’توریت کے قدیم ترین نسخے کی دریافت‘

130529035314_torah_624x351__nocredit.jpg


اٹلی کی بلونیا یونیورسٹی نے کہا ہے کہ انھیں توریت کا دنیا میں ایک نایاب اور قدیم ترین مکمل نسخہ ملا ہے۔

واضح رہے کہ توریت یہودیوں کی مقدس ترین کتاب شمار کی جاتی ہے اور مسلمان اسے آسمانی کتاب تسلیم کرتے ہیں جو کہ حضرت موسٰی کو دی گئی تھی۔

بلونگا یونیورسٹی کے ایک پروفیسر نے کہا کہ یہ نسخہ یونیورسٹی کی لائبریری میں ملا ہے جو کہ ایک رول میں لپٹا ہوا تھا اور اس پر غلط لیبل لگا ہوا تھا۔

بہر حال پہلے اس رول کے بارے میں یہ خیال ظاہر کیا گیا تھا کہ یہ چند صدی سے زیادہ پرانا نہیں ہے۔

یونیورسٹی نے کہا ہے کہ کاربن ڈیٹنگ ٹیسٹ کے ذریعے جب اس کی جانچ کی گئي تو یہ پتہ چلا کہ اسے کم سے کم 850 سال قبل لکھا گیا ہوگا۔

یونیورسٹی میں عبرانی کے پروفیسر ماؤرو پیرانی کا کہنا ہے کہ اس نسخے کے سامنے آنے کے بعد اب تک موجود تمام نسخوں میں یہ قدیم ترین ہوگا اور یہ انتہائی گراں قدر اہمیت کا حامل ہے۔

111211112703_jewish_rabbi_tunisia_304x171_getty_nocredit.jpg


یونیورسٹی نے بتایا کہ 1889 میں ان کی ایک لائبریرین لیونیلو موڈونا نے اس رول کی جانچ کی تھی اور اسے سترہویں صدی کا نسخہ قرار دیا تھا۔

بہر حال جب پروفیسر پیرانی نے اس کا از سر نو جائزہ لیا تو انھوں نے یہ محسوس کیا کہ اس میں جس رسم الخط کا استعمال کیا گیا ہے وہ مشرقی بیبیلون روایت کا حامل ہے جس کا مطلب یہ ہوا کہ یہ نسخہ کافی قدیم ہے۔

یونیورسٹی کے مطابق اس نسخے کی کاربن ڈیٹنگ کرانے کی ضرورت اس لیے بھی محسوس کی گئي کہ اس میں بہت سی ایسی چیزیں موجود ہیں جو بعد کے نسخوں میں نہیں ہیں۔

واضح رہے کہ بارھویں صدی کے یہودی مذہب کے سکالر میمونائڈس کے منضبط اصول و ضوابط کے تحت بعد میں ملنے والے توریت کے نسخوں میں بہت سی چیزیں حذف کر دی گئی تھیں۔

بہ شکریہ بی بی سی اردو
 

قیصرانی

لائبریرین
واضح رہے کہ بارھویں صدی کے یہودی مذہب کے سکالر میمونائڈس کے منضبط اصول و ضوابط کے تحت بعد میں ملنے والے توریت کے نسخوں میں بہت سی چیزیں حذف کر دی گئی تھیں۔​
مجھے یہ بات جان کر بہت حیرت ہوئی ہے کہ مذہبی کتاب کا متن جو کہ براہ راست اللہ تعالٰی کی طرف سے دیا گیا تھا، میں کیسےا یک مذہبی سکالر کے اصول و ضوابط کے مطابق ترمیم کی گئی تھی؟
 

نبیل

تکنیکی معاون
[ARABIC]أَفَتَطْمَعُونَ أَن يُؤْمِنُوا لَكُمْ وَقَدْ كَانَ فَرِيقٌ مِّنْهُمْ يَسْمَعُونَ كَلَامَ اللَّ۔هِ ثُمَّ يُحَرِّفُونَهُ مِن بَعْدِ مَا عَقَلُوهُ وَهُمْ يَعْلَمُونَ ﴿٧٥﴾[/ARABIC]

