اجتماعی انٹرویو تین محفلین ایک سوال (سید زبیر، تلمیذ اورنایاب بھائی)

نایاب

لائبریرین
کیا آج کے مسلم معاشرے اور فرد کے لیئے بدلتے وقت کے ساتھ خود کو بدلتے وقت کے ساتھ ہم آہنگ ہونا لازم ہے یا نہیں ؟
محترم نایاب صاحب کے مدلل جواب کے بعد کسی قسم کے تبصرےکا خود بالکل اہل نہیں سمجھتا ان کی رائے مستند ہے ۔ ذہنی ارتقا فطری امر ہے ۔ پیرو مرشد حضرت علامہ اقبال ؒ کے دو اشعار پیش خدمت ہیں​
یہ کائنات ابھی نا تمام ہے شائد​
کہ آرہی ہے دما دم صدائےکن فیکون.
آئینِ نو سے ڈرنا طرزِ کہن پہ اَڑنا
منزل یہی کٹھن ہے قوموں کی زندگی میں
تو ہمیں جدید ایجادات سے مکمل طور پر مستفید ہونا چاہئیے۔ ذہنی کنفیوژن سے بچنے کے لیے اور سماجی تبدیلیوں ، اور جیسا کہ محترم التباس صاحب نے بحیثیت مسلم ، بدلتی ہوئی روایات سے متعلق جن خدشات کا اظہار کیا ہے تو اس کے لیے عرض ہے کہ اعتدال بہت ضرری ہے ۔ وقت کی صحیح تقسیم اور اس کا صحیح استعمال بہت ضروری ہے اور اگر ہم اپنے تمام امور نماز کے اوقات کے مطابق ترتیب دیں اور اہل خانہ و خاندان کے دیگر افراد کے لیے وقت ضرور نکالیں تو شائد ہم اپنی روایات کی حفاظت کر سکیں ۔
محترم سید زبیر بھائی
سرخ کیئے گئے جملے کو " غیر متفق "کی ریٹنگ کا حامل جانیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بلا شبہ آپ نے درست نشان دہی کی کہ اگر " مسلم فرد " دین کے ستون کو مکمل اخلاص سے قائم کرنے کی کوشش کرے ۔ اور نماز کے اوقات کو " وقت پر قائم کرے " تو بلاشبہ انفرادی طور پر فلاح پاتے معاشرے کے لیئے بھلائی کی علامت ٹھہرتا ہے ۔ روایت خالص رہتی ہے اور وقت کا فرض ادا ہوجاتا ہے ۔ اور وقت " فرد " کو آسانیوں کی تقسیم کی جانب دھکیل دیتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

سید زبیر

محفلین
محترم سید زبیر بھائی
سرخ کیئے گئے جملے کو " غیر متفق "کی ریٹنگ کا حامل جانیں ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔
بلا شبہ آپ نے درست نشان دہی کی کہ اگر " مسلم فرد " دین کے ستون کو مکمل اخلاص سے قائم کرنے کی کوشش کرے ۔ اور نماز کے اوقات کو " وقت پر قائم کرے " تو بلاشبہ انفرادی طور پر فلاح پاتے معاشرے کے لیئے بھلائی کی علامت ٹھہرتا ہے ۔ روایت خالص رہتی ہے اور وقت کا فرض ادا ہوجاتا ہے ۔ اور وقت " فرد " کو آسانیوں کی تقسیم کی جانب دھکیل دیتا ہے ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔
جزاک اللہ میرے بھائی رب کریم آپ کے درجات بہت بلند فرمائے (آمین)
 

تلمیذ

لائبریرین
’’صنعتی ترقی ، جدید علمی رجحانات، میڈیا کے بے لگام دیواور سدا سے حال پہ غیر مطمئن انسانی جستجو نے مشرقی سماج میں جو تبدیلیاں پیدا کی ہیں، اور ہوتی جارہی ہیں........اور بحیثیت مسلم جنہیں ہم اور بھی زیادہ شدت سے محسوس کرتے ہیں..........اُن کو ہضم کر لیا جائے یا فکری و علمی محاذ آرائی کی کوشش کی جائے اور اگر ایسا کیا جائے توکیسے...........اور اِس کو عملی شکل کیسے دی جائے............اس کنفیوژن سے آخر کیسے چھٹکارا حاصل کیا جائے‘‘

چیمہ صاحب نے اپنے سوال میں دور جدید کے جن عوامل کا ذکر کیا ہے، انہوں نے بلا امتیاز و تفریق مشرقی و مغربی سماج دونوں کو متاثر کیا ہے، مغرب میں بلند شرح تعلیم اور اظہار رائے کی آزادی، نیز مشرق کی نسبت کم معاشرتی پابندیوں کے باعث وہاں کے لوگوں نے ان سے بہت زیادہ اثر لیا ہے۔ تاہم، تہذیبی ارتقاء اور گلوبل ولیج کے تصور کی بنا پر مشرقی سماج بھی اب کچھ اتنا پیچھے نہیں ہے۔ اب جہاں تک سوال ہے کہ آیا 'ان تبدیلیوں کو ہضم کر لیا جائے یا فکری و علمی محاذ آرائی کی کوشش کی جائے'۔ تو میرے خیال میں تو ان کے آگے بند باندھنا یا انہیں ہضم کرناممکن نہیں کیونکہ تہذیبی ارتقاء وقت کے ساتھ اپنے راستے خود نکال لیتا ہے۔ ہاں، جو کچھ ہمارے اختیار میں ہے اس کے مطابق ہم دنیا کے جامع ترین ضابطۂ حیات یعنی اسلام اور ہادیٔ بر حق ﷺ کی تعلیمات اقدس کی روشنی میں ان تبدیلوں کو ایک نظم و ضبط میں دائرے میں رکھتے ہوئے، ان کا رُخ اپنی مشرقی روایات و اقدار اوع دینی طرز زندگی کی طرف ضرور موڑ سکتے ہیں۔ اور اس کام کاآغاز اگر انفرادی سطح سے ہوگا تبھی قومی یا معاشرتی سطح پر کسی کامیابی کی توقع کی جا سکتی ہے۔
 

