اجتماعی انٹرویو تین محفلین ایک سوال (سید زبیر، تلمیذ اورنایاب بھائی)

زبیر مرزا

محفلین
السلام علیکم
جناب انٹرویوکا نیا سلسلہ پیش ہے جو اپنے معززمہمانوں کی شخصیت کو دریافت کرنے کے ساتھ ساتھ بہت کچھ سیکھنے کے مواقع بھی فراہم کرے گا - میرے معزز مہمان اپنے علم ، مثبت سوچ اورتعمیری نظریات کے باعث ہردلعزیز ہیں- نایابتلمیذ سید زبیر صاحب
مہمانانِ گرامی سے ایک مشترکہ سوال کیا جائے گا اور جواب موصول ہونے کے بعد دوسرا سوال یہ سوالات ذاتی نوعیت کی بجائے سماجی اورعلمی نوعیت کے ہوں گے-
آپ کا تعاون وتوجہ چاہوں گا اس سلسلے کوچلانے کے لیے-
083.gif
1- کیا خونی رشتوں سے بڑھ کر کوئی خیرخواہ اور ہمدرد ہوسکتا ہے ؟
 

نایاب

لائبریرین
1- کیا خونی رشتوں سے بڑھ کر کوئی خیرخواہ اور ہمدرد ہوسکتا ہے ؟
خونی رشتے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کون سے کہلاتے ہیں ۔ ؟
1 ۔ نسبی طور پر براہ راست ان میں " دادا دادی نانا نانی ماں باپ اور بھائی بہن " شامل ہوتے ہیں ۔
خاندانی خونی رشتے ۔ ان میں "بھتیجے بھتیجیاں بھانجے بھانجیاں " تایا چچا ماموں خالہ پھوپھی اور انکی آل اولاد شامل ہوتی ہے ۔
اگر خون کے رشتوں کو ذرا تفصیل سے دیکھا جائے تو ۔۔۔۔۔ دادا پردادا نگر دادا ۔ نانا پرنانا نگر نانا یہ شجرہ آگے کی جانب پھیلتا جاتا ہے ۔ اور جناب نوح علیہ السلام جنہیں آدم ثانی کے لقب سے جانا جاتا ہے ۔ تک پہنچ جاتا ہے ۔ اور یہاں سے گھومتے جناب آدم علیہ السلام اور جناب اماں حوا علیہ السلام تک پہنچ نسل انسانی کی ابتدا کی علامت بنتا ہے ۔
کہتے ہیں کہ حضرت حوّا سے جڑواں بچے (ایک لڑکی اور لڑکا) پیدا ہوتے تھے، آپ جناب آدم علیہ السلام ایک بار پیدا ہونے والے لڑکے اور لڑکی کا نکاح دوسرے حمل سے پیدا ہونے والے لڑکی اور لڑکے سے کردیتے تھے۔اور نسل انسانی کا سلسلہ جاری رہنے لگا ۔۔۔۔۔۔۔
سو " ابن آدم یا بنت حوا " سب ہی خونی رشتوں میں شامل ہیں ۔
اب سوال کی صورت کچھ بدل گئی ۔
سوال یہ ہوا کہ " اس دنیا میں وہ کون سا رشتہ ہے جو کہ کسی بھی لالچ سے دور رہتے انسان کا خیر خواہ اور ہمدرد ہوسکتا ہے ۔" "
یہ خونی رشتے اکثر اوقات ہمارے سامنے ہمارے خاندانی رشتوں کی صورت آتے ہیں ۔ اور یہ اپنی توجہ محبت و خلوص سے ہمیں اپنی خیرخواہی اور ہمدردی کا یقین دلاتے ہیں ۔ اور یہ حقیقت بھی اپنی جگہ کہ یہ سب رشتے کہیں نہ کہیں کسی مفاد سے پیوست ہوتے ہیں ۔ " ماں "کے علاوہ کوئی رشتہ بھی لالچ و مفاد سے پاک نہیں ہوتا ۔
دوسرا رشتہ جسے " دوست " کے نام سے پکارا جاتا ہے ۔ اور جو قسمت سے نصیب والوں کو میسر ہوتا ہے ۔ اور رشتہ " دوستی " کا وقت پڑنے پر اپنی خیر خواہی اور ہمدردی کا بے لوث بے لاگ اظہار کر دیتا ہے ۔ یہ " دوست " براہ راست خونی رشتوں سے بھی مربوط ہوسکتا ہے ۔ اور خاندانی خونی رشتوں سے بھی ۔ اور عام طور پر "اجنبی غیر " کہلانے والا کسی بھی خاندانی خونی رشتے سے بہت دور ۔
اور اگر ہم اس سوال کو جسم انسانی کی قید سے آزاد کر دیں تو اک ہی رشتہ بچتا ہے ۔ جو کہ " خالق و مخلوق " کا رشتہ ہے ۔ اور وہ " خلاق العظیم " بے نیاز رہتے اپنی مخلوق کا بنا کسی لالچ و مفاد کے " خیر خواہ اور ہمدرد " ٹھہرتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
" اختلاف کا حق سب محترم اراکین رکھتے ہیں " کیونکہ مجھے علم کی تلاش ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

