پاک بھارت جنگوں کے حوالے سے کتب

فرحت کیانی

لائبریرین
تو جٹا ہمارا کتب سے کیا تعلق ۔۔۔ ۔۔ o_O
آتے ہوں گے کچھ احباب بارِعلم سر پر اٹھائے۔۔۔ :):):)
عاطف بٹ اور قیصرانی بھائی کے علاوہ فرحت کیانی کو بھی زحمت دی جا سکتی ہے میرا خیال ہے۔۔۔ ویسے اپنے فلک شیر چیمہ صاحب بھی باون گزے ہیں۔۔ :) اور لگے ہاتھوں راشد اشرف صاحب کی رائے بھی لے لی جائے تو چنداں مضائقہ نہیں۔ :)
میرا نام اس فہرست میں :shock: :roll:۔

خیر حسیب نذیر گِل اس وقت تو دو کتابیں تجویز کروں گی۔
جنرل محمدموسیٰ خان کی کتاب 'My Version: India-Pakistan War 1965'
جنرل موسیٰ 1965ء میں پاکستانی فوج کے سی اِن سی (کمانڈر اِن چیف) تھے اور ان کی قیادت میں پاکستانی فوج نے انڈیا کو چونڈہ میں ٹینکوں کی لڑائی میں پسپا کیا تھا۔ اس کتاب میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ کس طرح پاکستانی سیاستدانوں اور فوج کی حکومت میں انوالومنٹ نے 1965ء کی جنگ میں اہم کردار ادا کیا۔
دوسری کتاب ہے کرنل (ر) اشفاق حسین کی 'جنٹلمین استغفر اللہ ۔ (Witness to Blunder-Kargil Story Unfolds)' ۔ یہ کارگل وار کے بارے میں ہے۔
ان کتابوں میں کافی کچھ ایسا لکھا گیا ہے جس کو پڑھ کر صدمہ تو پہنچتا ہے لیکن کسی حد تک حقائق کا اندازہ بھی ہوتا ہے۔ اور وہ جو ہم شکوہ کرتے ہیں کہ پاکستانی لکھاری غیر جانبدارانہ انداز میں نہیں لکھتے اس میں بھی کچھ کمی آ جاتی ہے۔
 

فرحت کیانی

لائبریرین
میں نہیں سمجھتا کہ مصنف نے کتاب میں کہیں کوئی غیر منصفانہ انداز اختیار کیا ہے یا تاریخ کو توڑ مروڑ کر پیش کیا ہے۔ کتاب میں کئی مواقع پر جا بجا قائد اعظم کی شخصیت اور ان کی سیاسی بصیرت کی تعریف کی گئی ہے۔
جبکہ کئی ایک مواقع پر پنڈت نہرو اور ولب بھائی پٹیل کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔
نیز جون 1946ء کے منصوبے کا بہت تفصیلی اور معلوماتی تذکرہ موجود ہے۔
کتاب کے اردو ترجمہ کا مجھے علم نہیں۔
واقعی عثمان ، انگریزی ایڈیشن یقیناً ایسا ہی ہے لیکن اردو ترجمہ کے بارے میں بہت سے لوگوں کی رائے ہے کہ وہ اصل متن سے مختلف ہے اور ترجمے کا معیار بھی قدرے ناقص ہے۔
 

راشد اشرف

محفلین
اوائل عمری کی یادوں مین ایک کتاب اور بھی ہے۔ "بدر سے باٹا پور تک"، غالبا انور عنایت اللہ اس کے مصنف تھے۔ یہ ان کتابوں میں سے ہے جو پیسے دے کر لکھوائی جاتی ہیں جیسے جنرل اختر عبدالرحمان کی سوانح "فاتح" جسے ہارون رشید نے چند ٹکوں کے عوض لکھا تھا۔ اختر صاحب کا بچپن عسرت میں بسر ہوا، بعد میں افغان جنگ میں وہ ہاتھ مارے کہ اولاد آج ارب پتی ہے۔ کوکا کولا فیکٹری کی مالک
 

تلمیذ

لائبریرین
اختر صاحب کا بچپن عسرت میں بسر ہوا، بعد میں افغان جنگ میں وہ ہاتھ مارے کہ اولاد آج ارب پتی ہے۔ کوکا کولا فیکٹری کی مالک

