ن م راشد رقص

عاطف بٹ

محفلین
اے مری ہم رقص مجھ کو تھام لے
زندگی سے بھاگ کر آیا ہوں میں
ڈر سے لرزاں ہوں کہیں ایسا نہ ہو
رقص گہ کے چور دروازے سے آ کر زندگی
ڈھونڈ لے مجھ کو، نشاں پا لے مرا
اور جرم عیش کرتے دیکھ لے!

اے مری ہم رقص مجھ کو تھام لے
رقص کی یہ گردشیں
ایک مبہم آسیا کے دور ہیں
کیسی سرگرمی سے غم کو روندتا جاتا ہوں میں!
جی میں کہتا ھوں کہ ہاں،
رقص گہ میں زندگی کے جھانکنے سے پیشتر
کلفتوں کا سنگریزہ ایک بھی رہنے نا پائے!

اے مری ہم رقص مجھ کو تھام لے
زندگی میرے لیے
ایک خونیں بھیڑیے سے کم نہیں
اے حسین و اجنبی عورت اسی کے ڈر سے میں
ہو رہا ہوں لمحہ لمحہ اور بھی تیرے قریب
جانتا ھوں تو مری جاں بھی نہیں
تجھ سے ملنے کا پھر امکاں بھی نہیں
تو مری ان آرزوؤں کی مگر تمثیل ھے
جو رھیں مجھ سے گریزاں آج تک!

اے مری ہم رقص مجھ کو تھام لے
عہد پارینہ کا میں انساں نہیں
بندگی سے اس در و دیوار کی
ہو چکی ہیں خواہشیں بے سوز و رنگ و ناتواں
جسم سے تیرے لپٹ سکتا تو ہوں
زندگی پر میں جھپٹ سکتا نہیں!
اس لیے اب تھام لے
اے حسین و اجنبی عورت مجھے اب تھام لے!
 

فرخ منظور

لائبریرین
معذرت سر، مجھے نہیں اندازہ تھا کہ آپ پہلے سے شیئر کرچکے ہیں۔ اب شمشاد بھائی سے کہتا ہوں کہ اس دھاگے کو حذف کردیں یا اس دھاگے میں ضم کردیں!

کوئی بات نہیں بٹ صاحب، بہت خوبصورت نظم ہے۔ اسے منتظمین خود ہی ضم کر دیں گے۔ :) خوش رہیں!
 
Top