آبی ٹوکول

محفلین
" ماں "کے علاوہ کوئی رشتہ بھی لالچ و مفاد سے پاک نہیں ہوتا ۔
السلام علیکم نایاب بھائی مجھے بس آپکے درج بالا فقرے سے اختلاف ہے یہ درست اور سب سے بڑا سچ ،کہ تمام دنیاوی رشتوں میں ماں کا رشتہ اخلاص و حفظ مراتب میں سب سے بڑھ کر ہے مگر ماں کہ علاوہ دیگر تمام رشتوں سے اخلاص کی کلھم نفی ،معاف کیجیئے گا یہ بات قطعی حقیقت سے دور ہے باقی والسلام
 

نایاب

لائبریرین
" ماں "کے علاوہ کوئی رشتہ بھی لالچ و مفاد سے پاک نہیں ہوتا ۔
السلام علیکم نایاب بھائی مجھے بس آپکے درج بالا فقرے سے اختلاف ہے یہ درست اور سب سے بڑا سچ ،کہ تمام دنیاوی رشتوں میں ماں کا رشتہ اخلاص و حفظ مراتب میں سب سے بڑھ کر ہے مگر ماں کہ علاوہ دیگر تمام رشتوں سے اخلاص کی کلھم نفی ،معاف کیجیئے گا یہ بات قطعی حقیقت سے دور ہے باقی والسلام
وعلیکم السلام
سدا خوش رہیں اور ایسے ہی علم کی تقسیم جاری رکھیں سدا آمین
محترم بھائی " شریکہ " پنجابی میں عام کہا جاتا ہے ۔
یہ " شریکہ " کن پر مشتمل ہوتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔ ان پر غور کر لیں ۔ اور یہی " شریکہ " اخلاص کی مکمل نفی کرتے " مفاد " پر استوار ہوتا ہے ۔
ماں کبھی بھی " شریک " نہیں بنتی ۔ باقی سب رشتے باپ سمیت " شریکے " میں شامل ہو سکتے ہیں ۔
ماں بھی اک لالچ رکھتی ہے اپنی اولاد سے ۔ لیکن وہ لالچ بھی اولاد کی بہتر نگہداشت کی بنیاد بنتا ہے ۔ اس لیئے اسے " اخلاص " ہی مانا جاتا ہے ۔
آپ کا اختلاف کرنا بہت اچھا لگا بہت دعائیں
 
کیا کہوں یار میرے تو خیال سے سچا دوست ہی ہر رشتہ سے بڑھ کر ہوتا ہے گو کہ میں اس نعمت سے ہنوز محروم ہوں لیکن میں نے ماں کو بھی بچوں کے معاملے میں فوقیت دیتے ہوئے اکثر دیکھا ہے۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کا مفہوم کچھ یوں بنتا ہے کہ بھائی کی مثال سونے کی اور دوست کی مثال ہیرے کی ہوتی ہے۔ دیکھیے صدیق اکبر نے دوست کی خاطر کیا کچھ نہیں کیا وہ کونسی قربانی ہے جس سے دریغ نہیں کیا۔
 
السلام علیکم
کیسے ہیں محترم روحانی بابا جی
اللہ تعالی سدا اپنی امان میں رکھے آمین
اپنے تبصرے میں سے " نہیں " کو ختم کر دیں ۔