سب دنیا ہے، سب مایا ہے، اخلاقی اقدار جن کا چلن ایک زمانے میں عام تھا۔ جانے کہاں گئیں۔:(
زمین سے چھ فٹ نیچے اترنے کے بعد نہ جانے کیا ہوتا ہے۔ لگتا ہےیہ احساس اور خوف اب مفقود ہو گیا ہے۔
 
میرا نام اس فہرست میں :shock: :roll:۔

خیر حسیب نذیر گِل اس وقت تو دو کتابیں تجویز کروں گی۔
جنرل محمدموسیٰ خان کی کتاب 'My Version: India-Pakistan War 1965'
جنرل موسیٰ 1965ء میں پاکستانی فوج کے سی اِن سی (کمانڈر اِن چیف) تھے اور ان کی قیادت میں پاکستانی فوج نے انڈیا کو چونڈہ میں ٹینکوں کی لڑائی میں پسپا کیا تھا۔ اس کتاب میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ کس طرح پاکستانی سیاستدانوں اور فوج کی حکومت میں انوالومنٹ نے 1965ء کی جنگ میں اہم کردار ادا کیا۔
دوسری کتاب ہے کرنل (ر) اشفاق حسین کی 'جنٹلمین استغفر اللہ ۔ (Witness to Blunder-Kargil Story Unfolds)' ۔ یہ کارگل وار کے بارے میں ہے۔
ان کتابوں میں کافی کچھ ایسا لکھا گیا ہے جس کو پڑھ کر صدمہ تو پہنچتا ہے لیکن کسی حد تک حقائق کا اندازہ بھی ہوتا ہے۔ اور وہ جو ہم شکوہ کرتے ہیں کہ پاکستانی لکھاری غیر جانبدارانہ انداز میں نہیں لکھتے اس میں بھی کچھ کمی آ جاتی ہے۔
اس سال کے شروع میں ایک کتاب نے بہت تہلکہ مچایا تھا "یہ خاموشی کب تک۔ ایک سپاہی کی داستان عشق و جنوں" مصنف جنرل (ر) شاہد عزیز
سناہے کہ اس کتاب میں بھی کارگل وار کا ذکر موجود ہے
 
اوائل عمری کی یادوں مین ایک کتاب اور بھی ہے۔ "بدر سے باٹا پور تک"، غالبا انور عنایت اللہ اس کے مصنف تھے۔ یہ ان کتابوں میں سے ہے جو پیسے دے کر لکھوائی جاتی ہیں جیسے جنرل اختر عبدالرحمان کی سوانح "فاتح" جسے ہارون رشید نے چند ٹکوں کے عوض لکھا تھا۔ اختر صاحب کا بچپن عسرت میں بسر ہوا، بعد میں افغان جنگ میں وہ ہاتھ مارے کہ اولاد آج ارب پتی ہے۔ کوکا کولا فیکٹری کی مالک
آپ غالبا ہمایوں اختر وغیر کی بات کررہے ہیں جو بالکل اخلاق سے عاری سیاست دان ہے
 
ایک بات کہنے میں مجھے کوئی عار نہیں کہ جس طرح ملک عزیز کے سیاستدان کرپٹ ہیں اسی طرح آرمی کے آفیسر حضرات بھی اعلیٰ پائے کے کرپٹ اور بد عنوان ہوتے ہیں
ایک بار آپ فقط میجر کے عہدے سے اوپر چلے جائیں تو آپ وطن عزیز کو اپنی ملکیت سمجھنا شروع کردیتے ہیں اور کرپشن کی درخشاں مثالیں قائم کرتے ہیں
 

فرحت کیانی

لائبریرین
اس سال کے شروع میں ایک کتاب نے بہت تہلکہ مچایا تھا "یہ خاموشی کب تک۔ ایک سپاہی کی داستان عشق و جنوں" مصنف جنرل (ر) شاہد عزیز
سناہے کہ اس کتاب میں بھی کارگل وار کا ذکر موجود ہے
بالکل ہے لیکن وہ تہلکہ صرف کتاب کی بِکری زیادہ کرنے کے لئے تھا ورنہ مجھے اس کتاب میں کچھ بہت خاص نئی بات نہیں ملی۔
 

راشد اشرف

محفلین
یہ خاموشی کہاں تک - راقم کا تبصرہ پیش خدمت ہے:




مصنف: جنرل (ریٹائرڈ) شاہد عزیز
سیون اسپرنگ پبلشر، اسلام آباد
قیمت: 800 روپے
رعایت: ایک دھیلے کی نہیں

راقم کو اردو بازار کراچی میں واقع کتابوں کی سب سے بڑی دکان پر یہ سہولت میسر ہے کہ وہ بحثیت ایک مصنف، کتابوں پر 40 فیصد رعایت حاصل کرسکتا ہے لیکن زیر تذکرہ کتاب کے بارے میں اسے صاف الفاظ میں یہ کہہ دیا گیا کہ چونکہ "یہ چلتا ہوا مال" ہے اور ناشر کی جانب سے تاکید کے بعد یہ اپنی پوری قیمت یعنی 800 روپے ہی میں فروخت کی جارہی ہے۔ مصنف چونکہ جنرل پرویز مشرف کو اس کتاب میں کڑی تنقید کا نشانہ بنا چکے ہیں اور اس ضمن میں ٹی وی چینلز پر خاصی شہرت سمیٹ چکے ہیں لہذا کتاب ان دنوں ہاتھوں ہاتھ بک رہی ہے۔

راقم الحروف 800 کے عوض اسے خرید کر اپنے مستقر پر پہنچا اور اس کے مطالعے کے بعد اسے یوں محسوس ہوا جیسے اس کی جیب کٹ گئی ہو۔

مصنف کا انداز افسانوی ہے، ساری زندگی وردی پہنی، سویلینز کو بلڈی سویلینز سمجھا ۔۔۔ آخری عمر میں احساس ہوا کہ ضمیر کی خلش سے صرف اس صورت میں نجات مل سکتی ہے کہ ممتاز مفتی، قدرت اللہ شہاب, شفیق الرحمان اور شیخ منظور الہی کا گھوٹا لگا کر ایک افسانوی انداز کی خودنوشت تیار کی جائے۔ کوشش کامیاب رہی۔ دو ماہ میں چار ہزار کی تعداد میں دو ایڈیشن نکل گئے ۔۔۔ ۔ قارئین بھی پڑھتے پڑھتے کہیں دور نکل گئے۔ ناشر کو قیمت مکمل وصول کرنے کا کہا گیا۔ الیکٹرونک میڈیا نے مندرجات کو خوب اچھالا، نتیجہ حسب حال نکلا۔ ناشر اور مصنف دونوں کے لیے
win win situation
رہی۔

کاسہ لیسوں کی اس ملک میں کیا کمی سو کسی پروفیسر نعیم قاسم نامی کو پکڑا جنہوں نے مکر و قریب، خوشامد اور لفاظی سے بھرپور الفاظ میں کتاب کے پس ورق (یقینا کتاب پڑھے بنا ہی یوں خراج تحسین پیش کیا:

" کتاب ایک رومان پسند فوجی افسر کے آدرشوں اور خوابوں سے چمکتی ہوئی ایسی داستان حیات ہے جہاں فراق یار سے جمال محبوب اور وطن کی آبرو پر قربان ہونے کا جنون بلاآخر ذات کی داخلی تنہائی اور آشوب آگہی کے لیے اکسیر اعظم پانے کی تمنا میں عشق حقیقی میں بدل جاتا ہے۔ اور آج ایک محب وطن دانشور اور دفاعی تجزیہ کار اسم اعظم کے ہزار در کھولنے کے لیے ایک ہی راستہ قوم کے لیے تجویز کرتا ہے۔ اور وہ ہے طاغوتی طاقتوں کے خلاف جہاد قرآنی کا تصور۔ آج ہمارا جنرل زندگی کی شام تنہائی کے آخری پہر قوم کے سامنے سچ پیش کررہا ہے، چاہے اس کے حساس دل کو ناوک دشنام کے ہزار تیروں سے چھلنی کردیا جائے۔"

خودنوشت میں مصنف ایک دودھ پیتے بچے کی حیثیت سے سامنے آتے ہیں جو قدم قدم پر ضیاء الحق اور آخر میں پرویز مشرف کے سامنے سچ بولنے کا کوئی موقع نہیں گنواتے تھے۔ لیکن انہوں نے کسی موقع پر انتہائی درجے کی ناانصافیاں اور ملکی مفاد کے انتہائی منافی اقدام ہوتے دیکھ کر استعفی دینے کی ضرورت محسوس نہیں کی اور بالآخر تمام سہولیات لے کر سبکدوش ہوئے۔

