آغاشورش کاشمیری: شاعری

نعیم ملک

محفلین
آغا شورش کاشمیری ایک مجموعہ صفات شخصیت تھے۔ صحافت، شعروادب، خطابت وسیاست ان چاروں شعبوں کے وہ شہسوار تھے۔
آغا شورش نے ایک متوسط گھرانہ میں جنم لیا اور بمشکل میٹرک تک تعلیم حاصل کی ۔ زمانہ تعلیم میں روزنامہ ’’زمیندار‘‘پڑھنے کامعمول تھا۔ جس کے نتیجے میں ان کا ادبی ذوق پختہ ہوگیا اور وہ مولانا ظفر علی خان مرحوم کے گرویدہ ہوگئے۔ صحافت اور ادب میں ان کارنگ اختیار کیا۔ مولانا ظفر علی خان کی طرح آغا شورش بھی بدیہہ گوئی اور سیاسی نظمیں کہنے میں اتاروتھے۔ انھوں نے امیرشریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاری اور مولانا ابوالکلام آزادؒ سے بھی کسبِ فیض کیا۔ خطابت میں وہ ان تینوں بزرگوں کارنگ رکھتے تھے۔ ایک خطیب میں جن اوصاف کا ہونا ضروری ہے وہ ان میں بدرجۂ اَتَم موجود تھے۔ وہ ان خطیبوں میں سے ایک تھے جن کی خطابت لوک داستانوں کی حیثیت اختیار کرگئی ہے ۔ لوگ آج بھی آغا شورش کی خطابت کاتذکرہ کرتے اور سردھنتے نظر آتے ہیں۔ فصیح و بلیغ اتنے کہ ان کے متعلق کہا جاسکتا ہے :
تم نے جادوگر اسے کیوں کہہ دیا
دہلوی ہے داغ ، بنگالی نہیں ۔۔۔
اس دھاگہ کو شروع کرنے کا مقصد آغا شورش کاشمیری کے تمام کلام کو ایک جگہ اکٹھا کرنا ہے۔۔ تمام دوستوں سے گزارش ہے کہ آپ کے پاس اس سے متعلق جتنا مواد بھی ہے یہاں شیئر کریں۔۔ میرے پاس بھی جو کچھ ہے وقتا فوقتا یہاں شیئر کرتا رہوں گا۔۔۔
 

نعیم ملک

محفلین
انگریزی دورِ حکومت میں تحریکِ آزادی میں حصہ لینے کے جرم میں آغا شورش کاشمیری کو مجموعی طورپر دس سال قید و بند کا سامنا کرنا پڑا۔ انھوں نے اپنی قربانیوں کاتذکرہ درج ذیل اشعار میں کیاہے۔

ہم نے اس وقت سیاست میں قدم رکھا تھا
جب سیاست کاصلہ آہنی زنجیریں تھیں
سرفروشوں کے لیے دار و رسن قائم تھے
خان زادوں کے لیے مفت کی جاگیریں تھیں
بے گناہوں کا لہو عام تھا بازاروں میں
خونِ احرار میں ڈوبی ہوئی شمشیریں تھیں
رہنماؤں کے لیے حکمِ زباں بندی تھا
جرمِ بے جرم کی پاداش میں تعزیریں تھیں
جانشینانِ کلایو تھے خداوندِ مجاز
سرِ توحید کی برطانوی تفسیریں تھیں
حیف اب وقت کے غدار بھی رستم ٹھہرے
اور زنداں کے سزاوار فقط ہم ٹھہرے ۔۔۔
 

نعیم ملک

محفلین
صدر ایوب کے دور کے خاتمہ پر انھوں نے ایک ’’ساقی نامہ‘‘ لکھا۔جو ہرآمر کے سیاہ دور کی روداد ہے ۔ چند اشعار ملاحظہ فرمائیں:

خبر آ گئی راج دھاری گئے
تماشا دکھا کر مداری گئے
شہنشہ گیا ، نورتن بھی گئے
مصاحب اٹھے ، ہم سخن بھی گئے
سیاست کو زیر و زبر کرگئے
اندھیرے اجالے سفر کرگئے
بری چیز تھے یا بھلی چیز تھے
معمہ تھے لیکن بڑی چیز تھے
کئی جانِ عالم کا مرکب بھی تھے
کئی ان میں اولادِ مَرحَب بھی تھے
کئی نغز گوئی کا سامان تھے
کئی میر صاحب کا دیوان تھے
انھیں فخر تھا ہم خداوند ہیں
تناور درختوں کے فرزند ہیں
یکے بعد دیگر اتارے گئے
اڑنگا لگا ہے تو مارے گئے
وزارت ملی تو خدا ہوگئے
ارے! مغبچے پارسا ہوگئے
یہاں دس برس تک عجب دور تھا
کہ اس مملکت کا خدا اور تھا ۔۔۔
 

نعیم ملک

محفلین
آغا صاحب کی ایک چھوٹی سی نظم کا عنوان ہے۔ ”ہمارے بعد“ کہتے ہیں۔
فضا میں رنگ ستاروں میں روشنی نہ رہے
ہمارے بعد یہ ممکن ہے زندگی نہ رہے
خیال خاطر احباب واہمہ ٹھہرے
اس انجمن میں کہیں رسم دوستی نہ رہے
فقیہہ شہر کلام خدا کا تاجر ہو
خطیب شہر کو قرآں سے آگہی نہ رہے
قبائے صوفی و ملا کا نرخ سستا ہو
بلال چپ ہو، اذانوں میں دلکشی نہ رہے
نوادرات قلم پر ہو محتسب کی نظر
محیط ہو شب تاریک روشنی نہ رہے
اس انجمن میں عزیزو یہ عین ممکن ہے
ہمارے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہے۔۔۔
 

نعیم ملک

محفلین
صلی اللہ علیہ و سلم
(شورش کاشمیری)

ہم پہ ہو تیری رحمت جم جم
صلی اللہ علیہ وسلم
تیرے ثنا خواں عالم عالم
صلی اللہ علیہ وسلم
ہم ہیں تیرے نام کے لیوا
اے دھرتی کے پانی دیوا
یہ دھرتی ہے برہم برہم
صلی اللہ علیہ وسلم
تیری رسالت عالم عالم
تیری نبوت خاتم خاتم
تیری جلالت پرچم پرچم
صلی اللہ علیہ وسلم
دیکھ تیری امت کی نبضیں
ڈوب چکی ہیں ڈوب رہی ہیں
دھیرے دھیرے مدھم مدھم
صلی اللہ علیہ وسلم
دیکھ صدف سے موتی ٹپکے
دیکھ حیا کے ساغر جھلکے
سب کی آنکھیں پر نم پرنم
صلی اللہ علیہ وسلم
قریہ قریہ بستی بستی
دیکھ مجھے میں دیکھ رہا ہوں
نوحہ نوحہ ماتم ماتم
صلی اللہ علیہ وسلم
اے آقا اے سب کے آقا
ارض و سما ہیں زخمی زخمی
ان زخموں پہ مرہم مرہم
صلی اللہ علیہ و سلم
 

نعیم ملک

محفلین
آغا شورش کاشمیری نے اپنے رسالے ‘چٹان’ میں ‘دربار اکبری’ کے زیر عنوان ایک نثری فیچر لکھا تھا جس میں یہ بتایا گیا کہ جنرل ایوب خاں کی درباری مخلوق کس طرح کورنش بجا لاتی ہے اور وہ جواب میں کیا ارشاد فرماتے ہیں۔ فیچر سے ایوب خاں اتنے برا فروختہ ہوئے کہ اس وقت کے وزیر قانون غلام نبی میمن اور ایڈوکیٹ جنرل سید ناصر حسین شاہ کو گورنمنٹ ہاؤس بلوا کر سخت جھڑکیاں دیں۔ ساتھ ہی فرمایا “ابھی تک یہ شخص باہر کیوں ہے، اس کا اخبار کس لیے جاری ہے؟ میں سپاہی ہوں اور سپاہی فیلڈ میں دشمن کو برداشت نہیں کیا کرتا
اس کے بعد مدیر چٹان دھر لیے گئے ۔۔۔۔
ذیل کی نظم ایوب خاں کے عہد کی جانکنی کا منظر پیش کرتی ہے اور اگر آج کے حالات پر اسے منطبق کیا جائے تو زیادہ تفاوت نظر نہیں آتا۔
مصاحبین:

حضور ہم دس برس سے حاشیہ بردار اولٰی ہیں
عمومی شور و غل شہروں کی دیرینہ طبیعت ہے
سیاسی کھیل ہیں، شوریدہ سر ہلڑ مچاتے ہیں
انہیں لیڈر نچاتے ہیں
ہمیں آنکھیں دکھاتے ہیں
اگر ہم جیل بھجوائیں
تو اکثر تلملاتے ہیں
حضور! ہم خانہ زادِ سلطنت سجدے لٹاتے ہیں

شاہ:

بکو مت چپ رہو، آغازِ بد انجام پر سوچو
یہاں کیا ہو رہا ہے، کون سا شیطان اٹھا ہے
جھروکے سے اُدھر دیکھو، یہ کیا طوفاں اٹھا ہے
دمادم، پے بہ پے ایوب مردہ باد کے نعرے؟
افق پر بے تحاشا جھملاتی شام کے تارے
گرجتے گونجتے الفاظ میں تقریر کے پارے
بکو مت، چپ رہو، آغازِ بد انجام پر سوچو

(ایک اور مصاحب داخل ہو کر آداب بجا لاتا ہے)
مصاحب:

امیر المومنین! بالی عمریا کا وزیر آیا
بہتر نشتروں میں ایک نشتر میر صاحب کا
بہ قول آنجہانی شیخ، چہرہ ماہتابی ہے
طبیعت آفتابی ہے
خدا جانے؟ سنا ہے
بچپنے ہی سے شرابی ہے

شاہ:

بلا لاؤ، اکیلا ہے
کہ کوئی دوسرا بھی ہے؟

مصاحب:

جماعت کے بہت سے منچلے بھی ساتھ آئے ہیں
غزلہائے ہفت خواں کے ولولے بھی ساتھ آئے ہیں
جوانی ناگنوں کے رنگ میں آواز دیتی ہے
دل سد رہ نشیں کو طاقت پرواز دیتی ہے

(بالی عمریا کا وزیر دربار میں داخل ہو کر قدم بوس ہوتا ہے)

شاہ:

چپڑ غٹو، الل ٹپو، نکھٹو، دًم کٹے ٹٹو
فضا لاہور کی ہنگامہ پرور ہوتی جاتی ہے
کہاں ہو؟ کس طرف ہو؟ دیکھتے کیا ہو میاں لٹو
جماعت کی صدارت اس لیے تم کو عطا کی ہے
عوام الناس بازاروں میں نعرہ باز ہو جائیں
سیاسی مسخرے اس دور کے شہباز ہوجائیں
ارے گھسیٹے، ارے بچھیے کے باوا
سوچتا کیا ہے؟

وزیر:

امیر المومنین!۔۔۔۔ ہم بندگانِ خاص کے آقا
ہم ایسے سینکڑوں سرکارِ عالی پر نچھاور ہیں
یقیں کیجیے، حریفوں کے مقابل میں دلاور ہیں
جری ہیں، جانتے ہیں بچپنے سے جاننے والے
کہ ہم ہیں آپکو ظلِ الٰہی ماننے والے
مرے قبلہ، مرے آقا، مرے مولا، مرے محسن
سوائے چند اوباشوں کے، ساری قوم خادم ہے
سیاسی نٹ کھٹوں کی گرم گفتاری پر نادم ہے

شاہ:

