پیشہ کےدوران جب آپ نے کٹھنائیوں کے باوجود ایمان داری سے کام کیا

رشوت کی آفر تھی
بہت دباؤ تھا
تگڑی سفارش تھی
۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔لیکن۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔
آپ کسی دباؤ کے آگے نہ جھُکے
کوئی رشوت قبول نہ کی
کسی کی سفارش کو لفٹ نہ کرائی
۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔یا۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔
آپ نے اپنی جاب بغیر سفارش،رشوت یا دباؤ کے حاصل کی ہو۔۔۔ یا اپنا کوئی ایسا جائز کام بغیر کسی ناجائز ہتھکنڈے کے کرایا ہو جو بظاہر ناممکن لگتا ہو۔

ایسے بندے ہوتے ہیں محترمہ ۔ اور وہ چپکے چپکے اپنے کام میں لگے رہتے ہیں۔ وہ اعلان نہیں کیا کرتے کہ میں نے یہ کیا تھا، میں نے وہ کیا تھا۔ اصل جو بات ہے وہ یہ ہے کہ آپ کے دل میں اللہ کا خوف اور سچائی سے محبت کتنی ہے۔ یہ دونوں چیزیں جس دل میں جتنی زیادہ ہوں گی، اتنا ہی وہ محتاط رہے گا۔ شاید یہی تقوے کا پیمانہ ہے۔ اللہ صبر جمیل سے نوازے۔
 
کامیابی اور فلاح کا معیار دو طرح کا ہے۔ ایک اس طبقے کا جسے یا تو مرنا ہی نہیں ہے، یا پھر انہیں یقین ہے کہ دوسرے عالم میں ان کے لئے کچھ بھی نہیں، یہیں جو ہو سکتا ہے جمع جتھا کرو، کھاؤ اڑاؤ، حکومت کرو، عیش کرو کہ عالم دبارہ نیست، وغیرہ۔ دوسرا طبقہ وہ ہے جسے یقین ہے کہ مجھے مرنا ہے اور میرے سامنے ایک اور عالم بھی ہے جس میں مجھے مار بھی پڑ سکتی ہے اور انعام بھی مل سکتا ہے۔ اس کے معیارات یقیناً مختلف ہوں گے۔ ان دونوں کے درمیان جو خط ہے (حدِّ فاصل کہہ لیجئے) وہ مفاہمت میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔

اللہ کریم نے تو فرما دیا کہ ’’انسان کو وہی کچھ ملے گا جس کے لئے وہ تگ و دو کرے گا‘‘۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ فلاح، صبر، شکر، اور فوز ۔۔۔ ان کی درست تفہیم کی جائے۔ اللہ کریم توفیق سے نوازے۔
 
ایسے بندے ہوتے ہیں محترمہ ۔ اور وہ چپکے چپکے اپنے کام میں لگے رہتے ہیں۔ وہ اعلان نہیں کیا کرتے کہ میں نے یہ کیا تھا، میں نے وہ کیا تھا۔ اصل جو بات ہے وہ یہ ہے کہ آپ کے دل میں اللہ کا خوف اور سچائی سے محبت کتنی ہے۔ یہ دونوں چیزیں جس دل میں جتنی زیادہ ہوں گی، اتنا ہی وہ محتاط رہے گا۔ شاید یہی تقوے کا پیمانہ ہے۔ اللہ صبر جمیل سے نوازے۔
کچھ باتیں کہنے کہ جسارت، آپ ذرا اس کو دیکھئے اور اپنی رائے سے نوازیں کہ میں درست ہوں یا غلط ،،،،،،،،،،،
1-عمل کی جزا کا درومدار نیت پر ہے
2
-بے شک عمل کا اسلامی لحاظ سے درست ہونا پہلی شرط ہے، نیت کا معاملہ بعد میں آتا ہے
3-، اگر ایک مستحسن عمل صرف اللہ کی رضا کے لیے کیا جائے اور پھر ترغیب کی نیت سے اعلان کیاجائے تو اس میں کوئ حرج نہیں مانا جاتا، بلکہ کار ثواب ہو گا

