پرسوں یعنی 6 دسمبر کے نوائے وقت میں
جگن ناتھ آزاد کی نعتوں کا ذکر تھا۔ بابری مسجد والےمضمون میں۔ مسجد کی نوحہ خوانی بھی تھی۔ ان کی نظم کی صورت میں۔
http://www.nawaiwaqt.com.pk/E-Paper/lahore/2012-12-06/page-13
ڈاکٹر حمید اللہ کا تو تعارف بھی شاید آج ہوا مجھے۔ بٹ صاحب اور الف نظامی صاحب کی محبتوں کا شکریہ
بابری مسجد
آنجہانی جگن ناتھ آزاد کا تعلق تقسیم برصغیر سے قبل ضلع میانوالی سے تھا۔ ان کے والد تلوک چند محروم اردو کے معروف شاعر تھے اور ان کی نظمیں خاص طور پر مقبرہ نور جہاں اور دریائے سندھ بہت مشہور ہوئی تھیں۔ جگن ناتھ آزاد بھارت میں سب سے بڑے ماہر اقبالیات تھے۔ ان کا عشق رسول میں ڈوبا نعتیہ کلام ، حمدوثنا اور بزرگان دین سے ان کی عقیدت دیکھ کر یہ گمان کرنا دشوار ہوجاتا ہے کہ یہ کسی ہندو کے جذبات ہیں۔ بابری مسجد کی شہادت پر جگن ناتھ آزاد نے ایک جذباتی اور تاثراتی نظم تحریر کی تھی ، جو ان کے مجموعہ کلام ”نسیم حجاز“ میں شامل ہے۔
یہ تو نے ہند کی حرمت کے آئینے کو توڑا ہے
خبر بھی ہے تجھے مسجد کا گنبد توڑنے والے
ہمارے دل کو توڑا ہے عمارت کو نہیں توڑا
خباثت کی بھی حد ہوتی ہے اے حد توڑنے والے
ترے اس فعل سے اسلام کا تو کچھ نہیں بگڑا
مگر گھونپا ہے خنجر تو نے ہندو دھرم کے دل میں
ادھر ہندوستان کا تو نے چہرہ مسخ کر ڈالا
ادھر بوئے ہیں کانٹے تو نے اس کی راہ منزل میں
خبر کل تک بس اتنی تھی کہ گنبد ایک ٹوٹا ہے
کھلی اب بات مسجد کا نہیں چھوڑا نشان باقی
وہ تہذیبی تسلسل جو تھا جاری چار صدیوں سے
تو سمجھا ہے نہ رہ جائے گی اس کی داستاں باقی
میں اک گنبد کو روتا تھا مگر اب یہ کھلا مجھ پر
گرا ڈالا ہے اس ساری عبادت گاہ کو تو نے
دیا تھا اک دل آگاہ تجھ کو دینے والے
یہ کس رستے پہ ڈالا ہے دل آگاہ کو تو نے
مروت جس کو کہتے ہیں مودت جس کو کہتے ہیں
یہ مسجد اس مروت اس مودت کی علامت تھی
خدا کے گھر کو جب تو منہدم کرنے کو نکلا تھا
خدا جانے ترے دل میں خیال خام کیا ہوگا
مکافات عمل کہتے ہیں جس کو اک حقیقت ہے
شقی القلب کیا کہئے ترا انجام کیا ہوگا
یہ مسجد آج بھی زندہ ہے اہل دل کے سینوں میں
خبر بھی ہے تجھے مسجد کا پیکر توڑنے والے
ابھی یہ سرزمین خالی نہیں ہے نیک بندوں سے
ابھی موجود ہیں ٹوٹے ہوئے دل جوڑنے والے