محمد خلیل الرحمٰن
محفلین
گویا ہم اس لڑی کے عنوان کو یوں کردیں
’’غالب کی ایک غزل جو نہ غالب کی ہے اور نہ دیوانِ غالب میں ہے، بلکہ مہدی حسن نے گائی ہے‘‘
			
			’’غالب کی ایک غزل جو نہ غالب کی ہے اور نہ دیوانِ غالب میں ہے، بلکہ مہدی حسن نے گائی ہے‘‘
گویا آپ کی نظر میں غالب کے کلام کی جانچ کے لیے میراثیوں بھانڈوں کے اقوال سند قرار پاتے ہیں۔ واہ چہ خوب۔
گویا ہم اس لڑی کے عنوان کو یوں کردیں
’’غالب کی ایک غزل جو نہ غالب کی ہے اور نہ دیوانِ غالب میں ہے، بلکہ مہدی حسن نے گائی ہے‘‘
اب ذرا منطقی طور پر ان اشعار کو دیکھتے ہیں۔۔۔
اس شعر میں نہ صرف تمام الفاظ چن کر دیوانِ غالب کے ہی استعمال کیے گئے ہیں بلکہ دل کو سنگ و خشت سے تشبیہ دینے کا محاورہ تک غالب کے شعر میں سے چرایا گیا ہے:
دل ہی تو ہے نہ سنگ و خشت
لیکن غالب نے اسم واحد دل کو براہ راست اسم جمع قرار نہیں دیا تھا کہ دل سنگ اور خشت ہے۔
اس شعر میں صرف ایک لفظ "رائگاں" ایسا ہے جو غالب کے اشعار سے نہیں لیا گیا باقی نہ صرف تمام الفاظ بلکہ کسی شے پر خاک کا محاورہ اور لہو رونے کا محاورہ بھی غالب کے اشعار سے نکال کر شامل کیا گیا ہے:
خاک ایسی زندگی پہ
ایسا آساں نہیں لہو رونا
اس شعر میں بھی اوپر کے دو شعروں کی طرح تمام کے تمام الفاظ دیوانِ غالب سے چربہ ہیں لیکن غالب نے "فضول" کے لفظ کو بمعنی بکواس، فالتو یا ناکارہ کبھی نہیں برتا بلکہ محض زیادہ یا وافر کے معنوں میں استعمال کیا ہے:
شوقِ فضول و جراتِ رندانہ چاہیے
یوں تو اس شعر میں بھی تمام الفاظ غالب کے دیوان سے چرائے گئے ہیں لیکن۔۔۔ اس شعر میں کافی شواہد ایسے موجود ہیں جن سے یقین ہو جاتا ہے کہ یہ لغو بکواس غالب کی نہیں ہو سکتی۔
اول۔ نمازِ عشق کی اصطلاح غالب کے ہاں نہیں پائی جاتی بلکہ شاید اس دور کے کسی بھی شاعر کے ہاں نہیں ہے یہ اصطلاح کیونکہ اس اصطلاح کا پہلا ماخذ شاید بلھے شاہ کے ہاں ملتا ہے اور یوں یہ بلھے شاہ ہی کی ایجاد ہے۔
دوم۔ مقبولیّت کی ی کو بلا تشدید باندھنے کا مکروہ کام غالب سے متوقع نہیں۔
سوم۔ مقبولیت کو قبولیت کے معنوں میں غالب نے استعمال نہیں کیا۔ بجائے اس کے ہاں قبول ہونے کا محاورہ رائج ہے۔
چہارم۔ مصرع ثانی میں "اپنے" خونِ جگر جیسی کمزور ترکیب جو محض وزن پورا کرنے کی کوشش محسوس ہوتی ہو، غالب نہیں برتتا۔
مجموعی طور پر بات کی جائے تو چاروں اشعار میں محض علت ہی علت ہے یعنی یوں نہ ہو تو یوں اور یوں نہ ہو تو یوں۔۔۔ کم از غالب سے ایسے گھٹیا پن کی توقع نہیں رکھی جا سکتی کہ چار اشعار لکھے اور چاروں صرف یوں نہیں تو تُوں نہیں کا مضمون ہی بیان کر رہے ہوں۔ نیز، چاروں اشعار میں صرف 2 الفاظ (رائیگاں اور مقبولیت) ایسے ہیں جو غالب کے دیوان سے نہیں چرائے گئے اور ان دو الفاظ میں سے بھی ایک (مقبولیت) کو ہر دو تلفظ اور معنی کے اعتبار سے غلط یا کم از کم غالب کے انداز سے ہٹ کر باندھا گیا ہے۔
جیہ صاحبہ آپ نے غلطی سے عؔلی خان کی بجائے علی خان کو ٹیگ کیا ہے۔علی خان بابا جانی کے سوال کا جواب تو دیں۔ آپ ماخذ بتا دیں تاکہ ہم دیوان غالب نسخہ اردو ویب کو اپڈیٹ کر سکیں
گویا آپ کے "تنقیدی جائزہ" کے مطابق ایک نا معلوم شاعر نے چُن چُن کر دیوانِ غالب سے نہ صرف الفاظ چرائے بلکہ ایک پوری غزل لکھ ماری جو کہ غالب کے کلام کا انتہائی گھٹیا چربہ ہے۔ اور پھر مہدی حسن جیسے "میراثی اور بھانڈ "نے اس غزل کو پاکستان ٹیلویژن کی ایک محفل میں سب کے سامنے دیدہ دلیری کے ساتھ گا بھی دیا۔ مجھے تو آج تک ایسا شاعر نہیں ملا جو کہ یہ چاہے گا کہ مہدی حسن جیسا "میراثی اور بھانڈ " (وہ بین الاقومی ایوارڈ یافتہ "میراثی اور بھانڈ " جس کے پاس احمد فراز جیسے شاعر اپنی غزل خود لے کر جاتے تھے-) اس کی غزل کو (چاہے وہ غالب کے کلام کا انتہائی گھٹیا چربہ ہی کیوں نہ ہو۔) اس کے نام کی بجائے غالب کیا کسی اور کے نام پر گا دے -یا حیرت! "تنقیدی جائزہ" میں آبجیکٹویٹی بھلا کس بلا کا نام ہے۔ شکریہ۔
