غزل۔۔۔۔۔ہم شکوہِ بیدادِرقیباں نہیں کرتے ۔۔۔ اصلاح مطلوب۔۔!

متلاشی

محفلین
قوافی کے بارے میں مزمل شیخ بسمل صاحب کا مطالعہ اور تجزیہ مجھ سے کہیں بہتر ہے، اُن کے کہے کو اہمیت دیجئے گا۔
شکریہ استاذ گرامی ۔۔۔!

مطلع ۔۔۔ بیداد کا رسمی تعلق محبوب سے ہے، رقیب سے نہیں، اس کو دیکھ لیجئے گا۔ ’’گریزاں نہیں کرتے‘‘؟ مقصود غالب ’’گریز نہیں کرتے‘‘ ہے؟
شکریہ استاذ گرامی ۔۔۔ گریز کرنا ہی کہنا چاہ رہا تھا۔۔۔!

دوسرا شعر ۔۔۔ تنگیءِ داماں کا گلہ کس سے ہو گا؟ اپنے آپ سے؟ دوسرے یہ لفظ ’’گلہ‘‘ فارسی الاصل ہے کیا؟ میرے علم میں نہیں۔ دوست راہنمائی فرمائیں۔
تنگی داماں کا گلہ رب سے کرنا کہنا چاہ رہا تھا۔۔۔!
 

متلاشی

محفلین
کعبہ کے استعارے میں چراغاں کا کیا محل ہے، یہ دیکھ لیجئے گا۔
کعبہ دل کی جگہ خانہ دل لگا دیں تو کیسا رہے گا۔۔۔؟

الفاظ کو پسِ عنواں کرنا ۔۔ مجھ پر نہیں کھلا۔ اپنی تنگ دامانی کا اعتراف کرتا ہوں۔ پہلے مصرعے کو بہتر کیا جا سکتا ہے۔ ’’سلیقہ گو نہیں ہے‘‘ اس میں گو کی صوتیت مجھے کچھ ناملائم محسوس ہو رہی ہے۔
الفاظ کو پسِ عنواں کرنے سے میری مراد یہ تھی کہ میں کھلی اور صاف ستھری بنا کسی تمہید باندھے بات کرتا ہوں۔۔!
 

متلاشی

محفلین
بزم میں گہر افشانی کرنا؟ وہ تو شاید گفتگو بات چیت کے لئے ہوتا ہے؟ اگر یہاں گہر سے مراد راز ہے تو پھر افشاں نہیں افشاء یا فاش ہونا چاہئے۔
گہر سے مراد راز لیا ہے ۔۔۔ اور دوسرا مصرع ترمیم کے بعد پیش کرتا ہوں۔۔۔!
 

متلاشی

محفلین
جذبات کو عریاں کرنا؟
مجھے پتہ ہے کیا محسوس ہو رہا ہے؟ میں اس غزل کے ڈکشن کو نہیں پا سکا شاید۔ اگر واقعی ایسا ہے تو میری گزارشات کو نظر انداز کر دیجئے گا، اس میں کوئی قباحت نہیں۔
جذبات کو عریاں نہ کرنے سے مراد ۔۔۔ اپنا جذبات کو قابو میں رکھنا ہے ۔۔۔!
اصل میں لگتا ہے کہنا کچھ چاہ رہا تھا۔۔۔ مگر جذبات کو الفاظ کے پیراہن میں صحیح طور پر ڈھال نہیں سکا۔۔۔!
 

متلاشی

محفلین
نصر (وتد مجموع) ۔۔ یہ چونکہ آپ کا تخلص ہے سو، آپ بہتر سمجھ سکتے ہیں۔ ویسے نصر (مدد) ساخت میں وتد مفروق ہے۔
شکریہ استاذ گرامی نصر میں ص بر زبر ہی لکھتا ہوں۔۔۔ اسے آپ میرا خاندانی نام سمجھ لیں اور تخلص بھی ۔۔۔!
 

