پاک بھارت جنگوں کے حوالے سے کتب

میں تو آپ کو مشورہ دوں گا کہ اگر آپ اس کتاب کے بدلے میں رقم کی بجائے کوئی اور کتاب خرید لیں تو بہتر ہوگا (اگر یہ ممکن ہو)۔
جیسا کہ اوپر ذکر کرچکا ہوں کہ میں یہ کتاب خرید چکا ہوں اور یہ میرے میز پر پڑی ہوئی ہے
اور میں نے یہ کتاب مبلغ 520 روپوں میں خریدی ہے
 
در اصل اس سلسلے میں کہ میرا مطالعہ چند مضامین وغیرہ سے زیادہ نہیں ہے۔ اسی لئے کچھ نہ لکھ سکا۔ تاہم، اس لڑی میں احباب نے کافی کتابوں کا ذکر کر دیا ہے۔ آپ ان کو ضرور پڑھیں۔ مزید برآں، سال ۶۶ کے بعد والے 'حکایت' میگزین کے شمارے اگر کہیں سے مل جائیں تو وہ بھی پڑھیں۔ عنایت اللہ مرحوم نے ان میں جنگ ستمبر سے متعلق بہت کچھ لکھ رکھا ہے۔
جی اوپر عنایت اللہ صاحب کی چند کتب کے نام پیش کیے جاچکے ہیں
بہرحال یہ تو بتائیں کہ عنایت اللہ صاحب کون تھے؟
 

تلمیذ

لائبریرین
ج۔
بہرحال یہ تو بتائیں کہ عنایت اللہ صاحب کون تھے؟
میرے علم کے مطابق یہ پی اے ایف کے ریٹائرڈ جے سی او تھے اور اردو ادب کے شائق تھے۔ریٹائرمنٹ کے بعد انہوں نے اپنی ادارت میں ایک رسالہ 'حکایت' نکالا تھا جو اپنے وقت کا ایک مقبول جریدہ تھا اور ہم اس کے باقاعدہ قاری تھے۔ اس ادارے کے زیر اہتمام کئی کتابیں بھی چھپی تھیں اور وہ بھی نہایت مقبول تھیں۔
 
گل جی، یہ کتاب میں نے دسمبر ۲۰۱۱ میں خریدی تھی اور اس کو میں اپنی خریدی ہوئی ناکام ترین کتب میں شمار کرتا ہوں۔ وجہ کے لئے میرا مندرجہ ذیل تبصرہ پڑھ لیں جو میں نے محفل کے اسی زمرے میں ۱۹ دسمبر ۲۰۱۱ کو پوسٹ کیا تھا۔( ُمراسلہ نمبر ۵۲۸')
آپ اور دیگر احباب کے مطالعے کے لئےفوری حوالے کے لئے اسے یہاں پر نقل کررہا ہوں:

'جنا ح ۔ اتحاد سے تقسیم تک'از جس ونت سنگھ
آج کل میں قائد اعظم علیہ الرحمۃ کے بارے میں لکھی گئی جس ونت سنگھ (سابق وزیر خارجہ بھارت)کیلکھی ہوئی کتاب 'جنا ح ۔ اتحاد سے تقسیم تک'پڑھ رہا ہوں۔ میں اس سے متعلق چند سطور یہاں تحریر کرنا چاہتا ہوں:

اس کتاب کا اُردو نسخہ' رُوپا اینڈ کو' نے نئی دہلی سے شائع کیا ہے اور اس کی طباعت بھی وہیں کے ایک پریس سے ہوئی ہے۔ میرے اس کو خریدنے کے محرکات مختلف مقامات پر اس کے بارے میں کئے جانے والے تبصرے تھے (جو غالباً انگریزی ورژن کو پڑھ کر کئے گئے تھے)۔ خوبصورت گرد پوش، عُمدہ کاغذ اور مضبوط جلد والی455صفحات پر مشتمل اس کتاب کو میں نے جتنے شوق سے خریدا (قیمت 1000روپے)، میں اس کا ابتدائی حِصہ پڑھنے کے بعد اتنا ہی کبیدہ خاطر ، رنجیدہ اور مایوس ہوا ہوں۔ اس کی وجہ اس کے(بعض مقامات پر دشوار اور کسی حد تک ناقص) ترجمے اور پروف ریڈنگ اور کمپوزنگ کی ان گنت فرو گزاشتیں ہیں، جو طبیعت پر بے حد گراں گذرتی ہیں اور مطالعے میں رخنے کا سبب بنتی ہیں۔ حالانکہ کتاب کے شروع میں ایک مرکزی مترجم فرحت احساس کے ساتھ تین دوسرے لوگوں مسعود ہاشمی، سہیل انجم اور اسما سلیم کے نام 'بالاشتراک' ا ور ایک صاحب پروفیسر اختر الواسع کا نام 'نظر ثانی' کے سلسلے میں دیا گیا ہے (میں نہیں جانتا کہ ان سب کا تعلق ہندوستان سے ہے یا پاکستان سے)۔ مختصراً یہ کہ آج تک میرے مطالعے میں اتنی زیادہ اغلاط پر مشتمل کوئی کتاب نہیں آئی۔ دو چار کی تو بات ہی کیا، بعض صفحات پر تو میں نے اٹھارہ تک غلطیاں نوٹ کی ہیں۔ مجھے تعجب ہو رہا ہےکہ اتنے اہم موضوع پر لکھی گئی کتاب کے ترجمے کو اس حالت میں شیلفوں تک کیوں آنے دیا گیا؟

اب آئیے، اس کے مشمولات کی جانب۔ کتاب کی اشاعت پر اس کے مصنف کو بھارت میں کافی تنقید سے گزرنا پڑا تھا اس بنا پر میرا تآثر یہ تھا کہ انہوں نے غالباً مسلمانوں کے بارے میں بالعموم اور قائد اعظم علیہ الرحمۃ کے بارے میں بالخصوص، منصفانہ انداز میں کچھ ایسا لکھ دیا ہوگا جو ان کے ہم وطنوں کو پسند نہیں آیا ہوگا جس کے باعث وہاں انہیں شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ لیکن کتاب کے ابتدائی حصے میں (جتنا میں نے اب تک پڑھا ہے)، مجھے تو کوئی ایسی بات نظر نہیں آئی۔ اسلام ،مسلمانوں اور تقسیم ہند کے بارے میں تاریخی حقائق کو اسی مسخ انداز میں پیش کیا گیا ہے جس کے لئے ہندو مصنفین مشہور ہیں۔

بہر حال، خیر سگالی کے طور پر میں محفل کے احباب کی خدمت میں گذارش کرنا چاہتا ہوں کہ اگر وہ اس کتاب کو خرید کر پڑھنے کے شائق ہوں، تو براہ مہربانی انگریزی کتاب لیں کم از کم انہیں پڑھنے کو اوریجنل مواد تو ملے گا۔ اُردو نسخہ خریدنے کی زحمت بالکل نہ کریں ورنہ میری طرح وہ بیزار بھی ہوں گے اور رقم الگ ضائع کریں گے۔
شکریہ۔


ربط:
http://www.urduweb.org/mehfil/threads/آپ-کیا-پڑھ-رہے-ہیں؟.9662/page-27

اضافی طور پر عرض ہے کہ اغلاط کی بنا پر میں اس کو ایک تہائی سے زیادہ نہیں پڑھ سکا ۔ میں شروع شروع میں یہ ارادہ کئے ہوئے تھا کہ کسی طریقے سے میں ناشرین کی توجہ ان کے اس تساہل کی طرف مبذول کرواؤں چاہے اغلاط لگی (پروف رَیڈ) کتاب انہیں بھیجنی بھی پڑے۔ لیکن بعد میں میرا یہ جوش ٹھنڈا پڑ گیا اور اب یہ کتاب اسی طر ح میری الماری میں پڑی خاک آلود ہو رہی ہے۔

