روشن صبح

جاسمن

لائبریرین
سعید! میں کوفہ میں بھی محفوظ رہا اور تم مدینہ میں مار دئیے گئے
حکیم عبدالحمید ساحب کےاس فقرے میں، مجھے ذاتی طور پر لفظ مدینے سے خوشی ہے کہ پاکستان کو مدینہ قرار دیا ب شک تشبیہ ہی دی ہے ویسے بھی لفظی معنی میں پاکستان اور مدینہ طیبہ مترادف ہیں
لیکن اپنا حال تو یہ ہے ایسی تاریکیاں آنکھوں میں بسی ہیں فراز۔۔رات تو رات ہم دن کو جلاتے ہیں چراغ
اس کو ختم کرنے نہیں تھوڑا دھندلانے کو کو ہی شاید محترم بہن نے یہ لڑی شروع کی ہے لیکن اس لڑی کو ہم ، بلی کو دیکھ کر کبوتر کا آنکھیں بند کرنا نہ سمجھ لیں
کیونکہ ابھی چراغ روشن ہیں، اور اچھے لوگ موجود ہیں، مجھے تو اس محفل میں سب ہی اپنے سے برتر ہی ملے ہیں ، علم ہو یا اخلاق
اور میں وہ غلط معروف فقرہ تو نہیں لکھوں گا کہ نعوذباللہ خدا مایوس نہیں ہوا ، بلکہ ہم پر امید ہیں کہ قائد محترم نے بھی فرمایا تھا کہ مسلمان مصیبت سے گھبرایا نہیں کرتا
یہ میری بھی خوش قسمتی ہے کہ لوگ ہمیشہ اچھے ملتے ہیں۔۔یہاں بھی۔۔۔بہت سلجھے ہوئے مجھ سے کہیں ںںںںںںںںںںںںںںں علم والے لوگ موجود ہیں۔یہی بات ہمارے اندر اُمید جگاتی ہے
 

جاسمن

لائبریرین
خاکروب کا بیٹا لبھا مسیح جج بن گیا، سر فخر سے بلند کر دئیے: والدین
اوکاڑہ کی گلیوں، بازاروں میں جھاڑو دینے والے غریب ماں باپ کا بیٹا لبھا مسیح پنجاب پبلک سروس کمشن کا امتحان پاس کر کے جج بن گیا۔ بیٹے کی کامیابی پر خوش خاکروب والدین کا کہنا ہے بیٹے نے دلی آرزو ہی پوری نہیں کی سر بھی فخر سے بلند کر دئیے۔ اوکاڑہ میں ڈیڑھ مرلے کے مکان میں رہنے والی کرسچین فیملی آج پھولے نہیں سما رہی۔ ساری خوشیاں جواں عزم ذیشان لبھا مسیح کے دم سے نصیب ہوئیں۔ غربت جس کی راہ کی رکاوٹ نہ بن سکی، جوڈیشل مجسٹریٹ بننے والے ذیشان لبھا مسیح کی جیون ساتھی آرزو کہتی ہیں ذیشان کو ماں باپ کی خدمت کا صلہ ملا۔ لبھا مسیح کی والدہ نے نجی ٹی وی کو بتایا میں کمیٹی میں جھاڑو پھیرنے کی نوکری کرتی ہوں، جب گاڑیوں میں افسر گزرتے تو میں کہتی تھی میرا بیٹا بھی اسی طرح گزرے گا۔ ”خداوند نے میری خواہش پوری کیتی اے میرے بیٹے نوں جج بنا دِتا“۔ ماں نے بتایا میں کہتی تھی بیٹا تم مقابلے کے پیپر دے دو، میرے دل میں بہت خواہش ہے، میرا بیٹا افسر بنے۔ لبھا مسیح کے والد خاکروب سردار مسیح نے کہا ”ترقی تعلیم دے نال ای حاصل ہوندی ہے“۔ جیون ساتھی آرزو کی تمام خواہشیں پوری ہوئیں۔ ان کی اہلیہ آرزو نے بتایا ہماری خواہش تھی ہم اپنے بچوں کو بھی پڑھائیں اور ہمارے بچے آگے چل کے اپنے باپ کی طرح بڑے افسر بنیں۔ نجی ٹی وی کے مطابق سارا سارا دن نوکری شام کو ٹیوشن پڑھانا اور راتوں کو اٹھ کر پڑھنا یہ ہے لبھا مسیح کی کامیابیوں کی کہانی، لبھا مسیح نے بتایا محنت کریں، کوشش کریں چیخیں مارنے سے کچھ نہیں ہوتا
 

