نصیر الدین نصیر پیر سید نصیر الدین نصیر گیلانی رحمتہ الله علیہ

تھی جس کے مقدر میں گدائی ترے در کی
قدرت نے اسے راہ دکھائی ترے در کی
ہر وقت ہے اب جلوہ نمائی ترے در کی
تصویر ہی دل میں اتر آئی ترے در کی
ہیں عرض و سماوات تری ذات کا صدقہ
محتاج ہے یہ ساری خدائی ترے در کی
انوار ہی انوار کا عالم نظر آیا
چلمن جو ذرا میں نے اٹھائی ترے در کی
مشرب ہے مرا تیری طلب تیرا تصور
مسلک ہے مرا صرف گدائی ترے در کی
در سے ترے الله کا در ہم کو ملا
اس اوج کا باعث ہے رسائی ترے در کی
اک نعمت عظمیٰ سے وہ محروم رہ گیا
جس شخص نے خیرات نہ پائی ترے در کی
میں بھول گیا نقش و نگار رخ دنیا
صورت جو مرے سامنے آئی ترے در کی
تازیست ترے در سے مرا سر نہ اٹھے گا
مر جاؤں تو ممکن ہے جدائی ترے در کی
صد شکر کہ میں بھی ہوں ترے در کا
صد فخر کہ حاصل ہے گدائی ترے در کی
پھر اس نے کوئی اور تصور نہیں باندھا
ہم نے جسے تصویر دکھائی ترے در کی
ہے میرے لیے تو یہی معراج عبادت
حاصل ہے مجھے ناصیہ سائی ترے در کی
آیا ہے نصیر آج تمنا یہی لے کر
پلکوں سے کیے جائے صفائی ترے در کی

شاہ نصیر الدین نصیر گیلانی رحمتہ الله علیہ
 
ہن کی خوف نصیر مینوں
التجا بحضور سید الوراح
ہک دن میں پیا دل وچ روواں ہتھوں جرم خطائیں ھو
آکھاں کملی والیا سائیاں عرضی نہ ٹھکرائیں ھو
میں ڈبیا دریا گناہاں پیراں توں سر تائیں ھو
بخشش جوگا مول نہ رہیا حدوں ودھ خطائیں ھو
ساہواں دے مکن تھیں پہلاں آ دیدار کرائیں ھو
پہلی رات قبر دی میری مکھ دا نور وسائیں ھو
کوثر پیالہ پاکاں والا مینوں گھٹ پلائیں ھو
جد اعمال ترکڑی تلسن جھات کرم دی پائیں ھو
میں ڈرساں میرے کول کھلوویں چھڈ کے دور نہ جائیں ھو
عمل کچججے پینڈے لمے ڈگدی نوں گل لائیں ھو
رحمت والا ہتھ لمیاری پل صراط ٹپایئں ھو
حضرت بولے عاصی بندیا روگ نہ دل نوں لائیں ھو
ہتھ میرا تیری کنڈ تے رہسی حشر دہاڑے تائیں ھو
ہو سکی تے سال دا پھیرا شہر مدینے پائیں ہو
بوہا میرا نہ چھوڑیں میرے بوہے تے آئیں جائیں ہو
ہلسن ہونٹ شفاعت میرے تھیسن رد بلائیں ہو
توں کیوں روویں توں کیوں چیکیں میں ہاں تیرے تائیں ہو
میں جاناں میرا مالک جانے ایویں نہ گھبرائیں ھو
ہن کی خوف نصیر مینوں میرا جیوے سر دا سائیں ھو

