اقتباسات قدرت اللہ شہاب کی کتب "شہاب نامہ " سے اقتباس

سید زبیر

محفلین
" حضرت قبلہ و کعبہ فخر سالکان رہنمائے عاشقان،آفتاب طریقت ماہتاب معرفت ، جناب مخدوم زادہ غلام مرشد خاں صاحب پیر،کینڈ لارڈ اینڈ لیڈر"​
یہ کسی مزار کا کتبہ نہیں بلکہ ایک جیتے جاگتے انسان کا تعارفی کارڈہے جو ایک بہت بڑی گدی کے سجادہ نشیں ہیں۔آپ پکی سڑکوں پر ماسٹر بیوک استعمال کرتے ہیں کچی سڑکوں کے لیے شیورلیٹ اسٹیشن ویگن۔شکار کے لیے جیپوں کا انتظام ہے اس کے علاوہ دس بارہنسل کے اعلیٰ کے گھوڑے ہیں جن پر وہ خود کبھی سوار نہیں ہوتےتین ساڑھے تین درجن نسلی کتے ہیں جن کی خدمت کے لیے بہت سے خادم مامور ہیں کبوتروں کا بھی شوق ہے اور گاہے ماہے بٹیروں کی پالی سے بھی جی بہلا لیا کرتے ہیں​
درگاہ شریف پر درویشانہ ٹھاٹھہیں لیکن مریدوں کی سہولت کے لیے کئی بڑے بڑے شہروں میں جدید طرز کی کوٹھیاںبنا رکھی ہیں گدی کے نام دو ہزار ایکڑ اراضی وقف ھیں یوں بھی سال بھر میں مریدان با صفا سے لاکھ ڈیڑھ لاکھ روپیہ نذرانھ وصول ہو جاتا ہے صوفیائے کرام کا مسلک ہے کہ دنیاوی مال و متاع کا اجتماع راہ سلوک کا راہزن ہوتا ہے چنانچہ اپنے ایمانکی سلامتی کے لیے سجادہ نشین شاحب روپیہ پیسہ جمع کر نے کی خطا نہیں کرتےاور ہر سال درگاہ شریف کی ساری آمدنی بڑے سلیقے سے ٹھکانے لگاتے ہیںگرمیوں میں مری ،کوئٹہ ایبٹ آباد اور سردیوں میں لاہور پشاور اور کراچی کے شہروں کو فیض پہنچایا جاتا ہے سالانہ عرس کے موقعہ پر گاؤں کے لوگ روحانی ثواب حاصل کرتے ہیں اور اس طرح سجادہ نشین صاحب سارا سال اپنے مریدین کی خاطر دینی اور دنیاوی مجاہدوں میں منہمک رہتے ہیں ۔​
سالانہ عرس شریف کا آخری دن ہے ۔محفل سماع کے لیے دھوم دھام کا اہتمام ہے ۔عود و لوبان اگربتیاں سلگ رہی ہیں گلاب پاش سجے ہوے ہیں مشک کافور کی مہک فخا میں رچی ہوئی ہے سجادہ نشین صاحب منقش عبا پہنے گدی پر متمکن ہیں چہرے پر جمال اور آنکھوں میں جمال ہے سامنے باریک چقوں کے پیچھے عورتوں کی مجلس ہے سجادہ نشین صاحب کی چشم بصیرت بڑی خوش اسلوبی سے چقوں کے آر پار گھوم رہی ہے گدی ے بائیں ہاتھ پر افسران ضلع کی نشستیں ہیں ۔دائیں جانب پیر بھائی ،رؤسا اور سیاست پیشہ اصحاب براجمان ہیں ایک کونے میں درویشوں کا گروہ ہے جن پر قوالی کے دوران یکے بعد دیگرے "حال" طاری ہوگا وجدان کی سہولت کے لیے لاہور سے طریقت پسند لڑکوں کی ایک پارٹی بھی آئی ہوئی ہے اور وہ باریک ململ کے کرتے اور ترچھی ٹوپیاں بڑے ادب سے دو زانو بیٹھے ہیں ان سب کے درمیان قوالوں کی ایک چوکڑی اپنا ساز و سامان تیار کیے مستعد کیے بیٹھی ہے اور پیچھے حد نگاہ تک زائرین کا اجتماع ہے یہ عقیقد مند دور دراز علاقوں سے آے ہوئے ہیں ان کے پاس سواری کے لیے نہ موٹریں ہیں نہ گھوڑے اور پالکیاں ہیں روحانیت کی کشش انہیں سفر وسیلہ ظفر کی ہر دشوار ی اور صعوبت کے باوجود یہاں کھینچ لاتی ہے شائد یہ لوگ اپنے ہل کا بیل فروخت کرکے یہاں آئے ہیں ؟ شائد انھوں نے اپنی بیویوں کا زیور یا اپنی بیتیوں کا جہیزگروی رکھ کر نذرانے کا بندوبست کیا ہے ؟شائد جب یہ واپس جائیں تو انہیں کئی کئی روز تک فاقوں کا سامنا کرنا پڑےگا کیونکہ ان کی گندم کے فالتو ذخیرے درگاہ شریف کے لنگر کی بھینٹ چڑھ گئے ہیں۔​