جاسمن

لائبریرین
خواجہ سرا بحالی پروگرام اور ڈاکٹر امجد ثاقب
بدھ 8 صفر 1435ه۔ - 11 دسمبر 2013م
بشریٰ اعجاز
ڈاکٹر امجد ثاقبؔ نے ڈاکٹر ہارون رشید کی ناگہانی وفات کے بعد، فاؤنٹین ہاؤس کی ذمہ داری سنبھالی ہوئی ہے، بڑی عمر کے خواجہ سراؤں کے لئے پچھلے ڈیڑھ سال سے ایک تقریب اخوت کے زیراثر، ہر ماہ کے پہلے ہفتے میں فاؤنٹین ہاؤس میں منعقد کی جاتی ہے اس میں، ایک دن بھرپور انداز میں، ان کے ساتھ گزارا جاتا ہے، جس میں ان کا میڈیکل چیک اپ، دوائیاں، ان کے ساتھ کھانا اور انہیں پاکٹ منی کے علاوہ۔۔۔ ان سے دل بھر کے باتیں بھی اس پروگرام میں شامل ہیں۔۔۔ جس کے متعلق ان محروم لوگوں کا کہنا ہے ’’ہم سارا مہینہ اس انتظار میں گزارتے ہیں کہ کب اگلے مہینے کا پہلا ہفتہ آئے اور ہم اخوت والوں سے ملیں۔ اس روز ہمیں لگتا ہے، جیسے ہم اپنے گھر جا رہے ہوں۔ بہن بھائیوں، یا ماں باپ کے پاس! ہمیں کسی نے زندگی میں اتنی محبت سے دعوت نہیں دی۔۔۔ اخوت کی ٹیم، جس میں بلال، صائمہ، عائشہ، روبی، عاصم، جمرود، سلیم، زرین، روبینہ اور فاطمہ رشید جیسے صاحبِ دل لوگ موجود ہیں، یہ سب جب ہماری راہ میں اپنا دل بچھاتے ہیں تو یوں لگتا ہے، جیسے ہم اکیلے نہیں! گوگی نے کہا ’’ہم پیدا ہوتے ہیں تو نفرت کا نشانہ بننے لگتے ہیں، ماں باپ، بہن بھائی ہمیں دنیا کے رحم و کرم پر چھوڑ دیتے ہیں، دل کا آبگینہ ہر روز ٹوٹتا ہے۔۔۔ آج تک ہمیں کسی نے سکول نہیں بھیجا، وراثت میں حصہ نہیں دیا۔۔۔ اس بے بسی میں اگر کوئی صرف ہنس کر بات بھی کرے تو اس کے لئے دل سے دعا نکلتی ہے‘‘۔ صرف لاہور میں پچاس برس کی عمر سے زائد کئی ہزار خواجہ سرا، بھوک، بیماری اور بڑھاپے کا شکار ہیں۔ وہ منتظر ہیں، کوئی محبت بھرا ہاتھ ان کی طرف بڑھے اور کہے آج سے تمہارے دکھ میرے بھی ہیں۔
"ہمیں کلمہ نہیں آتا تھا۔۔۔ درود نہیں آتا تھا۔۔۔ نماز نہیں آتی تھی۔۔۔ اور ہمیں دوسروں کی بات کو غور سے سننا نہیں آتا تھا۔۔۔ ہمیں مہذب لوگوں میں بیٹھنے کے طریقے نہیں آتے تھے۔۔۔ اب ہم آہستہ آہستہ یہ سب کچھ سیکھ رہے ہیں۔"۔۔ محبت اور خدمت کے اس ادارے سے، جس کا نام ڈاکٹر امجد ثاقب ہے۔۔۔ جو کہتے ہیں، "خدارا میرا ذکر مت کریں، میرے نام کو منہا کر دیں۔! " جس نے صوفیاء کا چلن اختیار کر کے۔۔۔ خود کو خدمت کے لئے وقف کر دیا ہے۔۔۔ کیا یہی نہیں اس دور کا باعمل صوفی؟ جس نے خدمت کو عبادت کا درجہ دے دیا ہے۔۔۔ اور خدا کی مخلوق کا درد اپنے دل کا درد بنا لیا ہے۔!
سوال صرف یہ ہے، کیا ہمارا بھی اس درد میں کوئی حصہ ہے؟
گوگی، نیلم، سپنا، بندیا، فردوس بی اے اور مٹھو، جس مخلوق کا نام ہے۔۔۔ کیا ہمارا بھی اس خالق سے کوئی تعلق ہے، جس کی یہ مخلوق ہے؟؟؟؟ بات زیادہ ٹیکنیکل نہیں، مگر قابل غور ضرور ہے!!
بشکریہ روزنامہ "نئی بات"
 
آخری تدوین:

جاسمن

لائبریرین
logo.jpg

پاکستانی مہاتما کا خواب، اُخوت یونیورسٹی
اسلم خان اتوار 22 دسمبر 2013
۔ 6ارب روپے ایک لاکھ سے زائد گھرانوں میں تقسیم کر دینے کے بعد اس کی 100فیصد بروقت واپسی کاناقابل یقین معجزہ کردکھانے والے قافلہ سالارِ’’اُخوت‘‘نے گوجرانوالہ میں قرضوں کی تقسیم کی تقریب میں شمولیت کی دعوت دی ۔اُخوت مقامی مساجد کومرکز بنا کر کس طرح خط غربت سے نیچے زندگی گذارنے والے بے نوائوں کوجینے کاحوصلہ اور رُوشنی اور اُمید کی کرن دکھا رہی ہے۔
صرف 10سال پہلے 10ہزار روپے کے قرض حسنہ سے شروع ہونے والا روشنی کا یہ سفر6ارب روپے کی کثیر رقم بن چکا ہے۔
ڈاکٹر امجد ثاقب بتا رہے تھے کہ ہمیں خبردارکیا گیا تھا کہ گوجرانوالہ میں قرض دے کر واپس لینا ممکن نہیں ہوگا اس لیے یہاں اُخوت کاسلسلہ شروع نہ کیاجائے لیکن اس وقت 20کروڑ سے زائد کے قرض دیے جاچکے ہیں جن کی سو فیصد بروقت ریکوری کا سلسلہ جاری ہے۔ ہم عزت نفس مجروح کیے بغیر قرض دیتے ہیں جس کے لیے کوئی ضمانت طلب نہیں کرتے۔صرف چند معمولی شرائط پوری کرنا ہوتی ہیں ۔گروپ بناتے ہیں تاکہ اگر کسی کومدد کی ضرورت ہو تو باقی ساتھی اس کے دست و بازو بنیں۔قرضوں کی ترسیل کا کام مساجد میں بڑے منظم طریقے سے ہوتا ہے۔
چھوٹے قرضوں کی فراہمی کے اس منفرد منصوبے(Akhuwat Micro Finance Loan Project) پراب دُنیا کی تمام بڑی درس گاہوں میں تحقیق ہورہی ہے۔ بنگلہ دیش کے گرامین بینک کی غربت کے خلاف کامیاب جنگ کی وجہ سے ڈاکٹر یونس کونوبل انعام سے سرخروکیاگیاجس میں خدمات کا معاوضہ (Service Charges) 40فیصد وصول کیا جاتاہے۔
اُخوت کے وسیع وعریض نیٹ ورک میں کام کرنے والے بلامعاوضہ اورتنخواہ داررضاکاروں کی تعداد ہزاروںہو چکی ہے۔ انتھک ڈاکٹر امجد ثاقب رُکنے اور سانس لینے کے لیے تیار نہیں ۔مستقبل کے تعلیمی منصوبے اُخوت یونیورسٹی کے بارے میں بتارہے تھے۔ جہاں پر داخلے کی بنیادی شرط اہلیت ہوگی۔ جس کے فرزندتحصیل علم کے بعد اپنی مادر علمی کو قرض لوٹائیں گے جس کے لیے لاہور،قصور روڈ پر زمین خریدی جاچکی ہے ۔ دُنیا کی پہلی منفرد درس گاہ جہاں مفت تعلیم دی جائے گی جس کے فرزند برسرِ روزگار ہونے کے بعد اپنی مادر علمی کے ماتھے پر جھومر سجائیں گے ۔ آشائوں کے دیپ جلائیں گے پھر روشن ہوگا پاکستان اور مایوسیوں کے گھٹاٹوپ اندھیرے بھاگ جائیں گے۔
 
آخری تدوین:

جاسمن

لائبریرین
ڈاکتر امجد ثاقب کے لئے
اپنا زمانہ آپ بناتے ہیں اہلِ دِل
ہم وہ نہیں کہ جن کو زمانہ بنا گیا
 
آخری تدوین:
logo.jpg

پاکستانی مہاتما کا خواب، اُخوت یونیورسٹی
اسلم خان اتوار 22 دسمبر 2013
گذشتہ دنوں آنکھوں کے معروف معالج، ہم دم دیرینہ ڈاکٹر اختر شاہین کی وجہ سے پاکستان میں غربت کے خلاف برسرپیکار ڈاکٹر امجد ثاقب سے ملاقات اور گوجرانوالہ سفر کا موقع مل گیا۔ 6ارب روپے ایک لاکھ سے زائد گھرانوں میں تقسیم کر دینے کے بعد اس کی 100فیصد بروقت واپسی کاناقابل یقین معجزہ کردکھانے والے قافلہ سالارِ’’اُخوت‘‘نے گوجرانوالہ میں قرضوں کی تقسیم کی تقریب میں شمولیت کی دعوت دی ۔اُخوت مقامی مساجد کومرکز بنا کر کس طرح خط غربت سے نیچے زندگی گذارنے والے بے نوائوں کوجینے کاحوصلہ اور رُوشنی اور اُمید کی کرن دکھا رہی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
محترم بہن ماشا اللہ بہت خوب آپ تو بہت کچھ۔۔۔۔۔۔۔ میری ایک کمزوری ہے ہو سکتا ہے کہ کسی کی یہ خوبی ہو ،( میں نے جتنا مطالعہ کیا ہے اگر دھیان سے کیا ہوتا تو ایک ادیب یعنی لفظوں کا کھلاڑی بن جاتا )کہ یہ لمبی تحریریں پڑھ ہی نہیں پاتا، Skimming عادت ہے تو میرا خیال ہے کہ تحریر مواد میں چھوٹی ہو یا پھر ذیلی عنوان ہوں تو بہتر ابلاغ ممکن ہے - ایک تجویز ہے آپ اپنا بلاگ کیوں نہیں بنا لیتے ہو جو ادھر لکھا کچھ یہاں بھی چپساں کر دیا ۔بہر حال عمدہ کاوش ہے آپکی ، اللہ کرے زورِ قلم ،لطفِ سخن اور زور چپساں اور زیادہ
 

