عظیم کی شاعری برائے اصلاح و تنقید و تبصرہ

عظیم

محفلین


چلے آؤ کہ زلفوں کی ہوا دو
بہت مدت کے جاگے ہیں سلا دو

ہماری بیخودی تو دیکھ لی ہے
اب اپنی عقل بھی آ کر دکھا دو

مرے اشعار پڑھ پائے نہ اغیار
تمہیں اپنے ہو آؤ گنگنا دو

ہمیں رونے سے فرصت کب ہے یارا
کہ آ جاؤ ذرا سا مسکرا دو

خدا کا واسطہ دینے کو آئے
خدارا کفر کا مطلب بتا دو

ابھی ہم میں ہے تھوڑی جان باقی
چلے آؤ کہ اب جینا سکھا دو

اگر اتنے ہی ضدی ہو گئے ہو
تو آ جاؤ تم اپنی ضد چھڑا دو


 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین


ہو سکے آسمان سے جاؤں
دُور دُنیا جہان سے جاؤں

خُوب اورں نے سر کھپایا ہے
پر نہ تیرے میں دھیان سے جاؤں

آپ کی چاہتوں میں کھویا ہوں
گھر سے جاؤں مکان سے جاؤں

اور امید کیا رکھوں جگ سے
آپ کی اس امان سے جاؤں

مٹ گیا حرف حرف تک میرا
کیوں نہ اپنے بیان سے جاؤں

میری اوقات کیا کہ میں تیرے
اور اپنے گمان سے جاؤں

عشق کرتا ہوں کیوں نہ سج دھج کے
جسم سے جاؤں جان سے جاؤں




 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین



آنکھ میں کب کسی کے پانی ہے
ہم نے صحرا کی خاک چھانی ہے

آ کبھی دیکھئے رقیبوں میں
اب ہماری بھی قدر دانی ہے

دل نے لاکھوں گمان رکھے پال
پر نہ جانے کہ دل کی مانی ہے

سننا چاہو تو آپ سن لینا
چار دن کی مری کہانی ہے

سخت ٓحیرت میں مبتلا ہوں میں
مہربانوں کی مہربانی ہے

آپ سے چاہئے نہیں کُچھ بیر
ہم فقیروں کی حکمرانی ہے

صاحب اس وقت وجد میں ہیں ہم
دور جانے کی آپ تھانی ہے




 

عظیم

محفلین


مر نہ جاؤں میں آہ بھر بھر کے
عشق جیسا گناہ کر کر کے

مار ڈالا ہمیں نہیں معلوم
آپ ایسی نگاہ کر کر کے

مانگئے آپ سے دعا میں کیا
اب تو کرتے ہیں چاہ ڈر ڈر کے

خود کو دیتے ہیں داد بیٹھے ہم
اپنے جینے پہ واہ مر مر کے

مسکرائیں گے بزمِ غیراں میں
تھک گئے آہ آہ کر کر کے

 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین


عجب تماشا لگا لیا ہے
جہان سر پر اُٹھا لیا ہے

اب آگے اس کے ہو کیا توقع
تمہارا غم جو کما لیا ہے

اسی کو کہتے ہیں دوستی کیا
سبھی کو دشمن بنا لیا ہے

سکون اب تک ہمیں نہ آیا
قرار دل کا گنوا لیا ہے

اب آنکھ میں آئیں اشک لینے
کہ خون تک تو بہا لیا ہے

عظیم کہنے کو غم بڑے تھے
مگر زمانے نے کھا لِیا ہے

خدا ہی جانے ہے کیا بلا عشق
کہ خود کو مجنوں بنا لِیا ہے

 

عظیم

محفلین


اور کیا تھا جناب کیا کرتے
آپ اپنا حساب کیا کرتے

ہم فقیروں نے بادشاہی کی
آپ جیسے نواب کیا کرتے

ہم ہیں خانہ بدوش پہلے ہی
اپنا خانہ خراب کیا کرتے

مسکراتے ہیں سوچ کر رکھا
یُوں جو پردہ حجاب کیا کرتے

بھاگ نکلے ہیں ہم گناہوں سے
شیخ صاحب ثواب کیا کرتے




 