کے فرمان کا مفہوم کچھ یوں بنتا ہے کہ بھائی کی مثال سونے کی اور دوست کی مثال ہیرے کی ہوتی ہے۔ دیکھیے صدیق اکبر نے دوست کی خاطر کیا کچھ نہیں کیا وہ کونسی قربانی ہے جس سے دریغ نہیں کیا۔( وہ کونسی قربانی ہے جسے دیتے دریغ کیا ہو )​
نایاب جی ذاتی پیغام میں تصحیح کا شکریہ
 

سید زبیر

محفلین
میری طالب علمانہ رائے میں رشتے جذبات و احساسات سے باندھے جاتے ہیں ۔ہر فرد کا معاملہ جدا ہوتا ہے ۔ بعض کا خیال ہے کہ
باپ بھلا نہ بھیا
سب سے بھلا روپیہ

اس تناظر میں دیکھیں تو لا تعداد واقعات ایسے ملتے ہیں کہ ماں باپ بھی اس بیٹے کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں جومعاشی طور پر دوسرے بھائیوںکی نسبت زیادہ مستحکم ہو ۔ انہیں حج کرائے ان کی خدمت کے لیے ملازم کا بندوبست کرے بہ نسبت اس کے جو خود خدمت کرتا ہو ۔ غریب بھائی میں عیب بھی زیادہ نکلتے ہیں ۔شادی بیاہ کے موقع پر جو بھائی زیادہ اخراجات یا سلامی وغیرہ دیتا ہے اس کی اہمیت بہ نسبت اس بھائی کے جس نے عملی طور پر اپنا زیادہ وقت دیا ہے قدرے زیادہ ہوتی ہے ۔

لیکن میری رائے میں رشتے خلوص ہی پر مبنی ہوتے ہیں خلوص کی مثال کسی عنصر Nucleus جیسی ہے اس کی کشش ثقل جتنی زیادہ ہوگی اس کا رشتہ دیگر لوگوں سے ہی اتنا ہی پائدار اور مضبوط ہوگا ، خرابی تب پیدا ہوتی ہے جب ہم اپنے خلوص کی قیمت لگا لیتے ہیں ' آخر انسان ہیں نا ' خلوص کا صلہ فوراً مانگتے ہیں اور جب نہیں ملتا تو ہم ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اس لحاظ سے یہ ہم پر منحصر ہے کہ ہم دوسروں کے حقوق ادا کرنے کی ذمہ داری کس حد تک نبھاتے ہیں ۔خواہ رشتہ کوئی بھی ہو ہر انسان اپنے اعمال کا جوابدہ ہے اور رب کریم نہ کسی کی ذرہ برابر نیکی ضائع کرتا ہے اور نہ ہی ذرہ برابر بد ی ۔
نتیجہ یہ نکلا کہ رشتوں میں خیر خواہی انسان کے اپنے خلوص میں پنہاں ہے۔ دوسروں کے حقوق اگر ہم ادا کریں تو ہمارے حقوق کی رب ذولجلال خود حفاظت فرمائیں گے



 

