موجودہ انتخابی نظام جمہوریت کی نفی ہے ؛ کنور دلشاد

الف نظامی

لائبریرین
وزیراعظم نوازشریف نے انتخابی اصلاحات پر پارلیمانی کمیٹی بنانے کے لئے قومی اسمبلی کے سپیکر سردار ایاز صادق اورسینٹ کے چیئرمین سید نیرحسین بخاری کو عملی قدم اُٹھانے کے لئے خطوط لکھے ہیں۔ قومی اسمبلی میں اپوزیشن جماعتوں نے انتخابی اصلاحات کے معاملے پر متفقہ لائحۂ عمل اختیار کرنے پر اتفاق کیا ہے اوراپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ کی زیر صدارت اپوزیشن جماعتوں کے پارلیمانی رہنمائوں کے اجلاس میں انتخابی اصلاحات پر سب کو ساتھ لے کر چلنے کا بھی عندیہ دیا ہے۔ پارلیمنٹ کے مقتدر حلقوں کو باورکرانے اور انہی کے مفاد کے پیشِ نظر مَیں یہ لکھنے کی جسارت کر رکھا ہوں کہ الیکشن کمیشن نے بین الاقوامی مبصرین کی سفارشات کی روشنی میں 18فروری 2008ء کے قومی انتخابات کے فوراً بعد انتخابی نظام کو عصرِ جدید سے ہم آہنگ کرنے کے لئے انتخابی اصلاحات کمیشن میری سربراہی میں بنایا تھا تاکہ ملکی اور بین الاقوامی تناظر میں پاکستان کے انتخابی نظام پر نظر ثانی کی جائے جس کی بنیاد 1973ء کے دستورکے تحت عوامی نمائندگی ایکٹ 1976ء میں رکھی گئی ۔ میں قارئین کی سہولت کے لئے بھی یہ حیرت انگیز انکشاف کر رہا ہوں کہ پاکستان اور بھارت میں الیکشن کے 90فیصدسے زائد قوانین لارڈ منٹو انتخابی اصلاحات کمیشن 1911ء سے ہی اخذ کئے گئے ہیں۔چنانچہ آزادی کے بعد برصغیر پاک و ہند کے دونوں ملکوں میں جو انتخابی قوانین بنائے گئے وہ لارڈ منٹو انتخابی اصلاحات سے مستعار لے گئے ہیں۔

الیکشن کمیشن کی انتخابی اصلاحات کے لئے جو کمیٹی میری سربراہی میں بنائی گئی اس میں کمیشن کے چاروں صوبوں کے الیکشن کمشنر، الیکشن کمیشن سیکرٹریٹ کے مستند ، فعال اور ذہین تر سینئر افسران شامل تھے۔ 8 ماہ کی کوششوں کے بعد بطور وفاقی سیکرٹری الیکشن کمیشن وچیئرمین انتخابی اصلاحات الیکشن کمیشن‘ میں نے اس وقت کے چیف الیکشن کمشنر جسٹس قاضی محمد فاروق، ارکان الیکشن کمیشن جسٹس نسیم سکندر، جسٹس جہانزیب، جسٹس احمد خان لاشاری اور جسٹس شالیانی کی منظوری سے کمیشن کی جامع رپورٹ 11مارچ 2009ء کو اس وقت کے وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی کو پیش کی تھی۔ بعد میں وزیراعظم نے یہ رپورٹ اس وقت کی سپیکر قومی اسمبلی محترمہ فہمیدہ مرزاکو بھجوادی اورانہوں نے یہ رپورٹ پارلیمانی کمیٹی برائے اُمورانصاف و قانون کوبھجوادی تاکہ وہ اسی کی روشنی میں قانون سازی کرے۔اس پارلیمانی کمیٹی کے سربراہ محمد اقبال قادری تھے اور ارکان میں تقریباً سبھی جماعتوں کے پارلیمانی ارکان کے علاوہ انصاف، قانون اور پارلیمانی اُمورکے وفاقی وزیر ڈاکٹر بابر اعوان شامل تھے۔اس رپورٹ پر میں نے بطور وفاقی سیکرٹری الیکشن کمیشن مذکورہ کمیٹی کو تین بار جامع بریفنگ دی اور پارلیمانی قوانین کے مطابق اس رپورٹ پر تین بارخواندگی کا عمل بھی مکمل ہو چکا تھا۔
پرنٹ اورالیکٹرانک میڈیا نے انتخابی اصلاحات سے متعلق الیکشن کمیشن کی اس جامع رپورٹ کو پاکستان کے انتخابی نظام میں تبدیلی کی طرف درست قدم قرار دیا تھا۔ صدر آصف علی زرداری نے میری ان کوششوں کے اعتراف میں میرے لئے ہلال امتیازکا ایوارڈ دینے کے لئے وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی کو ریفرنس بھی بھیجا تھا جوکیبنٹ ڈویژن اور دوسرے متعلقہ اِدارے کے ریکارڈ میں موجود ہے۔اس وقت کیبنٹ ڈویژن کی یہ روایت نافذالعمل تھی کہ حاضر سول سرونٹ کو 1973ء کی ایڈمنسٹریٹو پالیسی کے تحت سول ایوارڈ نہیں دیا جاسکتا، لیکن جب نرگس سیٹھی صاحبہ کیبنٹ سیکرٹری مقرر ہوئیں تو انہوں نے اور ان کے قریبی ساتھیوں نے Personal Specificationکی پالیسی کے تحت اس قانون میں ترمیم کرا کے خود بھی اعلیٰ سول ایوارڈ حاصل کیا اور اپنے قریبی ساتھیوں کو بھی نوازا۔