مثلا الف اس رمضان میں بھی اپنے زمین ، اپنے سونے، اپنی کیش کا حساب کر رہا ہے اور اس کا زکوة ادا کرنے کا پکا ارادہ ہے تو اس کا یہ اعلان ترغیب کی نیت سے ہے تو اس کا معاملہ یقینا درست ہونا چاہیے
نوٹ -میں کوشش کرتا ہوں کہ زید یا بکر کہ جگہ الف یا با وغیرہ استعمال کروں
کہ فورٹ ویلیم کالج کے استعمال کردہ لفظ زید یا بکر ، مجھے ذاتی طور پر ادب کے تقاضے کے خلاف لگتے ہیں
 
آپ کے ماموں واقعی مرزائی ہیں؟ عام طور پر مرزائی تحقیر کے لئے کہتے ہیں، جیسے مسلمانوں کو محمڈن کہنا۔ احمدی کہہ لیجئے
میرا خیال ہے کہ رموز اوقاف کا خیال نہ رکھنا، بعض اوقات ذومعنی ہو جاتا ہے
اس کا ایک مطلب یوں بھی ہو سکتا تھا کہ مرزائی فرد،ماموں کا دوست ہے
لیکن اپ کا اخذ کردہ مطلب زبان کے لحاظ سے درست لگتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میرے خیال میں مرزائی کہنا ضروری تحقیر کے لیے استعمال نہیں ہوتا، ہاں یہ الگ بات ہے کہ کچھ علاقوں میں مسلمان ان سے سخت نفرت کرتے ہیں اور حقیر جانتے ہیں
 

ساقی۔

محفلین
ایک دفعہ ایک شخص میرے پاس آیا اور کہا کہ میرے بیٹے کو کسی ادارے میں جاب مل رہی ہے مگر ادارے والے کہتے ہیں کہ مطلوبہ کورس کا ڈپلومہ دکھانا ضروری ہے آپ ایسا کرو مجھے ڈپلومہ بنا دو اور اپنا معاوضہ بتا دو ۔
پہلے تو میں نے سوچا کہ اس کے ساتھ نیکی کر دیتا ہوں ،شاید میری وجہ سے اس کے بیٹے کو نوکری مل جائے ۔ مگر پھر سوچ آئی کہ یہ نیکی نہیں بد دیانتی ہو گی کہ ایک شخص جو مطلوبہ صلاحیت و قابلیت نہیں رکھتا میں اسے ایسی سیٹ پر بیٹھنے کا موقع دوں گا جہاں وہ نجانے کس کس کے حق مارے گا اور ان سب کا گناہ میرے کھاتے میں لکھا جائے ۔

اللہ نے کرم کیا اور میں نے اسے کھرا سا جواب دے دیا۔
 
کچھ باتیں کہنے کہ جسارت، آپ ذرا اس کو دیکھئے اور اپنی رائے سے نوازیں کہ میں درست ہوں یا غلط ،،،،،،،،،،،
1-عمل کی جزا کا درومدار نیت پر ہے
2
-بے شک عمل کا اسلامی لحاظ سے درست ہونا پہلی شرط ہے، نیت کا معاملہ بعد میں آتا ہے
3-، اگر ایک مستحسن عمل صرف اللہ کی رضا کے لیے کیا جائے اور پھر ترغیب کی نیت سے اعلان کیاجائے تو اس میں کوئ حرج نہیں مانا جاتا، بلکہ کار ثواب ہو گا