تلمیذ بھائی جان جن صاحب کا نام نظر ثانی میں لکھا ہے میں انھیں جانتا ہوں بلکہ ان سے میری ملاقات بھی ہے ۔یہ صاحب جامعہ ملیہ اسلامیہ شعبہ اسلامک اسٹڈیز کے صدر بھی ہیں ،اسی طرح سہیل انجم صاحب سے بھی میری ملاقات ہے محترم ایک صحافی ہیں اور وائس آف امریکہ اردو سر وس سے فی الحال وابستہ ،فرحت احساس صاحب سے بھی میری ملاقات ہے اردو میں ان کی خدمات قابل تعریف ہیں ۔میں نے ترجمہ نہیں دیکھا صرف اصل کتاب ہی دیکھی ہے یہ سن کر بے انتہا تکلیف ہوئی کہ اس میں کافی اغلاط ہیں ۔حالانکہ مجھے یہ بھی معلوم ہے کہ جسونت سنگھ نے مترجمین و مصلحین کو موٹی موٹی رقمیں دیں اس کے عوض میں ۔اس کے باوجود اتنی غلطی حیرت ہوتی ہے ۔لوگوں کو اپنی ذمہ داریاں نبھانی چاہئے اور جو ذمہ داری انھیں سونپی جائے بطرز احسن نبھانے کی کوشش کرنی چاہئے ۔مجھے لگتا ہے پروفیسر صاحب نے دیکھا ہی نہیں یا جن لوگوں کا بھی نام ہے انھوں نے محض پیسہ کے لالچ میں خانہ پری کی ہے ورنہ ایسی غلطی چہ معنی دارد۔ میں نے مذکورہ مولفین کی کتابیں دیکھی ہیں ان کا معیار بہت اعلی نہ سہی لیکن زبان و بیان تو ٹھیک ہی ہے ۔مجھے لگتا ہے ان دنوں کتاب بہت چرچے میں تھی تو اسی لئے جلدی جلدی میں یہ کمیاں رہ گئی ہوں لیکن بہر حال یہ کوئی دلیل نہیں ہے ،میں خود ایسے غیر ذمہ دارانہ کام کی مذمت کرتا ہوں ۔آپ نے اگر کتاب پڑھنی شروع کی تھی اور نشان زد کیا ہی تھا تو پوری ہی پڑھ لیتے کم از کم انھیں بتایا تو جاتا اور ان کی علمیت کا بھی بھانڈا پھوٹتا ۔
 
تلمیذ بھائی جان جن صاحب کا نام نظر ثانی میں لکھا ہے میں انھیں جانتا ہوں بلکہ ان سے میری ملاقات بھی ہے ۔یہ صاحب جامعہ ملیہ اسلامیہ شعبہ اسلامک اسٹڈیز کے صدر بھی ہیں ،اسی طرح سہیل انجم صاحب سے بھی میری ملاقات ہے محترم ایک صحافی ہیں اور وائس آف امریکہ اردو سر وس سے فی الحال وابستہ ،فرحت احساس صاحب سے بھی میری ملاقات ہے اردو میں ان کی خدمات قابل تعریف ہیں ۔میں نے ترجمہ نہیں دیکھا صرف اصل کتاب ہی دیکھی ہے یہ سن کر بے انتہا تکلیف ہوئی کہ اس میں کافی اغلاط ہیں ۔حالانکہ مجھے یہ بھی معلوم ہے کہ جسونت سنگھ نے مترجمین و مصلحین کو موٹی موٹی رقمیں دیں اس کے عوض میں ۔اس کے باوجود اتنی غلطی حیرت ہوتی ہے ۔لوگوں کو اپنی ذمہ داریاں نبھانی چاہئے اور جو ذمہ داری انھیں سونپی جائے بطرز احسن نبھانے کی کوشش کرنی چاہئے ۔مجھے لگتا ہے پروفیسر صاحب نے دیکھا ہی نہیں یا جن لوگوں کا بھی نام ہے انھوں نے محض پیسہ کے لالچ میں خانہ پری کی ہے ورنہ ایسی غلطی چہ معنی دارد۔ میں نے مذکورہ مولفین کی کتابیں دیکھی ہیں ان کا معیار بہت اعلی نہ سہی لیکن زبان و بیان تو ٹھیک ہی ہے ۔مجھے لگتا ہے ان دنوں کتاب بہت چرچے میں تھی تو اسی لئے جلدی جلدی میں یہ کمیاں رہ گئی ہوں لیکن بہر حال یہ کوئی دلیل نہیں ہے ،میں خود ایسے غیر ذمہ دارانہ کام کی مذمت کرتا ہوں ۔آپ نے اگر کتاب پڑھنی شروع کی تھی اور نشان زد کیا ہی تھا تو پوری ہی پڑھ لیتے کم از کم انھیں بتایا تو جاتا اور ان کی علمیت کا بھی بھانڈا پھوٹتا ۔
ویسے آپ کو ان احباب سے اسکا ذکر کرنا چاہئیے اور میں جب یہ کتاب پڑھوں گا تو اپنی طرف سے غلطیاں تلاش کرنیکی کوشش کروں گا
 