چراغ گولڑہ پیرسید نصیر الدین نصیر گیلانی رحمتہ الله علیہ
 
جس طرف سے گلشن عدنان گیا
ساتھ ہی قافلہ سنبل و ریحان گیا
اس بلندی پہ ہر گز نہ کوئی انسان گیا
عرش پر بن کے وہ الله کا مہمان گیا
لے کے جنّت کی طرف جب مجھے رضوان گیا
شور اٹھا وہ گدائے شہ زیشان گیا
مجھ خطاکار پہ کیا کیا نہ کئیے تو نے کرم
میرے آقا تیری رحمت کے میں قربان گیا
اتنی تسکیں پس فریاد کہاں ملتی ہے
کوئی مائل بہ سماعت ہے یہ دل جان گیا
اس کے دامن میں نہیں کچھ بھی ندامت کے سوا
جس کے ہاتھوں سے تیرا دامن احسان گیا
جب قدم دائرہ عشق نبی سے نکلا
بات ایمان کی اتنی ہے کہ ایمان گیا
ظلمت دہر میں تھا کہکشاں ان کا خیال
ذہن پر چادر فیضان سحر تان گیا
ناخدائی اسے کہیئے کہ خدائی کہئیے
میری کشتی کو ابھارے ہوئے طوفان گیا
کر لیا ان کو تصور میں مخاطب جس دم
روح کی پیاس بجھی قلب کا ہیجان گیا
لفظ جاوک سے قرآں نے کیا استقبال
ان کی چوکھٹ پہ جو بن کر کوئی مہمان گیا
تھا مدینے میں عرب اور عجم کا مالک
وہ جو مکہ سے وہاں بے سروسامان گیا
دل کا رخ پھر لیا قصہ ہجرت کی طرف
جب تڑپنا نہ شب غم کسی عنوان گیا
خاک بوسی کی جو درباں سے اجازت چاہی
للّہ الحمد کہ وہ میرا کہا ماں گیا
ان سے نسبت کی ضیاءسے ہے میرا دل روشن
خیر سے اس کے بھٹکنے کا امکان گیا
فخر دولت بھی غلط ناز نسب بھی باطل
کیا یہ کم ہے کہ میں دنیا سے مسلمان گیا
شامل حال ہوئی جب سے حمایت ان کی
فتح کی زد سے نہ بچ کر کوئی میدان گیا
اس گنہ گار پہ اتمام کرم تھا ایسا
حشر میں دور سے رضواں مجھے پہچان گیا
تا حد در خلد چہرہ انور پہ نظر
سب نے دیکھا کہ میں پڑھتا ہوا قرآن گیا
میرے اعمال تو بخشش کے نہ تھے پھر بھی نصیر
کی محمّد نے شفاعت تو خدا مان گیا

چراغ گولڑہ پیر سید نصیر الدین نصیر گیلانی رحمتہ الله علیہ
 
میں اور مجھ کو اور کسی دلربا سے عشق ؟
خیر الوریٰ سے عشق ہے خیر الوریٰ سے عشق
دنیا کی مجھ کو چاہ نہ اس کی ادا سے عشق
دونوں جہاں میں بس ہے مجھے مصطفیٰ سے عشق
وہ آخرت کی راہ کو ہموار کر چلا
جس کو بھی ہو گیا شہ انبیا سے عشق
کچھ اور مجھ کو کام نہیں اس جہان میں
اپنے نبی سے عشق ہے اپنے خدا سے عشق
دنیا کی دوستی تو ضیایع ہے فریب ہے
اسلام میں روا نہیں اس بے وفا سے عشق
سر میں سرور آنکھوں میں ٹھنڈک ہے دل میں کیف
جب سے ہوا دیار نبی کی ہوا سے عشق
دیوانائے رسول و علی و حسین کو
طیبہ کی دھن نجف کی لگن کربلا سے عشق
معراج بندگی کی تمنا میں رات دن
میری جبیں ہے در مصطفیٰ سے عشق
پہلے نبی کے عشق میں مدہوش ہو نصیر
پھر یہ کہے کوئی کہ مجھے ہے خدا سے عشق

شاہ پیر سید نصیر الدین نصیر گیلانی رحمتہ الله علیہ
 
ہو گیا کس سے بھرا خانہ زھرا خالی
چل دیا آپ مگر کر گیا دنیا خالی
خوں سے اپنے دم سجدہ اگا کے گلشن
تو نے رہنے نہ دیا دامن صحرا خالی
الله الله وہ شبیر کا زور بازو
ایک ہی وار میں کر دی صف عادہ خالی
لوٹ کر آئیں گے کب تک کہ سکینہ ہے اداس
پوچھ لیتا کوئی عباس سے اتنا خالی
گونجتی ہیں وہی نانا کی صدائیں پیہم
کہ آقا تیری یادوں سے نہیں گنبد خضرا خالی
کربلا ہو کہ نجف و گو عرب ہو کہ عجم
ہم نے دیکھی نہ تیرے غم سے کوئی جاہ خالی
وہ تو اک سجدہ شبیر نے رکھ لی عزت
ورنہ ہو جاتی خدا والوں سے دنیا خالی
اصغر و اکبر و عباس و سکینہ کے طفیل
بھیک مل جائے کہ کشکول ہے اپنا خالی
آل و اصحاب کا سایہ ہے تیرے سر پہ نصیر
تیرا دامن نہ رہا ہے نہ رہے گا خالی