زبیر مرزا

محفلین
معززمہمانانِ گرامی تیسراسوال پیش خدمت ہے-
فی زمانہ تقریباَ ہر شخص مسائل، اُلجھنوں اورپریشانیوں کا رونا روتا نظرآتا ہے اس کی کیا وجہ ہے؟
 

امن ایمان

محفلین
شکر ہے میں نے زبیر بھائی کو کوئی سوال نہیں بھیجا۔۔۔:whew: اتنے عالمانہ قسم کے سوالات اور اراکین کے جوابات۔۔۔سچ پوچھیں تو کتنے سارے اردو الفاظ کا فورامطلب بھی مجھے سمجھ میں نہیں آیا۔۔۔ماشاءاللہ لکھنے والوں پر رشک آرہا ہے اور۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ابھی ایک خیال ستا رہا ہے کہ آپ تینوں حضرات سے پوچھوں کہ۔۔۔۔

کس ذریعے نے آپ کی تعلیم کو جلا بخشی۔؟؟آپ سب کی تعلیم کا ماخذ کیا رہا ہے۔۔؟؟(مطلب رسمی تعلیم،اچھے اساتذہ کا تعاون ،مطالعہ،انٹرنیٹ وغیرہ وغیرہ) (زبیر بھائی آپ کی اجازت کے بغیر یہ پوچھنا پڑ گیا۔۔۔اچھے بھائی اس سوال کو الگ سے اپنے الفاظ میں پوچھ لیجئے گا۔)
 

نایاب

لائبریرین
محترم اراکین محفل آپ سب سے التجا ہے کہ میرے لکھے پر تنقیدی نگاہ رکھا کریں ۔ تاکہ میری سوچ کی " کجی " درست ہو ۔
اپنی تحریر سے آپ کا اختلاف میرے لیئے باعث آگہی ٹھہرے گا ۔ مجھے اک " طفل مکتب " ہی جانیئے جو کہ " اپنی حقیقت کی تلاش " میں سرگرداں ہے ۔۔۔۔۔۔۔
فی زمانہ تقریباَ ہر شخص مسائل، اُلجھنوں اورپریشانیوں کا رونا روتا نظرآتا ہے اس کی کیا وجہ ہے؟

کسی حساس شاعر نے کیا خوب کہا ہے کہ

سینے میں جلن آنکھوں میں طوفان سا کیوں ہے
اس شہر میں ہر شخص پریشان سا کیوں ہے
دل ہے تو دھڑکنے کا بہانہ کوئی ڈھونڈے
پتھر کی طرح بے حس و بے جان سا کیوں ہے
تنہائی کی یہ کون سی منزل ہے رفیقو
تا حد نظر ایک بیابان سا کیوں ہے