مثلا الف اس رمضان میں بھی اپنے زمین ، اپنے سونے، اپنی کیش کا حساب کر رہا ہے اور اس کا زکوة ادا کرنے کا پکا ارادہ ہے تو اس کا یہ اعلان ترغیب کی نیت سے ہے تو اس کا معاملہ یقینا درست ہونا چاہیے
نوٹ -میں کوشش کرتا ہوں کہ زید یا بکر کہ جگہ الف یا با وغیرہ استعمال کروں
کہ فورٹ ویلیم کالج کے استعمال کردہ لفظ زید یا بکر ، مجھے ذاتی طور پر ادب کے تقاضے کے خلاف لگتے ہیں
یہ اچھی سوچ ہے فورٹ ویلیم کالج کا اپنا ایک مقاصد نامہ تھا سب کو پتہ ہے۔ اتفاق سے میں بھی یا تو الف بے جیم لکھتا ہوں یا میں آپ وہ ۔۔۔۔۔۔۔
نیت اور عمل میں باہمی تقدیم و تاخیر کو طے کرنا میرے لئے مشکل ہے۔
میری زندگی کے معاملات شاید بڑے لوگوں والے رہے ہی نہیں کبھی۔ کہ میں اتنے بڑے بڑے کام کروں جو بہت وقیع رہے ہوں یا دوسروں پر ویسے اثر انداز ہوئے ہوں جیسے خاتونِ محترم نے افتتاحیہ میں لکھا ہے۔ اپنی خوشیاں بھی چھوٹی چھوٹی اپنے غم بھی چھوٹے چھوٹے۔ ایک دو مثالیں البتہ کسی وقت پیش کر دوں گا۔
بہت آداب۔
 
ناصر علی مرزا صاحب کی توجہ خاص طور پر ’’مطلوب ہے‘‘ ۔
بندہ پھول جاتا ہے کہ میں نے نیکی کی ہے۔ ترغیب کی بات پر میری زندگی کا حاصل جان لیجئے۔
میں نے الحمد للہ چھ بچوں کی شادیاں کیں۔ تین بیٹے، تین بیٹیاں۔ اور جہیز نہ لیا نہ دیا۔
ایک فریق سے (جس کی طرف سے جہیز کے مطالبے کا امکان تھا) میں نے بیٹی کا رشتہ طے کرنے سے پہلے کہہ دیا تھا کہ ’’بہن! اگر میری بیٹی کو دل سے اپنی بیٹی بنانا چاہتی ہیں تو جب جی چاہے دو چار دس مہمان لے کر آ جائیں اور بیٹی کو لے جائیں ۔ اور اگر دیگچیاں اور رضائیاں اور کرسیاں اور صوفے اور فرج اولیت رکھتے ہیں تو کوئی ایسا گھرانہ ابھی دیکھ لیجئے۔‘‘ وہ چیں بہ جبیں تو ہوئیں تاہم انہوں نے اپنا مطالبہ ترک کر دیا۔
ایک بیٹے کے (اس وقت ہونے والے) سسر نے مجھ سے کہا: ’’میں فرنیچر کا آرڈر دینے والا ہوں، آپ یہ بتائیے کہ فرنیچر براہ راست آپ کے ہاں پہنچا دیا جائے؟‘‘ میں نے کہا: ’’نہیں صاحب۔ اپنی دولت یوں ایک بچی کو نہ دے دیجئے جس پر آپ کی چاروں بچیوں اور بیٹے کا حق مقرر ہے‘‘۔ انہی دنوں میرے بیٹے کا فون آ گیا کہ ابو جی مجھے خبر ملی ہے وہ لوگ جہیز وغیرہ تیار کر رہے ہیں، ان کو منع کر دیں‘‘۔ میں نے اللہ کا شکر ادا کیا۔ نکاح کے بعد بھی سمدھی صاحب بضد تھے کہ میں تو سامان بنواؤں گا۔ پڑھے لکھے صاحب تھے (اللہ مغفرت فرمائے) سمجھانے پر سمجھ گئے اور اپنا ارادہ ترک کر دیا۔
ایک بیٹی کا رشتہ برادری سے باہر ہوا۔ دو طرفہ رضامندی کا اظہار ہو چکا تھا۔ دعائے خیر کے دن وہ لوگ میرے مہمان ہوئے۔ لڑکے کے بڑے بھائی (ایم اے اسلامیات اور پیشہ تدریس) مجھے کہنے لگے: چاچو جہیز کے بارے میں کچھ؟ میں نے کہا: مجھے یہ فرمائیے کہ شریعت کیا کہتی ہے؟ بولے: شریعت میں تو کوئی جہیز نہیں ہوتا۔ میں نے کہا: اللہ آپ کا بھلا کرے، ہم نیا کام کیوں کریں!۔