شاعر ہفت زباں پیر سید نصیر الدین نصیر گیلانی رحمتہ الله علیہ
 
بخت میرا جو محبّت میں رسا ہو جائے
میری تقدیر مدینے کی فضا ہو جائے
کاش مقبول مرے دلی کی دعا ہو جائے
ایک سجدہ در مولا پہ ادا ہو جائے
اس کی تعظیم کو اٹھتے ہیں سلاطین جہاں
ترے کوچے سے جو منسوب گدا ہو جائے
لے بھی آ زلف پیمبر کی مہک دیر نہ کر
اے صبا مجھ پہ یہ احسان ذرا ہو جائے
اس کو اپنی ہی خبر ہو نہ دو عالم کا خیال
جو بھی دیوانہ محبوب خدا ہو جائے
میں مدینے کی زیارت سے بہت خوش ہوں مگر
چاہتا ہوں کہ یہ مسکن ہی مرا ہو جائے
ان کے دامن کو مرے ہاتھ کسی دن چھو لیں
کچھ نہ کچھ حق عقیدت تو ادا ہو جائے
وہ سر طور ہو یا مصر کا بازار حسیں
وہ جہاں چاہیں جلوہ نما ہو جائے
اب بلا لو کہ مجے دم بھروسہ نہ رہا
نہیں معلوم کسی وقت بھی کیا ہو جائے
میرے نزدیک مقدر کا دھنی ہے وہ نصیر
جس وہ ان کی نظر لطف و عطا ہو جائے

شاعر حق زباں پیر سید نصیر الدین نصیر گیلانی رحمتہ
 

تلمیذ

لائبریرین
ہن کی خوف نصیر مینوں
التجا بحضور سید الوراح
ہک دن میں پیا دل وچ روواں ہتھوں جرم خطائیں ھو
آکھاں کملی والیا سائیاں عرضی نہ ٹھکرائیں ھو

چراغ گولڑہ پیرسید نصیر الدین نصیر گیلانی رحمتہ الله علیہ

ایہہ پہلا پنجابی کلام اے جیہڑا صیحیح تھاں تے پوسٹ کیا اے تساں!!
 

ابن محمد جی

محفلین
خاتون جنت پہ لاکھوں سلام
گردشیں تھم گئیں محفلیں جم گئیں کملی والے کی نسبت پہ لاکھوں سلام
ایک دو تین کیا لاکھوں سر کٹ گئے انکی منصوص عزت پہ لاکھوں سلام
جس کو پا کر حلیمہ غنی ہو گئی آمنہ تیری دولت پہ لاکھوں سلام
زینب و مرتضیٰ پھر حسین و حسن اور خاتون جنت پہ لاکھوں سلام
چار یاران حضرت پہ ہر دم درود ان کے دور خلافت پہ لاکھوں سلام
شاہ بغداد غوث الوریٰ محی دیں آبروئے طریقت پہ لاکھوں سلام
کیجیے بند آنکیں نصیر اور پھر بھیجیے انکی صورت پہ لاکھوں سلام
مصطفی شان قدرت پہ لاکھوں سلام اولین نقشے خلقت پہ لاکھوں سلام

چراغ گولڑہ شاعر ہفت زباں پیر سید نصیر الدین نصیر رحمتہ الله علیہ
اگر انکی بک نیٹ پر آجائے تو بات بن جائے اس سلسلہ میں کو ئی قدم اٹھنا چاہئے۔
 
