ہم اس بات کے قائل ہیں کہ سفر وسیلۂ ظفر ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ ہمارے میاں جی کا خیال ہے کہ اگر یہ محاورہ بیویوں کی زبان سے ادا ہو تو ان کے شوہروں کے بٹوے کے حق میں سم قاتل ہے۔ 
میاں جی کے ایک قریبی کزن کا تبادلہ جب دوسرے شہر ہوا اور ان سے ملاقات کا جب ارادہ باندھا گیا تو ہم نے بھی انہیں بیویانہ حقوق کا واسطہ دے کر قائل کر لیا کہ چونکہ اس شہر تک "ڈبل ڈیکر ٹرین" جاتی ہے لہذا اگر بچے بھی ساتھ چلیں تو وہ سب ایک دلچسپ تجربے سے محظوظ ہو سکیں گے۔ جبکہ یہاں بھی میاں جی کا رونا تھا کہ ان کا بٹوا ایسے ہی تجربات جھوجھنے کے لئے مختص کر دیا جائے تو نہ وہ صحیح سلامت رہے گا اور نہ اس کا مالک!
گذشتہ چند ہفتہ قبل پہلی بار جنوبی ہند میں ڈبل ڈیکر اے۔سی ٹرین کی شروعات ہوئی تھی جسے حیدرآباد (ریاست تلنگانہ کا دارالخلافہ) تا گنٹور (ریاست آندھرا پردیش کا ایک ضلع ، جسے اسی ریاست کا دارالحکومت بنانے کی تجویز ہے) کی روٹ پر چلایا گیا۔ اور ہمیں جانا تھا بھی گنٹور۔
علی الصباح 5 بجے جب ٹرین حیدرآباد سے گنٹور کے لئے روانہ ہوئی تو حسب روایت بچوں نے کھڑکی کے پاس بیٹھنے کا شور مچا دیا۔
چھوٹی لڑکی کو بہلا پھسلا کر کھڑکی سے ہٹانے کے لئے جب بڑی لڑکی نے کہا کہ نیند کے جھونکے میں جب سر زور سے کھڑکی سے ٹکرائے گا تو شیشہ پھوٹ سکتا ہے اور آپ نیچے گر سکتے ہیں۔ پٹاخ سے جواب آیا:
ڈر کے آگے جیت ہے ، چار دن میں عید ہے
یہ شائد وہاٹس اپ کے پیغامات کی دین ہے اور آجکل تو والدین سے زیادہ بچے اپنے ماں باپ کے موبائل پر اپنے کزنز سے ٹچ میں رہتے ہیں۔ بہرحال بچوں کو سمجھانا پڑا کہ ابھی ٹی ٹی نے ہی اجازت دی ہے کہیں بھی بیٹھنے کی کیونکہ کوچ پورا خالی ہے۔ بچے تو خیر سے ایک ایک کھڑکی سے لگے مناظر دیکھتے دیکھتے سو گئے اور ایک نشست سے ہمارے میاں جی کے خراٹے بھی باقاعدہ نشر ہونے لگے۔ ہم نے کیمرہ سنبھالا اور ٹرین کے اندر کی تصویریں لینی شروع کر دیں۔ چند یہاں ملاحظہ فرمائیں۔
ٹرین واقعی خالی تھی اور بعد میں پتا چلا کہ ڈبل ڈیکر ٹرین کا تجربہ نہ صرف جنوبی ہند میں بلکہ ملک کے کچھ اور مقامات پر ناکام رہا اور یوں ڈبل ڈیکر ٹرین کی چند خدمات معطل بھی کر دی گئیں۔ اب یہ بات تو سیاستدانوں کے ہی سمجھنے لائق ہے کہ عوام مہنگی ٹرین سہولیات نہیں بلکہ روٹی کپڑا اور مکان والی بنیادی ضروریات میں بڑھتی مہنگائی پر روک لگانے کا مطالبہ کرتے ہیں اور کرتے رہیں گے۔
گنٹور حیدرآباد سے کوئی 270 کیلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ ٹرین یا بس سے پانچ تا چھ گھنٹہ سفر کے ذریعے پہنچا جا سکتا ہے۔ حیدرآباد میں تو ان دنوں ٹھنڈا موسم ہے مگر گنٹور کا موسم اچھا خاصا گرم اور رطوبت زدہ نکلا۔ معلوم ہوا کہ وہاں کا موسم تقریباً سارا سال ہی گرم رہتا ہے۔ کچھ دیر آرام کے بعد ہم نے کہا کہ افطار میں چونکہ ابھی کافی وقت ہے کیوں نہ کچھ دیر باہر گھوم لیا جائے۔ دراصل ہمیں "جناح ٹاور" نامی ایک یادگار دیکھنے کی خواہش تھی جس کے متعلق گذشتہ سال ہمارے فارسی کے استاذ نے بتایا تھا کہ تقسیم سے قبل جب محمد علی جناح کے نمائندے کی حیثیت سے لیاقت علی خان کسی کام سے گنٹور آئے تو قائد پاکستان سے عقیدت اور ہم آہنگی کے زیراثر علاقے کی ایک بااثر مسلم شخصیت نے شہر کے مرکزی علاقہ مہاتما گاندھی روڈ کے بیچوں بیچ ایک ٹاور بنا کر اسے "جناح ٹاور" کا نام دیا اور دو مختلف قوموں کے درمیان بڑھتے تعصب کو نظرانداز کر کے یوں "امن کی آشا" کے فروغ کا پیغام دیا تھا۔ اور آج یہ چھوٹا سا ٹاور ہندوستانی آثار قدیمہ میں شمار ہوتا ہے۔ ہم نے سوچا تھا کہ کوئی بلند و بالا ٹاور ہوگا مگر یہ ٹاور شاید 5 میٹر سے زیادہ بلند نہیں اور گولائی میں بھی شاید دو تین میٹر سے زیادہ نہ تھا۔