متلاشی

محفلین

مغزل

محفلین
پیارےبھائی غزل پر خاصی گفتگو ہوچکی ہے میں ماسوائے داد دینے کے کسی مزید بات کرنے میں خود کو معذور پاتا ہوں۔ میں مزمل شیخ بسمل اور قبلہ یعقوب آسی صاحب کی باتوں سے صد فیصد متفق ہوں اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ ۔
ایک بات دل کی گہرائیوں سے کہنا چاہوں گا ۔ وہ یہ کہ :
کوشش کرو کہ شعر کو اپنے تابع کرنے کی خواہش پر شعر کے ’’سُپرد‘‘ ہو جاؤ کو فوقیت دو۔
یوں شعر میں داخلی آہنگ شامل ہوگا اور ردیف و قوافی کے ہاتھوں پر بیعت کرنے سے بچ سکو گے۔
 

مغزل

محفلین
استاذِ محترم یہ ڈکشن کیا ہوتا ہے ؟
ہاں یہ اچھا سوال کیا ہے شہزادے جیو، محمد یعقوب آسی صاحب فراغت پاکر اس موضوع پر لکھیں تو یقیناً بہت کچھ سیکھنے کو ملےگا۔
میں بنیادی طور پر شعری روایات میں باغی واقع ہوا ہوں مزید یہ کہ ’’فاعلات‘‘ کے بعد ہمت نہیں ہوتی کہ آسی صاحب سے براہِ راست مکالمہ ہو۔
 

متلاشی

محفلین
کوشش کرو کہ شعر کو اپنے تابع کرنے کی خواہش پر شعر کے ’’سُپرد‘‘ ہو جاؤ کو فوقیت دو۔
یوں شعر میں داخلی آہنگ شامل ہوگا اور ردیف و قوافی کے ہاتھوں پر بیعت کرنے سے بچ سکو گے۔
یہ باتیں مزید تشنہ بہ وضاحت ہیں۔۔۔ مغزل بھائی۔۔۔!
 
ڈکشن کیا ہے؟
ڈِکْشَن {ڈِک + شَن} (انگریزی)
Diction، ڈِکْشَن
اصلاً انگریزی زبان کا لفظ ہے۔ اردو میں انگریزی سے ماخوذ ہے۔ اصل معنی اور اصل حالت میں عربی رسم الخط کے ساتھ بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ 1961ء کو "ادب اور شعور" میں مستعمل ملتا ہے۔
اسم نکرہ (مذکر - واحد)
1. طرز تحریر، انداز بیان، بندش، الفاظ کا انتخاب۔
"ان کی (قمر جمیل) نظموں پر کسی ایک لب و لہجہ اور آہنگ کا اثر نہیں ہے بلکہ تین قسم کے آہنگ اور لہجے نظر آتے ہیں جن کا ڈکشن .... ایک دوسرے سے .... مختلف ہے۔"
ماخوذ از:http://www.urduencyclopedia.org/urdudictionary/index.php?title=ڈکشن
 

مغزل

محفلین
یہ باتیں مزید تشنہ بہ وضاحت ہیں۔۔۔ مغزل بھائی۔۔۔ !
ایک بات دل کی گہرائیوں سے کہنا چاہوں گا ۔ وہ یہ کہ :
کوشش کرو کہ شعر کو اپنے تابع کرنے کی خواہش پر شعر کے ’’سُپرد‘‘ ہو جاؤ کو فوقیت دو۔
یوں شعر میں داخلی آہنگ شامل ہوگا اور ردیف و قوافی کے ہاتھوں پر بیعت کرنے سے بچ سکو گے۔

وضاحت کیے دیتا ہوں۔ شعر کو اپنے تابع کرنے سے مراد یہ کہ کسبی (مشق کرتے ہوئے) شعر سے گریز کرو۔یعنی ایک بحر چن لی اس میں ردیف بھی چن لی پھر قوافی طے کر لیے اور مشق کی بنیاد پر مضامین باندھنا ۔
شعر کے سپرد ہونے سے مراد یہ ہے کہ دیگر انسانی زندگی کے امور میں مبتلا رہتے ہوئے بھی اندر ہی اندر شعر کہنے کی کوشش کرو یوں ایک فضا پہلے اندر ترویج پائے گی اور ایک لمحہ ہوگا کہ اظہار کا چشمہ جاری ہوجائے گا، واضح رہے کہ ابتدا میں ایسا جلد نہیں ہوتا مگر بعد ازاں آپ اس سرشاری میں کامیاب ہوجائیں گے۔ مزاج، ماحول اور مطالعہ یہ تین ’’م‘‘ آہستہ آہستہ آپ کے شعر میں الفاظ کے فطری بہاؤ میں چناؤ میں مدد کریں گے ۔ یعنی لفظ آپ کو اختیار نہیں کرنے پڑیں گے بلکہ لفظ خود آپ کے اظہار میں آنے کے لیے بےتاب ہوں گے۔۔ یہی راستہ اسلوب یعنی ’’ڈکشن‘‘ کی طرف بھی لے جائے گا۔ الخ
 