اہم بات جو یہاں بتانے کی ہے کہ اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے، بچیاں بچے اولادوں والے ہو گئے۔ ایک نواسی تو انیس برس کی ہو گئیں۔ کسی بھی طرف سے کبھی کسی بھی سطح پر یہ مسئلہ نہیں اٹھایا گیا۔ اور نہ اس بنا پر کوئی گھریلو ناجاقی یا طعن و تشنیع ہوئی ہے۔

ایک اور اہم تر بات ۔۔ میرے اسی بیٹے کی سالی کے نکاح کی بات بعد میں چلی۔ لڑکے نے پہلے کہہ دیا کہ جہیز کو اس معاملے سے نکال باہر کیا جائے۔ وہ میاں بیوی بھی ماشا اللہ خوش ہیں۔ انہیں پچھلے دنوں اللہ تعالیٰ نے چاند سا بیٹا عطا کیا ہے۔ اللہ کریم برکات سے نوازے۔ میں اس لڑکے سے ملا تو پوچھا: میاں آپ کو جہیز سے انکار کی کیا سوجھی؟ بولا: وہی سوجھی انکل، جو آپ کو اور بھائی کو سوجھی تھی (’’بھائی‘‘ سے مراد پیرا بیٹا تھا)۔

بعد میں اپنے ہی محلے میں ایک لڑکے کی ماں نے جہیز لینے سے انکار کر دیا اور لڑکی والوں کو پہلے بتا دیا کہ جہیز تیار نہ کریں۔

اللہ کریم ہم سب کے لئے آسانیاں پیدا فرمائے۔ کچھ ہلنا جلنا تو کرنا پڑتا ہے، باتیں بھی سننی پڑتی ہیں۔
 
میرے ایک بیٹے کی شادی اپنے ماموں کے گھر میں ہوئی۔ بات پکی ہو گئی اس سے پہلے انہیں بتا دیا تھا کہ رخصتی ایک مہینے کے اندر اندر کرنی ہو گی، اور اس جلدی کی وجوہات بھی تفصیلا زیرِ بحث آئیں۔ بچے کے ماموں (مجھ سے چھوٹے ہیں) کہنے لگے: بھائی جان! میں اتنی جلدی کیسے کر سکتا ہوں، جہیز اور کھانا اور تیاریاں اور ۔۔۔ میں نے ٹوک دیا: یار کیا کہہ رہے ہو؟ یہ جہیز کس بیماری کا نام ہے؟ اور رہا کھانا تو بھائی میرا آپ کا طے ہوتا ہے کہ جو لوگ بارات کے ساتھ ہوں گے ان کا کھانا میرے ذمے، انتظام تم کرو گے، میرے حصے کا خرچ مجھ سے تب لے لو یا ابھی لے لو۔ پھر اپنی گھر والی کے اشارے پر میں نے ’’اپنے‘‘ مہمانوں کے کھانے کا اندازاً خرچ دے دیا۔ اللہ اللہ خیر سلا۔ طے شدہ دن پر ہم لوگ گئے، نکاح ہوا اور بیٹی (بہو) کو ساتھ لے کر آ گئے۔
 