آئین میں 18ویں ترمیم کے موقع پر پارلیمنٹ نے ان انتخابی اصلاحات کو مدِ نظر رکھا اور اس میں سے چیف الیکشن کمشنر، ارکان الیکشن کمیشن، چیف الیکشن کمشنر کی مدت ملازمت اور نگران سیٹ اپ میں الیکشن کمیشن کی معاونت کے لئے آئین میں ترامیم کیں۔ اب کیونکہ وزیراعظم نے سینٹ اور قومی اسمبلی پر مشتمل انتہائی فعال اور طاقتور انتخابی اصلاحات کمیٹی بنانے کا فیصلہ کر لیا ہے تو موجودہ پارلیمنٹ کے مقتدر حلقوں کو اس رپورٹ سے استفادہ کرنا چاہیے۔ قومی اسمبلی کے سپیکر الیکشن کمیشن سے یہ رپورٹ حاصل کر سکتے ہیں۔ یہ رپورٹ سینیٹر رضا ربانی کے زیر مطالعہ بھی رہی ہے۔

ہم جس نظام کو جمہوریت کا نام دیتے ہیں وہ دراصل معاشرے میں موجود ایسے افراد یا ایسے خاندانوں کو حق حاکمیت دینے کا نظام ہے جو یا تو موروثی طور پر یا پھر ناجائز ذرائع سے مملکت کے وسائل پر قابض ہوتے ہیں۔اس نظام کو جمہوریت کا نام صرف اس بنیاد پر دیا جاتا ہے کہ اس میں حق حاکمیت کا فیصلہ ایک ایسے انتخابی عمل کے ذریعے ہوتا ہے جس میں عوام پانچ برس میں صرف ایک دن اپنے آپ کو بااختیار سمجھتے ہیں، یعنی وہ دن جب وہ اپنا قیمتی ووٹ ڈالنے کے لئے گھر سے نکلتے ہیں۔ یہ قیمتی ووٹ وہ علاقے کے طاقتورگروہ کے حق میں ڈالتے ہیں، ستم ظریفی یہ ہے کہ یہ نظام جمہور یعنی عوام کو اپنا لیڈر اور اپنا حاکم خود منتخب کرنے کا حق نہیں دیتا،وہ اپنا یہ حق علاقے کی بااثر برادری کے دباو میں دیتے ہیں اور وہ بااثر شخصیات اسمبلی میں جا کر اس حق کی پوری قیمت وصول کرتا ہے۔

اس نظام کو ڈھائی سو برس قبل روسو نے منتخب امرائے شاہی (Elected Oilgarchy)کا نام دے دیا تھا۔ روسو نے اپنی تصنیف New Social Contractیعنی نیا عمرانی معاہدہ میں لکھا تھا:
''جس نظام میں جمہورکو احساس حاکمیت سے سرشار ہونے کا موقع صرف چند ساعتوں کے لئے ووٹ ڈالنے والے دن ملے اور دوبارہ اس احساس سے روشناس ہونے کے لئے انہیں اگلے انتخابات کا طویل انتظارکرنا پڑے،اس نظام کو جمہوری یا عوام کی حکمرانی کا نام دینا انسانیت کی تذلیل اور انسانی شعورکی توہین ہے‘‘

جمہوریت کا مطلب میری نگاہ کے مطابق اس کے سوا اورکوئی نہیں ہے کہ ہر قصبے، سیکٹر، یا شہرکے عوام اپنے معاملات زندگی چلانے کا اختیارخود اپنے ہاتھوں میں رکھتے ہوں اور یہ صرف اسی صورت میں ممکن ہے کہ اقتدار اعلیٰ مقامی سطح پر قائم سات ہزار یونین کونسلوں کے ہاتھوں میں ہو۔
 
چند کی ورڈز برائے تحقیق و تفہیم:-
"ارتکازِ اختیارات "
"ارتکازِ وسائل"
"پرو ایکٹو سٹیزن شپ"

یار یہ کی ورڈز تو ٹھیک ہیں پر ہمارے نچلے درجے کے عوام جاہل ہیں ۔ اگر اقتدار ان کے ہاتھ اگیا تولوٹ کھائیں گے۔ مثال ایم کیوایم۔ کچھ کچھ کے پی کے کی حکومت بھی
 
Top