گو غزل پر کہنے کو کچھ نہیں رہا اب مگر کچھ رسمی طور پر کہہ لوں کیونکہ ٹیگ کردیا گیا ہوں تو سکوت اختیار کرنا مناسب نہیں لگتا۔

ہم شکوہِ بیدادِ رقیباں نہیں کرتے
ڈھانے سے ستم وہ بھی گریزاں نہیں کرتے
÷÷گریزاں کرنا کی بجائے گریزاں رہنا درست محاورہ ہوتا جیسے پہلے بات ہو چکی۔
دوسرا مصرع یوں کیا جائے تو:
یوں ان کو سرِ عام پشیماں نہیں کرتے

ویسے آپس کی بات ہے۔ رقیب کے ستم کیسے ہوتے ہیں؟ محبوب کے ستم تو ٹھیک تھا۔ بہرحال۔۔۔


راضی برضا رہتے ہیں جس حال میں رکھے
لیکن گلۂ تنگی داماں نہیں کرتے
÷÷ فاعل کون ہے میاں؟؟؟
اور گلۂ تنگی کی ترکیب درست ہے۔ محمد یعقوب آسی صاحب


یادوں سے تری کرتے ہیں خلوت میں چراغاں
ہم کعبۂ دل کو کبھی ویراں نہیں کرتے

÷÷کعبہ سے مراد سمجھنے سے قاصر ہوں۔ اگر کعبہ سے مراد "خانہ" ہی ہے تو "خانۂ دل" زیادہ فصیح ہے۔
پہلا مصرع میرے نزدیک یوں زیادہ رواں ہوگا؛
خلوت میں تری یاد سے کرتے ہیں چراغاں

اظہارِ تمنا کا سلیقہ گو نہیں ہے
الفاظ کو لیکن پسِ عنواں نہیں کرتے
÷÷گو کے بارے میں میری رائے جناب یعقوب آسی والی ہی ہے۔
مفہوم نہیں سمجھ سکا پسِ عنواں سے مراد عنوان سے ہٹ کر کچھ اور بکنا مراد تو نہیں؟


رکھتے ہیں گہر ہم بھی نہاں خانۂ دل میں
ہر بزم میں لیکن انہیں افشاں نہیں کرتے
÷÷افشاں وہ نہیں جو آپ نے باندھا۔
ہائے قافیہ!! عریاں ٹھیک ہے؟

دعویٰ تو نہیں پاکی ٔداماں کا ہمیں پر
جذبات کو خلوت میں بھی عریاں نہیں کرتے
÷÷اس شعر کو شاعر سے بہتر نہیں سمجھ سکتا کوئی تو کچھ کہنے سے قاصر ہوں۔


سیکھا ہے یہ سر خونِ جگر اپنا جلا کر
فانی پہ کبھی جان کو قرباں نہیں کرتے
÷÷سر بمعنی عشق ہے؟؟
مگر ابلاغ کہاں ہے یار؟


مائل بہ بتاں ہے دلِ کافر جو نصرؔ آج
اس رند کو کیوں صاحب ایماں نہیں کرتے
÷÷"صاحبِ ایمان کرنا" کوئی محاورہ ہے ؟ میرے علم میں نہیں۔ صاحب ایمان ہونا تو ایک الگ بات ہے۔ ہاں پکارا خدا کو جا رہا ہے تو علیحدہ بات ہے۔

 

متلاشی

محفلین
گو غزل پر کہنے کو کچھ نہیں رہا اب مگر کچھ رسمی طور پر کہہ لوں کیونکہ ٹیگ کردیا گیا ہوں تو سکوت اختیار کرنا مناسب نہیں لگتا۔

ہم شکوہِ بیدادِ رقیباں نہیں کرتے
ڈھانے سے ستم وہ بھی گریزاں نہیں کرتے
÷÷گریزاں کرنا کی بجائے گریزاں رہنا درست محاورہ ہوتا جیسے پہلے بات ہو چکی۔
دوسرا مصرع یوں کیا جائے تو:
یوں ان کو سرِ عام پشیماں نہیں کرتے