شاہ بغداد سدا بول ہے بالا تیرا


کیوں نہ ہو صاحب معراج ہے بابا تیرا

پرتوے سورہ یٰسین لبوں لہجہ تیرا

ایک شہپارہ تطہیر ہے چہرہ تیرا

نبوی ذوق علوی رنگ بتولی عفت

حسنی اور حسینی ہے سراپا تیرا

جوہر شبر شبیر سے پا کر ترکیب

ہو گیا کیا نسبی رنگ دوبالا تیرا

چھپ گئے سامنے اسکے عرفا مثل نجوم

مطلع فقر پہ خورشید جو چمکا تیرا

یوں تو سب اہل ولایت نے مراتب پائے

پر کسی شخص نےپایا نہیں پایا تیرا

پا سکا تیرے سوا کون مقام مخدع

تجھ سے مخصوص ہے یہ رتبہ اعلیٰ تیرا

کر گیا ماند ولایت کے درخشاں سب چاند

لاڈلا یہ پسر اے سیدہ زھرا تیرا

عہد تک تیرے نہیں تیرا تصرف محدود

سچ تو یہ کہ ہر ایک عہد ہے شاہا تیرا

قصر افضال کے ابواب ہوئے وا تجھ پر

نافذ و رائج و دارین ہے سکہ تیرا

کون سے سلسلہ کو تو نے معطر نہ کیا

کون سے گل کدہ میں روپ نہ جھلکا تیرا

قربت ذات میں ہے تیرا قیام اور سجود

عرش کی پاک فضائیں ہیں مصلیٰ تیرا

ذہن تیرہ پہ اترتی ہیں ستاروں کی بارات

کبھی لاتا ہوں تصور میں مکھڑا تیرا

رنگ والوں کے بھی رنگ اڑ گئے تیرے آگے

ذات بے رنگ نے وہ رنگ جمایا تیرا

تو ولایت کا وہ دولہا ہے کہ بہ عجز و نیاز

اولیا پڑھتے ہیں ہر دور میں سہرہ تیرا

اصفیا ہیں تیری غوثیت کبریٰ کے مقر

ہمہ اقطاب جہاں دیتے ہیں پہرا تیرا

حسن میں علم و جلالت میں مسیحائی میں

کوئی ثانی نہیں اے دلبند زھرا تیرا

جان و دل وارتی اے یوسف یعقوب عرب

دیکھ پاتی جو زلیخا رخ زیبا تیرا

دیکھ کر سید لولاک کا انداز جمال

انبیا چوم نہ لیں حشر میں ماتھا تیرا

جنبش لب سے ہے ابواب اجابت کی کشاد

رد نہیں کرتی مشیت بھی تقاضا تیرا

اس نے مخمور کیے بادہ کشان وحدت

کاسہ وصل سے اک گھونٹ جو جھلکا تیرا

جو کہا تو نے وہ مامور من اللہ ہو کر

اپنی خواھش سے نہیں کوئی بھی دعویٰ تیرا

جادہ رشد تیرے شہر کی ایک ایک گلی

حلقہ فیض وہ درس اور وہ افتا تیرا

ابدیت کی علامت ہے تیرا نور جبیں

جلوہ ذات کا آئینہ ہے جلوہ تیرا

تو نے تاریکی طاغوت کا دل کا چیر دیا

ابن زھرا یہ تدبر یہ کلیجہ تیرا

بندہ قادر کا ہے تو اور ہے قادر کو دوام

ہم رہیں نہ رہیں نام رہے گا تیرا

کچھ ملائک بھی ہیں قدرت کی طرف سے مامور

کوہ شہرت پہ بجاتے ہیں جو ڈنکا تیرا

تاجداروں کا تصرف ہے زمیں تک محدود

سر زمین دل انسان پہ ہے قبضہ تیرا

لرز اٹھتے ہیں سلاسل کے سفینے سارے

قادری اوج پہ چڑھتا ہے جو دریا تیرا

بخدا ملک ولایت میں رسالت کے بعد

حشر تک کا جو زمانہ ہے وہ تنہا تیرا

باعث فخر ہے عاقل کے لئے تیرا جنوں

پاک ذہنوں کے لئے رزق ہے سودا تیرا

میں غلام اور تو آقا میں سوالی تو کریم

طے ازل میں ہوا رشتہ یہی میرا تیرا

حکم پر شمع کی لو پھیر دے طوفان کا رخ

سگ لڑے شیر سے پائے جو اشارہ تیرا

تو ہے امت کا وہ نوشاہ کہ اقطاب جہاں

جھولیاں بھرنے کو گاتے ہیں بدھاوا تیرا

تھا دل ارض پہ پامالی پیہم کا ملال

مہر اعزاز بنا نقش کف پا تیرا

بخت اسکا ہے کرم اس پہ ہے توقیر اسکی

جسکی نظروں میں ہو دربار معلے تیرا

اپنے کوچے میں جگہ دے کہ نہ جائے گا کہیں

تیرے در سے یہ نمک خوار پرانا تیرا

میرے نزدیک نہیں یہ کسی اعزاز سے کم

گر کہیں لوگ مجھے بندہ رسوا تیرا

جس پہ ہو جاتے ہیں مخلوق کے دروازے بند

کھٹکھٹاتا ہے وہ آخر در والا تیرا

سبز گنبد کی تجلی سے ہے اسکا رشتہ

کیوں نہ پھر محبط انوار ہو روضہ تیرا

قبر ہو حشر ہو یا پل ہو کہ میزان عمل

ہم غلاموں کے سروں پر رہے سایہ تیرا

کیف نظارہ سے محروم ہے چشم اعمی

جس کے پاس آنکھ ہے تکتا ہے وہ رستہ تیرا

حیف صد حیف کہ کچھ پست نظر پست اندیش

اس پہ کڑھتے ہیں کہ اونچا ہے ستارا تیرا

دست مشاطہ قدرت نے سنوارا ہے تجھے

لاکھ سر مارے بگاڑے گا کوئی تیرا