بکو مت، چپ رہو، یہ ہم سمجھتے ہیں یہاں کیا ہے
وہ مودودی کے فتنے اور نصر اللہ کے شوشے
وہ پاکستان مسلم لیگ کے بھڑکے ہوئے گوشے
ڈیورنڈ روڈ کا وہ شاطرِ اعظم، معاذ اللہ
کوئی ٹکرائے اس شہباز سے، یہ تاب ہے کس میں؟
کوئی ایسا بھی ہے، یہ جوہرِ نایاب ہے کس میں؟
وہ کائیاں چودھری یعنی وزیراعظم سابق
پڑا ہے لٹھ لیے پیچھے مرے اور ضرب ہے کاری
تمہیں معلوم ہے عبد الولی خاں کی سیہ کاری؟
وہ بھٹو، جو مجھے کہتا تھا ڈیڈی، اب کہاں پر ہے
کہ سخت گفتنی نا گفتنی اس کی زباں پر ہے
وہ شورش جس نے بھوک ہڑتال سے لرزا دیا سب کو
تمہیں معلوم ہے بد بخت نے تڑپا دیا سب کو
قصوری اور شوکت کس لیے آزاد پھرتے ہیں
انہیں زنداں میں ڈلواؤ، دار پر کھنچواؤ، مرواؤ
ہمارا حکم ہے ان سب کے خنجر گھونپتے جاؤ
جسارت اس قدر؟ اب گالیاں دینے پہ اترے ہیں
سیاسی نٹ کھٹوں کے بیچ بازاریوں کے نخرے ہیں

(کچھ دیر چپ رہنے کے بعد حکومت کی ایک رقاصہ سے)
شاہ:

اری نازک بدن، زہرہ ادا، گوہر صفت لیلٰی
ترے قربان، بوڑھی ہڈیوں میں جان آ جائے
رخِ زیبا
پہ غازہ ہے مگر سی آئی اے کا ہے
کوئی داؤ بتا، یہ بے تکا طوفان تھم جائے
ہمارا پاؤں اکھڑا جا رہا ہے پھر سے جم جائے
بتا نور جہاں، نورِ نظر، رقاصۂ عالم
ہماری ذات اقدس سے عوام الناس ہیں برہم

رقاصہ:

مرے آقا! اجازت ہو تو میری بات اتنی ہے
شریروں کی ہمارے ملک میں تعداد کتنی ہے؟
یہی دو چار مُلا، پانچ چھ لڑکے شریروں سے
پرانے گھاگ لیڈر، جیل خانے کے اسیروں میں
انہیں زہر اب دے کر گولیوں سے کیجیے ٹھنڈا
کہ شوریدہ سروں کی ڈار کا استاد ہے ڈنڈا
یہ سب گستاخ ہیں، ان کے لیے تعزیر واجب ہے
یہ سب غدار ہیں، ان کے لیے زنجیر واجب ہے
یہ سب بزدل مسافر موت کے ہیں، موت پائیں گے
کسی حیلے بہانے سے نہ ہر گز باز آئیں گے

شاہ:

بہت اچھا، ہم اب ان کے لیے اعلان کرتے ہیں
بس ان کی ناگہانی موت کا سامان کرتے ہیں

(مارچ کو ورق الٹ جاتا ہے)

الٹ ڈالا، عوام الناس نے فرعون کا تختہ
طنابیں ٹوٹتی ہیں، شاہ زادے تھرتھراتے ہیں
وہ گوہر جان نے لاہور کو رخت سفر باندھا
وہ رقاصہ نکل کے پہلوئے اغیار میں پہنچی
کٹی شب دختِ رز پیمانۂ افکار میں پہنچی
سیاسی ڈوم ڈھاری چل بسے، شورِ فغاں اٹھا
زمانے کی روش پر ایک سیلاب رواں اٹھا
بہت سی قمریوں سے باغبانوں کو ہلا ڈالا
کئی ذروں نے مل کر آسمانوں کو ہلا ڈالا
عوام الناس جاگ اٹھیں،تو ناممکن ہے سو جائیں
علی بابا کے چوروں کی زبانیں گنگ ہو جائیں
 

الف عین

لائبریرین
نعیم یہ خود ٹائپ کر رہے ہیں یا کوئی ان پیج فائل کا حصول ہو گیا ہے؟؟؟ پوری فائل ہی یہاں لائبریری میں شئر کر دیں یا مجھ کو ای میل کر دیں۔ جو میرے کوائف کے صفحے پہ کہیں مل جائے گی
 