اک اور شاعر نے کچھ ایسے کہا کہ

جب بہار آئی تو صحرا کی طرف چل نکلا
صحنِ گُل چھوڑ گیا، دل میرا پاگل نکلا
جب اسے ڈھونڈنے نکلے تو نشاں تک نہ ملا
دل میں موجود رہا۔ آنکھ سے اوجھل نکلا
اک ملاقات تھی جو دل کوسدا یاد رہی
ہم جسے عمر سمجھتے تھے وہ اک پل نکلا
وہ جو افسانہء غم سن کے ہنسا کرتے تھے
اتنا روئے ہیں کہ سب آنکھ کا کاجل نکلا
ہم سکوں ڈھونڈنے نکلے تھے، پریشان رہے
شہر تو شہر ہے، جنگل بھی نہ جنگل نکلا
کون ایوب پریشاں نہیں تاریکی میں
چاند افلاک پہ،دل سینے میں بے کل نکلا
کوئی " پریشانی سی پریشانی ہے " ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زندگی کے صحرا میں رقصاں وقت کے بگولوں کے مقابل انسان کی مثال ریت کے ذرے جیسی ہے ۔ جسے وقت کے بگولے اپنے ساتھ اڑائے پھرتے زندگی کو رواں رکھتے ہیں ۔ وقت کے بگولوں پر سوار انسان کی زندگی کا سفر " غاروں کی صدی " سے شروع ہوا ۔ " اوزاروں کی صدیوں " سے گزرتے " تہذیبو ں کی صدیوں " تک پہنچتے " روحانیت کی صدیوں " سے آگہی پاتے " ایجادات کی صدی " سے گزر " ترقی کی صدی " میں قدم رکھا تو " پریشانی کی صدی " کا سامنا ہوا ۔۔۔۔۔۔۔۔
وقت کے بگولوں نے انسانی زندگی کو روزمرہ کے مسائل و مشکلات میں الجھاتے عجیب و غریب حوادث کا شکار بناتے " ذہنی دباؤ کھنچاؤ تناؤ " کے جال میں پھنسا دیا ۔
بنی نوع انسان کا " مسائل الجھنوں پریشانیوں " کا شکار ہونا کوئی نئی بات نہیں ۔ یہ الجھنیں یہ روزمرہ کے مسائل انسانی زندگی کے آغاز سے ہی حضرت انساں کے ساتھی ہیں ۔۔۔۔۔۔۔
یہ حقیقت اپنی جگہ کہ "آج کے مادی دور اورتیز رفتار زندگی میں ’’یہ مسائل ‘‘ ہر انسان کی زندگی کا ایک لازمی جزو ہو چکے ہیں ۔
سکول کے بچے ہوں یا کالج یونیورسٹی کے طالب علم اپنے مشکوک مستقبل کے احساس سے پریشان ۔۔۔
سند یافتہ بے کار نوجوان تلاش روزگار میں سرگرداں و پریشان ۔
عام لوگ اور ملازمت پیشہ افراد نامساعد حالات اور اپنے کام کاج سے مطمئن نہ ہونے کی وجہ سے پریشان ۔
تجارت پیشہ افراد نفع و نقصان کی دوڑ میں شامل ہو تےپریشا ں ۔
عمر رسیدہ لوگ زندگی سے بیزار ہو کر احساس تنہائی اورگمشدگی عمر سے پریشان ۔
امیر و غریب ہر دو اپنے اپنے اخراجات پورے کرنے کی فکر میں پریشان ۔۔
گویا کہ
’’ جو پریشان نہیں وہ یہ سوچ سوچ کر پریشان کہ وہ کیوں نہیں پریشان ‘‘۔
اور ہر جانب سے صرف اک یہی صدا " سکون کہیں نہیں "
غرض ہر انسان زندگی کی شاہراہ پر چلتے چلتے پریشانی کو اپنے ہمراہ سائے کی طرح ساتھ لئے چل رہا ہے اور اگر کوئی پریشان نہیں ہے تو شاید آج کی اصطلاح میں وہ ’’نارمل انسان‘‘ کہلانے کا مستحق نہیں ہے یعنی پریشانی اور زندگی لازم و ملزوم ہیں۔ پریشان ہونے کے باوجود اگر انسان اپنے روز مرہ کے معمولات بخود احسن انجام دے پارہا ہے تو کوئی بات نہیں مگر جب پریشانی زندگی کے روز مرہ معمولات میں دخل اندازی کرنے لگے تو یہ ایک بیماری یا نفسیاتی مسئلہ بن جاتی ہے۔
اگر مندرجہ بالا " انسانی زندگی کی حقیقتوں " کو کسی " حکیم" کے سامنے رکھا جائے تو اس کی " تشخیص " صرف یہی ہوگی کہ یہ سب " مسائل پریشانیاں خوف " صرف اور صرف " توکل و قناعت " پر یقین نہ رکھنے سے جنم لیتے ہیں ۔ " وہ جو سب کا مالک و خالق " ہے ۔ اس نے انسانوں تک اپنے چنیدہ انسانوں کی وساطت سے ان مسائل سے چھٹکارے کا علاج پہنچا دیا ہے ۔ ہر الہامی آسمانی کتب میں اس حقیقت کو کھلے طور بیان کر دیا گیا ہے کہ " توکل و قناعت " اختیار کیئے بنا " بے چینی و بے سکونی " سے بچنا محال ہے ۔
قران پاک میں " ایمان والوں " سے خطاب فرماتے فرمایا گیا ہے کہ

الذين امنوا وتطمئن قلوبهم بذكر الله
الا بذكر الله تطمئن القلوب
جو لوگ ایمان لائے ان کے دل اللہ کے ذکر سے اطمینان حاصل کرتے ہیں۔
یاد رکھو اللہ کے ذکر سے ہی دلوں کو تسلی حاصل ہوتی ہے (28)سورة الرعد
بلاشک یہ سچا فرمان ہے۔

یہ بھی اک حقیقت ہے کہ " ذکر سے اطمینان و سکون " حاصل ہونے کا یقین صرف تسبیحات سے حاصل نہیں ہوتا ۔۔۔ اکثر یہ شکایت کرتے ملتے ہیں کہ " صبح و شام " تسبیحات " کرتے ہیں ۔ ورد میں محو رہتے ہیں ۔ مگر " زندگی " سے " حزن و ملا ل بے چینی و بے سکونی " دور نہیں ہوتی ۔
اللہ کا ذکر کوئی نشہ نہیں جو کہ احساس سے بیگانہ کرتے " مصنوعی سکون " طاری کر دے ۔ اللہ کا ذکر صرف " ور د " پر موقوف نہیں بلکہ ۔ اک حساس روح کے حامل وجود کا اپنے خالق کی تعلیمات پر بے و چون و چرا عمل کرتے انسانیت کی خدمت کرنا ہے ۔ اپنے خالق کی یاد میں اس سے ملاقات کے یقین سے جینا ہے ۔ "اسمائے الحسنی " کی مالا نہیں جپنی بلکہ ان میں پنہاں صفات کو اپنی ذات پر ایسے لاگو کرنا ہے ۔ انسانیت کو فلاح پہنچے ۔۔۔۔ صرف زبان کو تر نہیں کرنا ۔ تسبیح نہیں پھیرنی ۔ بلکہ اپنے کامل وجود کو انسان کی خدمت میں مصروف کرنا ہے ۔ پھر یہ " ذکر " اطمینان کا باعث ۔۔ اور " توکل و قناعت " کا زینہ بنتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔
پھر انسان کو یہ یقین ہوتا ہے کہ جس ہستی پر وہ ایمان لایا ہے، جس کو اس نے اپنا رب اور اپنا معبود ماناہے، و ہی در حقیقت خالق و مالک ہے۔ اسی کے ہاتھ میں کل کائنات کی بادشاہی ہے ۔اور جس نے اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ میں دے دیا، اللہ تعالیٰ اسے کبھی رسوا اور محروم نہیں کرے گا۔ کیونکہ اس کا یہ وعدہ سچا ہے کہ