عظیم

محفلین


غیر کے دکھڑے بھلا دیتے ہیں لوگ
اپنی خوشیاں تک سنا دیتے ہیں لوگ

ہم اُٹھاتے پھر رہے ہیں اپنا آپ
ہم کو آ آ کر گرا دیتے ہیں لوگ

بیچنے آئے ہیں سچے جذبے ہم
دیکھئے بدلے میں کیا دیتے ہیں لوگ

ناتوانی کا گلہ کیا آپ سے
ہجر میں پتھر بنا دیتے ہیں لوگ

آپ کیجے کام اپنا دل جلا
دیکھئے کب تک ہوا دیتے ہیں لوگ

مسکرا کر بھی ہمیں آیا نہ چین
عشق میں ٹسوے بہا دیتے ہیں لوگ

صاحب اپنا ہم پتا کب جانئے
اب ہمیں اپنا پتا دیتے ہیں لوگ



 

عظیم

محفلین



ہر کوئی بھول جانا پڑتا ہے
ہر کسی کو بھلانا پڑتا ہے

عشق میں دشت کیا جنوں کیسا
شہر تک چھوڑ جانا پڑتا ہے

شہرتیں یُوں نہیں ملا کرتیں
اِک تماشا لگانا پڑتا ہے

بھوک مٹتی ہے تب کہیں جا کر
خود کو ہی بیچ کھانا پڑتا ہے

اتنا آساں کہاں ہے کہنا بات
منہ پہ تالا لگانا پڑتا ہے

ہارنا چاہتے ہو تُم خود سے
آپ سے جیت جانا پڑتا ہے

شیخ آداب یُوں نہیں آتے
رات بھر سر کھپانا پڑتا ہے

اپنی بربادیوں کا دکھڑا ہی
سب کو گا گا سنانا پڑتا ہے

آ تو جاؤں میں آپ تک لیکن
موت کو منہ دکھانا پڑتا ہے

صاحب ایسا بھی کیا دوانا پن
خود کو رو رو ہنسانا پڑتا ہے



 

عظیم

محفلین


ٹوٹتیں بجلیاں زمانے پر
ایک میرے ہی مسکرانے پر

سب نے الزام آ دھرے کیا کیا
دیکھ لو آپ کے دوانے پر

ملئے اغیار سے ہی جا کر اب
ہم نہیں اپنے آستانے پر

اور بھی آ گئی ہمیں ہمت
یار لوگوں کے آ ستانے پر

کیا ملا ہے عظیم کو جانیں
بات کو اس طرح گھمانے پر





 

عظیم

محفلین



اُسے کہہ دو خدارا مان جائے
کہ اس سے قبل میری جان جائے

کروں کن کافروں سے جا کے شکوہ
یقیں میرا مرا ایمان جائے

نہ جانے کس طرف کو جاتا جاتا
ترا وحشی ترا نادان جائے

یہ ڈر ہے اس ہماری بیخودی کو
نہ کوئی دیکھ لے پہچان جائے

پلٹتا ہے وہ کب رستوں سے صاحب
جو گھر سے آخرت کی تھان جائے

دکھائی دور سے دیتا ہے کوئی
کہ جب نذدیک سے انسان جائے

چلا جائے اگر دل سے ترا غم
مرے سر سے کوئی احسان جائے









 

عمر فراز

محفلین
ﺩﺭﺩ، ﻭﮦ ﺁﮒ ﮐﮧ ﺑﺠﻬﺘﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺟﻠﺘﯽ ﺑﻬﯽ
ﻧﮩﯿﮟ
ﯾﺎﺩ، ﻭﮦ ﺯﺧﻢ ﮐﮧ ﺑﻬﺮﺗﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﺭﺳﺘﺎ ﺑﻬﯽ
ﻧﮩﯿﮟ

10527335_745825425507795_4997330697799779484_n.jpg
 
Top