قیصرانی

لائبریرین
میرے ایک بیٹے کی شادی اپنے ماموں کے گھر میں ہوئی۔ بات پکی ہو گئی اس سے پہلے انہیں بتا دیا تھا کہ رخصتی ایک مہینے کے اندر اندر کرنی ہو گی، اور اس جلدی کی وجوہات بھی تفصیلا زیرِ بحث آئیں۔ بچے کے ماموں کہنے لگے: بھائی میں اتنی جلدی کیسے کر سکتا ہوں، جہیز اور کھانا اور تیاریاں اور ۔۔۔ میں نے ٹوک دیا: یار کیا کہہ رہے ہو؟ یہ جہیز کس بیماری کا نام ہے؟ اور رہا کھانا تو بھائی میرا آپ کا طے ہوتا ہے کہ جو لوگ بارات کے ساتھ ہوں گے ان کا کھانا میرے ذمے، انتظام تم کرو گے، میرے حصے کا خرچ مجھ سے تب لے لو یا ابھی لے لو۔ پھر اپنی گھر والی کے اشارے پر میں نے ’’اپنے‘‘ مہمانوں کے کھانے کا اندازاً خرچ دے دیا۔ اللہ اللہ خیر سلا۔ طے شدہ دن پر ہم لوگ گئے، نکاح ہوا اور بیٹی (بہو) کو ساتھ لے کر آ گئے۔
ماشاء اللہ
 

قیصرانی

لائبریرین
واقعی ایسا ہے۔ لیکن تحقیر کے لئے نہیں کہتے۔ ( مجھے یہ علم بھی نہیں تھا)۔احمد پیارے نبیﷺ کا نام ہے اِس لئے احمدی نہیں کہتے۔

اصل میں اُنھوں نے مجھے بھی قادیانی سمجھ لیا تھا۔اُنھیں تیزی سے بات کرنے کی عادت تھی۔ مختصر سے وقت میں ماموں کے ساتھ مجھے دیکھ کر تعارف حاصل کیا اور کہا کہ پہلے بتانا تھا کہ بھانجی احمدی ہے تو اور بہتر نمبر دلواتا۔ کوئی بات نہیں۔اب پتہ چل گیا ہے۔ اس کا رول نمبر بتانا۔ جاب مل جائے گی۔
خود ہی نیچے احمدی لکھ دیا ہے؟ :)
دیکھئے، توہین مذہب کسی کے لئے جائز نہیں ہے
 

تلمیذ

لائبریرین
جنا ب آسی ساحب، فی زمانہ آپ اور آپ کی اولاد کے نصیب پر رشک آتا ہے، اللہ انہیں سلامت رکھے اور مزیدخوشیوں سے نوازے۔ آمین۔
 
اسی ضمن میں ایک دل چسپ بات ۔۔۔۔ یہاں کے وُڈ ورکر کے حوالے سے۔

ہمارے پرانے جاننے والے ایک صاحب ہیں یہاں فرنیچر کا کام کرتے ہیں۔ پہلے بیٹے کی شادی پر اُن صاحب کو بلوایا گیا کہ بھائی، کمرہ دیکھ لو، اس میں پلنگ، سائڈ ٹیبلز، الماری وغیرہ کیسے کیسے سیٹ ہو گی، اور پھر بھاؤ تاؤ اور فرنیچر کا آرڈر دے دیا۔ دوسرے بیٹے کی شادی پر بھی اسی طرح ہوا، اور تیسرے کی شادی پر بھی۔
میری ملاقات ان سے تیسرے بیٹے کی شادی سے کچھ دن پہلے ہوئی، باقی معاملات لڑکوں نے خود ہی سنبھالے ہوئے تھے۔ جناب وُڈ ورکر مجھے کہنے لگے: بھائی جان یہ آپ کے ہاں دیکھا ہے صرف، کہ بہو کے کمرے میں فرنیچر وغیرہ آپ مہیا کر رہے ہیں، وہ تو لڑکی والوں کی طرف سے ہوتا ہے۔ ان کو میں نے مطمئن کر دیا۔
کہنے لگے دراصل پریشانی میرے سامنے ہے۔ میری بیٹی کی شادی ہے اور مجھے اس کے لئے جہیز بنانا ہے۔ محنت کش آدمی ہوں مشکل مرحلہ آن پڑا ہے، آگے اس سے چھوٹی دو بیٹیاں ہیں۔ آپ نے تو کمال کر دیا، لڑکی والوں کا بوجھ ہلکا کر دیا۔ اس بار کا تو طے ہو چکا، دعا کیجئے مجھے کوئی آپ لوگوں جیسا سمدھانہ مل جائے۔
 