نایاب

لائبریرین
کیا خونی رشتوں سے بڑھ کر کوئی خیرخواہ اور ہمدرد ہوسکتا ہے ؟
میری طالب علمانہ رائے میں رشتے جذبات و احساسات سے باندھے جاتے ہیں ۔ہر فرد کا معاملہ جدا ہوتا ہے ۔ بعض کا خیال ہے کہ​
باپ بھلا نہ بھیا​
سب سے بھلا روپیہ​
اس تناظر میں دیکھیں تو لا تعداد واقعات ایسے ملتے ہیں کہ ماں باپ بھی اس بیٹے کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں جومعاشی طور پر دوسرے بھائیوںکی نسبت زیادہ مستحکم ہو ۔ انہیں حج کرائے ان کی خدمت کے لیے ملازم کا بندوبست کرے بہ نسبت اس کے جو خود خدمت کرتا ہو ۔ غریب بھائی میں عیب بھی زیادہ نکلتے ہیں ۔شادی بیاہ کے موقع پر جو بھائی زیادہ اخراجات یا سلامی وغیرہ دیتا ہے اس کی اہمیت بہ نسبت اس بھائی کے جس نے عملی طور پر اپنا زیادہ وقت دیا ہے قدرے زیادہ ہوتی ہے ۔​
جیسی ہے اس کی کشش ثقل جتنی زیادہ ہوگی Nucleusلیکن میری رائے میں رشتے خلوص ہی پر مبنی ہوتے ہیں خلوص کی مثال کسی عنصر​
اس کا رشتہ دیگر لوگوں سے ہی اتنا ہی پائدار اور مضبوط ہوگا ، خرابی تب پیدا ہوتی ہے جب ہم اپنے خلوص کی قیمت لگا لیتے ہیں ' آخر انسان ہیں نا ' خلوص کا صلہ فوراً مانگتے ہیں اور جب نہیں ملتا تو ہم ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اس لحاظ سے یہ ہم پر منحصر ہے کہ ہم دوسروں کے حقوق ادا کرنے کی ذمہ داری کس حد تک نبھاتے ہیں ۔خواہ رشتہ کوئی بھی ہو ہر انسان اپنے اعمال کا جوابدہ ہے اور رب کریم نہ کسی کی ذرہ برابر نیکی ضائع کرتا ہے اور نہ ہی ذرہ برابر بد ی ۔
نتیجہ یہ نکلا کہ رشتوں میں خیر خواہی انسان کے اپنے خلوص میں پنہاں ہے۔ دوسروں کے حقوق اگر ہم ادا کریں تو ہمارے حقوق کی رب ذولجلال خود حفاظت فرمائیں گے
بلا شبہ سولہ آنے سچ لکھا ۔ محترم سید زبیر بھائی
 

تلمیذ

لائبریرین
انسانی زندگی میں رشتوں کی اہمیت سے متعلق مرزا صاحب کے اس دلچسپ سوال کے جواب میں نایاب جی اور محترم سید زبیر دونوں نے گویا دریا کو کوزے میں بند کر دیا ہے۔ اس کے بعد کہنے کو بہت کم رہ جاتا ہے۔

بایں ہمہ، اپنے ان فاضل مہربانوں کے ارشادات عالیہ، نیز آپ بیتی اور جگ بیتی کے تناظر میں میرا جواب بھی یہی ہوگا کہ 'شریکہ'(مفاد پرستی، خود غرضی، حسد و بغض وغیرہ) اور 'اخلاص' (قربانی، تحمل و برداشت، سچے لگاؤ) کے جذبات ہی دو پیمانے ہیں جو کسی شخص کی زندگی میں خونی رشتوں کے تعلقات میں خیر خواہی اور ہمدردی کے معیار کا تعین کرتے ہیں۔ مادیت پسندی کے اس مسابقتی دور میں اور فطرت انسانی میں موجود حُبِ جاہ و مال کی خواہش کے زیر اثر، خلوص اور بردباری کو ہمہ وقت دامن سے لگائے رکھنا ایک انتہائی دشوار امر ہے۔چنانچہ، اکثر خونی رشتے اس کٹھن کسوٹی پر پرکھنے پر ناکام ثابت ہوتے ہیں۔

مزید یہ کہ، ان انسانی اوصاف کا کسی خاندان کی ایک نسل کے باہمی تعلقات اور نظم و نسق کے مثبت یا منفی ہونے کا اثر اسی لحاظ سے اگلی نسل پر ضرور پڑتا ہے، جس کے نتیجے میں خونی رشتے ہمدردی اور خیر خواہی کی بنیادوں پر قائم رہ کر مزید مستحکم ہو جاتے ہیں یا اس کے بر عکس منفی عوامل کے باعث ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جاتے ہیں۔ خود ہمارے مشاہدے میں آیا ہے کہ بعض اوقات ایک ہی گھرانے میں پلنے والوں کی اولاد تیسری چوتھی نسل کے بعد ایک دوسرے کو جانتی تک نہیں۔

جہاں تک تعلق ہے کہ آیا 'خونی رشتوں سے بڑھ کر کوئی خیرخواہ اور ہمدرد ہوسکتا ہے' تو خونی رشتوں کے علاوہ بھی کسی دیگر رشتے کےمستحکم، خیر خواہ یا ہمدرد ہونے کے لئے بھی وہی معیارات ہیں تاہم، مستثنیات سے یہاں بھی انکار نہیں کیا جا سکتا۔
 