اے مسلمانو! اب کیا اِن لوگوں سے تم یہ توقع رکھتے ہو کہ تمہاری دعوت پر ایمان لے آئیں گے؟ حالانکہ ان میں سے ایک گروہ کا شیوہ یہ رہا ہے کہ اللہ کا کلام سنا اور پھر خوب سمجھ بوجھ کر دانستہ اس میں تحریف کی

سورۃ بقرۃ (75)
 

قیصرانی

لائبریرین
[ARABIC]أَفَتَطْمَعُونَ أَن يُؤْمِنُوا لَكُمْ وَقَدْ كَانَ فَرِيقٌ مِّنْهُمْ يَسْمَعُونَ كَلَامَ اللَّ۔هِ ثُمَّ يُحَرِّفُونَهُ مِن بَعْدِ مَا عَقَلُوهُ وَهُمْ يَعْلَمُونَ ﴿٧٥﴾[/ARABIC]

اے مسلمانو! اب کیا اِن لوگوں سے تم یہ توقع رکھتے ہو کہ تمہاری دعوت پر ایمان لے آئیں گے؟ حالانکہ ان میں سے ایک گروہ کا شیوہ یہ رہا ہے کہ اللہ کا کلام سنا اور پھر خوب سمجھ بوجھ کر دانستہ اس میں تحریف کی

سورۃ بقرۃ (75)

خوب سمجھ بوجھ کر دانستہ اس میں تحریف کی
اوپر کی خبر کے مطابق تحریف کرنے والا سکالر تھا۔ یعنی من و عن قرآن پاک کے الفاظ :)
 
یونیورسٹی کے مطابق اس نسخے کی کاربن ڈیٹنگ کرانے کی ضرورت اس لیے بھی محسوس کی گئي کہ اس میں بہت سی ایسی چیزیں موجود ہیں جو بعد کے نسخوں میں نہیں ہیں۔​

قرآنِ کریم نے بھی یہی فرمایا ہے کہ وہ اللہ کے کلام کو بدل دیا کرتے تھے۔
 

arifkarim

معطل
مجھے یہ بات جان کر بہت حیرت ہوئی ہے کہ مذہبی کتاب کا متن جو کہ براہ راست اللہ تعالٰی کی طرف سے دیا گیا تھا، میں کیسےا یک مذہبی سکالر کے اصول و ضوابط کے مطابق ترمیم کی گئی تھی؟

ترمیم نہیں کی گئی تھی بلکہ تلمود اور تورات جو کہ یہود کے نزدیک مقدس ترین مذہبی کتب ہیں کو یہودی قانون کی آسانی کیلئے ترتیب اور تدوین کیا گیا تھا:
Maimonides's major contribution to Jewish life remains the Mishneh Torah, his code of Jewish law. His intention was to compose a book that would guide Jews on how to behave in all situations just by reading the Torah and his code, without having to expend large amounts of time searching through the Talmud. Needless to say, this provocative rationale did not endear Maimonides to many traditional Jews, who feared that people would rely on his code and no longer study the Talmud. Despite sometimes intense opposition, the Mishneh Torah became a standard guide to Jewish practice: It later served as the model for the Shulkhan Arukh, the sixteenthcentury code of Jewish law that is still regarded as authoritative by Orthodox Jews.
[ARABIC]أَفَتَطْمَعُونَ أَن يُؤْمِنُوا لَكُمْ وَقَدْ كَانَ فَرِيقٌ مِّنْهُمْ يَسْمَعُونَ كَلَامَ اللَّ۔هِ ثُمَّ يُحَرِّفُونَهُ مِن بَعْدِ مَا عَقَلُوهُ وَهُمْ يَعْلَمُونَ ﴿٧٥﴾[/ARABIC]
اے مسلمانو! اب کیا اِن لوگوں سے تم یہ توقع رکھتے ہو کہ تمہاری دعوت پر ایمان لے آئیں گے؟ حالانکہ ان میں سے ایک گروہ کا شیوہ یہ رہا ہے کہ اللہ کا کلام سنا اور پھر خوب سمجھ بوجھ کر دانستہ اس میں تحریف کی

