تربت امام حسین رضی اللہ عنہ کا معجزہ

یوسف-2

محفلین
خلیل بھائی، آپ نے جس واقعے کا حوالہ دیا ہے وہ نامکمل ہے کیونکہ احادیث کی دوسری کتابوں(مستدرک حاکم وغیرہا) میں اس بات کی صراحت ملتی ہے کہ حضرت عمر نے جب یہ بات کہی تو حضرت علی وہیں موجود تھے اور انہوں نے فوراّ کہا کہ نہیں امیر المؤمنین ایسا نہیں ہے اس پتھر سے نفع پہنچ سکتا ہے کیونکہرسولِ پا ک نے فرمایا کہ یہ پتھر بنی آدم کے گناہوں کو جذب کرتا ہے اور اسکا رنگ سفید تھا لیکن اسی وجہ سے کالا ہوگیا اور یہ کہ اللہ نے اسے زمین پر اپنے ہاتھ سے تشبیہہ دی ہے
جو شخص اسے چومتا ہے وہ گویا (مجازی طور پر ) اللہ سے مصافحہ کرتا ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ رسولِ کریم نے اسے استسلام کیا اور بوسہ دیا ورنہ رسولِ کریم کی شان اس بات سے نہایت بلند ہے کہ وہ کوئی عبث اور فضول کام کریں۔۔۔ ۔حضرت عمر نے حضرت علی کی اس بات کو تسلیم بھی کیا۔
واللہ اعلم بالصواب
اور محدثین کا کیا کہنا ہے اس بارے میں؟ حدیثیں تو لوگوں نے گھڑ کر بھی پیش کی ہوئی ہیں۔ کیا حدیث کا یہ حصہ صحیحین میں بھی موجود ہے یا یہ ضعیف و موضوع احادیث میں شامل ہے۔ ذرا اس پربھی تحقیق کرلیجئے گا۔ صرف اپنی تسلی و تشفی کے لئے۔ دوسروں کے لئے نہیں :)
 
اور محدثین کا کیا کہنا ہے اس بارے میں؟ حدیثیں تو لوگوں نے گھڑ کر بھی پیش کی ہوئی ہیں۔ کیا حدیث کا یہ حصہ صحیحین میں بھی موجود ہے یا یہ ضعیف و موضوع احادیث میں شامل ہے۔ ذرا اس پربھی تحقیق کرلیجئے گا۔ صرف اپنی تسلی و تشفی کے لئے۔ دوسروں کے لئے نہیں :)
جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے، یہ بقیہ حصے والی حدیث بھی صحیح ہی ہے بروایت حاکم۔۔۔واللہ اعلم اور دوسری بات یہ ہے کہ کسی حدیث کے صحیح ہونے کیلئے یہ ضروری نہیں کہ وہ صحیحین یعنی بخاری و مسلم میں بھی ہو۔ :)
کامن سنس بھی اس بات کو تسلیم کرتی ہے ہ ایسا ہی کچھ ہوا ہوگا ورنہ یہ بات لازم آئے گی کہ رسولِ پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے معاذ اللہ ایک بے فائدہ، عبث اور لایعنی کام سرانجام دیا۔۔۔کیا خیال ہے آپکا؟
 

یوسف-2

محفلین
جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے، یہ بقیہ حصے والی حدیث بھی صحیح ہی ہے بروایت حاکم۔۔۔ واللہ اعلم اور دوسری بات یہ ہے کہ کسی حدیث کے صحیح ہونے کیلئے یہ ضروری نہیں کہ وہ صحیحین یعنی بخاری و مسلم میں بھی ہو۔ :)
کامن سنس بھی اس بات کو تسلیم کرتی ہے ہ ایسا ہی کچھ ہوا ہوگا ورنہ یہ بات لازم آئے گی کہ رسولِ پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے معاذ اللہ ایک بے فائدہ، عبث اور لایعنی کام سرانجام دیا۔۔۔ کیا خیال ہے آپکا؟
”کامن سنس“ پر اسلامی تعلیمات کو جانچا نہیں جاسکتا میرے بھائی !۔ اب ہم دونوں کے ”کامن سنس“ میں تو زمین آسمان کا فرق ہے :) اگر محدثین نے واقعتاً اس حدیث کے بقیہ حصہ کو بھی ”صحیح“ قرار دیا ہے تو میری کیا مجال کہ میں اس سے انکار کروں۔:) ایک صحیح حدیث کو ہر صورت میں ماننا ہمارے ایمان کا حصہ ہے، خواہ وہ ہمارے ”کامن سنس“ کے موافق ہو یا مخالف :)