زبیر مرزا

محفلین
بہت شکریہ نایاب بھائی سید زبیر سرکار اور تلمیذ سر
آپ صاحبان کے نظریات ، علم اور زندگی کے تجربات سے سیکھنے کا موقع میسر آیا - جو کہا آپ نے اسے سمجھنے اور پلے باندھنے کی کوشش ہے
ایک ایک حرف آپ احباب کا قیمتی اور قابل تعریف ہے - میں جواب مرحمت فرمانے کے لیے ایک بار پھر آپ سب حضرات کا شکرگذار ہوں اور مزید توجہ اور
شفقت کا طالب-
 

فلک شیر

محفلین
اب جب کہ محترمین نایاب ، سید زبیر اور تلمیذ صاحبان سوالِ اول کے سلسلہ میں ہم آپ کو اپنے علم و فضل اور تجربات و مشاہدات سے فیض یاب فرما چکے..........تو سلسلہ مصاحبت کو جاری رکھنے کے لیے حسب الحکم زبیر مرزا بھائی دوسرا سوال اُن کی خدمت میں پیش ہے..........یہ سوال یقیناً بہت سے ذہنوں میں ہو گا، البتہ شکل مختلف ہو سکتی ہے...........’اصحابِ ثلاثہ‘ سےرہنمائی اور شناوری کی درخواست ہے:
’’صنعتی ترقی ، جدید علمی رجحانات، میڈیا کے بے لگام دیواور سدا سے حال پہ غیر مطمئن انسانی جستجو نے مشرقی سماج میں جو تبدیلیاں پیدا کی ہیں، اور ہوتی جارہی ہیں........اور بحیثیت مسلم جنہیں ہم اور بھی زیادہ شدت سے محسوس کرتے ہیں..........اُن کو ہضم کر لیا جائے یا فکری و علمی محاذ آرائی کی کوشش کی جائے اور اگر ایسا کیا جائے توکیسے...........اور اِس کو عملی شکل کیسے دی جائے............اس کنفیوژن سے آخر کیسے چھٹکارا حاصل کیا جائے‘‘
 

نایاب

لائبریرین
انسانی زندگی میں رشتوں کی اہمیت سے متعلق مرزا صاحب کے اس دلچسپ سوال کے جواب میں نایاب جی اور محترم سید زبیر دونوں نے گویا دریا کو کوزے میں بند کر دیا ہے۔ اس کے بعد کہنے کو بہت کم رہ جاتا ہے۔

بایں ہمہ، اپنے ان فاضل مہربانوں کے ارشادات عالیہ، نیز آپ بیتی اور جگ بیتی کے تناظر میں میرا جواب بھی یہی ہوگا کہ 'شریکہ'(مفاد پرستی، خود غرضی، حسد و بغض وغیرہ) اور 'اخلاص' (قربانی، تحمل و برداشت، سچے لگاؤ) کے جذبات ہی دو پیمانے ہیں جو کسی شخص کی زندگی میں خونی رشتوں کے تعلقات میں خیر خواہی اور ہمدردی کے معیار کا تعین کرتے ہیں۔ مادیت پسندی کے اس مسابقتی دور میں اور فطرت انسانی میں موجود حُبِ جاہ و مال کی خواہش کے زیر اثر، خلوص اور بردباری کو ہمہ وقت دامن سے لگائے رکھنا ایک انتہائی دشوار امر ہے۔چنانچہ، اکثر خونی رشتے اس کٹھن کسوٹی پر پرکھنے پر ناکام ثابت ہوتے ہیں۔

مزید یہ کہ، ان انسانی اوصاف کا کسی خاندان کی ایک نسل کے باہمی تعلقات اور نظم و نسق کے مثبت یا منفی ہونے کا اثر اسی لحاظ سے اگلی نسل پر ضرور پڑتا ہے، جس کے نتیجے میں خونی رشتے ہمدردی اور خیر خواہی کی بنیادوں پر قائم رہ کر مزید مستحکم ہو جاتے ہیں یا اس کے بر عکس منفی عوامل کے باعث ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جاتے ہیں۔ خود ہمارے مشاہدے میں آیا ہے کہ بعض اوقات ایک ہی گھرانے میں پلنے والوں کی اولاد تیسری چوتھی نسل کے بعد ایک دوسرے کو جانتی تک نہیں۔