قوالوں کی پارٹی نے بڑی خوش مستی کے ساتھ ہارمونیم کا ساز چھیڑا طبلھ پر تھاپ پڑی جامی کی غزل فضا میں لہرائی درویشوں کے سر گھونے لگتے ہیں طریقت پسند لڑکے بیٹھے ہی بیٹھے بڑی ادا سے کمریں مٹکاتے ہیں سجادہ نشین صاحب کا مور چھل طرہ بھی جنبش میں آجاتا ہے جیسے بین کی آواز پر سانپ کا پھن لہرا رہا ہو ایک ایک بول ایک ایک تال پر روحیں بے اختیار پھڑکتی ہیں افسر لوگ اپنے وقار کی بندشوں سے مجبور ہو کر کبھی کبھی محض سر ہلا دینے پر​
ا کتفا کرتے ہیں سیاست پیشھ اسحاب بھی اپنے منصب کی رعائت سے سر کی جگہ چوری چوری پاؤں ہلاتے ہیں دیہاتی عقیدتمندوں کا ہجوم جو اکثر فارسی زبان سے بے بہرہ ہے نہ سر ہلاتا ہے نہ پاؤں لیکن پیر بھائی ،درویش اور طریقت پسند لونڈے آپے سے باہر ہو رہے ہیں وہ بے اختیارت گردنیں مٹکاتے ہیں ۔سجدوں میں گرتے ہیں گھٹنوں کے بل کھڑے ہو ہو کر ہاتھوں کی نرت کے ساتھ راگنیوں کی تان پر جھومتے ہیں اور جب قوالوں کے گلے خوب گرما جاتے ہیں تو کئی ایک درویش ہو حق کا نعرہ لگا کر میدان میں کود پڑتے ہیں ایک صاحب اپنی سفید داڑھی کو مٹھیوں میں بھینچ بھینچ کر والہانہ رقص کر رہے ہیں درویش ایک دوسرے کے گلے سے لپٹے رموز بے خودی کے راز و نیاز میں مشغول ہیں اور بار بار ترچھی ٹوپی والے لڑکوں کے پاس جا جا کر پچھاڑیں کھاتے ہیں جو ان کی وارفتگی کو سہارا دینے کے لیے خاص طور پر لاہور مدعو کیے گئے ہیں ساری محفل مودبانہ کھڑی ہو جاتی ہے عقیدت مند جھک جھک کر دونوں ہاتھوں پر ایک ایک دو دو پانچ روپے رکھ کر سجادہ نشین کے حضور پیش کرتے ہیں جو انہیں چھو چھو کر قوالوں کے حوالے کر دیتے ہیں ایک طالبعلم نے اپنا فاونٹین پین نذر کیا ایک صاحب دل نے اپنا کوٹ اتار کر پھینک دیا ایک کسان جو کے ستووں کی تھیلی پیش کرتا ہے جسے وہ غالباً وہ زاد راہ کے طور پر اپنے ساتھ لایا تھا ۔ جامی ، حافظ ، اقبال ، بلھے شاہ ،خواجہ فرید ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ رات ڈیڑھ بجے جب محفل سماع برخواست ہوتی ہے تو سجادہ نشین بڑے اخلاق سے اپنے اپنے دائیں بائیں بیٹھے افسروں اور رئیسوں کو اس خیمے میں چلنے کی دعوت دیتے ہیں جو درگاہ شریف سے کچھ ہٹ کر ایک حویلی کے صحن میں نصب کیا گیا ہے اس خیمے میں مقربین خاص کے علاوہ اور کسی کا گزر ممکن نہیں "راہ سلوک" میں یہ خیمہ اس مقام پر واقع جس کے متعلق کہا گیا ہے کہ جلتے ہیں جبرئیل کےپر جس مقام پر کیونکہ اس خیمے میں لاہور ،ملتان اور لائلپور کی نامی گانے اور مجرا کرنے والی فنکاریں اتری ہوئی ہیں​
قوالی خدا اور مریدوں کو خوش کرنے کا ذریعہ تھی ۔فنکاروں کا مجرا افسروں اور رئیسوں کی خوشنودی کے لیے منعقد ہوتا ہے دین اور دنیا کے اس امتزاج میں سجادہ نشین کے لیے بہت بڑی برکات کا نزول مضمر ہے مجرے والے خیمے میں پہنچ کر سجادہ نشین صاحب اپنی زرکار قبا اتار دیتے ہیں اور لہراتے ہوئے طرے والی سبز پگڑی بھی خادم خاص کے حوالے کر دیتے ہیں خادم اس دستار فضیلت کو چاندی کی طشتری میں رکھ کر باہر لے جاتا ہے خدا جانے اب یہ پگڑی کہاں جائے گی ؟ شائد یہ پگڑی نبی بخش لوہار کے گھر چلی جائے جس کی بیٹی نے ابھی ابھی اپنی عمر کا سولہواں سال پورا کیا ۔۔۔۔۔شائد یہ پگڑی روشن دین معمار کے گھر چلی جائے جس کی جمیلہ پر شباب کے پھول تازہ تازہ کھلے ہیں ۔ شائد۔۔۔​