لیکن آپ کی ”جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے“ تو ایک مشتبہ جملہ ہے :) بائی دے وے کیا آپ علم حدیث کے فارغ التحصیل ہیں یا جسٹ مطالعہ ہے :)
 

عدیل منا

محفلین
تری نگا ہ میں ثابت نہیں خدا کا وجود
مری نگاہ میں ثابت نہیں وجود ترا:)
جو دوست یہاں کسی بھی بات کو بغیر کسی سائنسی تحقیق کے ماننے پر تیار نہیں ہیں ان سے دست بستہ عرض ہے کہ جس عدم اعتماد کو انہوں اپنی سوچ کا محور و مرکز بنا رکھا ہے، پہلے اسے اپنی ذات پر لاگو کریں۔۔آپ جب پیدا ہوئے اور کچھ عرصے کے بعد آپ نے ہوش سنبھالا اور آپ کو بتایا گیا کہ فلاں صاحب آپکے والد صاحب ہیں اور فلاں والدہ۔۔آپ نے اعتماد اور بھروسہ کرتے ہوئے اس بات کو من و عن تسلیم کرلیا۔ آپ بھی ضرور تسلیم کریں گے کہ اس اعتماد کی بنیاد تو قطعاّ غیر سائنسی ہے۔ انٹلکچوئل دیانت کا تقاضا ہے کہ سب سے پہلے اپنا اور اپنے مبینہ والدین کا ڈی این اے ٹیسٹ کرواکر "عین الیقین" کی منزل حاصل کریں۔۔اسکے بعد دوسروں کے عقائد کا سائنسی نقطہ نظر سے جائزہ لیجئے۔Charity begins at home.۔۔۔ ;) اور بات یہیں ختم نہیں ہوگی کیونکہ حق الیقین کا درجہ حاصل کرنے کیلئے قدم قدم پر کئی منزلوں سے گذرنا پڑے گا۔
ہمارا نقطہ نظر تو یہ ہے کہ دنیا میں آپ کو کسی نہ کسی پر بھروسہ اور اعتماد کرنا ہی پڑ تا ہے اور کئی باتوں کو دوسروں کے علم پر اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے بلا چون و چرا تسلیم کرنا ہی پڑتا ہے۔آپ ڈاکٹر کے پاس جاتے ہیں اسکے علم پر بھروسہ کرتے ہوئے اور وہ جو کچھ تشخیص کردے اور جو دوا لکھ کر دے دے اسے آپ تسلیم کرلیتے ہیں محض اس وجہ سے کہ کہیں سے سن رکھا ہے کہ یہ ڈاکٹر مستند ہے۔ جب اسکی تشخیص درست ثابت ہوتی ہے اور دوا اپنا اثر دکھانےلگتی ہے تو آپکو اس ڈاکٹر کی مسیحائی پر پہلے سے نسبتاّ زیادہ مضبوط بھروسہ (یا ایمان) حاصل ہوجاتا ہے۔
مذہب میں بھی ایسا ہی ہوتا ہے کہ آپ کسی انسان پر اس درجے بھروسہ کرتے ہیں کہ اسکی کہی ہوئی ہر بات کو سچی اور معتبر جانتے ہیں۔ چنانچہ علم کے حصول کا ایک ذریعہ یہ بھی ہے۔ اور اس ذریعے کو چار و ناچار آپ بھی درست تسلیم کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دین کے تین درجوں میں سے سب سے پہلا درجہ "اسلام" ہے یعنی مان لینا ۔۔۔ ۔اور جب زندگی کے تجربات سے آپکو اس انسان کی کہی گئی باتیں سچ ثابت ہوتی نظر آتی ہیں تو آپکو اس شخص کی دانائی ، فراست، علم وغیرہ پر مزید ایقان حاصل ہوتا ہے۔۔