فاتح بھائی کی بات درست ہے کہ جب @عؔلی خان کا دعویٰ ہے کہ یہ غالب کی غزل ہے تو اس کا ثبوت دینا چاہیئے۔ محض یہ کہہ دینا کہ میں نے سنا ہے، کافی دلیل نہیں۔ فاتح بھائی نے اگرچہ سخت الفاظ استعمال کئے ہیں، لیکن ان کی بات بجا ہے۔ یا تو آپ کوئی ثبوت لائیے کہ غالب نے کس دوست کو کب یہ خط لکھا اور وہ خط کس کتاب موجود ہے، تو آپ کی بات بجا ہے۔ ورنہ لہجے کی تلخی کا بہانہ کر کے دلائل کو مسترد نہ کیجیئے
جی وہی بات سید ذیشان صاحب نے کالی داس کا حوالہ دے کر واضح کی ہے کہ یہ غالب کے مطبوعہ یا غیر مطبوعہ مستند کلام میں شامل نہیں اور فاتح بھائی نے تکنیکی اعتبار سے بھی واضح کر دیا کہ یہ غالب کا کلام نہیں تو میرا خیال ہے کہ یہ بات ایک طرح سے ثابت ہی سمجھیںجناب قیصرانی صاحب ! یہاں کوئی "بہانہ" نہیں بنا یا جا رہا۔ بلکہ اپنی کم علمی کے اعتراف کے ساتھ اس بات پر زور دیا جارہاہے کہ مزید تحقیق ہونی چاہیے کہ آیا یہ غزل غالب کی ہے یا نہیں۔ شکریہ-
ضروری اعلان: فیس بک کا مواد اوپر موجود موٹے موٹے حروف والے مقصد کے لئے ہرگز نہیں استعمال ہو سکتاویسے میرے پاس کچھ دھماکہ خیز مواد اب بھی موجود ہے۔ ذرا معاملہ ٹھنڈا ہو اور علی خان افطاری کر لیں، پھر پیش کروں گا۔
ضروری اعلان: فیس بک کا مواد اوپر موجود موٹے موٹے حروف والے مقصد کے لئے ہرگز نہیں استعمال ہو سکتا
شکر، آپ نے واضح کر دیاآپ بے فکر رہیں ایسا مواد صرف شب برات پر استعمال ہوتا ہے جو کہ کب کی گذر چکی۔
جی وہی بات سید ذیشان صاحب نے کالی داس کا حوالہ دے کر واضح کی ہے کہ یہ غالب کے مطبوعہ یا غیر مطبوعہ مستند کلام میں شامل نہیں اور فاتح بھائی نے تکنیکی اعتبار سے بھی واضح کر دیا کہ یہ غالب کا کلام نہیں تو میرا خیال ہے کہ یہ بات ایک طرح سے ثابت ہی سمجھیںتاہم یہ میری برادرانہ رائے ہے۔ آپ اپنی رائے میں آزاد ہیں
میں آپ کی کیفیت سمجھ رہا ہوں۔ غالب کا پورا دیوان ہماری محفل میں ہی برقیایا گیا ہے۔ اس پر جتنی تحقیق محفل پر ہو چکی ہے، شاید پوری آن لائن دنیا میں اس سے زیادہ عرق ریزی سے کام نہیں ہوا۔ اس بارے آپ کی رہنمائی کرنے کے لئے جیہ کو تکلیف دے رہا ہوںجناب ٖقیصرانی صاحب! آپ یقین رکھئے کہ میری یہاں کسی کا ساتھ کسی قسم کی کوئی زد یا عداوت نہیں ہے۔ غالب کے پرستاروں کی غالب کے ساتھ وارفتگی، محبت اور عقیدت اپنی جگہ لیکن کیا غالب شناسی کے ماہرین (یہ اور بات ہے کہ شایداس فورم پر یا آن لائن غالب شناسی کے ماہرین اپنا وقت صرف نہ کرتے ہوں۔ اگر ایسی بات ہے تو میں معذرت خواہ ہوں۔) اور اساتذہ کی نگرانی میں مزید تحقیق میں کوئی مضائقہ ہے کہ آیا یہ غزل غالب کی ہے یا نہیں؟ اگر کالی داس کی کتاب آن لائن مہیا ہے تو بہت اچھی بات ہے۔ لیکن مجھے یقین ہے کہ غالب کے متعلق بہت ساری اہم اور مفید کتابیں ابھی تک آن لائن مہیا نہیں ہیں۔ مثلآ پختونوں کی تاریخ سے متعلق بہت ساری کتابیں آن لائن مہیا نہیں ہیں۔ اگر آپ غیرجانبداری سے،آبجیکٹییویٹی سے اور سنجیدگی کے ساتھ میری اس غزل کی تحقیق کی بابت غور کریں گے تو امید ہے کہ آپ کو میرا مافی الضمیر سمجھنے میں آسانی ہوگی۔ بہرحال۔۔۔ شکریہ۔