یہ پگڑی بڑی عصمت اور وقار والی پگڑی ہے اس پگڑی میں اولیائے کرام کی وراثت پارینہ محفوظ ہےاس پگڑی کے ساتھ بزرگی ،عظمت اور معرفت کی روایات صادقہ وابستہ ہیں اس پگڑی کے سہارے اوتار ،اور ابدال اور اقطاب عرش منیر کے کنگروں تک پہنچتے رہے اس پگڑی کی سلوٹوں سے فیض کے چشمے بہتے آئے ہیں صدیوں سے بندگان خاص و عام کو یہ پگڑی انوار و تجلیات و مشاہدات سے سرفراز کرتی رہی ہے یہ بڑی مرادوں والی پگڑی ہے اس پر ایجاب و قبول کے سب دروازے وا ہیں یہ پگڑی خدا کی بارگاہ سے بھی خالی نہیں لوٹتی ۔ ۔ ۔ لیکن جب یہی سحرکار دستار کسی نبی بخش لوہار یا روشن دین معمار چراغ علی کسان کے گھر اچانک جا پہنچتی ہے تو پیاری پیاری نازک نازک معصوم جوانیاں سہم کر مرجھا جاتی ہیں خادم خاص پگڑی اٹھئے گھر کا یک چکر لگاتا ہے اور اس طرح خاموش واپس لوٹ آتا ہے لیکن یہ خاموشی چیخ چیخ کر اعلان کرتی ہےکہ اے گھر والو مبارک ہو تمہاری بہو یا بیٹی پر حضرت قبلہ و کعبہ فخر سالکان رہنمائے عاشقان،آفتاب طریقت ماہتاب معرفت کی نظر انتخاب پڑ گئی ہے اب اگر تم چاہتے ہو کہ تمہارے نصیبوں پر رحمت خدا وندی کا سایہ قائم رہے ۔تمہاری کھیتیاں سر سبز لہراتی رہیں تمہارے جھونپڑوں کو آگ نہ لگے ۔تمھارے مویشی گم نہ ہوں تمہارے دالان میں ہتھکڑیاں نہ جھنجھنائیںاور جیل خانوں کے دروازے تم پر اچانک وا نہ ہوں تو برضا و رغبت ۔۔۔۔۔۔​
"مالک ہمارے گھر پگڑی آگئی ہے ۔خدا کے لیے مجھے بچاؤ۔ از طرف سکینہ دختر غلام محمد رجبانہ ۔ ۔ ۔ "​
یہ مختصر سا خط مجھے ایک روز ڈاک میں ملا ۔میں نے اسے ایک بار پڑھا ۔دو بار پڑھا لیکنکوئی بات سمجھ میں نہ آئی ۔کراچی میں جو پگڑی رائج تھی اس کا تعلق دکانوں یا مکانوں سے ہوتا تھا لیکن پگڑی کا یہ روپ میری سمجھ سے بالا تر تھا میں نے پولیس والوں اور مجسٹریٹوں سے پوچھا ۔وکیل صاحبان سے دریافت کیا لیکن یہ انوکھی گتھی کسی سے حل نہ ہوسکی معاملی کی تہہ تک پہنچنے کے لیے ہم نے اسی رات اچانک سکینہ کے گھر پر چھاپھ مارا سکینہ تو بچ گئی لیکن افسوس پگڑی ہاتھ نہ آسکی جس کی ایک ایک سلوٹ میں ریا کاری اور سیہ کاری کے سانپ لہراتے رہے تھے​
پس تحریر: یہ مکمل تحریر مشائخ عظام نما ریا کاروں سے متعلق ہے ورنہ پیران با صفا ہر دور میں رہے ہیں ایسے مردان درویش جو داتا ہوتے ہیں منگتے نہیں ہوتے۔جن کے دربار میں محمود و ایاز ایک ہی صف میں ہوتے ہیں جنکی مساجد کی اگلی صف مخصوص لوگوں کے لیے مختص نہیں ہوتی ۔ بہاو الدین زکریا ، بابا فرید گنج شکر ، شرقپور شریف ، تونسہ شریف، نظام ا لدین اولیا ، خواجہ معین الدین ، علی ہجویری ، پیر مکی ، بری امام ، پیر مہر علی شاہ ، لال شہباز ، سچل سرمست ،شاہ لطیف بھٹائی ، رحمان بابا ، کاکا صاحب ، حضرت حاجی بہادر ، غرضیکہ ایسے بے شمار پیران با صفا اور درویشان خدا مست کی زندگیاں ہمارے لیے مشعل راہ رہی ہیں ۔بے شک "نگاہ مرد مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں "
 