بقول پروفیسر نعیم قاسم ان کی زندگی کی شام تنہائی کا آخری پہر ہے، لیکن قوم کی زندگی میں جو شام غریباں کب کی آچکی ہے، اس کا احساس کرنے والا کوئی نہیں ہے۔

مصنف نے اپنے ادارے کو بھی نہ بخشا۔ صفحہ 150 پر لکھتے ہیں:
" سفارش کا یہ ناسور آہستہ آہستہ ہر ادارے کو کھوکھلا کررہا ہے۔ فوج کو بھی۔ اس کی جڑیں اوپر سے لے کر نچلی سطحوں تک پھیل چکی ہیں۔ محنت سے کام کرنے والوں کی راہیں کاٹ رہی ہیں۔ افسران کا اپنے ادارے پر اعتماد اٹھ رہا ہے۔"

ممتاز مفتی نے اپنی معروف کتاب "لبیک" میں ایک سے زائد مقامات پر اللہ میاں کو خانہ کعبہ کی چھت پر براجماں مسکراتے ہوئے دیکھا تھا۔ یہ ان کا انداز ہے جس سے قارئین بخوبی واقف ہوں گے۔
"یہ خاموشی کہاں تک" کے مصنف بارہ مصالحے کی اس چاٹ میں ایک جگہ وہ ایک کمرے میں اندیشوں میں مبتلا داخل ہوتے ہیں لیکن وہاں جا کر وہ یک لخت مطمعئن ہوجاتے ہیں اس لیے کمرے میں اللہ میاں ان کے استقبال کے لیے خود موجود تھے۔

ممتاز مفتی نے اپنی معروف کتاب "لبیک" میں ایک سے زائد مقامات پر اللہ میاں کو خانہ کعبہ کی چھت پر براجمان مسکراتے ہوئے دیکھا تھا۔ یہ ان کا انداز ہے جس سے قارئین بخوبی واقف ہوں گے۔

"یہ خاموشی کہاں تک" کے مصنف نے بارہ مصالحے کی اس چاٹ میں ایک جگہ وہ ایک کمرے میں اندیشوں میں مبتلا داخل ہوتے ہیں لیکن وہاں جا کر وہ یک لخت مطمعئن ہوجاتے ہیں اس لیے کمرے میں اللہ میاں ان کے استقبال کے لیے خود موجود تھے۔

پوری کتاب میں اگر کوئی چیز قابل ذکر ہے تو مصنف کی بیگم کی تصاویر جنہیں خلوت سے نکال کر جلوت میں بتدریج لایا گیا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔صلائے عام ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ دو عدد تصاویر ان دنوں کی بھی دیکھی جاسکتی ہیں جب مصنف اپنے ہنی مون پر تھے۔

اس کا عنوان ان دنوں ٹی وی پر چلنے والے ایک معروف اشتہار کی مناسبت سے "خاموشی کا بائیکاٹ" ہوتا تو زیادہ بھلا لگتا۔
 

راشد اشرف

محفلین
یہ خاموشی کہاں تک کا موازنہ "جنٹل مین سیریز" اور صدیق سالک کی سلیوٹ وغیرہ کریں تو وہ بلندی اور یہ پستی دیکھ کر افسوس ہی ہوتا ہے۔
 

فرحت کیانی

لائبریرین
یہ خاموشی کہاں تک کا موازنہ "جنٹل مین سیریز" اور صدیق سالک کی سلیوٹ وغیرہ کریں تو وہ بلندی اور یہ پستی دیکھ کر افسوس ہی ہوتا ہے۔
متفق اور کتاب کے بارے میں تفصیلی تبصرے میں آپ نے میرے جیسے بہت سے لوگوں کے خیالات بیان کر دیئے ہیں۔ میرے تمام گھر والوں کو اس کتاب کے لے اپنی جیب کٹنے کا شدید افسوس ہے۔ اور جب جب اس کتاب کا ذکر ہوتا ہے ، یہ دکھ پھر تازہ ہو جاتا ہے۔
 