الا ان اولياء الله لا خوف عليهم ولا هم یحزنون O الذين امنوا وكانوا يتقون O لهم البشري في الحياة الدنيا وفي الاخرة لا تبديل لكلمات الله ذلك هو الفوز العظيم O(یونس 62-63 -64)
سن رکھو کہ جو اللہ کے دوست ہیں ان کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمناک ہوں گے (یعنی) جو لوگ ایمان لائے اور پرہیزگار رہے ان کے لیے دنیا کی زندگی میں بھی بشارت ہے اور آخرت میں بھی۔ اللہ کی باتیں بدلتی نہیں۔ یہی تو بڑی کامیابی ہے
 

نایاب

لائبریرین
شکر ہے میں نے زبیر بھائی کو کوئی سوال نہیں بھیجا۔۔۔ :whew: اتنے عالمانہ قسم کے سوالات اور اراکین کے جوابات۔۔۔ سچ پوچھیں تو کتنے سارے اردو الفاظ کا فورامطلب بھی مجھے سمجھ میں نہیں آیا۔۔۔ ماشاءاللہ لکھنے والوں پر رشک آرہا ہے اور۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔ابھی ایک خیال ستا رہا ہے کہ آپ تینوں حضرات سے پوچھوں کہ۔۔۔ ۔

کس ذریعے نے آپ کی تعلیم کو جلا بخشی۔؟؟آپ سب کی تعلیم کا ماخذ کیا رہا ہے۔۔؟؟(مطلب رسمی تعلیم،اچھے اساتذہ کا تعاون ،مطالعہ،انٹرنیٹ وغیرہ وغیرہ) (زبیر بھائی آپ کی اجازت کے بغیر یہ پوچھنا پڑ گیا۔۔۔ اچھے بھائی اس سوال کو الگ سے اپنے الفاظ میں پوچھ لیجئے گا۔)
محترم بہنا سدا خوش و آباد ہنستی مسکراتی رہیں آمین
" عالم " کہاں " جاہل مطلق " ہوں آگہی کی راہ پر ۔۔۔۔۔۔۔
یہ تو بہنوں کے کان کھیچنے سے بچنے کے لیئے درسی کتب کے غلاف میں چھپا کر " ڈائجسٹوں " کے پڑھنے کا کمال ہے ۔
ذریعہ تعلیم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟ تجسس اور سب کچھ جاننے کی خواہش میں جو بھی کتاب ملی ۔ سرسری پڑھ ڈالی ۔
رسمی تعلیم ۔۔۔۔۔؟ بھگوڑا نمبر ایک ۔۔۔۔۔۔۔۔ بھاگتے دوڑتے کلاس پنجم میں وظیفہ اور پرائیویٹ انڈر میٹرک
یعنی " پی پی ایم ایف " ( پرائمری پاس میٹرک فیل )کی ڈگری ۔
اساتذہ تو بلاشبہ سب ہی بہت اچھے اور توجہ دینے والے ملے ۔ مگر " فیض " میری قسمت میں نہ تھا ۔۔۔
مطالعہ ۔ لائبریریز پھرنا ۔۔ اخبارات کھنگالنا ۔ ہمہ اقسام ناول ۔ داستانیں ۔ ڈائجسٹ پڑھنا ۔
اور آج کل انٹر نیٹ پہ بکھرے لفظوں کے موتی چننا ۔۔۔ اور اردو محفل پہ لفاظی کرنا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بلاشک " اردو محفل میرے لیئے کسی " مکتب کسی مدرسے " سے کم نہیں ۔ اس محفل میں روشن علم کے چراغ غیر محسوس انداز میں شخصیت کی تعمیر کرتے ہیں ۔ آگہی سے نوازتے ہیں ۔ میں بھی ان سب کے نور سے مستفید ہوتے " پڑھا نہ لکھا نام محمد فاضل " رکھ لکھ دیتا ہوں جو میرے دل میں آتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

تلمیذ

لائبریرین
آج کل اپنی بے پناہ پیشہ ورانہ مصروفیات کی بنا پرمجھے فرصت کا فقدان ہے۔ اس لئے میرے جوابات میں کچھ تاخیر ہو جائے گی، جسکے لئے پیشگی معذرت کا طلب گار ہوں۔
 