تجھ کو کیا فکر کوئی تیرا بنے نہ بنے

شاہ بطحا تیرے الله تعالیٰ تیرا

روک سکتا ہے ابھرنے سے کوئی سورج کو ¿

ایک چڑھتا ہوا خورشید ہے چرچا ہے تیرا

دو سفینوں میں بیک وقت سفر ناممکن

یا تو دنیا کا رہے بن کے کوئی یا تیرا

ساتھ رہی ہے سدا تیرے تعاون کی برات

نام لیوا کبھی رہتا نہیں تنہا تیرا

جسم اعمال برہنہ ہے خدارا اسے ڈھانپ

کہ خطا پوش ہے دامان معلے تیرا

گھیر رکھا ہے مجھے بھی شب رسوائی نے

میں بھی ہوں منتظر اے صبح تجلے تیرا

جس نے کہا دنیا میں غوث ہیں میرے میرے

وہ قیامت میں بھی کہلائے گا تیرا تیرا

عقل دی علم دیا نام دیا نسبت دی

مجھ سے ناچیز پہ احسان ہے کیا کیا تیرا

تیر بیکار ہے گر ساتھ نہ دے زور کماں

نام میرا ہے مگر کام ہے سارا تیرا

جس نے کھائی ہے تیرے نام پر مٹنے کی قسم

ہے نصیر ایک وہ باقاعدہ شیدا تیرا

گر نصیر اہل ستم پنجہ تو بر تابند

ہرگز از دست مدہ دامن آں زاتے را





شہزادہ غوث الورا ح پیر سید نصیر الدین نصیر گیلانی رحمتہ الله علیہ
 
جس طرف سے گلشن عدنان گیا
ساتھ ہی قافلہ سنبل و ریحان گیا
اس بلندی پہ ہر گز نہ کوئی انسان گیا
عرش پر بن کے وہ الله کا مہمان گیا
لے کے جنّت کی طرف جب مجھے رضوان گیا
شور اٹھا وہ گدائے شہ زیشان گیا
مجھ خطاکار پہ کیا کیا نہ کئیے تو نے کرم
میرے آقا تیری رحمت کے میں قربان گیا
اتنی تسکیں پس فریاد کہاں ملتی ہے
کوئی مائل بہ سماعت ہے یہ دل جان گیا
اس کے دامن میں نہیں کچھ بھی ندامت کے سوا
جس کے ہاتھوں سے تیرا دامن احسان گیا
جب قدم دائرہ عشق نبی سے نکلا
بات ایمان کی اتنی ہے کہ ایمان گیا
ظلمت دہر میں تھا کہکشاں ان کا خیال
ذہن پر چادر فیضان سحر تان گیا
ناخدائی اسے کہیئے کہ خدائی کہئیے
میری کشتی کو ابھارے ہوئے طوفان گیا
کر لیا ان کو تصور میں مخاطب جس دم
روح کی پیاس بجھی قلب کا ہیجان گیا
لفظ جاوک سے قرآں نے کیا استقبال
ان کی چوکھٹ پہ جو بن کر کوئی مہمان گیا
تھا مدینے میں عرب اور عجم کا مالک
وہ جو مکہ سے وہاں بے سروسامان گیا
دل کا رخ پھر لیا قصہ ہجرت کی طرف
جب تڑپنا نہ شب غم کسی عنوان گیا
خاک بوسی کی جو درباں سے اجازت چاہی
للّہ الحمد کہ وہ میرا کہا ماں گیا
ان سے نسبت کی ضیاءسے ہے میرا دل روشن
خیر سے اس کے بھٹکنے کا امکان گیا
فخر دولت بھی غلط ناز نسب بھی باطل
کیا یہ کم ہے کہ میں دنیا سے مسلمان گیا
شامل حال ہوئی جب سے حمایت ان کی
فتح کی زد سے نہ بچ کر کوئی میدان گیا
اس گنہ گار پہ اتمام کرم تھا ایسا
حشر میں دور سے رضواں مجھے پہچان گیا
تا حد در خلد چہرہ انور پہ نظر
سب نے دیکھا کہ میں پڑھتا ہوا قرآن گیا
میرے اعمال تو بخشش کے نہ تھے پھر بھی نصیر
کی محمّد نے شفاعت تو خدا مان گیا

چراغ گولڑہ پیر سید نصیر الدین نصیر گیلانی رحمتہ الله علیہ
 
سوئے گلشن وہ ترا گھر سے خراماں ہونا ۔ پیر نصیر الدین نصیر

سوئے گلشن وہ ترا گھر سے خراماں ہونا
سَرو کا جھومنا غنچوں کا غزل خواں ہونا
خوبرو گرچہ ہوئے اور بھی لاکھوں لیکن
تجھ سے مخصوص رہا خسروِ خوباں ہونا
زندگی بھر کی تمناؤں کا ٹھہرا حاصل
سامنے تیرے مرا خاک میں پنہاں ہونا
یہ تو اندر کا مرے درد ہے دکھ ہے غم ہے
میرے رونے پہ کہیں تم نہ پریشاں ہونا
یوں مری آنکھ سے اس چاند کا ہونا اوجھل
ہے سہاگن کی بھری گود کا ویراں ہونا
واعظِ شہر کی تقدیر میں یا رب جنت
میری قسمت میں ہو خاکِ درِ جاناں ہونا
خاک سے ہو کے مرا خاک میں جانا مر کر
اپنے ہی گھر میں ہو جیسے مرا مہماں ہونا
تم نے دریا ہی کو دیکھا اٹھاتے طوفاں
آج دیکھو کسی قطرے کا بھی طوفاں ہونا
جب لحد میں مجھے رکھیں تو خدارا تم بھی
جلوہ فرما بسرِ گورِ غریباں ہونا
سامنے پا کے تجھے کیوں نہ مریں ہم تجھ پر
کام پروانوں کا ہے شمع پہ قرباں ہونا
 