سورۃ بقرۃ (75)
یہ ضروری نہیں ہے کہ اسلام سے قبل زمانہ کے مذاہب کی کتب میں جو تبدیلیاں ہوئی ہیں وہ مسلمانوں کیخلاف کسی خاص سازش کا نتیجہ ہیں۔ یہودی مذہب کم از کم 3000 پرانا ہے اور انکے ہاں بھی ہماری طرح مختلف فرقے آباد ہیں جنہوں نے اپنی سمجھ بوجھ کے مطابق مقدس الٰہی کتب کی تشریح میں تبدیلیاں کی ہوں گی۔ البتہ 1947 میں دریافت ہونے والے بحیرہ مردار کے طومار اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ موجودہ یہودی بائبل ہزاروں سال پرانی ’’اصلی‘‘ بائبل سے زیادہ مختلف نہیں ہے۔
http://en.wikipedia.org/wiki/Dead_Sea_Scrolls#Biblical_significance

اوپر کی خبر کے مطابق تحریف کرنے والا سکالر تھا۔ یعنی من و عن قرآن پاک کے الفاظ :)

یہ خبر جھوٹی ہے اور لکھنے والے کی کم علمی کی عکاسی کرتی ہے۔
 

عبدالحسیب

محفلین
آسمانی کتابوں میں تحریف کو لے کر کئی ریسرچ ہوئے ہیں۔ خاص کر انجیل اور قرآن کے تعلق سے۔ ایسی ہی ایک ریسرچ جرمنی میں ہوئی تھی بیسوی صدی کی شروعات میں۔ مشہور محقق ڈاکٹر حمید اللہ رحمۃ اللہ علیہ نے خطباتِ بہاولپور میں دیے گئے خطبات کے پہلے خطبہ "تاریخِ قرآن" میں اس ریسرچ کا ذکر کیا تھا۔
"بیسوی صدی عیسوی کی شروعات میں
جرمنی کے عیسائی پادریوں نے یہ سوچا کہ حضرت عیسیٰ علیہ سلام کے زمانے میں آرامی زبان میں جو انجیل تھی وہ تو اب دنیا میں موجود نہیں۔ اس وقت قدیم ترین انجیل یونانی زبان میں ہے۔اور یونانی سے ہی ساری زبانوں میں اس کے ترجمے ہوئے ہیں ۔ لہٰذا یونانی مخطوطوں کو جمع کیا جائے اور انکا آپس میں مقابلہ کیا جائے۔چنانچہ یونانی زبان میں انجیل کے نسخے جتنے دنیا میں پائے جاتے تھے کامل ہوں کہ جزوی،ان سب کو جمع کیا گیا اور ان کے ایک ایک لفظ کا باہم مقابلہ (Collation) کیا گیا۔ اس کی جو رپورٹ شائع ہوئی اس کے لفظ یہ ہیں: "کوئی دو لاکھ اختلافی رویات ملتی ہیں" یہ ہے انجیل کا قصہ۔ غالباً اس رپورٹ کی اشاعت سے کچھ لوگوں کو قرآن کے متعلق حسد پیدا ہوا۔ جرمنی میں ہی میونخ یونیورسٹی میں ایک ادارہ قائم کیا گیا "قرآن مجید کی تحقیقات کا ادارہ" اس کا مقصد یہ تھا کہ ساری دنیا سے قرآن مجید کے قدیم ترین نسخے خرید کر، فوٹو لے کر، جس طرح بھی ممکن ہو جمع کیے جائیں۔جمع کرنے کا یہ سلسلہ تین نسلوں تک جاری رہا۔ جب میں 1933 ء میں پیرس یونیورسٹی میں تھا تو اس کا تیسرا ڈائریکٹر پریتسل Pretzl ، پیرس آیا تھا تاکہ پیرس کی لائبریری میں قرآن مجید کے جو قدیم نسخے پائے جاتے ہیں ان کے فوٹو حاصل کرے۔ اس پروفیسر نے مجھے شخصاً بیان کیا کہ اس وقت (یہ 1933 کی بات ہے) ہمارے انسٹی ٹیوٹ میں قرآن مجید کے بیالس ہزار نسخوں کے فوٹو موجود ہیں اور مقابلہ (Collation) کا کام جاری ہے ۔ دوسری جنگِ عظیم میں اس ادارے کی عمارت پر ایک بم گرا اور عمارت اس کا کتب خانہ اور عملہ سب کچھ برباد ہو گیا۔ لیکن جنگ کے شروع ہونے سے کچھ ہی پہلے ایک عارضی رپورٹ شائع ہوئی تھی ۔ اس رپورٹ کے الفاظ یہ ہیں کہ قرآن مجید کے نسخوں میں مقابلے کا جو کام ہم نے شروع کیا تھا وہ ابھی مکمل تو نہیں ہوا لیکن اب تک جو نتیجہ نکلا ہے وہ یہ ہے کہ ان نسخوں میں کہیں کہیں کتابت کی غلطیاں تو ملتی ہیں لیکن اختلافاتِ روایت ایک بھی نہیں۔ ان دونوں میں فرق یہ ہے کہ کتابت کی جو غلطی ایک نسخہ میں ہوگی وہ کسی دوسرے نسخہ میں نہیں ہوگی۔ مثلاً فرض کیجئے "بسم اللہ الرحیم" میں "الرحمٰن" کا لفظ نہیں لیکن یہ صرف ایک نسخے میں ہے۔ باقی کسی نسخے میں ایسا نہیں ہے۔ سب میں "بسم اللہ الرحمٰن الرحیم" ہے۔ اس کو کاتب کی غلطی قرار دیں گے۔ یا کہیں کوئی لفظ بڑھ گیا مثلاً ایک نسخے میں"بسم اللہ الرحمٰن الرحیم" ہے باقی نسخوں میں نہیں تو اسے کاتب کی غلطی قرار دیں گے۔وہ کہتے ہیں کہ ایسی چیزیں کہیں کہیں سہو قلم یعنی کاتب کی غلطی سے ملتی ہے لیکن اختلافِ روایت یعنی ایک ہی فرق کئی نسخوں میں ملے ایسا کہیں نہیں ہے۔"