جہاں تک تعلق ہے کہ آیا 'خونی رشتوں سے بڑھ کر کوئی خیرخواہ اور ہمدرد ہوسکتا ہے' تو خونی رشتوں کے علاوہ بھی کسی دیگر رشتے کےمستحکم، خیر خواہ یا ہمدرد ہونے کے لئے بھی وہی معیارات ہیں تاہم، مستثنیات سے یہاں بھی انکار نہیں کیا جا سکتا۔
بالکل درست کہا محترم تلمیذ بھائی
 

نایاب

لائبریرین
اب جب کہ محترمین نایاب ، سید زبیر اور تلمیذ صاحبان سوالِ اول کے سلسلہ میں ہم آپ کو اپنے علم و فضل اور تجربات و مشاہدات سے فیض یاب فرما چکے..........تو سلسلہ مصاحبت کو جاری رکھنے کے لیے حسب الحکم زبیر مرزا بھائی دوسرا سوال اُن کی خدمت میں پیش ہے..........یہ سوال یقیناً بہت سے ذہنوں میں ہو گا، البتہ شکل مختلف ہو سکتی ہے...........’اصحابِ ثلاثہ‘ سےرہنمائی اور شناوری کی درخواست ہے:
’’صنعتی ترقی ، جدید علمی رجحانات، میڈیا کے بے لگام دیواور سدا سے حال پہ غیر مطمئن انسانی جستجو نے مشرقی سماج میں جو تبدیلیاں پیدا کی ہیں، اور ہوتی جارہی ہیں........اور بحیثیت مسلم جنہیں ہم اور بھی زیادہ شدت سے محسوس کرتے ہیں..........اُن کو ہضم کر لیا جائے یا copeکرنے کی کوشش کی جائے اور اگر ایسا کیا جائے توکیسے...........اس کنفیوژن سے آخر کیسے چھٹکارا حاصل کیا جائے‘‘
محترم التباس بھائی ۔ سوال چونکہ بیانیہ انداز میں ہے اس لیئے مجھے تو سمجھنے میں مشکل کا سامنا ہے ۔
کیا آپ کا سوال کچھ ایسے کہ
" کیا آج کے مسلم معاشرے اور فرد کے لیئے بدلتے وقت کے ساتھ خود کو بدلتے وقت کے ساتھ ہم آہنگ ہونا لازم ہے یا نہیں " ؟
اگر جواب " ہاں " تو کیسے ۔؟ اگر نہیں تو " کیوں " ؟
یہ "cope" بھی سمجھ نہ آیا ۔۔۔۔۔۔۔
 

فلک شیر

محفلین
محترم التباس بھائی ۔ سوال چونکہ بیانیہ انداز میں ہے اس لیئے مجھے تو سمجھنے میں مشکل کا سامنا ہے ۔
کیا آپ کا سوال کچھ ایسے کہ
" کیا آج کے مسلم معاشرے اور فرد کے لیئے بدلتے وقت کے ساتھ خود کو بدلتے وقت کے ساتھ ہم آہنگ ہونا لازم ہے یا نہیں " ؟
اگر جواب " ہاں " تو کیسے ۔؟ اگر نہیں تو " کیوں " ؟
یہ "cope" بھی سمجھ نہ آیا ۔۔۔ ۔۔۔ ۔
آپ بالکل درست سمجھے نایاب بھائی............
cope(نبٹنا،محاذ آرائی کرنا)کے لیے معذرت.......میں تدوین کر دیتا ہوں انشاءاللہ
 