ویسے آپس کی بات ہے۔ رقیب کے ستم کیسے ہوتے ہیں؟ محبوب کے ستم تو ٹھیک تھا۔ بہرحال۔۔۔


راضی برضا رہتے ہیں جس حال میں رکھے
لیکن گلۂ تنگی داماں نہیں کرتے
÷÷ فاعل کون ہے میاں؟؟؟
اور گلۂ تنگی کی ترکیب درست ہے۔ محمد یعقوب آسی صاحب


یادوں سے تری کرتے ہیں خلوت میں چراغاں
ہم کعبۂ دل کو کبھی ویراں نہیں کرتے

÷÷کعبہ سے مراد سمجھنے سے قاصر ہوں۔ اگر کعبہ سے مراد "خانہ" ہی ہے تو "خانۂ دل" زیادہ فصیح ہے۔
پہلا مصرع میرے نزدیک یوں زیادہ رواں ہوگا؛
خلوت میں تری یاد سے کرتے ہیں چراغاں

اظہارِ تمنا کا سلیقہ گو نہیں ہے
الفاظ کو لیکن پسِ عنواں نہیں کرتے
÷÷گو کے بارے میں میری رائے جناب یعقوب آسی والی ہی ہے۔
مفہوم نہیں سمجھ سکا پسِ عنواں سے مراد عنوان سے ہٹ کر کچھ اور بکنا مراد تو نہیں؟


رکھتے ہیں گہر ہم بھی نہاں خانۂ دل میں
ہر بزم میں لیکن انہیں افشاں نہیں کرتے
÷÷افشاں وہ نہیں جو آپ نے باندھا۔
ہائے قافیہ!! عریاں ٹھیک ہے؟

دعویٰ تو نہیں پاکی ٔداماں کا ہمیں پر
جذبات کو خلوت میں بھی عریاں نہیں کرتے
÷÷اس شعر کو شاعر سے بہتر نہیں سمجھ سکتا کوئی تو کچھ کہنے سے قاصر ہوں۔


سیکھا ہے یہ سر خونِ جگر اپنا جلا کر
فانی پہ کبھی جان کو قرباں نہیں کرتے
÷÷سر بمعنی عشق ہے؟؟
مگر ابلاغ کہاں ہے یار؟


مائل بہ بتاں ہے دلِ کافر جو نصرؔ آج
اس رند کو کیوں صاحب ایماں نہیں کرتے
÷÷"صاحبِ ایمان کرنا" کوئی محاورہ ہے ؟ میرے علم میں نہیں۔ صاحب ایمان ہونا تو ایک الگ بات ہے۔ ہاں پکارا خدا کو جا رہا ہے تو علیحدہ بات ہے۔

بہت بہت شکریہ مزمل بھائی ۔۔۔! لگتا ہے نئے سرے سے یہ غزل لکھنے پڑے گی۔۔۔!
خیر کچھ تبدیلیوں کے بعد آپ کو دوبارہ دعوت دوں گا۔۔۔!
 
میں بنیادی طور پر شعری روایات میں باغی واقع ہوا ہوں مزید یہ کہ ’’فاعلات‘‘ کے بعد ہمت نہیں ہوتی کہ آسی صاحب سے براہِ راست مکالمہ ہو۔

یہ آپ کیا فرما رہے ہیں، جنابِ مغزل ؟ اس فقیر سے جھجک کاہے کو بھلا۔
آپس کی بات ہے اس ’’فاعلات‘‘ کی وجہ سے میرا نام ضرور باغیوں میں لیا جانے لگا ہے۔
آپ کی محبتوں کا مقروض ہوں۔
 
ہاں یہ اچھا سوال کیا ہے شہزادے جیو،​
محمد یعقوب آسی​
صاحب فراغت پاکر اس موضوع پر لکھیں تو یقیناً بہت کچھ سیکھنے کو ملےگا۔​

اسلوب کے حوالے سے جناب مغزل کے اس ارشاد کی تعمیل کسی حد تک پہلے ہی ہو چکی۔
http://www.urduweb.org/mehfil/threads/”اردو-محفل-“-کے-شاعرسے-مکالمہ-نیاسلسلہ.49046/page-3
جواب نمبر 43 سے 56 تک کو ایک نظر دیکھ لیجئے گا۔ ہو سکتا ہے کام کی کوئی بات نکل آئے۔

متلاشی
 
Top