جاسمن

لائبریرین
محترم بہن ماشا اللہ بہت خوب آپ تو بہت کچھ۔۔۔ ۔۔۔ ۔ میری ایک کمزوری ہے ہو سکتا ہے کہ کسی کی یہ خوبی ہو ،( میں نے جتنا مطالعہ کیا ہے اگر دھیان سے کیا ہوتا تو ایک ادیب یعنی لفظوں کا کھلاڑی بن جاتا )کہ یہ لمبی تحریریں پڑھ ہی نہیں پاتا، Skimming عادت ہے تو میرا خیال ہے کہ تحریر مواد میں چھوٹی ہو یا پھر ذیلی عنوان ہوں تو بہتر ابلاغ ممکن ہے - ایک تجویز ہے آپ اپنا بلاگ کیوں نہیں بنا لیتے ہو جو ادھر لکھا کچھ یہاں بھی چپساں کر دیا ۔بہر حال عمدہ کاوش ہے آپکی ، اللہ کرے زورِ قلم ،لطفِ سخن اور زور چپساں اور زیادہ
ناصر علی بھائی! جزاک اللہ۔ آپ نے درست کہا۔ یہ میری خامی ہے۔ حالانکہ معلوم ہے آپ کی طرح لوگ مختصر تحریریں پڑھتے ہیں۔۔
بلاگ؟ اوہ میرے اللہ!اِس میدان میں طفلِ مکتب ہوں۔ ابھی آپ سب سے بہت کچھ سیکھنا ہے انشاءاللہ۔
 
ناصر علی بھائی! جزاک اللہ۔ آپ نے درست کہا۔ یہ میری خامی ہے۔ حالانکہ معلوم ہے آپ کی طرح لوگ مختصر تحریریں پڑھتے ہیں۔۔
بلاگ؟ اوہ میرے اللہ!اِس میدان میں طفلِ مکتب ہوں۔ ابھی آپ سب سے بہت کچھ سیکھنا ہے انشاءاللہ۔
آج کے اخبار میں تو کوئی بھی اچھی خبر نہیں ملی ،لیکن آپ ضرور کچھ دیکھیں باقی آفس میں بہت کام ہے تو مصروف بہت ہوں - باقی میں آ پ سے بھی کم علم ہوں یہ حقیقت ہے ،
 

جاسمن

لائبریرین
روزنامہ اردو ٹائمز (ممبئی) Sunday,April 20,2014
علی معین نوازش کا عالمی ریکارڈ
کیمبرج یونیورسٹی کے طالب علم علی معین نوازش کا نام گنیز بک آف ریکارڈ میں شامل ہوگیا ہے۔ اس غیر معمولی ذہین اور محنتی طالب علم کا کارنامہ یہ ہے کہ اس نے کیمبرج یونیورسٹی لندن میں داخلہ لینے کے لئے ’اے‘لیول کا امتحان دیا۔ اسے مجموعی طور پر مختلف مضامین کے تیئس(23) پیپر دینا تھے۔اس نے تیاری شروع کی۔ وہ صرف آٹھ گھنٹے روز پڑھتا تھا۔ جب رزلٹ آیا تو اس نے تیئس میں سے اکیس مضامین میں ’اے ‘گریڈ حاصل کیاتھا۔ بقیہ دو میں سے ایک میں ’بی‘گریڈ اور دوسرے میں اسے ’سی‘گریڈ ملا تھا۔جب سے عالمی سطح پر ’اے ‘لیول کے امتحانات شروع ہوئے ہیں۔ یہ نتیجہ اپنی مثال آپ ہے۔آج تک کسی طالب علم کو بیک وقت اکیس (21) مضامین میں ’اے ‘گریڈ نہیں ملاتھا پتہ چلا کہ یہ ایک عالمی ریکارڈ ہے ۔خود کیمبرج یونیورسٹی نے گنیز بک آف ریکارڈ کے ذمہ داروں سے رابطہ قائم کیا اور یہ نیا عالمی ریکارڈاُس کے نام درج ہوگیا۔ لندن کی کیمبرج اور آکسفورڈ امریکہ کی ہارورڈ اور جرمنی وفرانس سمیت دنیا کی دس ٹاپ یونیورسٹیوں نے اسے بیک وقت اپنے یہاں یونیورسٹی کے خرچ پر داخلے آفر کیے۔ علی معین نوازش کیمبرج ہی میں پڑھنا چاہتا تھا لہٰذاس نے وہیں ایڈمیشن لے لیا۔ آج وہ یونیورسٹی کے خرچ پر وہاں سائنس اور بایولوجی کی اعلیٰ تعلیم حاصل کررہاہے۔وہ بھی اپنے والدین اور بڑی بہن کی طرح ڈاکٹر بننا چاہتاہے۔ ظاہر ہے کہ اتنے ذہین اور اتنے محنتی طالب علم کا راستہ دنیا میں کون روک سکتا ہے۔ وہ راولپنڈی (پاکستان ) کے غریب ترین علاقے پنج بھاٹہ کا رہنے والا ہے۔اس کی پوری ابتدائی اور ثانوی تعلیم علاقے کے معمولی سرکاری اسکولوں ہی میں ہوئی ہے جو فی الواقع تعلیم کی تمام جدید سہولتوں سے محروم ہیں۔
( ساتھیو! ابھی چراغ روشن ہیں۔ آپ بھی ایسے چاند،سورج ،تارے ،پھول،خوشبو،،ہریالی،چھاؤں،پیڑ،قوس و قزح،بارش، ہوا۔۔۔۔۔۔۔ڈھونڈیں اور شیئر کریں)
 