فرحت کیانی

لائبریرین
حسیب نذیر گِل آپ نے بریگیڈیئر صدیق سالک کی 'ہمہ یاراں دوزخ' اور 'میں نے ڈھاکہ ڈوبتا دیکھا (Witness to Surrender) ' پڑھی ہیں؟
اس کے علاوہ ڈاکٹر سجاد حسین (ڈھاکہ یونیورسٹی کے سابقہ وائس چانسلر)کی 'شکستِ آرزو (The Wastes of Time: Reflections on the decline and fall of East Pakistan ) میری طرف سے ہائیلی ریکومننڈڈ کتاب ہے۔ اردو محفل پر عاطف بٹ نے شکستِ آرزو سے چند اقتباسات بھی پوسٹ کئے ہیں۔
 

راشد اشرف

محفلین
متفق اور کتاب کے بارے میں تفصیلی تبصرے میں آپ نے میرے جیسے بہت سے لوگوں کے خیالات بیان کر دیئے ہیں۔ میرے تمام گھر والوں کو اس کتاب کے لے اپنی جیب کٹنے کا شدید افسوس ہے۔ اور جب جب اس کتاب کا ذکر ہوتا ہے ، یہ دکھ پھر تازہ ہو جاتا ہے۔


"یہ خاموشی کہاں تک" کو خاموشی سے ایک صاحب کے سر منڈھنے کی کوشش کی تھی، وہ پہلے ہی سے ہوشیار تھے، منع کردیا۔ آخر میں ہاتھ جوڑ کر کہا خدا کے لیے اسے مفت میں لے لیجیے، لیکن وہ تیار نہ ہوئے،

اب یہ کسی بدنما داغ کی مانند کتب خانے کا حصہ بنی رکھی ہے۔

ایک کرم فرما کا تبصرہ ملاحظہ کیجیے:

راشد صاحب ۔۔۔۔ بہت خوب ! اچھا تبصرہ ہے۔ راقم آپ کے تجزیے سے متفق ہے۔ جنرل شاہد عزیز جیسی متعدد مثالیں موجود ہیں۔ ان جیسوں کا ضمیر بھی بڑے کمال کا ہوتا ہے جوائننگ ڈیٹ سے جو سوتا ہے تو پھر ریٹائرمنٹ پر ہی آنکھ کھلتی ہے اور پھر انگڑائیاں لیتے ہوئےاچانک تمام اصول و ضوابط ۔۔۔۔۔۔قاعدے قوانین منکشف ہوتے ہیں۔
یہ ٹی وی ٹاک شوز میں قوم کو بھاشن دینا ہی کافی نہیں سمجھتے ۔۔۔ایک آدھ کتاب بھی "لکھ مارتے" ہیں۔ بہ ہر حال جہاں آپ کے آٹھ سو روپے کے نقصان کا افسوس ہے وہاں اپنے آٹھ سو روپوں کی بچت کی خوشی بھی ۔۔۔!ا
خیراندیش
عامر
 

راشد اشرف

محفلین
متفق اور کتاب کے بارے میں تفصیلی تبصرے میں آپ نے میرے جیسے بہت سے لوگوں کے خیالات بیان کر دیئے ہیں۔ میرے تمام گھر والوں کو اس کتاب کے لے اپنی جیب کٹنے کا شدید افسوس ہے۔ اور جب جب اس کتاب کا ذکر ہوتا ہے ، یہ دکھ پھر تازہ ہو جاتا ہے۔


اسلام آباد میں مقیم ہمارے ایک دوست محترم عثمان قاضی کا دلچسپ، چشم کشا، کٹیلا، حقیقت پر مبنی بے لاگ تبصرہ بھی ملاحظہ کیجیے:

بات ذرا گھٹیا سی ہے کہ جنرل صاحب پر ذاتی حملے کے ضمن میں آتی ہے مگر چونکہ موصوف کی کتاب بھی اس عیب سے جا بہ جا مملو ہے، چنانچہ عرض کرتا ہوں کہ استعفی کی مبینہ خواہش کو بار بار دبانے کے صلے میں آج جنرل صاحب ایک وسیع و عریض فارم ہاؤس میں، کوہ مری کے دامن میں فروکش ہیں جہاں انھیں اپنے داغدار دامن کو دھونے کے لئے سب سہولتیں اور سکون میسر ہیں. اپنے ہم عصر افسران کی جس بادہ آشامی کا وہ بہ طرز تنقید و تشنیع ذکر کرتے ہیں، واقفان حال کے بقول سبکدوشی سے کچھ عرصۂ پہلے تک موصوف بھی اس سے مستفیض ہونے والوں میں آگے آگے تھے اور خصوصا غیر ملکی سفارت کاروں کی محافل میں یک گونہ عالم بے خودی میں اکثر دیکھے جاتے تھے. یہی حرکت کوئی بلڈی سویلین کر بیٹھے تو "کیریکٹر ڈھیلا" کے فتوے کی زد میں آے. ذاتی تجربے کی روشنی میں عرض کرتا ہوں کہ دو ایک کو چھوڑ کر فوج کی اعلی قیادت کا یہی حال ہے. مست بادہ ہونا تو کچھ نہیں، مست مال تو سبھی ہیں اور مصنف موصوف جیسے تو خصوصا تشویش کا سبب ہیں کہ سبک دوشی کے بعد یکایک از سر نو مسلمان ہوے ہیں اور اپنی کم علمی، فکری زولیده پن اور بر خود غلط پن کے با وصف، قوم کے لئے نو بہ نو سیاسی نسخے بھی تجویز کرنے کا شغل اختیار فرمایا ہے. میری راے میں کارگل کے باب میں اس سے زیادہ وقیع کتاب "جنٹل مین استغفر اللہ " از کرنل اشفاق حسین ہے . اصل تشویش کا سبب وہ باب ہے جہاں جنرل صاحب نے اپنی دانست میں کنٹرولڈ ڈماکریسی کا ایک نظام متعارف کروایا ہے. مبادا فوج کی آنے والی قیادت میں کوئی قسم کی احمقانہ سوچ سے جزوا بھی متفق ہوا تو.. یہ سوچ کر بھی دل بیٹھ جاتا ہے."
 

سید زبیر

محفلین
حسیب نذیر گِل صاحب
پش پندر سنگھ کی کتاب " فضائیہ دی سائیکی آف پاکستان ائر فورس "
پش پندر سنگھ کی کتاب " دی بیٹل ایکسز: نمبر ۷ سکواڈرن "
جان فلیکر کی کتاب " دی بیٹل فار پاکستان "
اصغر خان کی کتاب " دی فرسٹ راونڈ "
ائر کموڈور قیصر طفیل کی کتاب "دی گریٹ ائر بیٹلز"
آفیشل ہسٹری آف آئی اے ایف ان ۱۹۶۵ وار " پی ڈی ایف میں نیٹ پر موجود ہے
جنرل کے ایم عارف کی کتاب "دی خاکی شیڈو"
تجمل حسین ملک کی کتاب " دی سٹوری آف مائی سٹرگل "

اسکے علاوہ ہسٹری آف پاکستان ائر فورس جیسی کتابیں ہیں جنہیں دونوں ممالک میں سند حاصل ہے
 

راشد اشرف

محفلین
فرحت کیانی

یہ بھی سن لیجیے کہ خاکسار سخت قسم کا وطن پرست ہے۔ یہی وجہ ہے کہ باوجود کئی پرکشش پیشکشوں کے، بحیثیت انجئینر اپنا ملک چھوڑ کر کہیں باہر جانے کا خیال ہی نہ آیا۔ فوج ہماری سرحدوں کی محافظ ہے اور قابل احترام ہے، جان دینا آسان نہیں ہوتا۔
باقی اللہ ہی رحم کرنے والا ہے
 