ہمارے خیال میں تو علم حاصل کرنے کا یہی ایک واحد طریقہ ہے یعنی کسی اور کے علم پر بھروسہ کرتے ہوئے ابتدائی طور پر بغیر چون و چرا کئے اسی تحقیقات و تسلیم کرلیا جائے اور پھر درجہ بدرجہ اپنی جستجو اور صلاحیت کی مدد سے سے اس پوائنٹ سے آگے بڑھ کر علم میں مزید وسعت ، accuracy اور نکھار لایا جائے۔ جب ہم سائنس اور ریاضی جیسے مضامین کامطالعہ کرتے ہیں تو وہاں بھی یہی اصول کارفرما ہے کچھ assumptionsہیں جنہیں ہم بغیر کسی ثبوت کے تسلیم کرکے اپنی تحقیقات کے سلسلے کوآگے بڑھاتے ہیں۔:)
اب اس دھاگے میں پوچھے گئے سوال کا جواب تلاش کرنے کیلئے بھی یہی اصول کارفرما ہوگا۔ یا تو آپ ود اس جگہ پر پہنچ کر بذاتِ خود اس بات کا مشاہدہ کرلیجئے کہ ایسا ہوتا بھی ہے یا نہیں۔۔۔ مسئلہ ہی حل ہوجائے گا۔ لیکن اگر آپ کیلئے یہ طریقہ کار اختیار کرنا ممکن نہ ہو تو پھر آپ پہلے سے موجود اپنے علم کی روشنی میں عقل اور منطق و استعمال کرتے ہوئے فیصلہ کرتے ہیں کہ ایسا ہونا ممکن ہے یا نہیں۔ یہاں آکر دو فریق جدا ہوجاتے ہیں اور دونوں ہی اپنی اپنی منطق اور عقل کے مطابق فیصلہ صادر کرتے ہیں کہ یہ درست ہے یا نہیں، مذہبی آدمی جسکی منطق کی بنیاد یہی ہے کہ اگر کسی قابلِ بھروسہ آدمی نے( جس کے سچ پر وہ بھروسہ کرسکتا ہے) یہ کہا ہے تو پھر یہ بات ٹھیک ہے، ورنہ نہیں۔ جبکہ غیر مذہبی آدمی کو چونکہ اس معاملے میں ایسا کوئی آدمی نہیں ملتا جس پر وہ بھروسہ کرسکے، چنانچہ اپنے سابقہ تجربات کی روشنی میں اسکی منطق یہی کہتی ہے کہ یہ سب جھوٹ ہے۔:)
دنیا وی معاملات مذہبی معاملا ت سے الگ ہوتے ہیں۔ عام معاملات میں ہم ہر کس و ناکس کی دی ہوئی خبر کو قبول کرلیتے ہیں۔ جیسے کسی سے راستہ پوچھنا ہو، یا روز مرہ زندگی کے کسی واقعے کے بارے میں معلومات حاصل کرنا ہوں لیکن جو معاملات اہمیت رکھتے ہوں، انہیں ہم اچھی طرح چھان بین کرنے کے بعد ہی قبول کرتے ہیں۔ یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے کوئی والدین پر خدانخواستہ بدکاری کا الزام عائد کر دے، تو کیا ہم محض اس وجہ سے اس شخص کی بات کو قبول کر لیں گے کہ ہم روز مرہ زندگی میں اس کی اور باتوں کو بھی قبول کر لیتے ہیں اور اگر اس کی بات کو ہم نے قبول نہ کیا تو ہم پر جانبداری کا الزام آئے گا؟
آپ علم الرجال کی کسی بھی کتاب جیسے "میزان الاعتدال" میں روایتوں کی بے احتیاطی کے بارے میں پڑھ سکتے ہیں۔
میں نے یہ سوال اس لئے کیا کہ میرےذہن میں یہ بات تھی کہ رنگ تبدیل ہونے میں کسی شعبدہ باز کی محنت کارفرما ہے۔ دیئے گئے جوابات سے کچھ نہ کچھ گتھی سلجھ گئی ہے۔
آپ کے جوابات میں تلخی محسوس کرتے ہوئے مجھے یہ سوچنا پڑرہا ہے کہ میں نے غلط موضوع منتخب کر لیا ہے۔
 