آخری تدوین:
روزنامہ اردو ٹائمز (ممبئی) Sunday,April 20,2014
علی معین نوازش کا عالمی ریکارڈ
وہ راولپنڈی (پاکستان ) کے غریب ترین علاقے پنج بھاٹہ کا رہنے والا ہے۔اس کی پوری ابتدائی اور ثانوی تعلیم علاقے کے معمولی سرکاری اسکولوں ہی میں ہوئی ہے جو فی الواقع تعلیم کی تمام جدید سہولتوں سے محروم ہیں۔
( ساتھیو! ابھی چراغ روشن ہیں۔ آپ بھی ایسے چاند،سورج ،تارے ،پھول،خوشبو،،ہریالی،چھاؤں،پیڑ،قوس و قزح،بارش، ہوا۔۔۔ ۔۔۔ ۔ڈھونڈیں اور شیئر کریں)
باقی تو ٹھیک ہے لیکن یہاں اردو ٹائمز والے کچھ زیادہ ہی بڑھا چڑھا گئے ہیں۔ پہلی بات تو یہ کہ ٹینچ بھاٹہ غریب ترین علاقوں میں نہیں ہے۔ اچھے خاصے متمول لوگ رہتے ہیں وہاں ۔ دوسرا اس کی تعلیم سینٹ میری اکیڈمی راولپنڈی اور روٹس جیسے عالمی معیار کے سکولوں میں ہوئی۔
 
باقی تو ٹھیک ہے لیکن یہاں اردو ٹائمز والے کچھ زیادہ ہی بڑھا چڑھا گئے ہیں۔ پہلی بات تو یہ کہ ٹینچ بھاٹہ غریب ترین علاقوں میں نہیں ہے۔ اچھے خاصے متمول لوگ رہتے ہیں وہاں ۔ دوسرا اس کی تعلیم سینٹ میری اکیڈمی راولپنڈی اور روٹس جیسے عالمی معیار کے سکولوں میں ہوئی۔
برادر محترم کیا آپ واضح کریں گے آ پکی معلومات کا ذریعہ کیا ہے اور آپ لنک دے سکتے ہیں کیا؟
 
آخری تدوین:
ممتاز سائنس دان، ماہر تعلیم ۔ ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی
تحریر: پروفیسر شاہد احمد


ممتاز سائنسدان ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی نہ صرف سائنس بلکہ فنون کے دیگر شعبہ جات کی ایک ماہر شخصیت تھے۔ علاوہ ازیں ان کو کئی زبانوں پر عبور حاصل تھا۔ پاکستان کی سائنسی، علمی اور ادبی تاریخ میں ان کا نام ہمیشہ یادگار رہے گا۔
تعلیم
مورخہ 19اکتوبر 1897ء کو آپ ہندوستان کے مشہور شہر لکھنو میں پیدا ہوئے۔ لکھنو سے ہی ابتدائی تعلیم حاصل کی اور 1917ء میں علی گڑھ مسلم کالج کا رخ کیا جس کی بنیاد سرسید احمد خان نے رکھی تھی۔ 1919ء میں 22سال کی عمر میں اعزاز کے ساتھ ایم اے او کالج سے گریجویشن کیا۔ 1920ء میں اسے یونیورسٹی کا درجہ ملا۔ آج یہ جامعہ نہ صرف ہندوستان کی، بلکہ دنیا کی بہترین جامعات میں میں سے ایک ہے۔ اسی تعلیمی ادارے کے حوالے سے قائد اعظم محمد علی جناح اس کو مسلمانوں کا اسلحہ خانہ کہا کرتے تھے۔

برطانیہ میں تعلیم
ڈاکٹر سلیم الزمان صدیق 1920ء میں برطانیہ چلے گئے طب کی مزید تعلیم کیلئے 1921ء میں فرینکفرٹ یونیورسٹی جرمنی چلے گئے۔ 1927ء میں ڈاکٹر صدیقی نے جرمنی میں پروفیسر جولیئس دان برائون کی زیر نگرانی PHD کی سند حاصل کی
تحقیق
اور پھر واپس بھارت آگئے اور حکیم اجمل خان کے طبیہ کالج میں ملازمت اختیار کی۔ ڈاکٹر صدیقی کی طب کے شعبے میں پہلی تحقیقی کامیابی 1931ء میں ہوئی۔ انہوں نے اپنی دریافت کردہ دوا کا نام اجملین رکھا جو کہ ان کے استاد حکیم اجمل خان کے نام پر تھا۔ اس اہم کامیابی کے بعد ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی نے کیمیائی سائنس پر کافی تحقیق کی اورکئی عرصے تک نیم اور دوسرے پودوں کے منفرد کیمیائی مرکبات کی کلاسیفیکشن میں مصروف رہے جس میں انہیں کامیابی بھی ملی۔ ڈاکٹر صدیقی وہ پہلے سائنسدان تھے جو این تھملیٹک، اینٹی فینگل، اینٹی بیکٹیریکل اور وائرس کے خلاف عمل نیم کے مرکباتی اجزاء تیار کرنے میں کامیاب ہوئے۔ پروفیسر ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی (مرحوم) نے پچاس سے زائد مرکبات تجربات کے ذریعے دریافت کئے۔ جو آج دنیا بھر میں معروف ہیں۔

ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی نے انسانیت کی فلاح و بہبود کیلئے گرانقدر خدمات انجام دیں۔ ان کی خدمات کا دائرہ بہت وسیع ہے۔ حکیم اجمل خان کی وفات کے بعد 1940ء میں انہوں نے انڈین کونسل فور سائنٹیفک اینڈ انڈسٹریل ریسرچ میں کام شروع کیا جو کہ 1951ء تک جاری رہا۔ بعد ازاں پروفیسر ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی مرحوم 1951ء نے میں پاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان کی درخواست پر پاکستان ہجرت کی۔ ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی تحریک پاکستان کے ممتاز رہنما چودھری خلیق الزماں کے بھائی تھے۔ چودھری خلیق الزماں مرحوم تحریک پاکستان کیلئے جو قافلہ رواں دواں تھا، اس قافلہ کے میر کارواں قائد اعظم محمد علی جناح کے ساتھ ساتھ تھے اور قیام پاکستان کے بعد اس مملکت کی بنیادوں کو مضبوط کرنے میں سرگرداں رہے
پاکستان کونسل آف سائنٹیفک اینڈ انڈسٹریل ریسرچ (پی سی ایس آئی آر)
۔ ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی مرحوم نے پاکستان آنے کے بعد پاکستان کونسل آف سائنٹیفک اینڈ انڈسٹریل ریسرچ (پی سی ایس آئی آر) کی بنیاد رکھی اور ادارے کیلئے ڈائریکٹر کی حیثیت سے کام شروع کیا۔ ڈاکٹر صدیقی کی سربراہی میں پی سی ایس آئی آر نے سائنسی اور صنعتی تحقیق پر کام شروع کیا۔ اس ادارے کی ضلعی لیبارٹریز سابق مشرقی پاکستان کے شہر ڈھاکہ، راج شاہی اور چٹاگانگ جبکہ مغربی پاکستان کے لاہور اور پشاور میں کھولیں۔ پھر 1953ء میں انہوں نے ذاتی طور پر ملکی سائنسدانوں کیلئے پاکستان اکیڈمی آف سائنسز قائم کی اور دیگر اداروں پر توجہ دینے کے ساتھ ساتھ اس اکیڈمی میں بھی تحقیقاتی سرگرمیوں کو فروغ دیتے رہے۔ 1956ء میں جب پاکستان میں جوہری تحقیق کیلئے (پی اے ای سی) پاکستان اٹامک انرجی کمیشن کا قیام عمل میں آیا تو ڈاکٹر صدیقی کو ادارے کا تکنیکی رکن مقرر کیا گیا۔ 1958ء میں ڈاکٹر صدیقی کو ان کی سائنسی خدمات کے اعتراف میں فرینکفرٹ یونیورسٹی نے بھی ڈگری دی اور اسی سال حکومت پاکستان نے بھی انہیں تمغہ امتیاز سے نوازا ۔ 1966ء میں ڈاکٹر صدیقی کو ریٹائرمنٹ کے وقت ان کی سائنسی خدمات کے اعتراف میں صدر پاکستان کی طرف سے پرائیڈ آف پرفارمینس میڈل عطا کیا جب وہ صرف پی سی ایس آئی آر کے ڈائریکٹر اور چیئرمین کی حیثیت سے ہی کام کررہے تھے۔ ہمارے ملک میں ایسے بہت کم لوگ ہیں جنہوں نے اپنی کارکردگی کے اعتراف میں سات سے زائد ایوارڈز حاصل کئے ہوں
ادارہ (HEJ) حسین ابراہیم جمال
۔ 1967ء میں کراچی یونیورسٹی نے ڈاکٹر صدیقی کو کیمسٹری کے پوسٹ گریجویٹ انسٹیٹیوٹ کو قائم کرنے کیلئے مدعو کیا اور ان کو ادارے کے بانی و ڈائریکٹر کا عہدہ دیا جبکہ ادارے کیلئے دیگر تحققی اسٹاف پی سی ایس آئی آر کی طرف سے فراہم کیا گیا۔ بعد میں ڈاکٹر صدیقی نے اس ادارے کو کیمیا اور قدرتی اجزاء کی تحقیق کے ایک بڑے ادارے میں بدل دیا۔ اس ادارے کو اپنی محنت اور تحقیقی سرگرمیوں کی بدولت آپ اس مقام تک لے آئے جس کا اعتراف نہ صرف ملکی سطح پر کیا گیا بلکہ بین الاقوامی طور پر بھی کیا گیا اور بہت سے ممالک نے اس ادارے کی کارکردگی سے متاثر ہوکر اس کی مدد کی۔ علاوہ ازیں پاکستان کے معروف صنعتکار لطیف ابراہیم جمال مرحوم نے بھی 50لاکھ کا عطیہ دیا۔ آج یہ ادارہ (HEJ) حسین ابراہیم جمال کے نام سے پوری دنیا میں جانا اور پہچانا جاتا ہے۔ حسین ابراہیم جمال لطیف ابراہیم جمال مرحوم کے بڑے بھائی تھے۔ اس ادارے میں نہ صرف ملک بھر سے طلبہ و طالبات تحقیقی کاموں کیلئے داخلہ لیتے ہیں بلکہ یورپ و دیگر ممالک کے طالبان علم بھی اپنی پیاس بجھانے کیلئے اس ادارے کا رخ کرتے ہیں
نیشنل کمیشن فورانڈی جینس میڈیسن
۔ 1975ء میں ڈاکٹر صدیقی کی تحقیقاتی سرگرمیوں کو دیکھتے ہوئے انہیں نیشنل کمیشن فورانڈی جینس میڈیسن کا سربراہ بنا دیا گیا۔ علاوہ ازیں ڈاکٹر محمود حسین خان سابق وائس چانسلر جامعہ کراچی کی وفات کے بعد کچھ عرصہ کیلئے شیخ الجامعہ کے منصب پر بھی فائز رہے۔ 1980ء میں گورنمنٹ آف پاکستان نے ڈاکٹر صدیقی کو سائنس و ٹیکنالوجی کے فروغ کیلئے انتھک محنت اور کاوشوں کی بدولت ہلال امتیاز کا تمغہ دیا۔ 1983ء میں ڈاکٹر صدیقی نے دنیا کی تیسری سائنس اکیڈمی بنانے کیلئے اہم کردار ادا کیا۔ ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی نے اپنی زندگی کے آخری ایام تک حسین ابراہیم جمال ریسرچ انسٹیٹیوٹ آف کیمسٹری میں ڈائریکٹر کی حیثیت سے اپنی تحقیقاتی سرگرمیاں جاری رکھیں۔

