو کوئی گل حسن شاہ بھی نہ آیا۔ کہنے کو سب کہتے ہیں کہ مولانا جب کسی موضوع پر گفتگو کرتے تو ان کے علم پر بحرِ ذخار کا گمان ہوتا تھا۔ علم تو باقی نہ رہا۔ شخصیت باقی رہ گئی اور وہ بھی اس لیے کہ مولانا کوئی روایتی، خشک مزاج عالم نہ تھے۔ قلندرانہ شان رکھتے تھے۔ طبعیت میں رنگینی اور شگفتگی تھی۔ آزادانہ اور بے خوف زندگی گزاری۔ کسی بڑے سے بڑے عالم یا حاکم کو خاطر میں نہ لائے۔ یہ نہیں کہ وہ مردم بیزار تھے۔ انھیں اصل چِڑ ان افراد سے تھی جو کسی دنیوی اقتدار یا علمی مرتبے کو حاصل کر کے اترانے لگتے تھے۔ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ انھوں نے خواجہ حسن نظامی کی فرمائش پر تصوف کے بارے میں ایک کتاب لکھ دی۔ جب مسودہ خواجہ صاحب کے پاس پہنچا تو انھوں نے کہا کتاب لکھی آپ نے ہے لیکن چھپے گی میرے نام سے۔ یہ سن کر، بقول شاہد احمد دہلوی، مولانا نے مسودہ پھاڑ کر پھینک دیا۔ مقصود زاہدی کہتے ہیں کہ مسودہ پھاڑ کر اپنے ملازم کے حوالے کیا اور کہا کہ ان کاغذوں کو جلا کر خواجہ صاحب کے لیے چائے تیار کر لا۔ اخلاق احمد دہلوی کا بیان مختلف ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ کتاب لکھنے کا معاوضہ دس ہزار روپے طے پایا تھا۔ کتاب سات برس میں مکمل ہوئی۔ مسودہ دیکھ کر خواجہ حسن نظامی نے کہا کہ بعض مقامات ابھی وضاحت طلب ہیں۔ مولانا نے فرمایا: ’’ہمیں مسودہ ترتیب دیتے ہوے یہ خیال نہیں آیا کہ آپ بھی اسے پڑھیں گے۔‘‘ یہ کہہ کر مسودہ پرزے پرزے کر دیا۔ مولانا کی شخصیت پر اسرار کا پردہ تنا ہوا ہے۔ کسی کو یقین سے نہیں معلوم کہ وہ کہاں کے رہنے والے تھے، والدین کون تھے۔ ان کا کوئی رشتے دار کبھی نظر نہیں آیا۔ چشتیہ نیازیہ سلسلے سے تعلق تھا۔ یہ بھی پتا نہیں چلتا کہ اتنا علم کہاں سے حاصل کیا۔ بعض واقعات اس امر پر دلالت کرتے ہیں کہ فوٹو گرافک حافظے کے مالک تھے۔ جو کتاب پڑھتے اس کا متن ذہن نشین ہو جاتا۔ تصوف اور فلسفے، بالخصوص اسلامی فلسفے، پر عبور حاصل تھا۔ موسیقی اور طب کی سمجھ بوجھ بھی اتنی زیادہ تھی کہ کوئی ان سے پیش نہیں لے جا سکتا تھا۔ ان کی عمر کا بھی کسی کو صحیح پتا نہ تھا۔ خود کہتے تھے کہ ایک مرتبہ ہندو دھرم سے واقفیت حاصل کرنے کا شوق ہوا تو دس بارہ سال ہندو سادھو بن کر ہردوار اور رشی کیش میں رہے۔ جب دہلی میں پہلے پہل وارد ہوے تو باریش تھے۔ درس بھی دیتے تھے۔ ایک مسجد میں جمعے کی نماز کے بعد وعظ بھی کیا کرتے تھے۔ معلوم نہیں، طبعیت میں کیا انقلاب آیا۔ داڑھی منڈا دی۔ درس وتدریس اور وعظ کو خیر باد کہا۔ جوانی میں شادی کی مگر بہت جلد بیوی سے چھٹکارا پا کر آزاد ہو گئے۔ نہ تعویز نہ گنڈاکرتے تھے نہ کسی کو اورادو وظائف بتاتے تھے۔ کسی کو مرید نہ بناتے تھے۔ ذریعۂ معاش بظاہر کوئی نہ تھا۔ اس کے باوجود روپیوں کی کبھی کمی نہ ہوتی تھی۔ خوش پوش اور خوش خوراک تھے۔ بہت سے لوگوں کو گمان تھا کہ انھیں دست غیب حاصل ہے۔ ایک خصوصیت یہ بھی تھی کہ کسی جنازے میں شرکت نہ کرتے تھے۔ قوالیاں سننے کا شوق تھا۔ طوائفوں سے لگاؤ تھا۔ سر محفل انھیں چوم لینے اور گود میں بٹھا لینے میں تامل نہ تھا۔ لیکن یہ مہربانیاں انھیں پر تھیں جو گائیکی کے فن میں طاق ہوں۔ نفسانی خواہشات سے مغلوب ہو کر تعلق قائم نہیں کرتے تھے۔ یہ کہنے میں مضائقہ نہیں کہ انھیں کسی نے ٹھیک طرح سمجھا نہیں۔ انھیں پروا بھی نہیں تھی کہ لوگ انھیں کیا سمجھتے ہیں اور کتنا سمجھتے ہیں۔ دہلی میں بالا خانے میں قیام تھا۔ عشاء کی اذان ہوتے ہی گھر کا دروازہ بند کر دیتے۔ رات ہمیشہ تنہا گزارتے۔ ان کی ذات میں ان لوگوں کی جھلک بھی نظر آتی ہے جو فرقۂ ملامتیہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ گالیاں بلا تکلف دیتے تھے۔ مزاج جلالی تھا۔ ایک بات جو اخلاق احمد دہلوی نے لکھی ہے وہ اگر صحیح ہے تو انتہائی عجیب ہے۔ مولانا نے ڈاکٹر ضیاء الدین سے کہا: ’’روشنی اور آواز کی رفتار نہیں۔ روشنی اور آواز دونوں اپنی جگہ قائم اور دائم ہیں۔ یہ ہوا، فضا اور خلا کی لہریں ہیں جن کو آپ روشنی اور آواز کی رفتار سمجھے بیٹھے ہیں۔‘‘ واللہ اعلم۔ مجموعے میں تمام مضامین یکساں اہمیت کے حامل نہیں۔ جن حضرات نے مولانا پر لکھنے کا حق ادا کیا ان میں رزی جے پوری، مسعود حسن شہاب، مقصود زاہدی اور اخلاق احمد دہلوی شامل ہیں۔ مولانا عبدالسلام نیازی، مرتبہ راشد اشرف ناشر، اردو اکیڈمی، بہاولپور۔ ص 236؛ 400روپیے -