”کامن سنس“ پر اسلامی تعلیمات کو جانچا نہیں جاسکتا میرے بھائی !۔ اب ہم دونوں کے ”کامن سنس“ میں تو زمین آسمان کا فرق ہے :) اگر محدثین نے واقعتاً اس حدیث کے بقیہ حصہ کو بھی ”صحیح“ قرار دیا ہے تو میری کیا مجال کہ میں اس سے انکار کروں۔:) ایک صحیح حدیث کو ہر صورت میں ماننا ہمارے ایمان کا حصہ ہے، خواہ وہ ہمارے ”کامن سنس“ کے موافق ہو یا مخالف :)
میں اپکی اس بات سے متفق نہیں ہوں ۔۔میں نے لفظ کامن سنس استعمال کیا ہے یعنی عقل کا اتنا حصہ جو سب میں مشترکہ ہو۔۔۔چنانچہ میری اور آپکی کامن سنس میں زمین و آسمان کا فرق نہیں ہوسکتا ورنہ اسے کامن کہنا ہی غلط ہوگا، ہاں یہ ضرور ہے کہ میری اور آپکی سنس میں زمین و آسمان کا فرق ہوسکتا ہے;):D
 

شمشاد

لائبریرین
ایک بات کی وضاحت چاہتا ہوں۔

ایسا کوئی کام یا بات جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد واقعہ ہوئی، کیا وہ بھی حدیث ہی کہلائے گی؟

جیسا کہ مندرجہ بالا واقعہ میں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ کی گفتگو کو حدیث کہا گیا ہے۔
 

یوسف-2

محفلین
میں اپی اس بات سے متفق نہیںہوں ۔۔میں نے لفظ کامن سنس استعمال کیا ہے یعنی عقل کا اتنا حصہ جو سب میں مشترکہ ہو۔۔۔ چنانچہ میری اور آپکی کامن سنس میں زمین و آسمان کا فرق نہیں ہوسکتا ورنہ اسے کامن کہنا ہی غلط ہوگا، ہاں یہ ضرور ہے کہ میری اور آپکی سنس میں زمین و آسمان کا فرق ہوسکتا ہے;):D
آپ نے اس بات کا جواب نہیں دیا کہ کیا آپ علم حدیث کے فارغ التحصیل ہیں؟ اور کیا میں آپ کے ”جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے“ پر ایک حدیث کی ”سند“ کے بارے میں ”اعتبار“ کرسکتا ہوں؟ یا مجھے کسی فارغ التحصیل سے رجوع کرنا چاہئے۔ :)
 
دنیا وی معاملات مذہبی معاملا ت سے الگ ہوتے ہیں۔ عام معاملات میں ہم ہر کس و ناکس کی دی ہوئی خبر کو قبول کرلیتے ہیں۔ جیسے کسی سے راستہ پوچھنا ہو، یا روز مرہ زندگی کے کسی واقعے کے بارے میں معلومات حاصل کرنا ہوں لیکن جو معاملات اہمیت رکھتے ہوں، انہیں ہم اچھی طرح چھان بین کرنے کے بعد ہی قبول کرتے ہیں۔ یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے کوئی والدین پر خدانخواستہ بدکاری کا الزام عائد کر دے، تو کیا ہم محض اس وجہ سے اس شخص کی بات کو قبول کر لیں گے کہ ہم روز مرہ زندگی میں اس کی اور باتوں کو بھی قبول کر لیتے ہیں اور اگر اس کی بات کو ہم نے قبول نہ کیا تو ہم پر جانبداری کا الزام آئے گا؟
میں آپ کی اس بات سے متفق نہیں ہوں۔۔۔یہ دینی و دنیاوی معاملات اور علم کی تقسیم ہماری اپنی اختراع ہے ورنہ علم علم ہے خواہ کیسا بھی ہو اور معاملات معاملات ہیں دینی اور دنیاوی کی کوئی تقسیم نہیں۔ ورنہ اسلام کو ہم دین نہیں کہیں گے بلکہ آئیڈیالوجی یا مذہب کہیں گے۔ اگر دین کہنا ہے تو اس میں زندگی کا ہر معاملہ شامل ہے۔
 

فاتح

لائبریرین
محمود بھائی سائنس تو آج تک یہ نہیں معلوم کر سکی کہ روح کی حقیقت کیا ہے، کہاں سے آتی ہے اور کہاں جاتی ہے، باقی باتیں تو چھوڑیں۔
شاید آپ کے علم میں یہ نہیں کہ سائنس کے نزدیک روح کوئی چیز ہی نہیں ہوتی تو آنا جانا کہاں ہے ایک غیر موجود شے نے۔
 