سید زبیر

محفلین
فی زمانہ تقریباَ ہر شخص مسائل، اُلجھنوں اورپریشانیوں کا رونا روتا نظرآتا ہے اس کی کیا وجہ ہے؟
سب سے پہلے عزیزم@زبیر مرزا سے تاخیر کی معذرت ، اور محترمہ@امن ایمان سے استفسار ، جو انہوں نے لکھا کہ " شکر ہے میں نے زبیر بھائی کو کوئی سوال نہیں بھیجا۔۔۔" لگتا ایسا ہے کہ میں بہتر اندز میں اپنا موقف بیان نہیں کرسکا ۔ بہر حال کوشش کروں گا کہ اپنا موقف بہتر پیش کرسکوں ۔​
سوال بہت مناسب ہے بشمول میرے ہر شخص شخص مسائل، اُلجھنوں اورپریشانیوں کا رونا روتا نظرآتا ہے ، وجہ​
۱۔ قناعت کی جگہ ہوس نے لے لی ۔ میرا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ انسان محنت نہ کرے بلکہ میں تو یہ کہوں گا کہ روزانہ گذشتہ کل سے زیادہ محنت اور اپنی پوشیدہ صلاحیتوں کو دریافت کرے انسان میں اللہ نے بے پناہ صلا حیتیں عطا کی ہیں ۔ان کو استعمال کرنا چاہئے۔ ہوس سے بچنا چائیے ، قناعت بہت بڑی نعمت ہے اصل غنی وہی ہے جو دل کا غنی ہو ،​
۲۔ محبت ، ایثار کی جگہ حسد ، خود غرضی نے لے لی ۔ جب دل و دماغ کو حسد اور کینہ جیسے مرض لا حق ہو تو سکون کہاں ۔ بلا تمیز ، بلا غرض محبتیں بانٹنے سے بہت سکون ملتا ہے ۔ہم اگر کسی سے کوئی نیکی کر لیتے ہیں تو اس سے صلہ کی امید رکھتے ہیں اور کسی مشکل وقت میں وہ انسان جب کام نہیں آتا تو ہم فوراً اس نیکی کو ذہن میں لاتے ہیں ۔ یہ رویہ میرے خیال میں نا مناسب ہے ، ہمیں صلہ کی امید صرف اللہ سے رکھنی چاہئیے اور ایسا ہی ہوتا ہے کہ جب انسان کسی مصیبت میں ہوتا ہے تو غیب سے ایک ایسا فرد آکر مدد کردیتا جس کی امید بھی نہیں ہوتی ۔ کسی کے کام آنے کی سعادت بھی اللہ ہی دیتا ہے ۔ جب کوئی انسان کسی مصیبت میں ہوتا ہے تو وہ اللہ سے مدد کی دعا کرتا ہے ۔ رب کریم اس کی حاجت روائی کے جس انسان کو منتخب فرماتا ہے یہ یقیناً اس کی خوش بختی ہوتی ہے ۔​
۳۔ تیسرانکتہ یہ ہے کہ ہمیں اپنے جسم کا خیال رکھنا چاہئیے ۔ صاف ستھر ا رکھنے کے علاوہ ہلکی سی ورزش یا چہل قدمی بہت ضروری ہے ۔ میرے خیال میں نہ یہ عیاشی ہے اور نہ ہی فیشن ، بلکہ بہت ضروری ہے ۔ بعض دفعہ ہم یہ خیال کرتے ہیں کہ کہ ہم عام طور پر اتنا چل لیتے ہیں کہ چہل قدمی کی ضرورت ہی نہیں ایسا درست نہیں ، چہل قدمی کا اپنا انداز ہوتا ہے اور اس سے ذہنی دبأو بہت کم ہوتا ہے ۔​
۴۔اب بحیثیت مسلمان اگر ہم پنجگانہ نماز اور مرد حضرات کے لیے با جماعت اور وضو وغیرہ کو دیکھیں تو ہمارے کئی مسائل حل ہو سکتے ہیں ۔​
باقی دعا ہے کہ اللہ ہمیں عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے ہمیں بغض ، کینہ حسد ، بد گمانی ، لالچ سے اپنی پناہ میں رکھے ( آمین)​
 

زبیر مرزا

محفلین
نایاب بھائی تلمیذ صاحب سید زبیر سرکار آپ حضرات محفل میں میرے لیے استاد کی حثیت رکھتے ہیں
اورسوالات کا سلسلہ ایک طالب کی مانند شروع کیا ہے - آپ کے جوابات سے بہت کچھ سیکھنے کو مل رہا ہے
امن ایمان بہن آپ نے بہت اچھا سوال پوچھاہے
سفینہ پرویز بھابی صاحبہ آپ بھی تشریف لائیں اس دھاگے میں
 
نایاب بھائی تلمیذ صاحب سید زبیر سرکار آپ حضرات محفل میں میرے لیے استاد کی حثیت رکھتے ہیں
اورسوالات کا سلسلہ ایک طالب کی مانند شروع کیا ہے - آپ کے جوابات سے بہت کچھ سیکھنے کو مل رہا ہے
امن ایمان بہن آپ نے بہت اچھا سوال پوچھاہے
سفینہ پرویز بھابی صاحبہ آپ بھی تشریف لائیں اس دھاگے میں
بہت شکریہ مدعو کرنے کے لیے۔میں ایک دفعہ سارا انٹرویو دیکھ لوں پھر اگر کچھ بچا پوچھنے کو تو میں بھی پوچھ لوں گی۔
 
محترم اراکین محفل آپ سب سے التجا ہے کہ میرے لکھے پر تنقیدی نگاہ رکھا کریں ۔ تاکہ میری سوچ کی " کجی " درست ہو ۔
اپنی تحریر سے آپ کا اختلاف میرے لیئے باعث آگہی ٹھہرے گا ۔ مجھے اک " طفل مکتب " ہی جانیئے جو کہ " اپنی حقیقت کی تلاش " میں سرگرداں ہے ۔۔۔ ۔۔۔ ۔


کسی حساس شاعر نے کیا خوب کہا ہے کہ

سینے میں جلن آنکھوں میں طوفان سا کیوں ہے
اس شہر میں ہر شخص پریشان سا کیوں ہے
دل ہے تو دھڑکنے کا بہانہ کوئی ڈھونڈے
پتھر کی طرح بے حس و بے جان سا کیوں ہے
تنہائی کی یہ کون سی منزل ہے رفیقو
تا حد نظر ایک بیابان سا کیوں ہے