نعیم ملک

محفلین
السلام علیکم استاد محترم یہاں تو خود ٹائپ نہیں کیں لیکں اس سے پہلے اپنے فیس بک پیج "قلم کے چراغ" یا اور کہیں نہ کہیں ٹائپ کر کے پوسٹ کر چکا ہوں۔۔ یہ سب مختلف جگہ بکھرا پڑا ہے۔۔ یہاں پوسٹ کرنے کا مقصد انہیں ایک جگہ اکٹھا کرنا ہے۔۔ اس کے علاوہ میرے پاس پروفیسر اقبال جاوید کی دو کتابیں موجود ہیں "مضامین شورش" اور "قلم کے چراغ" ان میں شورش کی کافی شاعری جمع ہےاگر واپڈا والوں نے اس علمی سفر میں میرا ساتھ دیا تو وہ بھی جلد ٹائپ کر کے یہاں پوسٹ کر دوں کا۔ شکریہ
 

نعیم ملک

محفلین
شورش کے کچھ اشعار "مضامین شورش" میں سے جو انٹر نیٹ پہ پہلی دفعہ پوسٹ کیے جا رہے ہیں۔۔
پروفیسر اقبال جاوید کہتے ہیں
"شورش وہ واحد صحافی ہیں جنہوں نے ثابت کر دیا ہے کہ سیاسی شاعری بھی زندہ رہنے والی چیز ہے۔ بشرطیکہ اس میں صداقت کی کرن، سوچ کی پاکیزگی اور احساس کی تپش ہو کیونکہ یہ جذبے ہیں جنہیں خزاں کی ویرانیاں بھی افسردہ نہیں کر سکتیں۔ ان کی ہنگامی نظموں سے چنے ہوئے چند اشعار دیکھئے۔۔

دل میں خراش، آنکھ میں آنسو، لبوں پہ آہ
یوں بھی دعا کو ہاتھ اٹھاتا رہا ہوں میں
---------------------------
درد ارزاں، غمزدہ چہرہ، طبیعت اشکبار
زخم تازہ اپنے ہاتھوں ہی سے ہم نے کھا لیا
---------------------------
شہر یاروں کے سونح پہ لہو کی سرخی
کتنے گمنام حقائق کا پتا دیتی ہے
کتنے راون ہیں جو سیتا کو اٹھا لائے ہیں
کتنے کورو ہیں جنہیں تیغ صدا دیتی ہے
---------------------------
غزل کا روپ، ہزل کے سیاہ خانے میں
خزف کا کھوٹ ملایا گیا نگینوں میں
----------------------------
ہمارے خون دل نے میکدے کی آبرو رکھ لی
وگرنہ صحبت پیر مغاں میں اب دھرا کیا ہے
-----------------------------
چمن چمن میں خزاں کے پہرے، روش روش پہ لہو کے دھبے
فغاں بلب بلبلون کے جھرمٹ میں کوئی نغمہ سرا نہیں ہے
-------------------------------------

کتاب: مضامین شورش
صفحہ:28
ترتیب و تدوین: پروفیسر اقبال جاوید
فاتح پبلشر لاہور
 

سید زبیر

محفلین
آغا صاحب کی ایک چھوٹی سی نظم کا عنوان ہے۔ ”ہمارے بعد“ کہتے ہیں۔
فضا میں رنگ ستاروں میں روشنی نہ رہے
ہمارے بعد یہ ممکن ہے زندگی نہ رہے
خیال خاطر احباب واہمہ ٹھہرے
اس انجمن میں کہیں رسم دوستی نہ رہے
فقیہہ شہر کلام خدا کا تاجر ہو
خطیب شہر کو قرآں سے آگہی نہ رہے
قبائے صوفی و ملا کا نرخ سستا ہو
بلال چپ ہو، اذانوں میں دلکشی نہ رہے
نوادرات قلم پر ہو محتسب کی نظر
محیط ہو شب تاریک روشنی نہ رہے
اس انجمن میں عزیزو یہ عین ممکن ہے
ہمارے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہے۔۔۔
بہت اعلیٰ ۔۔۔ کیا خوب ہے
قبائے صوفی و ملا کا نرخ سستا ہو
بلال چپ ہو، اذانوں میں دلکشی نہ رہے
بہت خوب ۔۔۔۔۔۔واہ​
 