پس نوشت:
خطبہ میں " بیسوی صدی عیسوی کی شروعات میں" کی جگہ "کچھ عرصہ قبل" استعمال کیا گیا تھا۔
 
ترمیم نہیں کی گئی تھی بلکہ تلمود اور تورات جو کہ یہود کے نزدیک مقدس ترین مذہبی کتب ہیں کو یہودی قانون کی آسانی کیلئے ترتیب اور تدوین کیا گیا تھا:
Maimonides's major contribution to Jewish life remains the Mishneh Torah, his code of Jewish law. His intention was to compose a book that would guide Jews on how to behave in all situations just by reading the Torah and his code, without having to expend large amounts of time searching through the Talmud. Needless to say, this provocative rationale did not endear Maimonides to many traditional Jews, who feared that people would rely on his code and no longer study the Talmud. Despite sometimes intense opposition, the Mishneh Torah became a standard guide to Jewish practice: It later served as the model for the Shulkhan Arukh, the sixteenthcentury code of Jewish law that is still regarded as authoritative by Orthodox Jews.

یہ ضروری نہیں ہے کہ اسلام سے قبل زمانہ کے مذاہب کی کتب میں جو تبدیلیاں ہوئی ہیں وہ مسلمانوں کیخلاف کسی خاص سازش کا نتیجہ ہیں۔ یہودی مذہب کم از کم 3000 پرانا ہے اور انکے ہاں بھی ہماری طرح مختلف فرقے آباد ہیں جنہوں نے اپنی سمجھ بوجھ کے مطابق مقدس الٰہی کتب کی تشریح میں تبدیلیاں کی ہوں گی۔ البتہ 1947 میں دریافت ہونے والے بحیرہ مردار کے طومار اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ موجودہ یہودی بائبل ہزاروں سال پرانی ’’اصلی‘‘ بائبل سے زیادہ مختلف نہیں ہے۔
http://en.wikipedia.org/wiki/Dead_Sea_Scrolls#Biblical_significance



یہ خبر جھوٹی ہے اور لکھنے والے کی کم علمی کی عکاسی کرتی ہے۔

تو آپ کہتے ہیں کہ توریت میں کبھی تحریف نہیں ہوئی اور نہ ہی انجیل میں ہوئی ہو گی؟؟
قرآن میں جو بات ہے وہ یوں ہی ایک اندیشہ ہے جو کسی نے یہودی فوبیا یا عیسائیت فوبیا میں لکھ دیا؟؟؟
 