مجھ پہ بھی چشمِ کرم اے مرے آقا! کرنا
حق تو میرا بھی ہے رحمت کا تقاضہ کرنا

میں کہ ذرہ ہوں مجھے وسعتِ صحرا دےدے
کہ ترے بس میں ہے قطرے کو بھی دریا کرنا

میں ہوں بےکس ، تیرا شیوہ ہے سہارا دینا
میں ہوں بیمار ، تیرا کام ہے اچھا کرنا

تو کسی کو بھی اٹھاتا نہیں اپنے در سے
کہ تری شان کے شایاں نہیں ایسا کرنا

تیرے صدقے ، وہ اُسی رنگ میں خود ہی ڈوبا
جس نے ،جس رنگ میں چاہا مجھے رُسوا کرنا

یہ ترا کام ہے اے آمنہ کے درِ یتیم!
ساری امت کی شفاعت، تنِ تنہا کرنا

کثرتِ شوق سے اوسان مدینے میں ہیں گم
نہیں کُھلتا کہ مجھے چاہیے کیا کیا کرنا

یہ تمنائے محبت ہے کہ اے داورِ حشر!
فیصلہ میرا سپردِ شہِ بطحا کرنا

آل و اصحاب کی سنت ، مرا معیارِ وفا
تری چاہت کے عوض ، جان کا سودا کرنا

شاملِ مقصدِ تخلیق یہ پہلو بھی رہا
بزمِ عالم کو سجا کر تیرا چرچا کرنا

یہ صراحت ورفعنالک ذکرک میں ہے
تیری تعریف کرانا ،تجھے اُونچا کرنا

تیرے آگے وہ ہر اک منظرِ فطرت کا ادب
چاند سورج کا وہ پہروں تجھے دیکھا کرنا

طبعِ اقدس کے مطابق وہ ہواؤں کا خرام
دھوپ میں دوڑ کے وہ ابر کا سایہ کرنا

کنکروں کا تیرے اعجاز سے وہ بول اٹھنا
وہ درختوں کا تیری دید پہ جھوما کرنا

وہ تیرا درس کہ جھکنا تو خدا کے آگے
وہ تیرا حکم کہ خالق کو ہی سجدہ کرنا

چاند کی طرح تیرے گرد وہ تاروں کا ہجوم
وہ تیرا حلقہ اصحاب میں بیٹھا کرنا

ٖقاب قوسین کی منزل پہ یکایک وہ طلب
شبِ اسرا وہ بلانا ، تجھے دیکھا کرنا

دشمن آجائے تو اٹھ کر وہ بچھانا چادر
حسنِ اخلاق سے غیروں کو بھی اپنا کرنا

کوئی فاروق سے پوچھے کہ کسے آتا ہے
دل کی دنیا کو نظر سے تہہ وبالا کرنا

اُن صحابہ کی خوش اطو ار نگاہوں کو سلام
جن کا مسلک تھا، طوافِ رخِ زیبا کرنا

مجھ پہ محشر میں نصیر اُن کی نظر پڑ ہی گئی
کہنے والے اسے کہتے ہیں "خدا کا کرنا"​
 
مدیر کی آخری تدوین:
کلام ؛ پیر نصیر الدین نصیر رحمت اللہ علیہ
جو ہے قبلہ گاہِ نگا ہ و دل ، اسی سنگِ در کی تلاش ہے
جو ترے حضور جھکا رہے، مجھے ایسے سر کی تلاش ہے

اسی کشمکش میں ہے زندگی ، اسی رد و کد میں ہے آدمی
کبھی دردِ دل کی ہے آرزو، کبھی چارہ گر کی تلاش ہے

ترے حسن سےجو طلوع ہو، ترے نور سے جو شروع ہو
مجھے ایسی ضو کی ہے جستجو، مجھے اس سحر کی تلاش ہے

یہ ہوائے شام و سحر کہین ہمیں اور سمت نہ لے اڑے
تری رہگزر کی ہیں خاک ہم ، تری رہگزر کی تلاش ہے

جو حسیں بھی پردہ نشیں بھی ہو، مری آرزو کا امیں بھی ہو
مجھےڈھونڈنا ہے کہیں بھی ہو، مجھے اس کے در کی تلاش ہے

جسے دیکھنے کی طلب رہی ، کبھی میری جس نے خبر نہ لی
مرے دل کا چین تو ہے وہی، اسی بے خبر کی تلاش ہے