نعیم ملک

محفلین
" مضامین شورش" سے دو نعتیہ اشعار

مجھے اندیشہ شاہان دوراں ہو نہیں سکتا
کہ میں ہوں سرور کونین (ص) کے مدحت گزاروں میں
-------------------------
غار حرا سے کرب و بلا کے مقام تک
دیدہ وروں پہ فاش ہیں اسرار مصطفی(ص)
 

نعیم ملک

محفلین
پروفیسر اقبال جاوید کی کتاب "قلم کے چراغ" سے شورش کی ایک نظم
قلم
صفحہ کاغذ پہ جب موتی لٹاتا ہے قلم
ندرت افکار کے جوہر دکھاتا ہے قلم
آنکھ کی جھپکی میں ہوجاتا ہے تیغ بے پناہ
آن واحد میں حریفوں کو جھکاتا ہے قلم
آندھیوں کا سیل بن کر عرصہ پیکار میں
زلزلوں کے روپ میں محلوں کو ڈھاتا ہے قلم
دوستوں کے حق کا پشتیباں خود اپنے زور پر
دشمنوں پہ دشنہ و خنجر چلاتا ہے قلم
بندگان علم وفن کی خلوتوں کا آشنا
ان کے فکر و فہم کی باتیں سناتا ہے قلم
یادگاروں کا محافظ تذکروں کا پاسباں
گمشدہ تاریخ کے اوراق لاتا ہے قلم
محفلوں میں عشق اس کے بانکپن کا خوشہ چیں
محملوں میں حسن سے آنکھیں لڑاتا ہے قلم
شاعروں کے والہانہ زمزموں کی آبرو
دانش و حکمت کی راہوں کو سجاتا ہے قلم
اہل دل، اہل سخن ، اہل نظر ، اہل وغا
ان کے خدوخال کا نقشہ جماتا ہے قلم
برق بن کر ٹوٹتا ہے خرمن اغیار پر
دوستوں کے نام کا ڈنکا بجاتا ہے قلم
ہم نے اس کی معرفت دیکھا ہے عرش و فرش کو
آسمانوں کو زمینوں سے ملاتا ہے قلم
زندہ جاوید ہو جاتے ہیں اس کے معرکے
حشر کے آثار قوموں میں اٹھاتا ہے قلم
کانپتے ہیں اس کی ہیبت سے سلاطین زمن
دبدبہ فرمانراواؤں پر بٹھاتا ہے قلم
حافظ و خیام و سعدی غالب و اقبال و میر
ماضی مرحوم میں ان سے ملاتا ہے قلم
شہسواروں کے جلو میں ہفتمیں افلاک پر
سربکف اسلاف کے پرچم اڑاتا ہے قلم
کیسی کیسی منزلوں میں رہنما اس کے نقوش
کیسے کیسے معرکوں میں دندناتا ہے قلم
شاعری میں اس سے قائم ہے خم گیسو کی آب
نثر میں اعجاز کے تیور دکھاتا ہے قلم
قطع کرنی پڑتی ہیں فکر و نظر کی وادیاں
تب کہیں شورش مرے قابو میں آتا ہے قلم۔۔
 

سید زبیر

محفلین
بہت عمدہ
میں نے شورش کے جلسے میں شرکت کی ہے۔ عصر کی نماز کے بعد تقریر شروع کرتے تو عشا کی نماز تک جاری رہتی،کیا للکار ہوتی تھی تقریر میں ۔ ۔ ۔ ۔ سلسلہ شروع کرنے پر آپ کا مشکور ہوں
 