See more at: http://humshehrionline.com/?p=10775#sthash.WebsojNJ.dpuf
 
بہت بہت شکریہ خلیل بھائی۔ خصوصآ ٹیگ کرنے کا طریقہ بتانے پر۔ میں نے اپنی میل راشد اشرف صاحب کو ٹیگ کرنے کی بڑی کوشش کی تھی مگر ناکام رہا تھا۔ میں تو اس جگہ سے ٹیگ کر رہا تھا جہاں " ٹیگ " کا لفظ لکھا ہوا تھا۔ اب صحیح طریقے سے ٹیگ کوشش کرتا ہوں ۔
راشد اشرف محمد خلیل الرحمٰن
 

راشد اشرف

محفلین
لاہور کے ہفت روزہ رسالے " ہم شہری " کے تازہ شمارے بابت پیر 13 اپریل تا اتوار 19 اپریل 2015 میں راشد اشرف صاحب کی کتاب " مولانا عبدالسلام نیازی " پر مشہور شاعر، ادیب اور مترجم جناب محمد سلیم الرحمٰن صاحب کا تبصرہ شائع ہوا ہے جو پورے صفحے پر محیط ہے اور رسالے کے صفحہ نمبر 42 پر موجود ہے ۔ اس شمارے کی تاریخ کے حساب سے ممکن ہے آج یا کل میں اگلا شمارہ آجائے اور یہ شمارہ واپس ہو جائے۔

بڑی عنایت جناب، بہت شکریہ
 

راشد اشرف

محفلین
بہت بہت شکریہ خلیل بھائی۔ خصوصآ ٹیگ کرنے کا طریقہ بتانے پر۔ میں نے اپنی میل راشد اشرف صاحب کو ٹیگ کرنے کی بڑی کوشش کی تھی مگر ناکام رہا تھا۔ میں تو اس جگہ سے ٹیگ کر رہا تھا جہاں " ٹیگ " کا لفظ لکھا ہوا تھا۔ اب صحیح طریقے سے ٹیگ کوشش کرتا ہوں ۔
راشد اشرف محمد خلیل الرحمٰن

محمد خلیل الرحمٰن

سلیم صاحب نے اپنے کالم میں چراغ حسن حسرت والی کتاب کا بھی ذکر کیا ہے، پرسوں جمعے کے روز مذکورہ کتاب پر بھی کالم شائع ہوا ہے، رفیع الزماں زبیری صآحب کا:

http://www.express.com.pk/epaper/PoPupwindow.aspx?newsID=1102810052&Issue=NP_KHI&Date=20150424
 
Top