جنا ب آسی ساحب، فی زمانہ آپ اور آپ کی اولاد کے نصیب پر رشک آتا ہے، اللہ انہیں سلامت رکھے اور مزیدخوشیوں سے نوازے۔ آمین۔
یہ سب اللہ کا کرم ہے محترم۔ میری صرف ایک کوشش رہی ہے۔ اپنے وسائل میں جیا ہوں، روکھی کھا لی سوکھی کھا لی۔ ناجائز اور حرام سے اللہ کی پناہ میں نے حتی الوسع قرض لینے سے بھی گریز کیا ہے، تا آنکہ کوئی بہت بڑی مجبوری آن پڑی ہو۔ یہاں مجھے ایک بینک مینجر بڑی شدت سے یاد آ رہے ہیں۔
بارے ایسا ہوا کہ مجھے کوئی راہ سجھائی نہیں دے رہی تھی سوائے قرض لینے کے۔ میری تنخواہ بینک میں جاتی تھی، میں مینیجر صاحب کے پاس چلا گیا کہ مجھے اتنا قرض لینا ہے۔ کہنے لگے آپ بیس تنخواہوں کے برابر قرض لے سکتے ہیں جو آپ کو پچاس مہینوں میں مع سود ادا کرنا ہو گا۔ حساب وغیرہ کیا تو اندازہ ہوا کہ سو کے ایک اسی دینے ہوں گے۔ میری مجبوری تھی، تاہم دل مان نہیں رہا تھا کہ سود پر قرضہ لوں۔ مینجر صاحب نے شاید میری کیفیت بھانپ لی، کہنے لگے: اپنے پیشہ ورانہ فرائض کے خلاف بات کرنے لگا ہوں۔ آپ یہاں سے کیا کسی بھی بینک سے قرضہ نہ لیجئے۔ ایک بار پھر اپنے دوستوں کو ٹٹول لیجئے کوئی نہ کوئی سبیل نکل ائے گی۔ میں گھر چلا آیا، بیوی کو بتایا کہ بھئی مینجر صاحب یہ کہہ رہے تھے۔ دو چار دن کی بھاگ دوڑ کے بعد ایک ساتھی سے سال بھر کے وعدے پر ادھار مل گیا۔ ادھار بندہ جیسے تیسے چکا ہی دیتا ہے۔ سو چکا دیا۔ اللہ کا کرم ہوا، اس نے بچا لیا۔ وہ مسبب الاسباب ہے۔
 
اسی نوع کے چھوٹے چھوٹے واقعات ہیں۔ بہت پیش آئے، اللہ کی مدد شامل رہی ورنہ بندہ کس قابل ہے۔
حاصل یہ ہے کہ جو اچھائی کی طرف جانے میں مخلص ہو اللہ کریم اس پر ادھر آسانیاں فراہم کر دیتے ہیں اور جو برائی پر مائل ہو اللہ کریم اس پر ادھر آسانی فراہم کر دیتے ہیں۔ بات صبر کرنے کی بھی ہے۔ میری بیوی اللہ کریم اس کی قبر کو نور سے بھر دے، بہت اچھی تھی، اس نے ہر خشک و تر میں میرا ساتھ نبھانے کا حق ادا کر دیا۔ اور اس مشقت میں چالیس برس تک میرے ساتھ چلتے چلتے تھک کے گر پڑی۔ اس نے اپنا کام پورا کر لیا ہو گا، اس کی چھٹی ہو گئی، اب کچھ کام مجھے نمٹانے ہوں گے، واللہ اعلم۔ اللہ اس کی مغفرت کرے۔
 
جنا ب آسی ساحب، فی زمانہ آپ اور آپ کی اولاد کے نصیب پر رشک آتا ہے، اللہ انہیں سلامت رکھے اور مزیدخوشیوں سے نوازے۔ آمین۔
سب اللہ سوہنے کی دین ہے محترم۔ بندہ کس قابل ہے۔ اور میں واقعی بہت خوش نصیب ہوں۔ اتنا کہ اس رحمان و رحیم کا شکر ادا نہیں کر سکتا۔ وہ تو کوئی بھی نہیں کر سکتا۔
 