تلمیذ

لائبریرین
تلمیذ بھائی جان جن صاحب کا نام نظر ثانی میں لکھا ہے میں انھیں جانتا ہوں بلکہ ان سے میری ملاقات بھی ہے ۔یہ صاحب جامعہ ملیہ اسلامیہ شعبہ اسلامک اسٹڈیز کے صدر بھی ہیں ،اسی طرح سہیل انجم صاحب سے بھی میری ملاقات ہے محترم ایک صحافی ہیں اور وائس آف امریکہ اردو سر وس سے فی الحال وابستہ ،فرحت احساس صاحب سے بھی میری ملاقات ہے۔

جناب اصلاحی صاحب، مجھے یہ پڑھ کر بہت مسرت ہوئی ہے کہ اس کتاب کے جملہ مترجمین حضرات آپ کے حلقہ تعارف میں ہیں۔ کیا آپ زحمت کرکے پاکستانی قارئین کے حوالے سے ان کی توجہ ان کی ترجمہ شدہ کتاب کے اس سقم کی طرف مبذول فرمائیں گے۔ کیونکہ خریداروں کی رقم کے ضیاع کو تو چھوڑیں، ظاہر ہے یہ فروگذاشت ان کے اپنے نام پر بھی ایک دھبہ ہے۔
میرے پاس سکینر نہیں ہے لیکن میں کوشش کروں گا کہ اپنے پروف ریڈ شدہ چند صفحات کے عکس پیش کرسکوں۔ آپ یقین کریں کہ طباعت کے اتنے اعلی معیار اور دیگر صوری خوبیوں کی حامل اتنی اہم کتاب میں اغلاط کی اتنی تعداددیکھ کر میری اپنی طبیعت اتنی بیزار ہوئی تھی کہ کیا بتاؤں۔
 
ویسے آپ کو ان احباب سے اسکا ذکر کرنا چاہئیے اور میں جب یہ کتاب پڑھوں گا تو اپنی طرف سے غلطیاں تلاش کرنیکی کوشش کروں گا
بے حس لوگ ہیں کوئی فرق نہیں پڑنے والا ہاں جسونت سنگھ تک بات پہنچائی جا سکتی ہے ،جنھوں نے ان پر بھروسہ کیا اور کافی روپئے بھی خرچ کئے ----
ایسے اصل کتاب واقعی بہت عمدہ ہے جس کے ایڈیٹنگ بورڈ میں میرے دو گرامی قدر اساتذہ پروفیسر جاوید عالم اور پروفیسر مشیر الحسن صاحب بھی رہے ہیں (یہ بہت قد آور شخصیت ہیں تاریخ کے حوالہ سے ،مجھے فخر ہے محترم حضرات کا شاگرد ہونے پر)
 
جناب اصلاحی صاحب، مجھے یہ پڑھ کر بہت مسرت ہوئی ہے کہ اس کتاب کے جملہ مترجمین حضرات آپ کے حلقہ تعارف میں ہیں۔ کیا آپ زحمت کرکے پاکستانی قارئین کے حوالے سے ان کی توجہ ان کی ترجمہ شدہ کتاب کے اس سقم کی طرف مبذول فرمائیں گے۔ کیونکہ خریداروں کی رقم کے ضیاع کو تو چھوڑیں، ظاہر ہے یہ فروگذاشت ان کے اپنے نام پر بھی ایک دھبہ ہے۔
میرے پاس سکینر نہیں ہے لیکن میں کوشش کروں گا کہ اپنے پروف ریڈ شدہ چند صفحات کے عکس پیش کرسکوں۔ آپ یقین کریں کہ طباعت کے اتنے اعلی معیار اور دیگر صوری خوبیوں کی حامل اتنی اہم کتاب میں اغلاط کی اتنی تعداددیکھ کر میری اپنی طبیعت اتنی بیزار ہوئی تھی کہ کیا بتاؤں۔
جب آپ نے زحمت کی ہے تو پوری کتاب دیکھ جائیے میں جسونت سنگھ تک پیغام پہنچانے کی کوشش کروں گا ۔نشاندہی کے ساتھ ۔تاکہ انھیں بھی تو پتہ چلے کہ جن لوگوں کے اوپر انھوں نے بھروسہ کیا کیسے دمودر نکلے----
 