آپ نے اس بات کا جواب نہیں دیا کہ کیا آپ علم حدیث کے فارغ التحصیل ہیں؟ اور کیا میں آپ کے ”جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے“ پر ایک حدیث کی ”سند“ کے بارے میں ”اعتبار“ کرسکتا ہوں؟ یا مجھے کسی فارغ التحصیل سے رجوع کرنا چاہئے۔ :)
اچھی مزاحیہ باتیں کرلیتے ہیں۔۔بہرحال آپکی تسلی کیلئے عرض ہے کہ میں کسی دینی مدرسے سے فارغ التحصیل نہیں ہوں ۔۔اور اس حدیث کو کسی محدث کے طور پر بیان نہیں کر رہا بلکہ محدث کے حوالے سے بیان کر رہا ہوں۔۔امید ہے اتنا فرق تو آپ سمجھ ہی گئے ہونگے :D
 

عدیل منا

محفلین
میں آپ کی اس بات سے متفق نہیں ہوں۔۔۔ یہ دینی و دنیاوی معاملات اور علم کی تقسیم ہماری اپنی اختراع ہے ورنہ علم علم ہے خواہ کیسا بھی ہو اور معاملات معاملات ہیں دینی اور دنیاوی کی کوئی تقسیم نہیں۔ ورنہ اسلام کو ہم دین نہیں کہیں گے بلکہ آئیڈیالوجی یا مذہب کہیں گے۔ اگر دین کہنا ہے تو اس میں زندگی کا ہر معاملہ شامل ہے۔
میں نے بھی کچھ ایسا ہی پڑھا ہے۔ مگر یہاں دوسری نوعیت کی بات ہورہی ہے جس پر مجھے دنیاوی معاملات کہنا پڑا۔ جیسا کہ کسی سے راستہ پوچھنا وغیرہ۔
 

میر انیس

لائبریرین
اور محدثین کا کیا کہنا ہے اس بارے میں؟ حدیثیں تو لوگوں نے گھڑ کر بھی پیش کی ہوئی ہیں۔ کیا حدیث کا یہ حصہ صحیحین میں بھی موجود ہے یا یہ ضعیف و موضوع احادیث میں شامل ہے۔ ذرا اس پربھی تحقیق کرلیجئے گا۔ صرف اپنی تسلی و تشفی کے لئے۔ دوسروں کے لئے نہیں :)
بات پھر وہی آجاتی ہے کہ ہم اسی بات کو مانیں گے جو مانتے چلے آئے ہیں۔ اگر آپ صحیحین کی بات کریں تو ہم کو بھی حق دیں کہ ہم اصولِ اربعہ کی بات کریں جو ہمارے نزدیک زیادہ معتبر ہیں۔ تو اس سے بہتر یہ نہیں کہ نقلی دلائل کے ساتھ ساتھ عقلی دلائل بھی سامنے رکھے جائیں۔
 
میں نے بھی کچھ ایسا ہی پڑھا ہے۔ مگر یہاں دوسری نوعیت کی بات ہورہی ہے جس پر مجھے دنیاوی معاملات کہنا پڑا۔ جیسا کہ کسی سے راستہ پوچھنا وغیرہ۔
میرا خیال ہے کہ آپ میرے مراسلات کو ایک بار پھر غور سے پڑھ لیجئے اور پھر جس بات سے آپ غیر متفق ہوں اس پر بات کرلیں۔۔۔فی الحال تو گفتگو کا کوئی سر پیر نظر نہیں آرہا مجھے :)
 

یوسف-2

محفلین
ایک بات کی وضاحت چاہتا ہوں۔

ایسا کوئی کام یا بات جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد واقعہ ہوئی، کیا وہ بھی حدیث ہی کہلائے گی؟

جیسا کہ مندرجہ بالا واقعہ میں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ کی گفتگو کو حدیث کہا گیا ہے۔