ان سب کے علاوہ ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی نہ صرف کیمیا داں تھے بلکہ فلسفی، مصور، ادبی ناقد اور سائنسی بصیرت کے حامل تھے۔ انہوں نے جرمن زبان کی شاعر رائز ماریہ رلکیز کی شاعری کا اردو میں ترجمہ بھی کیا۔ ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی کو اپنی زندگی میں ایک اور منفرد اعزاز بھی حاصل ہوا۔ وہ یہ کہ انہوں نے ہیلی کا دمدار ستارہ 2بار دیکھا۔ پاکستان کے جوہر قابل اور زندگی بھر جڑی بوٹیوں اور پھولوں پر تجربات کرنے والے ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی جو کہ خود بھی سائنس اور علم و ادب کے چمن کے پھول تھے ، بین الاقوامی طور پر ممتاز سائنسدان کے طور پر مانے جاتے تھے۔ سائنسی افق کا یہ ستارہ 14اپریل 1994ء کو ہمیشہ ہمیشہ کیلئے غروب ہوگیا۔ حکومت پاکستان نے 14اپریل 1999ء کو ڈاکٹر صدیقی کی یاد میں پی سی ایس آئی آر کراچی سے منسلک سڑک کا نام شاہراہ ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی رکھا جبکہ پاکستان پوسٹ نے بھی اسی سال ڈاکٹر صدیقی کی یاد میں خصوصی پوسٹ ٹکٹس کا اجراء کیا۔ پروفیسر ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی نے سائنسی تحقیق کے میدان میں جو کارہائے انجام دے۔ بالخصوص طب کی دنیا میں وہ ان کے نام کو آج بھی روشن رکھے ہوئے ہیں۔ جب بھی پاکستان میں سائنس کے حوالے سے تاریخ لکھی جائے گی تو پروفیسر ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی کا نام نمایاں نہیں، نمایاں تر رہے گا۔
 

جاسمن

لائبریرین
اردو
14جنوری 2012

وقت اشاعت: 14:41
دنیا کا سب سے بڑا قرآن

افغانستان میں دنیا کا سب سے بڑا قرآن مجید تیار کرلیا گیا۔ اور دارالحکومت میں سرکاری طور پر اس کی رونمائی کی گئی 7 فٹ لمبا اور 10 فٹ چوڑا قرآن مجید 218 صفحات پر مشتمل ہے جس 30 اقسام کی خطاطی کا استعمال کیا گیا ہے اور 5 سال کی مدت میں یہ تیار کیا گیا۔
photo-141143947-0.jpg

photo-141143947-1.jpg

photo-141143947-3.jpg
 
ڈاکٹر اقبال چوہدری کیلئے سب سے زیادہ ثمر آور سائنسدان کا اعزاز
headlinebullet.gif

shim.gif

dot.jpg

shim.gif

کراچی(اسٹاف رپورٹر) پاکستان کونسل برائے سائنس اور ٹیکنالوجی (پی سی ایس ٹی)، اسلام آباد نے اپنی نئی تحقیق کے مطابق بین الاقوامی مرکز برائے کیمیائی و حیاتیاتی علوم (آئی سی سی بی ایس)، جامعہ کراچی کے سربراہ پروفیسر ڈاکٹرمحمد اقبال چوھدری کو پاکستان کا سب سے زیادہ ثمرآور(Productive) سائنسدان قرار دے دیاہے۔ پاکستان کونسل برائے سائنس اور ٹیکنالوجی نے حال ہی میں پروڈکٹو سائنٹسٹ آف پاکستان 2013-14 کے عنوان سے اپنی نئی ڈائریکٹری کی اشاعت کی ہے جس میں پاکستان کی سرکاری اور غیرسرکاری جامعات، کالجوں اور تحقیقی اداروں میں کام کرنے والے 1700 سب سے زیادہ پروڈکٹو محقیقین و سائنسدانوں میں پروفیسر اقبال چوھدری کو اول قرار دیا ہے۔پروفیسر ڈاکٹرمحمد اقبال چوھدری کا تعلق شعبہ کیمیا سے ہے جبکہ آئی سی سی بی ایس، جامعہ کراچی کے سربراہ کی حیثیت میں وہ ایچ ای جے ریسر چ انسٹی ٹیوٹ آف کیمسٹری سمیت ڈاکٹر پنجوانی سینٹر برائے مالیکیولر میڈیسن اور ڈرگ ریسرچ جیسے بین الاقوامی شہرت یافتہ اداروں کی رہنمائی کرتے ہیں۔ آئی سی سی بی ایس جامعہ کراچی کے ایک آفیشل کے مطابق پاکستان کونسل برائے سائنس اور ٹیکنالوجی سائنسدان کو اسکے منصب اور کارکردگی سے جانچتی ہے جس میں ملکی و غیر ملکی سطح پرتحقیقی اشاعتیں، کتب کی تصنیف و ادارت، پی ایچ ڈی، ایم فل اور ایم ایس سی طلبہ و طالبات کی رہنمائی، بین الاقوامی ایوارڈ، ریسرچ گرانٹ کے حصول کی کامیابی، تحقیقی جرائد کا امپیکٹ فیکٹر، سائٹیشن کے اعدادوشمار وغیرہ شامل ہیں۔ انھوں نے کہا ان تمام معیارات کی روشنی میں پروفیسرڈاکٹر اقبال چوھدری کو ملکی سطح پراول سائنسدان قرار دیا گیا ہے، انھوں نے کہا اسکے علاوہ چھ سے زائد سائنسدانوں کے نام جو آئی سی سی بی ایس جامعہ کراچی سے وابستہ ہیں علم کیمیا کے شعبے میں سب سے زیادہ ثمرآور محقیقین کی فہرست میں شامل ہیں۔
 