نعیم ملک

محفلین
سید صاحب آپ کی زره نوازی ہے۔۔ آپ بہت خوش قسمت ہیں کہ ان جیسے لوگوں کا دور پایا۔۔ والد صاحب بتاتے ہیں کہ انہوں نے دہلی دروازہ لاہور پر چار گھنٹے کھڑے ہو کر شورش کی تقریر سنی جب ختم ہوئی تو انہیں اس وقت ٹانگوں میں درد کی شدت محسوس ہوئی۔۔۔ جب شورش میانوالی جیل میں تھے تو والد صاحب ان کا ایک خط لے کر غالباً مجید نظامی کے پاس گئے تھے۔۔۔
 

نعیم ملک

محفلین
امام الشہدا ( حضرت حسین رض)

ٹل نہیں سکتا کسی حالت میں فرمان حسین
ثبت ہے تاریخ کے چہرے یہ عنوان حسین
معصیت سے بھی سوا ہے طاقت فسق و فجور
تھا کتاب اللہ کی تفسیر اعلان حسین
سر کٹا کے دین ابراہیم کو زندہ کیا
دین قیم کا مرقع تھے جوانان حسین
بڑھ گئی ان کے لہو سے کربلا کی آبرو
بن گیا تاریخ کی آواز میدان حسین
ان کے ہونٹوں کو رسول اللہ نے بوسہ دیا
میں لکھوں، کیسے لکھوں، کیونکر لکھوں شان حسین
منقبت شبیر کی انسان کے بس میں نہیں
حشر تک دونوں جہاں ہیں مرتبہ دان حسین
جب کبھی ایثار و قربانی کی منزل آگئی
دیدہ و دل ٰمیں ترازو ہو گئی آن حسین
ڈھا نہیں سکتیں قیامت تک یزیدی طاقتیں
عرش کی رفعت سے بالا ہے ایوان حسین
مجھ میں وہ بوتا کہاں ان کی ثنا خوانی کروں
خود رسول اللہ ہیں شورش ثنا خوان حسین۔۔
شورش کاشمیری
 

سید زبیر

محفلین
سبحان اللہ
ان کے ہونٹوں کو رسول اللہ نے بوسہ دیا​
میں لکھوں، کیسے لکھوں، کیونکر لکھوں شان حسین​
شراکت کے لیے جزاک اللہ​
 

محمد سرور

محفلین
سید صاحب آپ کی زره نوازی ہے۔۔ آپ بہت خوش قسمت ہیں کہ ان جیسے لوگوں کا دور پایا۔۔ والد صاحب بتاتے ہیں کہ انہوں نے دہلی دروازہ لاہور پر چار گھنٹے کھڑے ہو کر شورش کی تقریر سنی جب ختم ہوئی تو انہیں اس وقت ٹانگوں میں درد کی شدت محسوس ہوئی۔۔۔ جب شورش میانوالی جیل میں تھے تو والد صاحب ان کا ایک خط لے کر غالباً مجید نظامی کے پاس گئے تھے۔۔۔
ہا،کیا طنطنہ اور شکوہ تھا اس آدمی کا،فقیری میں شاہی کرنے والا درویش خدامست،لگتا ہے اللہ نے برصغیرکے تمام بڑے آدمی چالیس پچاس کی دہائی سے پہلے ہی پیدا کر دیے تھے،اور اب ہمارے حصے میں صحرائی بگولوں کے علاوہ کچھ باقی نہیں بچا۔آغا جی کی ایک نظم کا عنوان ہے "میں کسی اوقاف کا ملا نہیں" کہیں سے تلاش کرکے پوسٹ کر دیں۔
 

محمد سرور

محفلین
میرے وطن کی سیاست کا حال مت پوچھو
گھری ہوئی ہے طوائف تماش بینوں میں
(آغا شورش کاشمیری)
محترم! یہ شعر آغا جی کا نہیں ہے بلکہ ہندوستانی شاعر شاد عارفی کا ہے۔اور یہ شعر خود آغا صاحب نے اپنی کسی کتاب میں "بقول شاد عارفی" کہہ کر نقل کیا ہے
 
Top