ناصر علی مرزا صاحب کی توجہ خاص طور پر ’’مطلوب ہے‘‘ ۔
بندہ پھول جاتا ہے کہ میں نے نیکی کی ہے۔ ترغیب کی بات پر میری زندگی کا حاصل جان لیجئے۔
میں نے الحمد للہ چھ بچوں کی شادیاں کیں۔ تین بیٹے، تین بیٹیاں۔ اور جہیز نہ لیا نہ دیا۔
ایک فریق سے (جس کی طرف سے جہیز کے مطالبے کا امکان تھا) میں نے بیٹی کا رشتہ طے کرنے سے پہلے کہہ دیا تھا کہ ’’بہن! اگر میری بیٹی کو دل سے اپنی بیٹی بنانا چاہتی ہیں تو جب جی چاہے دو چار دس مہمان لے کر آ جائیں اور بیٹی کو لے جائیں ۔ اور اگر دیگچیاں اور رضائیاں اور کرسیاں اور صوفے اور فرج اولیت رکھتے ہیں تو کوئی ایسا گھرانہ ابھی دیکھ لیجئے۔‘‘ وہ چیں بہ جبیں تو ہوئیں تاہم انہوں نے اپنا مطالبہ ترک کر دیا۔
ایک بیٹے کے (اس وقت ہونے والے) سسر نے مجھ سے کہا: ’’میں فرنیچر کا آرڈر دینے والا ہوں، آپ یہ بتائیے کہ فرنیچر براہ راست آپ کے ہاں پہنچا دیا جائے؟‘‘ میں نے کہا: ’’نہیں صاحب۔ اپنی دولت یوں ایک بچی کو نہ دے دیجئے جس پر آپ کی چاروں بچیوں اور بیٹے کا حق مقرر ہے‘‘۔ انہی دنوں میرے بیٹے کا فون آ گیا کہ ابو جی مجھے خبر ملی ہے وہ لوگ جہیز وغیرہ تیار کر رہے ہیں، ان کو منع کر دیں‘‘۔ میں نے اللہ کا شکر ادا کیا۔ نکاح کے بعد بھی سمدھی صاحب بضد تھے کہ میں تو سامان بنواؤں گا۔ پڑھے لکھے صاحب تھے (اللہ مغفرت فرمائے) سمجھانے پر سمجھ گئے اور اپنا ارادہ ترک کر دیا۔
ایک بیٹی کا رشتہ برادری سے باہر ہوا۔ دو طرفہ رضامندی کا اظہار ہو چکا تھا۔ دعائے خیر کے دن وہ لوگ میرے مہمان ہوئے۔ لڑکے کے بڑے بھائی (ایم اے اسلامیات اور پیشہ تدریس) مجھے کہنے لگے: چاچو جہیز کے بارے میں کچھ؟ میں نے کہا: مجھے یہ فرمائیے کہ شریعت کیا کہتی ہے؟ بولے: شریعت میں تو کوئی جہیز نہیں ہوتا۔ میں نے کہا: اللہ آپ کا بھلا کرے، ہم نیا کام کیوں کریں!۔

اہم بات جو یہاں بتانے کی ہے کہ اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے، بچیاں بچے اولادوں والے ہو گئے۔ ایک نواسی تو انیس برس کی ہو گئیں۔ کسی بھی طرف سے کبھی کسی بھی سطح پر یہ مسئلہ نہیں اٹھایا گیا۔ اور نہ اس بنا پر کوئی گھریلو ناجاقی یا طعن و تشنیع ہوئی ہے۔

