کبھی ان خوش پرندوں کو۔۔۔۔۔غزل برائے اصلاح

شیرازخان

محفلین
مفاعیلن۔۔مفاعیلن۔۔مفاعیلن۔۔مفاعیلن

کبھی ان خوش پرندوں کو پُھدکتے ہوئے دیکھا ہے
درختوں کو بھی میں نے تو اچھلتے ہوئے دیکھا ہے

ستارے آسماں پر جو نظر آتے تھے بچپن میں
انہیں بچوں کی آنکھوں میں چمکتے ہوئے دیکھا ہے

چلے گر بس سمندر کا تو ساری ریت پی جائے
میں نے تو اس کی لہروں کو ترستے ہوئے دیکھا ہے

پلٹ کر اب وہ محفل میں نہیں آئے گا دوبارہ
اُسے اس بزم سے میں نے نکلتے ہوئے دیکھا ہے

نہیں ہے خواب دنیا کے کسی بھی رنگ کا دیکھا
میں نے بس تتلیاں خود کو پکڑتے ہوئے دیکھا ہے

عجب اک خوف ہے طاری مجھے شیراز اُس دن سے
ڈری چڑیا کا جب سےدل دھڑکتے ہوئے دیکھا ہے

الف عین محمد اسامہ سَرسَری
@شاہد شاہنواز
مہدی نقوی حجاز
 
آخری تدوین:

شیرازخان

محفلین
یؤں خوشی میں پرندوں کو پُھدکتے میں نے دیکھا ہے

کہ اکثر تودرختوں کو اچھلتے میں نے دیکھا ہے



ستارے آسماں پر جو نظر آتے تھے بچپن میں

انہیں بچوں کی آنکھوں میں چمکتے میں نے دیکھا ہے



چلے گر بس سمندر کا تو ساری ریت پی جائے

جہاں تک اس کی لہروں کو ترستے میں نے دیکھا ہے



پلٹ کر اب وہ محفل میں نہیں آئے گا دوبارہ

اُسے اس بزم سے جیسے نکلتے میں نے دیکھا ہے



نہیں ہے خواب دنیا کے کسی بھی رنگ کا دیکھا

وہی بس تتلیاں خود کو پکڑتے میں نے دیکھا ہے



عجب اک خوف ہے طاری مجھے شیراز اُس دن سے

ڈری چڑیا کا جب سےدل دھڑکتے میں نے دیکھا ہے-ے[/quote]
 

قیصرانی

لائبریرین
اچھی کوشش ہے۔ تکنیکی اعتبار سے تو اساتذہ ہی کی بات مانی جائے گی۔ مجھے کافی رواں لگی یعنی نثر کے انداز میں
 
قوافی کی بحث کو مزمل شیخ بسمل صاحب کی بصیرت افروز ہدایات پر چھوڑتے ہوئے
مطلع کے پہلے مصرع میں ”خوشی“ کو غلط باندھا ہے۔ یہ فعو ہے نہ کہ فعلن۔
”دوبارہ“ بھی غالبا غلط باندھا گیا ہے۔ یہ میرے خیال میں فعولن ہے نہ کہ مفعولن۔
اساتذۂ کرام کا انتظار فرمائیے۔
 
ردیف بدل لی اچھا کیا۔ ’’ہوئے‘‘ کو جو بندش اس میں تھی، ٹیکنیکی اعتبار سے درست بھی ہو تو بہت عجیب سا تاثر دےرہی تھی۔
ایک لفظ ’’پھدکتے‘‘ اس پر لسانی طور پر تو کوئی اعتراض نہیں ہو سکتا، تاہم یہ لطافت پر اثر انداز ہو رہا ہے، اگر کسی مناسب انداز میں بدل سکیں تو بہتر ہے۔
سادہ سی غزل ہے، اظہار اچھا ہے۔ جاری رکھئے

@شیراز خان
 
’’خوشی میں یوں‘‘ کر لیجئے، بندش ٹھیک ہو جائے گی۔ ’’یوں‘‘ میں ہمزہ نہیں ہوتا۔
’’دوبارہ‘‘ مفعولن: میرا خیال ہے اس میں کوئی قباحت نہیں۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
ردیف بدل لی اچھا کیا۔ ’’ہوئے‘‘ کو جو بندش اس میں تھی، ٹیکنیکی اعتبار سے درست بھی ہو تو بہت عجیب سا تاثر دےرہی تھی۔
ایک لفظ ’’پھدکتے‘‘ اس پر لسانی طور پر تو کوئی اعتراض نہیں ہو سکتا، تاہم یہ لطافت پر اثر انداز ہو رہا ہے، اگر کسی مناسب انداز میں بدل سکیں تو بہتر ہے۔
سادہ سی غزل ہے، اظہار اچھا ہے۔ جاری رکھئے
@شیراز خان
پھدکتے کا لطیف تر متبادل چہکتے ہو سکتا ہے۔ لیکن بحر کو نبھانے میں توانائی صرف کرنے ضرورت محسوس ہو رہی ہے۔
 
متفق۔
قافیہ شائگان ہوگیا ہے مکمل غزل میں۔
اگر مطلع کو

پرندوں کو چہکتے یوں خوشی سے میں نے دیکھا ہے
کہ اکثر تو درختوں کو اچھلتے میں نے دیکھا ہے

یا اسی طرح کے کسی اور قافیے والے مصرع سے بدل لیا جائے تو پوری غزل کا قافیہ درست ہوسکتا ہے۔
(ذاتی رائے)
 

شیرازخان

محفلین
اگر مطلع کو

پرندوں کو چہکتے یوں خوشی سے میں نے دیکھا ہے
کہ اکثر تو درختوں کو اچھلتے میں نے دیکھا ہے

یا اسی طرح کے کسی اور قافیے والے مصرع سے بدل لیا جائے تو پوری غزل کا قافیہ درست ہوسکتا ہے۔
(ذاتی رائے)
پرندوں کو چہکتے یوں خوشی سے میں نے دیکھا ہے
کہ اکثر تو درختوں کو اچھلتے میں نے دیکھا ہے

جناب نیں سمجھ نہیں سکا اس مطلع میں کون سا قافیہ ہے ۔۔۔بڑی "ے" کے اعلاوہ۔۔؟؟
پرندوں کو چہکتے یوں خوشی سے میں نے دیکھا ہے
کہ اکثر تو درختوں کو اچھلتے میں نے دیکھا ہے
 
Top