گنٹور کی دوسری قابل ذکر عمارت دو منزلہ مکمل ایرکنڈیشن مسجد ہے۔ حیدرآباد میں سونے کے زیورات کی خرید و فروخت کے مشہور مرکز محمد خان جویلرز کے مالک نے اسے اپنے نوجوان بیٹے کو ثواب پہنچانے کی نیت سے اللہ کی راہ میں تعمیر کیا ہے جس کا ایک سڑک حادثے میں چند سال قبل انتقال ہو گیا تھا۔ ہمارے میاں جی بتاتے ہیں کہ اتنی شاندار مسجد انہوں نے ریاض میں بھی کم ہی دیکھی ہے۔ دیگر مساجد کے برخلاف مسلکی مذہبی پوسٹرز اور طغروں کے بجائے اندرونی دیواروں پر اللہ کے مختلف ناموں کے طغرے آویزاں کئے گئے ہیں۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ مسجد عتیق الرحمان میں کوئی چندہ وصول نہیں کیا جاتا اور نہ ہی چندے کے ڈبے رکھے گئے ہیں۔ مسجد کے سارے انتظامی و دیگر اخراجات خود محمد خان صاحب ہی اٹھاتے ہیں۔ ہر جمعہ کی دعا میں مرحوم کے لئے بطور خاص دعائے مغفرت کرنے کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ رمضان میں ہر روز بعد تراویح چائے بسکٹ سے مصلیان کی تواضع کی جاتی ہے۔
سفر واقعی وسیلۂ ظفر ہوتا ہے۔ اب بیویوں کو تو شوہر کے بٹوے کا خیال رکھنا ضروری نہیں کہ یہ ان کا ڈپارٹمنٹ نہیں۔ کیونکہ اگر کچن میں دالیں مسالے اور فرج میں گوشت سبزی ختم ہو جائے تو کیا اس کا خیال شوہر رکھتے ہیں؟ یہ تو ہمارا شعبہ ہے اور اسکا خیال بھی ہم کو ہی رکھنا پڑتا ہے۔
خیر ہم کہہ رہے تھے کہ سفر واقعی وسیلہ ظفر ہوتا ہے کیونکہ دوسرے مقامات کا رہن سہن پانی پکوان دیکھنے اور برتنے کے بعد اپنے شہر کی اہمیت ہم پر روشن ہوتی ہے اور کہنا پڑتا ہے کہ حیدرآباد ، حیدرآباد ہے جی!
یہی پیغام 9 سالہ سفر کے یادگار موقع پر اردو محفل کے نام۔ ہم آپ کہیں بھی جائیں ، سوشل میڈیا کے اسیر ہو جائیں ، بلاگر لکھاری بن جائیں ۔۔۔ مگر گھوم پھر کر اپنی ہی اس محفل میں آنا پڑے گا اور کہنا پڑے گا کہ:
دوسرے گو خراب نہیں
اردو محفل کا جواب نہیں
مشکلات پریشانیاں دکھ غم اداسی ویرانی زندگی کا حصہ ہیں ، آئیں گے تو جائیں گے بھی۔۔۔ اچھے دنوں کی آس نہیں کھونی چاہیے۔ اور پھر ہمارے ملک میں تو باقاعدہ ڈائیلاگ بھی مشہور ہے
اچھے دن آنے والے ہیں۔
ڈر کے آگے جیت ہے ، چار دن میں عید ہے
تمام محفلین کو اردو محفل کی 9 ویں سالگرہ مبارک اور عید الفطر کی بھی پیشگی مبارکباد قبول ہو۔
میاں جی کے ایک قریبی کزن کا تبادلہ جب دوسرے شہر ہوا اور ان سے ملاقات کا جب ارادہ باندھا گیا تو ہم نے بھی انہیں بیویانہ حقوق کا واسطہ دے کر قائل کر لیا کہ چونکہ اس شہر تک "ڈبل ڈیکر ٹرین" جاتی ہے لہذا اگر بچے بھی ساتھ چلیں تو وہ سب ایک دلچسپ تجربے سے محظوظ ہو سکیں گے۔ جبکہ یہاں بھی میاں جی کا رونا تھا کہ ان کا بٹوا ایسے ہی تجربات جھوجھنے کے لئے مختص کر دیا جائے تو نہ وہ صحیح سلامت رہے گا اور نہ اس کا مالک!