ایک اور اہم تر بات ۔۔ میرے اسی بیٹے کی سالی کے نکاح کی بات بعد میں چلی۔ لڑکے نے پہلے کہہ دیا کہ جہیز کو اس معاملے سے نکال باہر کیا جائے۔ وہ میاں بیوی بھی ماشا اللہ خوش ہیں۔ انہیں پچھلے دنوں اللہ تعالیٰ نے چاند سا بیٹا عطا کیا ہے۔ اللہ کریم برکات سے نوازے۔ میں اس لڑکے سے ملا تو پوچھا: میاں آپ کو جہیز سے انکار کی کیا سوجھی؟ بولا: وہی سوجھی انکل، جو آپ کو اور بھائی کو سوجھی تھی (’’بھائی‘‘ سے مراد پیرا بیٹا تھا)۔

بعد میں اپنے ہی محلے میں ایک لڑکے کی ماں نے جہیز لینے سے انکار کر دیا اور لڑکی والوں کو پہلے بتا دیا کہ جہیز تیار نہ کریں۔

اللہ کریم ہم سب کے لئے آسانیاں پیدا فرمائے۔ کچھ ہلنا جلنا تو کرنا پڑتا ہے، باتیں بھی سننی پڑتی ہیں۔
اللہ بزرگ و برتر آپ کو بہترین جزا دے اور آسانیاں پید ا فرمائے ، بہت خوشی ہوئی آپ کی باتیں سن کر- یقینا شیطان ، انسان کا کھلا دشمن ہے اور وہ غرور تکبر پیدا کرنا چاہے گا، تو ہمیں اس کے ہتھکنڈوں کا علم ہونا چاہیے کہ بچ سکیں
میری درخواست ہے کہ آپ اپنی یاداشتیں یا زند گی کی کہانی بیان کریں، کہ ہمیں بھی اچھے عمل کی ترغیب ہو، اور جن مشکلات کا سامنا ہوا ، پھر ان میں کیا معاملہ اختیار کیا۔ اپنا تجربہ ہم تک پہنچائیں ،
 
اللہ بزرگ و برتر آپ کو بہترین جزا دے اور آسانیاں پید ا فرمائے ، بہت خوشی ہوئی آپ کی باتیں سن کر- یقینا شیطان ، انسان کا کھلا دشمن ہے اور وہ غرور تکبر پیدا کرنا چاہے گا، تو ہمیں اس کے ہتھکنڈوں کا علم ہونا چاہیے کہ بچ سکیں
میری درخواست ہے کہ آپ اپنی یاداشتیں یا زند گی کی کہانی بیان کریں، کہ ہمیں بھی اچھے عمل کی ترغیب ہو، اور جن مشکلات کا سامنا ہوا ، پھر ان میں کیا معاملہ اختیار کیا۔ اپنا تجربہ ہم تک پہنچائیں ،
بور ہوں گے بہت لوگ، ناصر علی مرزا صاحب۔
بہر حال کچھ نہ کچھ حصہ ڈالتا رہوں گا، ان شاء اللہ۔
 
ناصر علی مرزا صاحب کی خواہش کے احترام میں ۔۔۔۔

میرے موجودہ حالت الحمد للہ بہت بہتر ہیں۔ ریٹائرمنٹ کی زندگی گزار رہا ہوں۔ پنشن بھی معقول ہے۔ بچے اپنا اپنا کما رہے ہیں اور میرے بھی نخرے برداشت کر رہے ہیں، اللہ کریم ان کو خوشیاں دے۔ ملازمت میں میری سب سے بڑی کمائی عزت و احترام ہے الحمد للہ۔ رزق کا معاملہ ایسا ہے کہ جو لکھ دیا گیا ہے وہ ملے گا، بہر صورت ملے گا اور وہی ملے گا۔ انسان کی جواب دہی کا مغز یہ ہے کہ جس شے کا ملنا مقدر کر دیا گیا تھا، انسان نے اس کے لئے طریقہ کون سا اپنایا؟ غلط یا درست۔ بات اتنی سی ہے، بس!۔ جو مل گیا ہے اس کو سدا رہنا تو نہیں، خرچ ہونا ہے ۔ میرا منصب صرف یہ ہے کہ میں نے اس کو خرچ کیسے کیا؟!!
 
Top