فاتح
لائبریرین
سکیپ گوٹ۔ قدیر خان
۔۔۔کُھلا کالم۔۔۔
ڈاکٹر قدیر۔۔۔ دُنیا بھر اور پاکستانی عدالت کے ہاتھوں رُسوا شخصیت لیکن پاکستان کے شدت پسند طبقے کے ہیرو ہیں۔۔۔
پانی سے کار چلانے والے نے بھی ان کی علمی استعداد کو خوب تاڑا تھا۔۔۔
طالبان اور شدت پسند مذہبی لوگوں کی ہمدردیاں لینے کے بہانے آج کل کُچھ کالم نگار اور ڈاکٹر قدیر جیسے لوگ، انسانیت کو بُھلا کر نہایت بے شرمی سے اقلیتوں کے خلاف غلیظ ترین زبان استعمال کرنے لگے ہیں۔۔۔
ایک کالم انٹرنیٹ پر گردش کر رہا ہے جو جعلی بھی معلوم ہوتا ہے نہ بھی جعلی ہو تو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ بُلند بانگ بکواس دعووں سے پُر ایسی ڈینگیں کوئی بھی کسی وقت بھی مار سکتا ہے۔۔۔
لیکن ڈاکٹر قدیر صاحب کو قُدرت کی بے آواز لاٹھی کا اندازہ نہیں۔۔۔ اور اندازہ جلد ہو ہی جائے گا۔۔۔ فرقہ وارانہ بیانات دینا خود اپنی تعلیم کا پول کھولنا ہے۔۔۔ دُوسروں کی ڈگریوں کو تھرڈ کلاس کہنا اور اپنی میٹلرجی کی ڈگری کے بل پر اکڑنا عجیب معلوم ہوتا ہے۔۔۔ عالم آن لائن کی جعلی ڈگری کا پول تو ابھی چند دن پہلے ہی ہم نے کھولا تھا۔۔۔
ڈاکٹر صاحب کو اپنی عاقبت کی فکر ہو نہ ہو ہمیں ضرور ہے۔۔۔ اب بھی وقت ہے کہ وُہ کسی ٹی وی انٹر ویو میں اپنے چور ہونے اور چوری چوری ٹیکنالوجی ایران، لیبیا وغیرہ کو بیچنے کی کوشش پر معافی مانگ لیں۔۔۔
طالبان اور مذہبی شدت پسندوں کی خوشنودی سے زیادہ آپ کو اللہ کی خوشنودی کی ضرورت ہے۔ اور جو چار چیزیں آُپ نے اسلام میں پڑھیں ہیں اُن میں سب سے اہم یہ بات ہے کہ قُرآن میں فساد پھیلانے والے کو سب سے بڑا مجرم گردانا جاتا ہے۔۔۔ آپ اپنے چوری جیسے چھوٹے جُرم کے بعد اب سب سے بڑا جُرم بار بار کر رہے ہیں۔۔۔ ڈاکٹر قدیر کے ہمنوا اُن کو ہمارا یہ پیغام پہنچا دیں۔ اللہ اُن کو ہدایت دے۔۔۔ یا اُن کے شر سے سب کو محفوظ رکھے۔
پاکستان توانائی کے جس بُحران سے گُزر رہا ہے اُس پر آپ کو بحیثیت جعلی سائنسدان بھی شرمندگی نہیں ہوتی؟
۔۔۔میٹلرجی کی ڈگری کو آُپ سٹیل مِل کے فائدے کے لئے استعمال کرتے تو کوئی بات بھی تھی۔ لیکن اُس میں لُوٹ کھسوٹ کے مواقع اوروں کو زیادہ میسر تھے۔۔۔
منیر احمد خان یا بشیر الدین کی تعلیمی صلاحیت پر بات کرنے کی بجائے آپ پاکستان میں بجلی کی کمی پر کیوں بات نہیں کرتے؟۔۔۔
ڈاکٹر ثمرمند مبارک سے آپ کا جھگڑآ کیا ہے۔۔۔؟