arifkarim

معطل
تو آپ کہتے ہیں کہ توریت میں کبھی تحریف نہیں ہوئی اور نہ ہی انجیل میں ہوئی ہو گی؟؟
قرآن میں جو بات ہے وہ یوں ہی ایک اندیشہ ہے جو کسی نے یہودی فوبیا یا عیسائیت فوبیا میں لکھ دیا؟؟؟
یہ میں نے کب کہا؟ میں نے اوپر صاف لکھا ہے کہ یہ قدیم مذاہب کئی ہزار سال پرانے ہیں۔ اور انکی مقدس کتب میں مختلف ادوار اور حالات کے گزرنے کیساتھ ساتھ تبدیلیاں آئی ہیں۔
جیسےبحیر
ہ مردار کے طومار قدیم ترین نسخے ہیں یہودی بائبل کے۔ اور ان میں کچھ ایسا مواد بھی موجود ہے جو کہ موجودہ تورات اور تلمود میں موجود نہیں۔ لیکن اسکا یہ مطلب لینا کہ یہ تبدیلیاں ان مذاہب کے پیروکاروں نے "جان بوجھ" کر کی ہیں کسی خاص مقصد کے تحت، یہ سراسر بہتان اور جھوٹ ہے! یہودیوں اور عیسائیوں کی ابتدائی تاریخ میں ان پر دوسری قوموں کی طرف سے متواتر حملوں، ظلم و ستم کی داستانیں ملتی ہیں۔ جسکی وجہ سے ان کو مجبوراً نقل مکانی کر کے یا خفیہ طور پر اپنے اس نئے مذہب پر قائم رہنا ہوتا تھا۔ اصحاب کہف جو کہ عیسائی تھے کی گواہی تو خود قرآن پاک میں موجود ہے۔ یوں نئے مذاہب کے پیروکار ایک دوسرے سے کئی سو سال تک الگ تھلگ رہنے کی وجہ سے اور اپنی ابتدائی آسمانی کتب کی تعلیمات کو وقت گزرنے کیساتھ بھلا دینے کے بعد اس میں تحریف کا باعث بنے۔ جان بوجھ کر تبدیلی کا یہاں کوئی جواز نہیں بنتا۔ یہ ایک قدرتی عمل ہے۔​
قرآن پاک اور اسلام کی ابتدائی تاریخ یہودیت اور عیسائیت کی ابتدائی تاریخ سے بالکل مختلف ہے۔ قرآن پاک کو تو خلفاء راشدین کے دور میں ہی اسٹینڈرڈ بنا کر تمام مسلمان علاقوں میں ایک ساتھ بھجوا دیا گیا تھا تاکہ تحریف نامی کسی شے کا وجود ہی ممکن نہ ہو سکے۔ نیز اس مقدس کتاب کی حفاظت کی ذمہ داری تو خود اللہ تعالیٰ نے لی ہے۔ یوں بفضل تعالیٰ قرآن پاک یہودی اور نصرانی بائبل کے مقابلہ میں بالکل مستند اور جامع کتاب الٰہیہ ہے۔​

 
یہ میں نے کب کہا؟ میں نے اوپر صاف لکھا ہے کہ یہ قدیم مذاہب کئی ہزار سال پرانے ہیں۔ اور انکی مقدس کتب میں مختلف ادوار اور حالات کے گزرنے کیساتھ ساتھ تبدیلیاں آئی ہیں۔
جیسےبحیر
ہ مردار کے طومار قدیم ترین نسخے ہیں یہودی بائبل کے۔ اور ان میں کچھ ایسا مواد بھی موجود ہے جو کہ موجودہ تورات اور تلمود میں موجود نہیں۔ لیکن اسکا یہ مطلب لینا کہ یہ تبدیلیاں ان مذاہب کے پیروکاروں نے "جان بوجھ" کر کی ہیں کسی خاص مقصد کے تحت، یہ سراسر بہتان اور جھوٹ ہے! یہودیوں اور عیسائیوں کی ابتدائی تاریخ میں ان پر دوسری قوموں کی طرف سے متواتر حملوں، ظلم و ستم کی داستانیں ملتی ہیں۔ جسکی وجہ سے ان کو مجبوراً نقل مکانی کر کے یا خفیہ طور پر اپنے اس نئے مذہب پر قائم رہنا ہوتا تھا۔ اصحاب کہف جو کہ عیسائی تھے کی گواہی تو خود قرآن پاک میں موجود ہے۔ یوں نئے مذاہب کے پیروکار ایک دوسرے سے کئی سو سال تک الگ تھلگ رہنے کی وجہ سے اور اپنی ابتدائی آسمانی کتب کی تعلیمات کو وقت گزرنے کیساتھ بھلا دینے کے بعد اس میں تحریف کا باعث بنے۔ جان بوجھ کر تبدیلی کا یہاں کوئی جواز نہیں بنتا۔ یہ ایک قدرتی عمل ہے۔​
قرآن پاک اور اسلام کی ابتدائی تاریخ یہودیت اور عیسائیت کی ابتدائی تاریخ سے بالکل مختلف ہے۔ قرآن پاک کو تو خلفاء راشدین کے دور میں ہی اسٹینڈرڈ بنا کر تمام مسلمان علاقوں میں ایک ساتھ بھجوا دیا گیا تھا تاکہ تحریف نامی کسی شے کا وجود ہی ممکن نہ ہو سکے۔ نیز اس مقدس کتاب کی حفاظت کی ذمہ داری تو خود اللہ تعالیٰ نے لی ہے۔ یوں بفضل تعالیٰ قرآن پاک یہودی اور نصرانی بائبل کے مقابلہ میں بالکل مستند اور جامع کتاب الٰہیہ ہے۔​