نایاب

لائبریرین
کچھ نہ سمجھے کوئی خدا کرے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جواب لکھ دیا اب چاہے اس کا سوال سے دور کا بھی واسطہ نہ ہو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
معاشرہ لوگوں کے ایسے گروہ کو کہتے ہیں جن میں کچھ قدریں مشترک ہوں جیسےتہذیب، زبان، لباس ، رہن سہن کا طریقہ، دین و مذہب ، ماضی وغیرہ ۔ مسلم معاشرے میں دین جوکہ " قران پاک " کے پیغام کو مکمل ترین قبول کرتے اس پر عمل پیرا رہنا اک ایسا اساسی رکن ہے ۔ جو اس معاشرے کو اک عالمگیر حیثیت عطا کرتے " اسلامی معاشرہ " قائم کرتا ہے ۔ اور تہذیب زبان لباس رہن سہن سے صرف نظر کرتے صرف " کلمہ طیبہ " کے اقرار پر تمام قسم کے اختلافات کو پیچھے رکھتے صرف " فلاح انسانیت " کے جذبے و کوشش کو سراہتے اسے " مشترک " قرار دیتا ہے ۔
وقت کیا ہے ؟ یہ اک لمبی بحث ہے ۔ سائینس فلسفہ اپنی اپنی تحقیق پر اس کی تعریف بیان کرتے ہیں ۔
اس کائنات میں گزرتے وقت پر غور کرتے یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ " حضرت انساں ہی اس وقت گزرتے وقت کو پوری معنویت سے محسوس کرتا ہے ۔ اس کے دل کی ہر دھڑکن اسے اس حقیقت سے آگاہ کرتی ہے کہ " ناداں گردوں نے اک گھڑی اور گھٹا دی " اک وقت آئے گا کہ یہ دھڑکن اپنی دھڑکنوں کو مکمل کر لے گی ۔ اور زندگی موت میں بدل جائے گی ۔ ہر فرد پر انفرادی طور پر گزرتا یہ وقت فرد کو اس کوشش پر مجبور کرتا ہے کہ وہ اپنے جیسے افراد پر مشتمل معاشرے کے لیئے کچھ ایسا کر جائے جو کہ معاشرے میں آسانیوں کا سبب بن سکے ۔
بحیثیت مسلمان یا غیر مسلم جب " دین " اسلام کی ابتدا پر غور کیا جاتا ہے ۔ تو اک فرد واحد سامنے نظر آتا ہے ۔ جس نے " توریت زبور انجیل اور دیگر مذہبی صحیفوں کی تحریف شدہ تعلیمات پر استوار اک روایتی معاشرے کی بنیادوں کو اپنی صدائے حق سے ایسا ہلایا کہ صدیوں سے تاریکیوں میں ڈوبا معاشرہ نور سے جگمگانے لگا ۔ نقش کہن مٹ گئے ۔ اور انسان فکری و ذہنی و جسمانی طور پر آزاد اور مساوات کے قابل ٹھہرا ۔
نزول قران پاک سے پہلے کا معاشرہ اپنے آپ کو بدلنے کی کوشش میں کن حالات سے گزرا ۔ معاشرے نے ہر ممکن اپنی وہ کوشش کی جس سے وہ اپنی روایتی اقدار کو قائم رکھ سکے ۔ لیکن چونکہ بدلتے وقت نے " قران پاک " کی صورت اک ایسی شمع روشن کر دی تھی ۔ جس کی روشن کرنوں نے اس روایتی بدکرداری کی تاریکی میں ڈوبے معاشرے میں اپنے نور سے ایسی روشنی پھیلا دی تھی جس سے کوئی فرد بھی تاریکی میں نہ رہا ۔
وقت جو کہ " حضرت آدم علیہ السلام اور اماں حوا علیہ السلام " کے زمین پر اترنے کے بعد اس " وعدے " پر " گزرنا" شروع ہوا کہ " تمیں اک مقررہ وقت تک یہاں رہنا ہے "یہ وقت سدا رواں رہتا ہے ۔ کبھی نہیں رکتا ۔ کبھی اپنی فطرت نہیں بدلتا ۔ یہ وقت " فرد " کے ادا کردہ ( نیک و بد )ہر دو کرداروں کو " آنے والے وقت " کے لیئے امر کرتے اک یاد اک مثال بنا رکھتا ہے ۔۔۔۔
انسانی زندگی ابتدا سے لیکر اب تک جانے کتنے روپ بدل چکی ہے ۔ اوزاروں کے ایجاد نے انسانی زندگی پر مشتمل معاشرے کو بہت سی آسانیاں فراہم کیں ۔ وقت کا سفر " غاروں " سے آغاز کرتے آج کے " جدید دور " تک آن پہنچا ہے ۔
وقت کی ترجیحات بدل چکی ہیں ۔ زمانہ جو کہ وقت کا مالک و خالق ہے ۔ہر لمحہ اس کے کارخانے سے " صدائے کن و فیکون " ابھرتی ہے ۔ انسان کی عقل حرکت کرتی ہے اور جسمانی آسانی کا کوئی ذریعہ ایجاد ہوجاتا ہے ۔
" مسلم معاشرہ " اپنے وجود میں آنے کی چودہ صدیاں مکمل کر چکا ہے ۔ روحانیات کی نسبت سائینس آج کے وقت میں بلندیوں پر ہے اور اپنی حقیقت کو ہر لمحہ منوا رہی ہے ۔ اور آج کا اسلامی معاشرہ " روایات پر استوار اور ان میں تبدیلی " کی کشمکش کا شکار ہے ۔
" وقت " کا اپنا اک اٹل قانون ہے کہ وہ ایسے ہر دو معاشروں کو فنا کی جانب دھکیلتا جاتا ہے جو معاشرے
1۔۔۔صرف اپنی " روایات " پر قائم رہیں اور ان مین کسی بھی قسم کی تبدیلی برداشت نہ کریں ۔
2 ۔۔۔ جو تبدیلیوں پر لمحہ رواں رہیں اور اپنی روایات کو بالکل پس پشت ڈال دیں ۔
کسی بھی معاشرے کے مضبوط و مستحکم رہنے کے لیئے یہ اک ضروری امر ہے کہ " روایت اور تبدیلی " میں اعتدال رہے ۔ اور اس اعتدال کو قائم رکھنے کے لیئے مسلم معاشرے کے فرد کو " اجتہاد " سے رہنمائی ملتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔
مسلم معاشرے کا یہ المیہ ہے کہ " مسلم " سورت العصر " وقت کے مالک زمانے کے پیغام کو فراموش کرتے فروعی اختلاف میں الجھتے آج کے جدید دور میں دوسروں سے کہیں پیچھے رہ گیا ہے ۔ پیغام تو یہ تھا کہ ( کہ زمانے کی قسم انسان خسارے میں ہے سوا ان کے جو ایمان لائے نیک عمل کیئے حق بات کہی اور صبر کرتے رہے ۔)
اپنی روایات پر قائم رہتے بدلتے وقت کے ساتھ بدلنا اسلامی معاشرے کی بقا کا ضامن ہے ۔
علم حاصل کرنے کے لیئے اسلام میں کہیں کوئی روک نہیں ۔ علم نام ہے جاننے کا ۔ وہ جاننا جو کہ انسانیت کے لیئے آسانیاں پیدا کرنے کا سبب ہو ۔
 