ڈاکٹر عبدالسلام (نوبل پرائز)، سے آپ کو کیوں دُشمنی ہے۔۔۔؟ ایٹمی ادارے کی بُنیاد تو ڈاکٹر سلام نے ہی پاکستان میں ڈالی تھی۔۔۔ پاکستان کے ان گنت فزکس کے طلباء ڈاکٹر سلام کی بدولت ہر سال اٹلی کی یونیورسٹی میں ریسرچ کرنے والے اداروں میں وظیفہ پرجاتے ہیں، آُپ نے کیا کام کیا ہے؟۔ جس پر آپ کو ایسی قدر و منزلت دی جائے۔؟
جنرل مشرف نے آپ کو چھوڑ دیا کیا یہ کافی نہیں۔۔۔؟
قدیر خان کی اہلیت کے بارے میں عرض کردُوں کہ یہ تاریخی حقائق ہیں۔۔۔ کہ اپریل چھہتر میں غلام دستگیر عالم جو فزکس کے ماہر تھے، انہوں نے پہلے سنٹری فیوج کو 30000 آر پی ایم پر گُھمانے میں کامیابی حاصل کی تھی۔۔۔ اس میں ڈاکٹر قدیر کا کوئی ہاتھ نہ تھا۔۔۔ کامیابی کی اطلاع ملنے پر ڈاکٹر قدیر نے بھٹو سے درخواست کی کہ غلام دستگیر عالم کی رہنمائی، اُن کو چاہیے۔۔۔ غلام دستگیر عالم ہی وُہ بنیادی سائنسدان تھے جنہوں نے بُنیادی کام خود ڈیزائن کیا اور کامیابی حاصل کی۔۔۔
غلام دستگیر عالم نے ہی، ڈفرینشیل مساوات، کے ذریعے مرکز مائل قوتوں اور زاویاتی دھچکوں کی ماہیت پر کام کیا۔۔۔
چار جون اٹھتر کو فزودگی پروگرام کے کامیاب عمل کے دوران، ڈاکٹر عالم نے 235 یُو اور 238 یُو آئسو ٹوپس کو علیحدہ کیا۔۔۔
ڈاکٹر قدیر، حقیقتاً کبھی بھی ذاتی طور پر نیوکلیئر ہتھیاروں، سائنسی حسابات، اور فزکس کے تجربات اور تھیوریز میں، کوئی حصہ نہیں لے سکے۔۔۔
۔۔۔کیونکہ اُن کی تعلیم ہی اس سے مطابقت نہ رکھتی تھی۔۔۔
ملٹری نے ڈاکٹر قدیر کو بتائے بغیر خفیہ ایٹمی تجربات کئے۔۔۔ جن میں کولڈ ٹیسٹ آف ویپنز شامل تھا۔۔۔ نہ تو قدیر خان کو بُلایا گیا نہ بتایا گیا۔۔۔ کہ نئے خفیہ کوڈ۔۔۔ کِرانا ایک۔۔۔ کے نام سے۔۔۔ مارچ تراسی۔۔۔ میں۔۔۔ منیر احمد خان کے احکامات و زیر نگرانی پی اے ای سی میں کوئی تجربہ کیا ہے۔
اسی لئے ہمیشہ سے قدیر خان کو منیر احمد سے دُشمنی رہی، حقیقت میں سینئر سائنسدان غلام دستگیر عالم کو قدیر خان کی فزکس اور حساب کے کُلیوں کو سمجھنے کی صلاحیت پر شدید اعتراض اور شُبہ تھا۔۔۔ اُنہوں نے بارہا اس خدشے کا اظہار کیا۔ ریسرچ پروجیکٹ کے تمام سائینسدانوں کو قدیر خان کی علمی صلاحیت پربہت پریشانی رہتی تھی۔
عبد القدیر خان کو بُنیادی طور پر ایک شو مین کے طور پر رکھا گیا تھا یہ تمام سائنسدانوں کو بعد میں پتہ چلا۔۔۔ غرض و غایت یہ تھی کہ ادارے کے سربراہ کو خود بھی علم نہ ہو اس طرح غیر مُلکی جاسوس پروگرام کا سُراغ نہ لگا پائیں۔۔۔