تاریخ تو یہی بتاتی ہے کہ کلیسا کی حکمرانی کے دور میں کئی بادشاہوں نے اپنے اقتدار اور منشاء کے مطابق اپنے اپنے ورژنز تیار کیے اور اپنی قوم میں رائج کیے "جان بوجھ" کر۔
 

arifkarim

معطل
یعنی جو آپ نے فرما دیا، وہ پتھر پر لکیر ہے؟ اسے آنکھیں بند کر کے مان لیا جائے؟
یہ میں نے کب اور کہاں کہا؟ میں نے تو صرف خبر لکھنے والے صحافی کی اسبارہ میں کم علمی کی طرف نشاندہی کی تھی۔ یہودی تورات اور تلمود میں تبدیلیاں میمونائڈز کے زمانہ سے نہیں بلکہ عیسائیت کے وجود سے بھی قبل ہونا شروع ہو چکی تھی:
http://en.wikipedia.org/wiki/Development_of_the_Hebrew_Bible_canon
 

arifkarim

معطل
تاریخ تو یہی بتاتی ہے کہ کلیسا کی حکمرانی کے دور میں کئی بادشاہوں نے اپنے اقتدار اور منشاء کے مطابق اپنے اپنے ورژنز تیار کیے اور اپنی قوم میں رائج کیے "جان بوجھ" کر۔
آپ شاید یہاں شوریٰ نقیہ کی بات کر رہے ہیں جسکے بارہ میں عام تاثر یہ ہے کہ یہاں مسیحی بائبل کو فائنل کیا گیا۔ حالانکہ یہ حقائق کے بالکل خلاف ہے:
A number of erroneous views have been stated regarding the council's role in establishing the biblical canon. In fact, there is no record of any discussion of the biblical canon at the council at all.[67] The development of the biblical canon took centuries, and was nearly complete (with exceptions known as the Antilegomena, written texts whose authenticity or value is disputed) by the time the Muratorian fragment was written.[68]

In 331 Constantine commissioned fifty Bibles for the Church of Constantinople, but little else is known, though it has been speculated that this may have provided motivation for canon lists. In Jerome's Prologue to Judith[69][70] he claims that theBook of Judith was "found by the Nicene Council to have been counted among the number of the Sacred Scriptures".
 

محمد امین

لائبریرین
وکی پیڈیا بھی ایک مذہب ہے اور موجود متن اس کا صحیفہ۔۔۔سب کو چاہیے کہ اس پر آنکھ بند کر کے یقین کریں کیوں کہ وکی پیڈیا میں تحریف ممکن نہیں۔۔۔۔ :angel:
 