اک اور شاعر نے کچھ ایسے کہا کہ

جب بہار آئی تو صحرا کی طرف چل نکلا
صحنِ گُل چھوڑ گیا، دل میرا پاگل نکلا
جب اسے ڈھونڈنے نکلے تو نشاں تک نہ ملا
دل میں موجود رہا۔ آنکھ سے اوجھل نکلا
اک ملاقات تھی جو دل کوسدا یاد رہی
ہم جسے عمر سمجھتے تھے وہ اک پل نکلا
وہ جو افسانہء غم سن کے ہنسا کرتے تھے
اتنا روئے ہیں کہ سب آنکھ کا کاجل نکلا
ہم سکوں ڈھونڈنے نکلے تھے، پریشان رہے
شہر تو شہر ہے، جنگل بھی نہ جنگل نکلا
کون ایوب پریشاں نہیں تاریکی میں
چاند افلاک پہ،دل سینے میں بے کل نکلا
کوئی " پریشانی سی پریشانی ہے " ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔
زندگی کے صحرا میں رقصاں وقت کے بگولوں کے مقابل انسان کی مثال ریت کے ذرے جیسی ہے ۔ جسے وقت کے بگولے اپنے ساتھ اڑائے پھرتے زندگی کو رواں رکھتے ہیں ۔ وقت کے بگولوں پر سوار انسان کی زندگی کا سفر " غاروں کی صدی " سے شروع ہوا ۔ " اوزاروں کی صدیوں " سے گزرتے " تہذیبو ں کی صدیوں " تک پہنچتے " روحانیت کی صدیوں " سے آگہی پاتے " ایجادات کی صدی " سے گزر " ترقی کی صدی " میں قدم رکھا تو " پریشانی کی صدی " کا سامنا ہوا ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔
وقت کے بگولوں نے انسانی زندگی کو روزمرہ کے مسائل و مشکلات میں الجھاتے عجیب و غریب حوادث کا شکار بناتے " ذہنی دباؤ کھنچاؤ تناؤ " کے جال میں پھنسا دیا ۔
بنی نوع انسان کا " مسائل الجھنوں پریشانیوں " کا شکار ہونا کوئی نئی بات نہیں ۔ یہ الجھنیں یہ روزمرہ کے مسائل انسانی زندگی کے آغاز سے ہی حضرت انساں کے ساتھی ہیں ۔۔۔ ۔۔۔ ۔
یہ حقیقت اپنی جگہ کہ "آج کے مادی دور اورتیز رفتار زندگی میں ’’یہ مسائل ‘‘ ہر انسان کی زندگی کا ایک لازمی جزو ہو چکے ہیں ۔
سکول کے بچے ہوں یا کالج یونیورسٹی کے طالب علم اپنے مشکوک مستقبل کے احساس سے پریشان ۔۔۔
سند یافتہ بے کار نوجوان تلاش روزگار میں سرگرداں و پریشان ۔
عام لوگ اور ملازمت پیشہ افراد نامساعد حالات اور اپنے کام کاج سے مطمئن نہ ہونے کی وجہ سے پریشان ۔
تجارت پیشہ افراد نفع و نقصان کی دوڑ میں شامل ہو تےپریشا ں ۔
عمر رسیدہ لوگ زندگی سے بیزار ہو کر احساس تنہائی اورگمشدگی عمر سے پریشان ۔
امیر و غریب ہر دو اپنے اپنے اخراجات پورے کرنے کی فکر میں پریشان ۔۔
گویا کہ
’’ جو پریشان نہیں وہ یہ سوچ سوچ کر پریشان کہ وہ کیوں نہیں پریشان ‘‘۔
اور ہر جانب سے صرف اک یہی صدا " سکون کہیں نہیں "
غرض ہر انسان زندگی کی شاہراہ پر چلتے چلتے پریشانی کو اپنے ہمراہ سائے کی طرح ساتھ لئے چل رہا ہے اور اگر کوئی پریشان نہیں ہے تو شاید آج کی اصطلاح میں وہ ’’نارمل انسان‘‘ کہلانے کا مستحق نہیں ہے یعنی پریشانی اور زندگی لازم و ملزوم ہیں۔ پریشان ہونے کے باوجود اگر انسان اپنے روز مرہ کے معمولات بخود احسن انجام دے پارہا ہے تو کوئی بات نہیں مگر جب پریشانی زندگی کے روز مرہ معمولات میں دخل اندازی کرنے لگے تو یہ ایک بیماری یا نفسیاتی مسئلہ بن جاتی ہے۔
اگر مندرجہ بالا " انسانی زندگی کی حقیقتوں " کو کسی " حکیم" کے سامنے رکھا جائے تو اس کی " تشخیص " صرف یہی ہوگی کہ یہ سب " مسائل پریشانیاں خوف " صرف اور صرف " توکل و قناعت " پر یقین نہ رکھنے سے جنم لیتے ہیں ۔ " وہ جو سب کا مالک و خالق " ہے ۔ اس نے انسانوں تک اپنے چنیدہ انسانوں کی وساطت سے ان مسائل سے چھٹکارے کا علاج پہنچا دیا ہے ۔ ہر الہامی آسمانی کتب میں اس حقیقت کو کھلے طور بیان کر دیا گیا ہے کہ " توکل و قناعت " اختیار کیئے بنا " بے چینی و بے سکونی " سے بچنا محال ہے ۔
قران پاک میں " ایمان والوں " سے خطاب فرماتے فرمایا گیا ہے کہ

الذين امنوا وتطمئن قلوبهم بذكر الله
الا بذكر الله تطمئن القلوب
جو لوگ ایمان لائے ان کے دل اللہ کے ذکر سے اطمینان حاصل کرتے ہیں۔
یاد رکھو اللہ کے ذکر سے ہی دلوں کو تسلی حاصل ہوتی ہے (28)سورة الرعد
بلاشک یہ سچا فرمان ہے۔