جاسمن

لائبریرین
پستے سے ماحول دوست شہر بسانے کا ترک پلان
ترکی میں خشک پھل ’پستے‘ کو گرین گولڈ یا سبز سونے سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ ترکی کی ایک صوبائی حکومت اب اس خشک میوے کے استعمال سے ایک ایکو شہر بسانے کی منصوبہ بندی کر رہی ہے۔



ترکی میں خشک پھل ’پستے‘ کو گرین گولڈ یا سبز سونے سے تعبیر کیا جاتا ہے۔
۔ پلان کے مطابق یہ نیا ماحول دوست اور ایکو سٹی ترکی کے قدیمی تاریخی آبادی کے حامل شہر غازی عنتاب سے گیارہ کلومیٹر کی مسافت پر آباد کرنے کا سوچا جا رہا ہے۔ غازی عنتاب اسی نام کے ترک صوبے کا صدر مقام بھی ہے۔ غازی عنتاب کا مقام ترک شہر آدانہ اور شامی شہر حلب کے درمیان میں ہے۔ عثمانی خلافت کے دور میں یہ شہر عین تاب کے نام سے مشہور تھا۔
غازی عنتاب دنیا بھر میں انتہائی لذیذ پستے کی پیداوار کا شہر تصور کیا جاتا ہے۔ اس شہر کے قرب و جوار میں پستے کے بڑے بڑے باغات ہیں۔ پستے کے علاوہ غازی عنتاب زیتون کی پیداوار اور تانبے کی صنعت کے لیے بھی اہم ہے۔ یہ شہر ترکی کی کل معیشت میں چار فیصد کا حصہ رکھتا ہے۔ اس شہر کی مقامی انتظامیہ سے وابستہ ماحول دوست ٹاؤن پلانر سیدا مُفتُو اوغلو گُلیج کا کہنا ہے کہ شہر میں پستے کی باہری چھال یا شیل کو محفوظ یا ضائع کرنا ایک بڑا مسئلہ بھی ہے اور اب اگر نئے ایکو سٹی کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے تو پستے کی سخت چھال نئے شہر کی توانائی کی ضرورت بن جائے گا۔

ترک دسترخوان پر میٹھے میں بکلاوا سب سے اہم خیال کیا جاتا ہے
غازی عنتاب کی شہری انتظامیہ کا خیال ہے کہ نیا ایکو سٹی 32 سو ہیکٹرز پر بسایا جائے اور اس نئے شہر میں دو لاکھ افراد کی آبادکاری ممکن ہو سکے گی۔ اس شہر کو عالمی سطح پر سیاحتی سرگرمیوں کے لیے خاص طور پر وقف کیا جائے گا۔ اوغلو گلیج کا کہنا ہے کہ غازی عنتاب کے ارد گرد میں ہوا کی مسلسل ایک رفتار رہتی ہے اور اِس باعث نئے شہر کے لیے بجلی کی فراہمی ہوائی چکیوں کو نصب کرنے سے ممکن ہو گی۔ اس شہر میں سرد موسم میں حدت پستے کی سخت بیرونی چھال کو جلانے سے کر حاصل ہوگی۔
غازی عنتاب صوبے کی حکومت نئے ایکو سٹی کے حوالے سے کچھ اور مقامات پر بھی نگاہ رکھے ہوئے ہے۔ اوغلو گلیج جیسے ٹاؤن پلانر اس مناسبت سے اپنے شہر کو ایک مثالی مقام کے طور پر پیش کر رہے ہیں۔ بعض ماہرین کا خیال ہے کہ غازی عنتاب سے بہتر مقامات اور بھی ہیں۔ ان میں ایک جگہ ترک اور شامی سرحد کے قریب جنوب مشرقی علاقے کا وسیع رقبہ بھی ہے جو پستے کی پیداوار کے لحاظ سے غازی عنتاب سے بھی زیادہ اہم خیال کیا جاتا ہے۔ اس علاقے میں سالانہ بنیادوں پر ہزاروں ٹن پستہ دستیاب ہوتا ہے۔
 
Top