تلمیذ

لائبریرین
اصلاحی صاحب، مجھے یہ پڑھ کر بہت مسرت ہوئی ہے کہ اس کتاب کے جملہ مترجمین حضرات آپ کے حلقہ تعارف میں ہیں۔ کیا آپ زحمت کرکے پاکستانی قارئین کے حوالے سے ان کی توجہ ان کی ترجمہ شدہ کتاب کے اس سقم کی طرف مبذول فرمائیں گے ( ویسےہو سکتا ہے اتنا عرصہ گذرنے کی وجہ سے ان کے علم میں یہ بات آ چکی ہو)۔ کیونکہ خریداروں کی رقم کے ضیاع کو ظاہر ہے یہ فروگذاشت ان کے اپنے نام پر بھی ایک دھبہ ہے۔

میرے پاس سکینر نہیں ہے لیکن پھر بھی میں کوشش کروں گا کہ اپنے پروف ریڈ شدہ چند صفحات کے عکس پیش کرسکوں۔ آپ یقین کریں کہ طباعت کے اتنے اعلی معیار اور دیگر صوری خوبیوں کی حامل اتنی اہم اور (قیمتی) کتاب میں اغلاط کی اتنی تعداددیکھ کر میری اپنی طبیعت اتنی بیزار ہوئی تھی کہ کیا عرض کروں۔

ویسے آپ اپنی جامعہ کی لائبریری میں دیکھئے یہ کتاب وہاں پر ضرور ہوگی۔
 
آخری تدوین:

تلمیذ

لائبریرین
ے میں جسونت سنگھ تک پیغام پہنچانے کی کوشش کروں گا ۔نشاندہی کے ساتھ ۔تاکہ انھیں بھی تو پتہ چلے کہ جن لوگوں کے اوپر انھوں نے بھروسہ کیا کیسے دمودر نکلے----

یہ تو عین کار ثواب ہوگا، اصلاحی صاحب۔ جیسا کہ میں نےاپنے ایک مذکورہ بالا مراسلے میں ذکر کیا ہے کہ میں اس زمانے میں خود بھی کتاب کے مصنف جسونت سنگھ صاحب کو لکھنے کے بارے میں پر جوش تھا لیکن پھر رہ گیا۔
اگر یہ کام ہو جائے تو یقیناً بہت اچھی بات ہے،اگرچہ اس کی اشاعت کو کافی عرصہ گذر چکا ہے۔
آپ اپنی لائبریری میں سے کتاب ڈھونڈھ کر خود ملاحظہ فرمائیں۔
 

عثمان

محفلین
اب آئیے، اس کے مشمولات کی جانب۔ کتاب کی اشاعت پر اس کے مصنف کو بھارت میں کافی تنقید سے گزرنا پڑا تھا اس بنا پر میرا تآثر یہ تھا کہ انہوں نے غالباً مسلمانوں کے بارے میں بالعموم اور قائد اعظم علیہ الرحمۃ کے بارے میں بالخصوص، منصفانہ انداز میں کچھ ایسا لکھ دیا ہوگا جو ان کے ہم وطنوں کو پسند نہیں آیا ہوگا جس کے باعث وہاں انہیں شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ لیکن کتاب کے ابتدائی حصے میں (جتنا میں نے اب تک پڑھا ہے)، مجھے تو کوئی ایسی بات نظر نہیں آئی۔ اسلام ،مسلمانوں اور تقسیم ہند کے بارے میں تاریخی حقائق کو اسی مسخ انداز میں پیش کیا گیا ہے جس کے لئے ہندو مصنفین مشہور ہیں۔

میں نہیں سمجھتا کہ مصنف نے کتاب میں کہیں کوئی غیر منصفانہ انداز اختیار کیا ہے یا تاریخ کو توڑ مروڑ کر پیش کیا ہے۔ کتاب میں کئی مواقع پر جا بجا قائد اعظم کی شخصیت اور ان کی سیاسی بصیرت کی تعریف کی گئی ہے۔
جبکہ کئی ایک مواقع پر پنڈت نہرو اور ولب بھائی پٹیل کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔
نیز جون 1946ء کے منصوبے کا بہت تفصیلی اور معلوماتی تذکرہ موجود ہے۔
کتاب کے اردو ترجمہ کا مجھے علم نہیں۔
 

تلمیذ

لائبریرین
شکریہ عثمان صاحب، کہ آپ نے اپنی رائے کا اظہار کیا۔
مجھے کچھ وقت دیجئے تا کہ میں اپنے مذکورہ بالا بیان کی تائید میں کچھ اقتباسات ڈھونڈھ کر پیش کر سکوں۔
 
Top