لیکن جتنی بھی دسترس قدیر خان کو تھی اُس کا فائدہ اُٹھا کر قدیر خان نے بعد میں ایٹمی نقشے، وغیرہ غیر مُلکوں کو بیچنے کی کوشش کی۔۔۔ چونکہ ڈاکٹر قدیر ہمیشہ سے پلانٹ کے سائنسدانوں میں بڑبولے کے طور پر مشہور تھے جس میں اپنی کسی ذرا سی بات کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنا لازم ہے۔ اسی لئے ڈاکٹر قدیر سے ریسرچ کے بے شمار سوالات اور تجربات چُھپا کر رکھے جاتے تھے۔۔۔
سکیپ گوٹ۔۔۔ یعنی قُربانی کے بکرے کے طور پر، ڈاکٹر قدیر کو بالآخر اس کا علم ہُوا تو اُنہوں نے بہت واویلہ کیا اور بُنیادی طور پر اب بھی روز بروز واویلہ کرتے رہتے ہیں۔۔۔
یہ ہیں وُہ بنیادی حقائق جو ہماری قوم کو معلوم نہیں۔۔۔ اور ڈاکٹر قدیر کو ہیرو سمجھتی ہے۔۔۔ سمجھتی رہے کیا فرق پڑتا ہے۔۔۔ ؟
لیکن ایک راز کی بات بتاتا چلوں کہ 1998 میں ایٹمی دھماکوں کے بعد اعزازی ٹکٹ کس عظیم پاکستانی سائنسدان کے نام پر جاری ہُوا؟ جو اصل میں پاکستان کے تمام سائنسی اور ایٹمی ادراوں کا 1974 تک سربراہ تھا؟۔۔۔ حیرت تو ہو گی۔۔۔ لیکن یہ تھے۔۔۔ ڈاکٹر عبد السلام۔۔۔
رفیع رضا
کینیڈا
۔۔۔کُھلا کالم۔۔۔
ڈاکٹر قدیر۔۔۔ دُنیا بھر اور پاکستانی عدالت کے ہاتھوں رُسوا شخصیت لیکن پاکستان کے شدت پسند طبقے کے ہیرو ہیں۔۔۔
پانی سے کار چلانے والے نے بھی ان کی علمی استعداد کو خوب تاڑا تھا۔۔۔
طالبان اور شدت پسند مذہبی لوگوں کی ہمدردیاں لینے کے بہانے آج کل کُچھ کالم نگار اور ڈاکٹر قدیر جیسے لوگ، انسانیت کو بُھلا کر نہایت بے شرمی سے اقلیتوں کے خلاف غلیظ ترین زبان استعمال کرنے لگے ہیں۔۔۔
ایک کالم انٹرنیٹ پر گردش کر رہا ہے جو جعلی بھی معلوم ہوتا ہے نہ بھی جعلی ہو تو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ بُلند بانگ بکواس دعووں سے پُر ایسی ڈینگیں کوئی بھی کسی وقت بھی مار سکتا ہے۔۔۔
لیکن ڈاکٹر قدیر صاحب کو قُدرت کی بے آواز لاٹھی کا اندازہ نہیں۔۔۔ اور اندازہ جلد ہو ہی جائے گا۔۔۔ فرقہ وارانہ بیانات دینا خود اپنی تعلیم کا پول کھولنا ہے۔۔۔ دُوسروں کی ڈگریوں کو تھرڈ کلاس کہنا اور اپنی میٹلرجی کی ڈگری کے بل پر اکڑنا عجیب معلوم ہوتا ہے۔۔۔ عالم آن لائن کی جعلی ڈگری کا پول تو ابھی چند دن پہلے ہی ہم نے کھولا تھا۔۔۔