فرحت کیانی

لائبریرین
اسلام آباد میں مقیم ہمارے ایک دوست محترم عثمان قاضی کا دلچسپ، چشم کشا، کٹیلا، حقیقت پر مبنی بے لاگ تبصرہ بھی ملاحظہ کیجیے:
بات ذرا گھٹیا سی ہے کہ جنرل صاحب پر ذاتی حملے کے ضمن میں آتی ہے مگر چونکہ موصوف کی کتاب بھی اس عیب سے جا بہ جا مملو ہے، چنانچہ عرض کرتا ہوں کہ استعفی کی مبینہ خواہش کو بار بار دبانے کے صلے میں آج جنرل صاحب ایک وسیع و عریض فارم ہاؤس میں، کوہ مری کے دامن میں فروکش ہیں جہاں انھیں اپنے داغدار دامن کو دھونے کے لئے سب سہولتیں اور سکون میسر ہیں. اپنے ہم عصر افسران کی جس بادہ آشامی کا وہ بہ طرز تنقید و تشنیع ذکر کرتے ہیں، واقفان حال کے بقول سبکدوشی سے کچھ عرصۂ پہلے تک موصوف بھی اس سے مستفیض ہونے والوں میں آگے آگے تھے اور خصوصا غیر ملکی سفارت کاروں کی محافل میں یک گونہ عالم بے خودی میں اکثر دیکھے جاتے تھے. یہی حرکت کوئی بلڈی سویلین کر بیٹھے تو "کیریکٹر ڈھیلا" کے فتوے کی زد میں آے. ذاتی تجربے کی روشنی میں عرض کرتا ہوں کہ دو ایک کو چھوڑ کر فوج کی اعلی قیادت کا یہی حال ہے. مست بادہ ہونا تو کچھ نہیں، مست مال تو سبھی ہیں اور مصنف موصوف جیسے تو خصوصا تشویش کا سبب ہیں کہ سبک دوشی کے بعد یکایک از سر نو مسلمان ہوے ہیں اور اپنی کم علمی، فکری زولیده پن اور بر خود غلط پن کے با وصف، قوم کے لئے نو بہ نو سیاسی نسخے بھی تجویز کرنے کا شغل اختیار فرمایا ہے. میری راے میں کارگل کے باب میں اس سے زیادہ وقیع کتاب "جنٹل مین استغفر اللہ " از کرنل اشفاق حسین ہے . اصل تشویش کا سبب وہ باب ہے جہاں جنرل صاحب نے اپنی دانست میں کنٹرولڈ ڈماکریسی کا ایک نظام متعارف کروایا ہے. مبادا فوج کی آنے والی قیادت میں کوئی قسم کی احمقانہ سوچ سے جزوا بھی متفق ہوا تو.. یہ سوچ کر بھی دل بیٹھ جاتا ہے."
میرے افسوس میں کئی گنا اضافہ ہو چکا ہے۔ آپ کو معلوم ہے کہ ہماری طرف یہ کتاب شارٹ ہو گئی تھی اور پھر ہمارے کتابوں والے نے ہمیں کہاں کہاں سے ڈھونڈ کر لا کر دی تھی۔ اسی دوران ان جنرل صاحب کے ہی ایک پیٹی بند بھائی کی بیگم نے کہا تھا کہ کتاب میں کچھ بھی نہیں ہو گا ، یہ صرف موصوف نے اپنی کتاب بکوانے کے لئے مارکیٹنگ کی حکمتِ عملی اپنائی ہے۔ کتاب پڑھنے کے بعد میں ہم لوگوں نے ان خاتون کے درست اندازے پر ان کو داد اور خود کو شدید ڈانٹ سے نوازا۔
اوپر کے تبصرے کے سلسلے میں یہی کہوں گی کہ جنٹلمین استغفر اللہ کو پڑھنے کے بعد دوسری بار پڑھنا اسی لئے مشکل لگتا ہے کہ کچھ باتیں بہت تلخ اور دل کو سہمانے والی ہیں۔ اللہ تعالیٰ پاکستان کو نا عاقبت اندیش لیڈروں سے بچائے۔ آمین
 

فرحت کیانی

لائبریرین
فرحت کیانی

یہ بھی سن لیجیے کہ خاکسار سخت قسم کا وطن پرست ہے۔ یہی وجہ ہے کہ باوجود کئی پرکشش پیشکشوں کے، بحیثیت انجئینر اپنا ملک چھوڑ کر کہیں باہر جانے کا خیال ہی نہ آیا۔ فوج ہماری سرحدوں کی محافظ ہے اور قابل احترام ہے، جان دینا آسان نہیں ہوتا۔
باقی اللہ ہی رحم کرنے والا ہے
مجھے یقین ہے ایسا ہی ہو گا :) ۔ اور کسی کی وطن پرستی اور حب الوطنی پر شک کرنے کی کبھی نوبت ہی نہیں آئی۔ جہاں تک فوج کی بات ہے تو ذاتی طور پر میرا فوج سے بہت خاص تعلق ہے۔ اس لئے اس ادارے کے احترام پر تو کوئی سوال ہی نہیں۔ اچھے برے لوگ ہر جگہ موجود ہوتے ہیں۔
 

تلمیذ

لائبریرین
ہیں کواکب کچھ نظرآتے ہیں کچھ۔
شکر ہے، ہم نے کتاب نہیں خریدی ورنہ ہمیں بھی نہایت افسوس ہوتا۔
 
Top