شمشاد بھائی! آپ نے بڑی اکیڈمک بات کی ہے۔ یہ بات بہت عرصے سے میرے ذہن میں ہے کہ احادیث کی کتب میں بہت سی روایات، واقعات اورصحابہ کے اقوال (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال سے پہلے اوربعد کے) بھی موجود ہیں۔ لہٰذا کم از کم صحیحین (بخاری و مسلم) کے ایسے ایڈیشن بھی شائع ہونے چاہئے، جس میں صرف اورصرف اقوال و افعالِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم موجود ہوں۔ اوامر و نواہی کی واضح نشاندہی کے ساتھ۔ کیونکہ آج ہمیں سب سے زیادہ متفق علیہ اوامر و نواہی سے واقفیت حاصل کرنے اور ان پر عمل کرنے کی ضرورت ہے۔ اس طرح کا مجوزہ ایڈیشن ایک تو مختصر ترین اور عام آدمی کی ”دسترس“ میں ہوگا ۔ آج تو اچھا خاصا (دنیوی) تعلیم یافتہ مسلمان بھی صرف بخاری شریف ہی کی تمام جلدوں کو بھی ساری زندگی پڑھنے سے عملًاً قاصر ہوتا ہے۔ (الا ماشا ء اللہ)
 

عدیل منا

محفلین
میرا خیال ہے کہ آپ میرے مراسلات کو ایک بار پھر غور سے پڑھ لیجئے اور پھر جس بات سے آپ غیر متفق ہوں اس پر بات کرلیں۔۔۔ فی الحال تو گفتگو کا کوئی سر پیر نظر نہیں آرہا مجھے :)
یہ بات آپ نے شروع کی ہے۔ چلیں، اگر آپ سمجھتے ہیں کہ اس کا کوئی سر پیر نہیں تو بات یہیں ختم کرتے ہیں۔
 
یہ بات آپ نے شروع کی ہے۔ چلیں، اگر آپ سمجھتے ہیں کہ اس کا کوئی سر پیر نہیں تو بات یہیں ختم کرتے ہیں۔
دھاگہ تو آپ نے شروع کیا ہے میں نے تو اس ضمن میں صرف چند گذارشات پیش کی ہیں۔۔اگر آپ ان سے متفق ہیں تو بات ختم اور اگر نہیں تو جس بات سے غیر متفق ہیں وہ بتائیے تاکہ گفتگو کو آگے بڑھایا جاسکے ورنہ کوئی فائدہ نہیں وقت ضایع ہوگا :)
 

یوسف-2

محفلین
بات پھر وہی آجاتی ہے کہ ہم اسی بات کو مانیں گے جو مانتے چلے آئے ہیں۔ اگر آپ صحیحین کی بات کریں تو ہم کو بھی حق دیں کہ ہم اصولِ اربعہ کی بات کریں جو ہمارے نزدیک زیادہ معتبر ہیں۔ تو اس سے بہتر یہ نہیں کہ نقلی دلائل کے ساتھ ساتھ عقلی دلائل بھی سامنے رکھے جائیں۔
میر انیس بھائی!
صحیحین اور صحاح ستہ کی بات میں جن سے کر رہا تھا وہ اسے ”سند“ مانتے ہیں۔ انہوں نے تو شاید ”اصول اربعہ“ کے نام ہی نہ سنے ہوں۔ اس کے مندرجات وہ کیا جانیں۔ فقہ جعفریہ کی تو بنیاد ہی ”اصول اربعہ“ پر ہے۔ اس کے لئے آپ کو کسی سے ”حق لینے“ کی کیا ضرورت ہے :)
 