ڈاکٹر صاحب کو اپنی عاقبت کی فکر ہو نہ ہو ہمیں ضرور ہے۔۔۔ اب بھی وقت ہے کہ وُہ کسی ٹی وی انٹر ویو میں اپنے چور ہونے اور چوری چوری ٹیکنالوجی ایران، لیبیا وغیرہ کو بیچنے کی کوشش پر معافی مانگ لیں۔۔۔
طالبان اور مذہبی شدت پسندوں کی خوشنودی سے زیادہ آپ کو اللہ کی خوشنودی کی ضرورت ہے۔ اور جو چار چیزیں آُپ نے اسلام میں پڑھیں ہیں اُن میں سب سے اہم یہ بات ہے کہ قُرآن میں فساد پھیلانے والے کو سب سے بڑا مجرم گردانا جاتا ہے۔۔۔ آپ اپنے چوری جیسے چھوٹے جُرم کے بعد اب سب سے بڑا جُرم بار بار کر رہے ہیں۔۔۔ ڈاکٹر قدیر کے ہمنوا اُن کو ہمارا یہ پیغام پہنچا دیں۔ اللہ اُن کو ہدایت دے۔۔۔ یا اُن کے شر سے سب کو محفوظ رکھے۔
پاکستان توانائی کے جس بُحران سے گُزر رہا ہے اُس پر آپ کو بحیثیت جعلی سائنسدان بھی شرمندگی نہیں ہوتی؟
۔۔۔میٹلرجی کی ڈگری کو آُپ سٹیل مِل کے فائدے کے لئے استعمال کرتے تو کوئی بات بھی تھی۔ لیکن اُس میں لُوٹ کھسوٹ کے مواقع اوروں کو زیادہ میسر تھے۔۔۔
منیر احمد خان یا بشیر الدین کی تعلیمی صلاحیت پر بات کرنے کی بجائے آپ پاکستان میں بجلی کی کمی پر کیوں بات نہیں کرتے؟۔۔۔
ڈاکٹر ثمرمند مبارک سے آپ کا جھگڑآ کیا ہے۔۔۔؟
ڈاکٹر عبدالسلام (نوبل پرائز)، سے آپ کو کیوں دُشمنی ہے۔۔۔؟ ایٹمی ادارے کی بُنیاد تو ڈاکٹر سلام نے ہی پاکستان میں ڈالی تھی۔۔۔ پاکستان کے ان گنت فزکس کے طلباء ڈاکٹر سلام کی بدولت ہر سال اٹلی کی یونیورسٹی میں ریسرچ کرنے والے اداروں میں وظیفہ پرجاتے ہیں، آُپ نے کیا کام کیا ہے؟۔ جس پر آپ کو ایسی قدر و منزلت دی جائے۔؟
جنرل مشرف نے آپ کو چھوڑ دیا کیا یہ کافی نہیں۔۔۔؟
قدیر خان کی اہلیت کے بارے میں عرض کردُوں کہ یہ تاریخی حقائق ہیں۔۔۔ کہ اپریل چھہتر میں غلام دستگیر عالم جو فزکس کے ماہر تھے، انہوں نے پہلے سنٹری فیوج کو 30000 آر پی ایم پر گُھمانے میں کامیابی حاصل کی تھی۔۔۔ اس میں ڈاکٹر قدیر کا کوئی ہاتھ نہ تھا۔۔۔ کامیابی کی اطلاع ملنے پر ڈاکٹر قدیر نے بھٹو سے درخواست کی کہ غلام دستگیر عالم کی رہنمائی، اُن کو چاہیے۔۔۔ غلام دستگیر عالم ہی وُہ بنیادی سائنسدان تھے جنہوں نے بُنیادی کام خود ڈیزائن کیا اور کامیابی حاصل کی۔۔۔
غلام دستگیر عالم نے ہی، ڈفرینشیل مساوات، کے ذریعے مرکز مائل قوتوں اور زاویاتی دھچکوں کی ماہیت پر کام کیا۔۔۔
چار جون اٹھتر کو فزودگی پروگرام کے کامیاب عمل کے دوران، ڈاکٹر عالم نے 235 یُو اور 238 یُو آئسو ٹوپس کو علیحدہ کیا۔۔۔