نبیل

تکنیکی معاون
باقی باتوں پر تبصرہ نہیں کرنا چاہتا، البتہ اصحاب کہف کے بارے میں یہ کہنا درست نہیں ہے کہ وہ عیسائی تھے۔ وہ حضرت عیسی کے پیرو کار ضرور ہوں گے لیکن حضرت عیسی نے عیسائیت کی تبلیغ نہیں تھی بلکہ انہوں نے بھی اسی مذہب کی تبلیغ کی تھی جس کی تبلیغ دوسرے انبیاء کرتے آئے تھے۔ عیسائیت بعد میں آنے والے لوگوں کی اختراع تھی۔
 

arifkarim

معطل
باقی باتوں پر تبصرہ نہیں کرنا چاہتا، البتہ اصحاب کہف کے بارے میں یہ کہنا درست نہیں ہے کہ وہ عیسائی تھے۔ وہ حضرت عیسی کے پیرو کار ضرور ہوں گے لیکن حضرت عیسی نے عیسائیت کی تبلیغ نہیں تھی بلکہ انہوں نے بھی اسی مذہب کی تبلیغ کی تھی جس کی تبلیغ دوسرے انبیاء کرتے آئے تھے۔ عیسائیت بعد میں آنے والے لوگوں کی اختراع تھی۔
حضرت عیسیٰؑ تو خود یہود میں سے تھے اور بنی اسرائیل کی طرف مبعوث ہوئے تھے۔ یقیناً تمام یہودیوں نے انکو اپنا مسیحا نہیں مانا لیکن جنہوں نے مانا وہ وقت گزرنے کیساتھ ساتھ مسیحی یا عیسائی بن گئے۔بعض کا یہ بھی خیال ہے کہ مسیحیت اپنے آغاز میں یہودیت کا ایک فرقہ تھا جو بعد میں مین اسٹریم عیسائیت میں تبدیل ہو گیا:
http://en.wikipedia.org/wiki/Split_of_early_Christianity_and_Judaism
 
مباحث بہت سارے نکل سکتے ہیں، مگر اُن کا حاصل شاید بہت مفید نہ ہو۔
میرے پاس سب سے بڑی سند اللہ کریم کا قرآن مجید ہے۔ جب قرآن مجید نے کہہ دیا کہ اُن لوگوں نے اللہ کی طرف سے نازل کردہ کتابوں میں تحریف کی ہے تو بس! کی ہے!! کوئی مانے یا نہ مانے۔ اس کی بے شمار علمی اور عقلی شہادتوں میں سے ایک یہ ہے کہ تورات، زبور، انجیل کا کوئی بھی اصل نسخہ دنیا میں کہیں بھی دستیاب نہیں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام جو تختیاں لائے تھے (تفصیل قرآن مجید میں موجود ہے) وہ بھی کہیں دستیاب نہیں جب کہ اسی دور کی دیگر ’’تحریریں‘‘ جو تصویری خط میں تھیں نہ صرف دستیاب ہیں بلکہ اُن کو ’’پڑھا‘‘ بھی جا چکا ہے۔
دلیل مزید یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جس قوم پر کتاب نازل کی اس قوم کی زبان میں کی۔ اہلِ تاریخ کے لئے یہ جاننا کچھ مشکل نہیں کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام، حضرت داؤد علیہ السلام اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور ان کی قوموں کی زبانیں کیا کیا تھیں اور فی زمانہ دستیاب مذکورہ کتابیں کس زبان میں ہیں۔ جب اصل ہی گم ہو گئی تو موازنہ کس سے ہو گا؟ یہ جو تورات کے حالیہ دستیاب شدہ نسخے کے بارے میں کہا گیا کہ 850 سال پرانا اور خود وہ لوگ کہہ رہے ہیں کہ موجودہ تورات اس 850 سال میں بھی بدلی جا چکی ہے تو اس سے پہلے کیا کچھ نہیں ہوا ہو گا۔
ابھی کچھ دن تک اس کا ذکر رہے گا اور پھر عام لوگ بھول بھال جائیں گے، اور خدشہ ہے کہ یہ نسخہ بھی ’’غائب‘‘ کر دیا جائے گا۔
 
اللہ تعالیٰ کے کلام کی ترتیب و تلاوت تو ہونی ہی وہی چاہئے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو تعلیم فرما دی، اس کے متن اور ترتیب میں کسی بھی طور کی کوئی تبدیلی (خواہ اسے کوئی سا نام دے دیا جائے) قابلِ تعریف اقدام ہو ہی نہیں سکتا۔ کہ اللہ کے بندوں کی ہدایت کا سامان کیسے ہو، اس کا فیصلہ صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کا کام ہے، کسی بندے کے بس کی بات ہے ہی نہیں۔
اللہ کریم سب کو ہدایت دے اور ہمارے حال پر رحم فرمائے! آمین۔
 
Top