یہ بھی اک حقیقت ہے کہ " ذکر سے اطمینان و سکون " حاصل ہونے کا یقین صرف تسبیحات سے حاصل نہیں ہوتا ۔۔۔ اکثر یہ شکایت کرتے ملتے ہیں کہ " صبح و شام " تسبیحات " کرتے ہیں ۔ ورد میں محو رہتے ہیں ۔ مگر " زندگی " سے " حزن و ملا ل بے چینی و بے سکونی " دور نہیں ہوتی ۔
اللہ کا ذکر کوئی نشہ نہیں جو کہ احساس سے بیگانہ کرتے " مصنوعی سکون " طاری کر دے ۔ اللہ کا ذکر صرف " ور د " پر موقوف نہیں بلکہ ۔ اک حساس روح کے حامل وجود کا اپنے خالق کی تعلیمات پر بے و چون و چرا عمل کرتے انسانیت کی خدمت کرنا ہے ۔ اپنے خالق کی یاد میں اس سے ملاقات کے یقین سے جینا ہے ۔ "اسمائے الحسنی " کی مالا نہیں جپنی بلکہ ان میں پنہاں صفات کو اپنی ذات پر ایسے لاگو کرنا ہے ۔ انسانیت کو فلاح پہنچے ۔۔۔ ۔ صرف زبان کو تر نہیں کرنا ۔ تسبیح نہیں پھیرنی ۔ بلکہ اپنے کامل وجود کو انسان کی خدمت میں مصروف کرنا ہے ۔ پھر یہ " ذکر " اطمینان کا باعث ۔۔ اور " توکل و قناعت " کا زینہ بنتا ہے ۔۔۔ ۔۔۔ ۔
پھر انسان کو یہ یقین ہوتا ہے کہ جس ہستی پر وہ ایمان لایا ہے، جس کو اس نے اپنا رب اور اپنا معبود ماناہے، و ہی در حقیقت خالق و مالک ہے۔ اسی کے ہاتھ میں کل کائنات کی بادشاہی ہے ۔اور جس نے اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ میں دے دیا، اللہ تعالیٰ اسے کبھی رسوا اور محروم نہیں کرے گا۔ کیونکہ اس کا یہ وعدہ سچا ہے کہ

الا ان اولياء الله لا خوف عليهم ولا هم یحزنون O الذين امنوا وكانوا يتقون O لهم البشري في الحياة الدنيا وفي الاخرة لا تبديل لكلمات الله ذلك هو الفوز العظيم O(یونس 62-63 -64)
سن رکھو کہ جو اللہ کے دوست ہیں ان کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمناک ہوں گے (یعنی) جو لوگ ایمان لائے اور پرہیزگار رہے ان کے لیے دنیا کی زندگی میں بھی بشارت ہے اور آخرت میں بھی۔ اللہ کی باتیں بدلتی نہیں۔ یہی تو بڑی کامیابی ہے
ما شاءاللہ زبردست جواب دیا ہے بھائی آپ نے۔اللہ تعالی آپ کو صحت و تندرستی سے نوازے اور ہمیں آپ کی باتوں سے مستفید ہونے کا موقع عطا فرماےُ۔آمین
 
سب سے پہلے تو میری طرف سے تینوں مہمانانِ گرامی کی خدمت میں سلام۔
زبیر بھائی نے بہت زبردست سلسلہ شروع کیا ہے میں ان کا شکریہ ادا کرتی ہوں کہ انہوں نے مجھے بھی مدعو کیا۔آپ لوگوںنے ماشاء اللہ بہت اچھے جوابات دیئے ہیًں جس سے ہمیں یقینا بہت کچھ سیکھنے کو ملے گا۔ آپ لوگوں سے میرا یہ سوال ہے کہ۔
1۔آپ لوگوں کے خیا ل میں آج کے دور میں کامیاب انسان یا حقیقی معنوں میں کامیاب انسان کون ہے؟(کامیاب انسان کی تعریف)
 

سید زبیر

محفلین
آپ لوگوں کے خیا ل میں آج کے دور میں کامیاب انسان یا حقیقی معنوں میں کامیاب انسان کون ہے؟(کامیاب انسان کی تعریف
سب سے پہلے میں اپنی کم علمی کا ان سب ساتھیوں کو دوبارہ یقین دلاتا ہوں جنہوں نے اتنی تحریریں پڑھنے کے بعد بھی یقین نھیں کیا۔ میری جو رائے ھوتی ھے وہ صرف تجربے کے مفروضوں پر قإئم ھوتی ہے ۔کوئی سند نہیں ہوتی ۔ اگر آپ اختلاف کریں گے تو مجھ سمیت دیگر ساتھیوں کی رہنمائی ہو سکے گی ۔​
میری رائے میں ، اگر ہم انسان کومانند شجر لیں۔ تو ہم دیکھتے ہیں کہ خالق کائنات نے کیکر کا درخت بنایا جس سے لوگ دور بھاگتے ھیں ، نشیحت کرتے ہیں کہ اس را سے مت گزرنا کیکر ہے ، کانٹے ہیں ، کہجور کا درخت ہے میٹھا اور مقوی پھل دیتا ہے مگر پھل حاصل کرنا ایک مشکل امر ہے جسے مہارت ہو وہی حاصل کرسکتا ہے ۔ بیر ہوتے ہیں پھل کے ساتھ کانٹے بھی ہوتے ہیں ،پیپل کا درخت ہوتا ہے گھنیری سائے ہوتی ہے ، مسافر آرام کرتے ہیں مگر پھل نہیں ہوتا۔ اب ایک آم کا در خت ہوتا ہے ۔ سایہ دار ، پھل دار ، جس کا دل چاہے پھل حاصل کرلے، جتنا پانی دو ، پی لیتا ہے اور جی لیتا ہے ۔ موسم کی شدت برداشت کرتا ہے اور لوگوں کوبلا تفریق نفع پہنچاتا ہے تو کامیاب انسان وہی ہے جس سے لوگوں کو نفع پہنچے اور با آسانی پہنچے۔ لوگ اس سے دور نہ بھاگیں ، ۔ یہی اسلامی تعلیمات ہیں​
دوسری طرف یہ بھی ہے​
کہ تقدیر کے پابند ہیں حیوانات و نباتات ، ۔۔تو انسان اپنی تقدیر خود بناتا ہے ، اللہ کریم انسان کو وہی عطا فرماتا ہے جس کی وہ کو سعی کرتا ہے ۔ انسان کو ہمہ وقت مسلسل مزید آگے بڑھنے کی کوشش کرتے رہنا چاہئیے ۔اپنی صلاحیتوں کو دریافت کرنا چا ہئیے ، گذشتہ کل سےآج ہر لحاظ سے بہترہونا چاہئیے ۔ جو نعمتیں ، وسائل ، مواقع ، ساتھی ، ہمدرد آج میسر ہیں شائد کل ان میں سے کچھ کم ہو اس کی قدر کرنی چاہئیے اور فائد ہ اٹھانا چاھئیے ۔ جس کاآج اس کے گذشتہ کل سے ایمان ،عزت و تکریم ، صحت ، دولت کے لحاظ سے زیادہ بہترہے وہ کامیاب ہے ۔ جس کی اپنے حلقے میں عزت و تکریم ہے وہ کامیاب ہے ، اور یہ تبھی آتی ہے جب انسان دوسروں کے کام آنے کی کوئی سعادت چھوڑے نہیں​
ہر چہ خدمت کر کہ مخدوم شد​
 