گذشتہ چند ہفتہ قبل پہلی بار جنوبی ہند میں ڈبل ڈیکر اے۔سی ٹرین کی شروعات ہوئی تھی جسے حیدرآباد (ریاست تلنگانہ کا دارالخلافہ) تا گنٹور (ریاست آندھرا پردیش کا ایک ضلع ، جسے اسی ریاست کا دارالحکومت بنانے کی تجویز ہے) کی روٹ پر چلایا گیا۔ اور ہمیں جانا تھا بھی گنٹور۔

علی الصباح 5 بجے جب ٹرین حیدرآباد سے گنٹور کے لئے روانہ ہوئی تو حسب روایت بچوں نے کھڑکی کے پاس بیٹھنے کا شور مچا دیا۔

چھوٹی لڑکی کو بہلا پھسلا کر کھڑکی سے ہٹانے کے لئے جب بڑی لڑکی نے کہا کہ نیند کے جھونکے میں جب سر زور سے کھڑکی سے ٹکرائے گا تو شیشہ پھوٹ سکتا ہے اور آپ نیچے گر سکتے ہیں۔ پٹاخ سے جواب آیا:
ڈر کے آگے جیت ہے ، چار دن میں عید ہے
یہ شائد وہاٹس اپ کے پیغامات کی دین ہے اور آجکل تو والدین سے زیادہ بچے اپنے ماں باپ کے موبائل پر اپنے کزنز سے ٹچ میں رہتے ہیں۔ بہرحال بچوں کو سمجھانا پڑا کہ ابھی ٹی ٹی نے ہی اجازت دی ہے کہیں بھی بیٹھنے کی کیونکہ کوچ پورا خالی ہے۔ بچے تو خیر سے ایک ایک کھڑکی سے لگے مناظر دیکھتے دیکھتے سو گئے اور ایک نشست سے ہمارے میاں جی کے خراٹے بھی باقاعدہ نشر ہونے لگے۔ ہم نے کیمرہ سنبھالا اور ٹرین کے اندر کی تصویریں لینی شروع کر دیں۔ چند یہاں ملاحظہ فرمائیں۔



ٹرین واقعی خالی تھی اور بعد میں پتا چلا کہ ڈبل ڈیکر ٹرین کا تجربہ نہ صرف جنوبی ہند میں بلکہ ملک کے کچھ اور مقامات پر ناکام رہا اور یوں ڈبل ڈیکر ٹرین کی چند خدمات معطل بھی کر دی گئیں۔ اب یہ بات تو سیاستدانوں کے ہی سمجھنے لائق ہے کہ عوام مہنگی ٹرین سہولیات نہیں بلکہ روٹی کپڑا اور مکان والی بنیادی ضروریات میں بڑھتی مہنگائی پر روک لگانے کا مطالبہ کرتے ہیں اور کرتے رہیں گے۔
گنٹور حیدرآباد سے کوئی 270 کیلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ ٹرین یا بس سے پانچ تا چھ گھنٹہ سفر کے ذریعے پہنچا جا سکتا ہے۔ حیدرآباد میں تو ان دنوں ٹھنڈا موسم ہے مگر گنٹور کا موسم اچھا خاصا گرم اور رطوبت زدہ نکلا۔ معلوم ہوا کہ وہاں کا موسم تقریباً سارا سال ہی گرم رہتا ہے۔ کچھ دیر آرام کے بعد ہم نے کہا کہ افطار میں چونکہ ابھی کافی وقت ہے کیوں نہ کچھ دیر باہر گھوم لیا جائے۔ دراصل ہمیں "جناح ٹاور" نامی ایک یادگار دیکھنے کی خواہش تھی جس کے متعلق گذشتہ سال ہمارے فارسی کے استاذ نے بتایا تھا کہ تقسیم سے قبل جب محمد علی جناح کے نمائندے کی حیثیت سے لیاقت علی خان کسی کام سے گنٹور آئے تو قائد پاکستان سے عقیدت اور ہم آہنگی کے زیراثر علاقے کی ایک بااثر مسلم شخصیت نے شہر کے مرکزی علاقہ مہاتما گاندھی روڈ کے بیچوں بیچ ایک ٹاور بنا کر اسے "جناح ٹاور" کا نام دیا اور دو مختلف قوموں کے درمیان بڑھتے تعصب کو نظرانداز کر کے یوں "امن کی آشا" کے فروغ کا پیغام دیا تھا۔ اور آج یہ چھوٹا سا ٹاور ہندوستانی آثار قدیمہ میں شمار ہوتا ہے۔ ہم نے سوچا تھا کہ کوئی بلند و بالا ٹاور ہوگا مگر یہ ٹاور شاید 5 میٹر سے زیادہ بلند نہیں اور گولائی میں بھی شاید دو تین میٹر سے زیادہ نہ تھا۔