خلیل بھائی، آپ نے جس واقعے کا حوالہ دیا ہے وہ نامکمل ہے کیونکہ احادیث کی دوسری کتابوں(مستدرک حاکم وغیرہا) میں اس بات کی صراحت ملتی ہے کہ حضرت عمر نے جب یہ بات کہی تو حضرت علی وہیں موجود تھے اور انہوں نے فوراّ کہا کہ نہیں امیر المؤمنین ایسا نہیں ہے اس پتھر سے نفع پہنچ سکتا ہے کیونکہرسولِ پا ک نے فرمایا کہ یہ پتھر بنی آدم کے گناہوں کو جذب کرتا ہے اور اسکا رنگ سفید تھا لیکن اسی وجہ سے کالا ہوگیا اور یہ کہ اللہ نے اسے زمین پر اپنے ہاتھ سے تشبیہہ دی ہے
جو شخص اسے چومتا ہے وہ گویا (مجازی طور پر ) اللہ سے مصافحہ کرتا ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ رسولِ کریم نے اسے استسلام کیا اور بوسہ دیا ورنہ رسولِ کریم کی شان اس بات سے نہایت بلند ہے کہ وہ کوئی عبث اور فضول کام کریں۔۔۔ ۔حضرت عمر نے حضرت علی کی اس بات کو تسلیم بھی کیا۔
واللہ اعلم بالصواب
علامہ شبلی نعمانی لکھتے ہیں۔
’’اسلام کا اصول شعائر اللہ کی تعظیم ہے، اسی بناء پر کعبہ اور ہجرِ اسود کے احترام کا حکم ہے لیکن اس کی صورت صنم پرستی سے بہت کچھ ملتی جلتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ تمام مذاہب میں اسی اصول سے رفتہ رفتہ صنم پرستی قائم ہوگئی تھی حضرت عمرؓ نے مختلف موقعوں پر لوگوں کو اس غلطی میں پڑنے سے باز رکھا، ایک بار حجر اسود کے سامنے کھڑے ہوکر علانیہ کہا۔
انی اعلم انک حجر وانک لاتضر ولا تنفع
میں جانتا ہوں کہ تو ایک پتھر ہے نہ فائدہ پہنچا سکتا ہے نہ نقصان۔
تعظیمِ شعائر اللہ: حضرت عمرؓ کا یہ فعل مذاقِ عام سے جس قدر الگ تھا اس کا اندازہ اس سے ہوسکتا ہے کہ بہت سے محدثین نے جہاں حضرت عمرؓ کا یہ قول نقل کیا ہے وہیں یہ روایت بھی اضافہ کی ہے کہ اسی وقت حضرت علی ؓ نے ان کوٹوکا اور ثابت کیا کہ حجرِ اسود فائدہ اور نقصان دونوں پہنچا سکتا ہےکیونکہ وہ قیامت میں لوگوں کی نسبت شہادت دے گا۔لیکن یہ اضافہ محض غلط اور بناوٹ ہےچنانچہ ناقدینِ فن نے اس کی تصریح کی ہے۔
ایک دفعہ آنحضرتﷺ نے ایک درخت کے نیچے لوگوں سے جہاد پر بیعت لی تھی، اس بناء پر یہ درخت متبرک سمجھا جانے لگا اور لوگ اس کی زیارت کو آتے تھے، حضرت عمرؓ نے یہ دیکھ کر اس کو جڑ سے کٹوادیا۔
سفرِ حج سے واپس آرہے تھے کہ راستے میں ایک مسجد تھی جس میں ایک دفعہ آنحضرتﷺ نے نماز پڑھی تھی اس خیال سے لوگ اس کی طرف دوڑ پڑے۔حضرت عمرؓ نے لوگوں کو مخاطب کرکے فرمایا کہ اہلِ کتاب انہیں باتوں کی بدولت تباہ ہوئے کہ انہوں نے اپنے پیغمبروں کی یادگاروں کو عبادت گاہ بنا لیا۔‘‘
 

فاتح

لائبریرین
اس ڈی این اے ٹیسٹ کی Interpretationیقیناّ آپ نے نہیں کی ہوگی بلکہ متعلقہ ڈاکٹر صاحب پر بھروسہ کرتے ہوئے انکی interpretationکو تسلیم کرلیا ہوگا۔۔۔ یہی بات میں بھی کہنا چاہتا تھا کہ کسی نہ کسی سٹیج پر آپ کو دوسرے کے علم پر بھروسہ کرنا ہی پڑے گا۔ ورنہ شک دور نہیں ہوسکتا :)
ڈی این اے ٹیسٹس اور اس کے ریزلٹ کی انٹرپریٹیشن سائنسی تجربات کے ساتھ ثابت ہوتی ہے کوئی خدا کی طرح کا من گھڑت اور کسی طور ثابت نہ ہونے والا ریزلٹ نہیں ہوتا یہ۔
 

شمشاد

لائبریرین
شاید آپ کے علم میں یہ نہیں کہ سائنس کے نزدیک روح کوئی چیز ہی نہیں ہوتی تو آنا جانا کہاں ہے ایک غیر موجود شے نے۔
جب اس کے متعلق علم ہی نہیں حاصل کر سکے تو "کوئی چیز ہی نہیں ہوتی" کہہ کر جان چھڑا لی۔

کیا سائنس یہ بتا سکتی ہے کہ ماں کے پیٹ میں جب بچے کا دل دھڑکنا شروع ہوتا ہے تو وہ کیا چیز ہوتی ہے جو دھڑکن عطا کرتی ہے؟

کیا سائنس یہ بتا سکتی ہے کہ انڈے کے اندر جو بن رہا ہے اس کو زندگی کیسے ملتی ہے؟
 
Top