آج کل اپنی بے پناہ پیشہ ورانہ مصروفیات کی بنا پرمجھے فرصت کا فقدان ہے۔ اس لئے میرے جوابات میں کچھ تاخیر ہو جائے گی، جسکے لئے پیشگی معذرت کا طلب گار ہوں۔
کوئی معذرت وازرت نہیں چلے گی اسی میں سے ٹائم نکالئے اور جلدی سے جواب دیجئے ۔:):):):)
 

مہ جبین

محفلین
آپ لوگوں کے خیا ل میں آج کے دور میں کامیاب انسان یا حقیقی معنوں میں کامیاب انسان کون ہے؟(کامیاب انسان کی تعریف
سب سے پہلے میں اپنی کم علمی کا ان سب ساتھیوں کو دوبارہ یقین دلاتا ہوں جنہوں نے اتنی تحریریں پڑھنے کے بعد بھی یقین نھیں کیا۔ میری جو رائے ھوتی ھے وہ صرف تجربے کے مفروضوں پر قإئم ھوتی ہے ۔کوئی سند نہیں ہوتی ۔ اگر آپ اختلاف کریں گے تو مجھ سمیت دیگر ساتھیوں کی رہنمائی ہو سکے گی ۔​
میری رائے میں ، اگر ہم انسان کومانند شجر لیں۔ تو ہم دیکھتے ہیں کہ خالق کائنات نے کیکر کا درخت بنایا جس سے لوگ دور بھاگتے ھیں ، نشیحت کرتے ہیں کہ اس را سے مت گزرنا کیکر ہے ، کانٹے ہیں ، کہجور کا درخت ہے میٹھا اور مقوی پھل دیتا ہے مگر پھل حاصل کرنا ایک مشکل امر ہے جسے مہارت ہو وہی حاصل کرسکتا ہے ۔ بیر ہوتے ہیں پھل کے ساتھ کانٹے بھی ہوتے ہیں ،پیپل کا درخت ہوتا ہے گھنیری سائے ہوتی ہے ، مسافر آرام کرتے ہیں مگر پھل نہیں ہوتا۔ اب ایک آم کا در خت ہوتا ہے ۔ سایہ دار ، پھل دار ، جس کا دل چاہے پھل حاصل کرلے، جتنا پانی دو ، پی لیتا ہے اور جی لیتا ہے ۔ موسم کی شدت برداشت کرتا ہے اور لوگوں کوبلا تفریق نفع پہنچاتا ہے تو کامیاب انسان وہی ہے جس سے لوگوں کو نفع پہنچے اور با آسانی پہنچے۔ لوگ اس سے دور نہ بھاگیں ، ۔ یہی اسلامی تعلیمات ہیں​
دوسری طرف یہ بھی ہے​
کہ تقدیر کے پابند ہیں حیوانات و نباتات ، ۔۔تو انسان اپنی تقدیر خود بناتا ہے ، اللہ کریم انسان کو وہی عطا فرماتا ہے جس کی وہ کو سعی کرتا ہے ۔ انسان کو ہمہ وقت مسلسل مزید آگے بڑھنے کی کوشش کرتے رہنا چاہئیے ۔اپنی صلاحیتوں کو دریافت کرنا چا ہئیے ، گذشتہ کل سےآج ہر لحاظ سے بہترہونا چاہئیے ۔ جو نعمتیں ، وسائل ، مواقع ، ساتھی ، ہمدرد آج میسر ہیں شائد کل ان میں سے کچھ کم ہو اس کی قدر کرنی چاہئیے اور فائد ہ اٹھانا چاھئیے ۔ جس کاآج اس کے گذشتہ کل سے ایمان ،عزت و تکریم ، صحت ، دولت کے لحاظ سے زیادہ بہترہے وہ کامیاب ہے ۔ جس کی اپنے حلقے میں عزت و تکریم ہے وہ کامیاب ہے ، اور یہ تبھی آتی ہے جب انسان دوسروں کے کام آنے کی کوئی سعادت چھوڑے نہیں​
ہر چہ خدمت کر کہ مخدوم شد​
بہت زبردست بات کی ہے زبیر بھائی
 

مہ جبین

محفلین
’’ جو پریشان نہیں وہ یہ سوچ سوچ کر پریشان کہ وہ کیوں نہیں پریشان ‘‘۔

واہ کیا بات کی ہے نایاب بھائی​
بالکل درست لکھا آپ نے​
 
Top