گنٹور کی دوسری قابل ذکر عمارت دو منزلہ مکمل ایرکنڈیشن مسجد ہے۔ حیدرآباد میں سونے کے زیورات کی خرید و فروخت کے مشہور مرکز محمد خان جویلرز کے مالک نے اسے اپنے نوجوان بیٹے کو ثواب پہنچانے کی نیت سے اللہ کی راہ میں تعمیر کیا ہے جس کا ایک سڑک حادثے میں چند سال قبل انتقال ہو گیا تھا۔ ہمارے میاں جی بتاتے ہیں کہ اتنی شاندار مسجد انہوں نے ریاض میں بھی کم ہی دیکھی ہے۔ دیگر مساجد کے برخلاف مسلکی مذہبی پوسٹرز اور طغروں کے بجائے اندرونی دیواروں پر اللہ کے مختلف ناموں کے طغرے آویزاں کئے گئے ہیں۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ مسجد عتیق الرحمان میں کوئی چندہ وصول نہیں کیا جاتا اور نہ ہی چندے کے ڈبے رکھے گئے ہیں۔ مسجد کے سارے انتظامی و دیگر اخراجات خود محمد خان صاحب ہی اٹھاتے ہیں۔ ہر جمعہ کی دعا میں مرحوم کے لئے بطور خاص دعائے مغفرت کرنے کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ رمضان میں ہر روز بعد تراویح چائے بسکٹ سے مصلیان کی تواضع کی جاتی ہے۔

سفر واقعی وسیلۂ ظفر ہوتا ہے۔ اب بیویوں کو تو شوہر کے بٹوے کا خیال رکھنا ضروری نہیں کہ یہ ان کا ڈپارٹمنٹ نہیں۔ کیونکہ اگر کچن میں دالیں مسالے اور فرج میں گوشت سبزی ختم ہو جائے تو کیا اس کا خیال شوہر رکھتے ہیں؟ یہ تو ہمارا شعبہ ہے اور اسکا خیال بھی ہم کو ہی رکھنا پڑتا ہے۔
خیر ہم کہہ رہے تھے کہ سفر واقعی وسیلہ ظفر ہوتا ہے کیونکہ دوسرے مقامات کا رہن سہن پانی پکوان دیکھنے اور برتنے کے بعد اپنے شہر کی اہمیت ہم پر روشن ہوتی ہے اور کہنا پڑتا ہے کہ حیدرآباد ، حیدرآباد ہے جی!
یہی پیغام 9 سالہ سفر کے یادگار موقع پر اردو محفل کے نام۔ ہم آپ کہیں بھی جائیں ، سوشل میڈیا کے اسیر ہو جائیں ، بلاگر لکھاری بن جائیں ۔۔۔ مگر گھوم پھر کر اپنی ہی اس محفل میں آنا پڑے گا اور کہنا پڑے گا کہ:

دوسرے گو خراب نہیں
اردو محفل کا جواب نہیں
مشکلات پریشانیاں دکھ غم اداسی ویرانی زندگی کا حصہ ہیں ، آئیں گے تو جائیں گے بھی۔۔۔ اچھے دنوں کی آس نہیں کھونی چاہیے۔ اور پھر ہمارے ملک میں تو باقاعدہ ڈائیلاگ بھی مشہور ہے
اچھے دن آنے والے ہیں۔
ڈر کے آگے جیت ہے ، چار دن میں عید ہے

تمام محفلین کو اردو محفل کی 9 ویں سالگرہ مبارک اور عید الفطر کی بھی پیشگی مبارکباد قبول ہو۔