کہیں مسجد نہیں بنتی کہیں مینار بنتے ہیں

کہیں مسجد نہیں بنتی کہیں مینار بنتے ہیں​
کبھی خود زخم کھاتے ہیں کبھی تلوار بنتے ہیں​
ہماری بے بسی دیکھو ہمارا بس نہیں چلتا​
اگر مرنے کی باتیں ہوں سبھی بیمار بنتے ہیں​
جنہیں اِک آہ تڑپائے جنہیں غیرت نہ سونے دے​
وہی کشتی جلاتے ہیں وہی سالار بنتے ہیں​
یہاں انصاف بکتا ہے یہا ں سب ظلم کرتے ہیں​
خدائی کو ستاتے ہیں خدا کے یار بنتے ہیں​
یہ دنیا ہے یہاں پیدا تو سب انسان ہوتے ہیں​
کوئی بدبخت بنتے ہیں کوئی شہوار بنتے ہیں​
کبھی تنہا مسافر کی حمایت ہو نہیں سکتی​
بہت سے پھول کھلتے ہیں تبھی گلزار بنتے ہیں​
سنو دشمن نے غزّۃ میں بہت سا خوں بہایا ہے​
چلو پھر ایک ہوتے ہیں چلو یلغار بنتے ہیں​
 

الف عین

لائبریرین
اچھی غزل ہے۔ کچھ جگہ ٹائپو ہے شاید۔
اگر مرنے کی باتیں ہوں۔ ہونا چاہئے۔
اور آخری شعر بھی دیکھو۔
 
اچھی غزل ہے۔ کچھ جگہ ٹائپو ہے شاید۔
اگر مرنے کی باتیں ہوں۔ ہونا چاہئے۔
اور آخری شعر بھی دیکھو۔
شکریہ استاد محترم ٹائپو ہی ہے
جلد بازی میں غلطیاں ہوگئں
سنو دشمن نے غزّۃ میں بہت سے خوں بہاں ہے
میں بہاں کی جگہ بہایا آنا تھا
 

امر شہزاد

محفلین
خدائی کو ستاتے ہیں خدا کے یار بنتے ہیں
واہ

اسی حوالے سے یاد آیا
عبد الحمید عدم کہتے ہیں

اے خدا تیرے چاہنے والے​
تنگ کرتے ہیں تیرے بندوں کو​
باغ جنت کے سبز پیڑوں سے​
باندھ اپنے نیاز مندوں کو​
 
Top