سید زبیر

محفلین
شہاب نامہ صفحہ 618
" اگلے روز انہوں نے مجھے مدینہ منورہ سے رخصت کردیا میں نے بہت عذر کیا کہ میرا یہاں سے ہلنے کو جی نہیں چاہتا لیکن وہ نہ مانے فرمانے لگے پانی کا برتن بہت دیر تک آگ پر پڑا رہے تو پانی ابل ابل کر ختم ہو جاتا ہے اور برتن خالی رہ جاتا ہے دنیا داروں کا ذوق شوق وقتی ابال ہوتا ہے کچھ لوگ یہاں رہ ر بعد میں پریشان ہوتے ہیں ان کا جسم تو مدینے میں ہوتا ہے لیکن دل اپنے وطن کی طرف لگا رہتا ہے اس سے بہتر ہے کہ انسان رہے تو اپنے وطن میں مگر دل مدینے میں لگا رہے "
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
شہاب نامہ صفحہ 618
" اگلے روز انہوں نے مجھے مدینہ منورہ سے رخصت کردیا میں نے بہت عذر کیا کہ میرا یہاں سے ہلنے کو جی نہیں چاہتا لیکن وہ نہ مانے فرمانے لگے پانی کا برتن بہت دیر تک آگ پر پڑا رہے تو پانی ابل ابل کر ختم ہو جاتا ہے اور برتن خالی رہ جاتا ہے دنیا داروں کا ذوق شوق وقتی ابال ہوتا ہے کچھ لوگ یہاں رہ ر بعد میں پریشان ہوتے ہیں ان کا جسم تو مدینے میں ہوتا ہے لیکن دل اپنے وطن کی طرف لگا رہتا ہے اس سے بہتر ہے کہ انسان رہے تو اپنے وطن میں مگر دل مدینے میں لگا رہے "
کیا ہی زبردست انداز بیاں ہے۔ زبردست اقتباس سر۔ جزاک اللہ :)
 

نایاب

لائبریرین
اک چشم کشا آگہی پھیلاتی شراکت
بلاشبہ یہ " پدرم پیر بود " پر اکڑتے نفس کی گمراہیوں کے اسیر معاشرے میں کلنک و ناسور کی علامت ہیں ۔
بہت خوب شراکت محترم سید زبیر بھائی
 

سیما علی

لائبریرین
سکول کا اصلی ھَؤا ماسٹر منگل سنگھ ھی تھے۔

اُردو پڑھانے میں انہیں خاص ملکہ حاصِل تھا - اردو کا سبق وہ ٹھیٹھ پنجابی زبان میں دیا کرتے تھے - اور اشعار کی تشریح کرنے میں ان کا اپنا ھی نرالا انداز تھا-

ایک بار غالب کا یہ شعر آیا -

سادگی و پُرکاری ، بے خودی و ھشیاری
حُسن کو تغافل میں جرأت آزما پایا

اِس شعر کو انہوں نے ھمیں کچھ یوں سمجھایا -

"سادگی تے اُس دے نال پُرکاری
بے خودی تے اُس دے نال نال ھشیاری
حسن نُوں تغافل دے وچ کی پایا؟

شاعر کہندا اے

اُس نے حُسن تُوں تغافل دے وچ جرأت آزما پایا -

لے اینی جئی گل سی- غالب شعر بناندا بناندا مَر گیا - میں شعر سمجھاندے سمجھاندے مَر جانڑاں اے پر تُہاڈے کوڑھ مغزاں دے پَلے کَکھ نیئں پینڑاں-

اگے چلو

قُدرتُ اللہ شَہاب کی تصنیف "شہاب نامہ" سے اقتباس
 
Top