ڈاکٹر قدیر، حقیقتاً کبھی بھی ذاتی طور پر نیوکلیئر ہتھیاروں، سائنسی حسابات، اور فزکس کے تجربات اور تھیوریز میں، کوئی حصہ نہیں لے سکے۔۔۔
۔۔۔کیونکہ اُن کی تعلیم ہی اس سے مطابقت نہ رکھتی تھی۔۔۔
ملٹری نے ڈاکٹر قدیر کو بتائے بغیر خفیہ ایٹمی تجربات کئے۔۔۔ جن میں کولڈ ٹیسٹ آف ویپنز شامل تھا۔۔۔ نہ تو قدیر خان کو بُلایا گیا نہ بتایا گیا۔۔۔ کہ نئے خفیہ کوڈ۔۔۔ کِرانا ایک۔۔۔ کے نام سے۔۔۔ مارچ تراسی۔۔۔ میں۔۔۔ منیر احمد خان کے احکامات و زیر نگرانی پی اے ای سی میں کوئی تجربہ کیا ہے۔
اسی لئے ہمیشہ سے قدیر خان کو منیر احمد سے دُشمنی رہی، حقیقت میں سینئر سائنسدان غلام دستگیر عالم کو قدیر خان کی فزکس اور حساب کے کُلیوں کو سمجھنے کی صلاحیت پر شدید اعتراض اور شُبہ تھا۔۔۔ اُنہوں نے بارہا اس خدشے کا اظہار کیا۔ ریسرچ پروجیکٹ کے تمام سائینسدانوں کو قدیر خان کی علمی صلاحیت پربہت پریشانی رہتی تھی۔
عبد القدیر خان کو بُنیادی طور پر ایک شو مین کے طور پر رکھا گیا تھا یہ تمام سائنسدانوں کو بعد میں پتہ چلا۔۔۔ غرض و غایت یہ تھی کہ ادارے کے سربراہ کو خود بھی علم نہ ہو اس طرح غیر مُلکی جاسوس پروگرام کا سُراغ نہ لگا پائیں۔۔۔
لیکن جتنی بھی دسترس قدیر خان کو تھی اُس کا فائدہ اُٹھا کر قدیر خان نے بعد میں ایٹمی نقشے، وغیرہ غیر مُلکوں کو بیچنے کی کوشش کی۔۔۔ چونکہ ڈاکٹر قدیر ہمیشہ سے پلانٹ کے سائنسدانوں میں بڑبولے کے طور پر مشہور تھے جس میں اپنی کسی ذرا سی بات کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنا لازم ہے۔ اسی لئے ڈاکٹر قدیر سے ریسرچ کے بے شمار سوالات اور تجربات چُھپا کر رکھے جاتے تھے۔۔۔
سکیپ گوٹ۔۔۔ یعنی قُربانی کے بکرے کے طور پر، ڈاکٹر قدیر کو بالآخر اس کا علم ہُوا تو اُنہوں نے بہت واویلہ کیا اور بُنیادی طور پر اب بھی روز بروز واویلہ کرتے رہتے ہیں۔۔۔
یہ ہیں وُہ بنیادی حقائق جو ہماری قوم کو معلوم نہیں۔۔۔ اور ڈاکٹر قدیر کو ہیرو سمجھتی ہے۔۔۔ سمجھتی رہے کیا فرق پڑتا ہے۔۔۔ ؟
لیکن ایک راز کی بات بتاتا چلوں کہ 1998 میں ایٹمی دھماکوں کے بعد اعزازی ٹکٹ کس عظیم پاکستانی سائنسدان کے نام پر جاری ہُوا؟ جو اصل میں پاکستان کے تمام سائنسی اور ایٹمی ادراوں کا 1974 تک سربراہ تھا؟۔۔۔ حیرت تو ہو گی۔۔۔ لیکن یہ تھے۔۔۔ ڈاکٹر عبد السلام۔۔۔
رفیع رضا
کینیڈا