سید زبیر

محفلین
کیا آج کے مسلم معاشرے اور فرد کے لیئے بدلتے وقت کے ساتھ خود کو بدلتے وقت کے ساتھ ہم آہنگ ہونا لازم ہے یا نہیں ؟
محترم نایاب صاحب کے مدلل جواب کے بعد کسی قسم کے تبصرےکا خود بالکل اہل نہیں سمجھتا ان کی رائے مستند ہے ۔ ذہنی ارتقا فطری امر ہے ۔ پیرو مرشد حضرت علامہ اقبال ؒ کے دو اشعار پیش خدمت ہیں​
یہ کائنات ابھی نا تمام ہے شائد​
کہ آرہی ہے دما دم صدائےکن فیکون.
آئینِ نو سے ڈرنا طرزِ کہن پہ اَڑنا
منزل یہی کٹھن ہے قوموں کی زندگی میں
تو ہمیں جدید ایجادات سے مکمل طور پر مستفید ہونا چاہئیے۔ ذہنی کنفیوژن سے بچنے کے لیے اور سماجی تبدیلیوں ، اور جیسا کہ محترم التباس صاحب نے بحیثیت مسلم ، بدلتی ہوئی روایات سے متعلق جن خدشات کا اظہار کیا ہے تو اس کے لیے عرض ہے کہ اعتدال بہت ضرری ہے ۔ وقت کی صحیح تقسیم اور اس کا صحیح استعمال بہت ضروری ہے اور اگر ہم اپنے تمام امور نماز کے اوقات کے مطابق ترتیب دیں اور اہل خانہ و خاندان کے دیگر افراد کے لیے وقت ضرور نکالیں تو شائد ہم اپنی روایات کی حفاظت کر سکیں ۔
 
Top