کہیں اور اپنا گزر نہیں ، کہیں اور جائیں نصیر کیوں
وہی ایک در ہے نگاہ میں ، اسی ایک در کی تلاش ہے
 
تعالی اللہ چہ زیبا بر سرِ محفل نشستستش
تو گوئی جان و ایمان و دلِ عالم بدستستش

جُنوں درکارِ خود ہشیار از فیضِ نگاہِ اُو
خرد رم خوردہ جامِ رحیقِ چشمِ مستستش

کُجا اغیار و اعدا ، خویش را بیگانہ می بینم
کہ از پیوستنش بس وحشت افزا ترگستستش

ز یادِ خود مدہ آوارہ دشتِ محبت را
بجانِ تو کہ یادِ تو متاعِ بُود و ہستستش

دلِ عاشق در آشوبِ ملامت آنچناں ماند
کہ صیاد است و از ناوک زبوں صیدے بہ شستستش

خضر در سبزہ خطش بہارِ زندگی جوید
مسیحا نیم جاں در یادِ لعلِ مے پرستستش

ز افسوں کاریِ مہر و عتابش سخت حیرانم
کہ از وے در جہانِ دل گُشادِ کار و بستستش

چہ دریا بند ایں صورت پرستاں ذوقِ آں رندے
کہ مثلِ موج صد وارفتگی با در شکستستش

نہ وارستست از پیکانِ چشمِ مستِ اُو صیدے
ز دامِ طرہ پُر خَم کرا یارائے جستستش

جہانِ اہلِ دل از جلوہ رُخسارِ اُو روشن
نگاہِ گُل رُخاں مخمورِ چشمِ مے پرستستش

نہ گُنجد در بیاں ہا رفعتِ آں مردِ حق مستے
کہ شان و شوکتِ آفاقیاں در دیدہ پستستش

بہ چشمِ کم مبیں ہر گز نصیرِ درد ساماں را
کہ شامِ زندگی روشن تر از صُبحِ الستستش


(بہ آہنگ میرزا بیدل رحمۃ اللہ علیہ)
از سید نصیر الدین نصیر رحمۃ اللہ علیہ
 
سینہ مالا مال درد است اے دریغا مرہمے
دل ز تنہائی بجاں آمد خدا را ہمدمے

سید مہر علی شاہ رحمۃ اللہ علیہ نے اسی رنگ میں فرمایا ہے

سینہ مالا مال درد است و بجوید ہردمے
درد بر دردے دگر زخمے بجائے مرہمے

قرعہ فالش بنام آدم خاکی زدند
گِل بود نے دل کہ با دردے بجوید مرہمے

دل کند زخمےرفو گر مہربان دارد طلب
نوکِ مژگاں را صبا بارِ دگر گو مرہمے

بستہ شد اند را ازل خاطر بداں شورِ جہاں
کز نسیمِ تاب زلفش نوریاں پیچد ہمے

اکحل العینین املح ازج الحاجبین
سرمہ گیں چشمے ، کماں ابرو ،ملیحے ارحمے

روے تاباں والضحیٰ والیل مویش ذا سجیٰ
و زفتخنائش لوےٰ یسین از متبسمے

دوش در گوشم رسیدہ از سگان کوئے دوست
مہر ما را کے سزد ہر خود پرستے بے غمے

حضرت کی یہ غزل ایک سال پاک پتن شریف کے عرس پر ایام محرم مین پڑھی جارہی تھی ۔ حضرت خود رونق افروز تھے۔ ہندوستان کے ایک بزرگ سجادہ نشین پہلے ہی شعر پر وجد میں آکر رقص کرنے لگے۔ آداب چشتیہ کے مطابق ساری محفل کھڑی ہوگئی۔ روتے جاتے تھے اور لذتِ فریاد میں ان اشعار کی اس طرح تشریح کر رہے تھے:

"سبحان اللہ! پیر صاحب نے کیا خوب مرثیہ کہہ ڈالا ہے۔ حضرت امام حسین تہ خنجر کیا فرما رہے ہیں:
"اے میرے دل و جان اور میری روح کے محبوب! اے میرے ایمان!! اس خنجر کی روانی کو تا قیام قیامت دراز کردے تاکہ تیری محبت میں ذبح کیا جاوں اور زندہ ہوجاوں اور پھر ذبح کیا جاوں"
 
سید نصیر الدین نصیر اسی زمین میں بعمر 14 سال لکھتے ہیں:

اے کہ نامت بر زبانِ ما غریباں ہر دمے
وے کہ یادت مونسِ ہر بیدلے در ہر غمے

از جمالِ رُوئے تو جمعیتِ صد جان و دل
و ز پریشانیِ زلفِ تو ، پریشاں عالمے

از خطا شرمندہ ام لطفے بفرما اے کریم!
رشحہ ابرِ کرم ، موجے بہ کاہد از یمے

ساقیم آں بادہ اندر کاسہ جاں ریختہ
در نگاہِ مستِ من شُد چُوں خزف جامِ جمے

خود بِگو چُوں عُرضہ دارم بر تُو حالِ شوقِ دل
نامہ من تنگ دامن ، نامہ بر نامحرمے

ناوکِ تو چُوں کہ باشد چارہ زخمِ جگر
اے خوشا صیدیکہ از تیرِ تُو یابد مرہمے

جاں بلب آمد نصیر از فُرقتِ دلدارِ خویش
زندگی یابد اگر بیند رُخِ آں ہمدمے
 
"کشتگانِ خنجرِ تسلیم را
ہر زماں از غیب جانے دیگر است"

---------------------------------------------
بر درِ خُوباں نظامے دیگر است
انتظام و اہتمامے دیگر است

خاک بر سر ، چاک داماں ، دیدہ تر
در محبت ننگ و نامے دیگر است

السلام اے مفتی و قاضی و شیخ
مسجدِ ما را امامے دیگر است

زاہداں در کعبہ ، ما در میکدہ
ہر گروہے را مقامے دیگر است

بر رُخِ روشن ، عجب زلفِ سیاہ
ایں جہاں را صبح و شامے دیگر است

باد شاہانِ جمال و حُسن را
ہر زماں ، ہر دم غلامے دیگر است

در حریمِ جلوہ گاہِ دلبراں
ہدیہ و نذر و سلامے دیگر است

ہاں شرابِ عشقِ خُوباں را نصیر
شیشہ و ساقی و جامے دیگر است

عرشِ ناز از سید نصیر الدین نصیر سے لیا گیا کلا
 
پیش گفتار
ڈاکٹر توصیف تبسم (بدایونی)
اسلام آباد 3 ربیع الاول 1426 ھجری
پیر نصیر الدین نصیر گولڑوی کی ان تضمینوں پر جو حضرت مولانا احمد رضا خان فاضل بریلوی کے کلام پر کی گئی ہیں، گفتگو کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ تضمین کے حدود و مطالب و معانی پر غور کرلیا جائے تاکہ بات چیت زیادہ مربوط اور بامعنی انداز میں آگے بڑھ سکے۔ تضمین کے لغوی معنی ، قبول کرنا اور پناہ میں لینے کے ہیں، تضمین کا لفظ ضم سے مشتق ہے جس کے معنی ملانا یا پیوست کرنا ہیں۔ اصطلاح میں ، تضمین کسی دوسرے شاعر کے کسی شعر یا مصرع کو اپنے کلام میں شامل کرنے کا نام ہے۔ اگر وہ شعر یا مصرع جس کی تضمین کی جائے معروف اور جانا پہچانا نہ ہو تو سرقہ یا توارد کے الزام سے بچنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ اس امر کی طرف اشارہ کردیا جائے کہ یہ شعر یہ مصرع میرا نہیں، کسی اور شاعر کا ہے،
جیسے سودا کہتے ہیں

میں کیا کہوں کہ کون ہوں سودا، بقول درد
جو کچھ کہ ہوں سو ہوں ، غرض آفت رسیدہ ہوں

تضمین کی ایک صورت تو یہ ہے کہ تضمین لکھنے والا شاعر کسی خاص مصرع یا شعر کو بنیاد بنا کر پوری نظم تخلیق کرتا ہے۔ اقبال کے یہاں اس قسم کی تضمینوں کی واضح مثالیں موجود ہیں۔ انہوں نے بانگ درا میں ابوطالب کلیم ، صائب ، انیسی شاملو کے شعروں کو اسی طرح جزوکلام بنایا ہے۔ دوسری صورت تضمین کی یہ ہے کہ پوری غزل کو شعر بہ شعر تضمین کیا جائے ، یوں اصل غزل کی ہیئت تضمین ہونے کے بعد مخمس کی شکل اختیار کرلیتی ہے۔ تضمین کا بنیادی فریضہ اصل شعر کی شرع و تفسیر ہوتا ہے مگر بعض صورتوں میں تضمین کرنے والا شاعت کسی شعر کو نئے سیاق و سباق میں رکھ کر اس کو ایک نئی جہت عطا کرتا ہے، جیسے مولٰنا غنی کاشمیری کا شعر، جس کی تضمین اقبال نے اپنی نظم "خطاب بہ نوجوانان اسلام" میں کی ہے

غنی ، روزِ سیاہ پیر کنعاں را تماشا کن
کہ نورِ دیدہ اش روشن کند چشم زلیخا را

اقبال نے غنی کے اس شعر کو ایک نئی معنویت سے ہم کنار کیا ہے۔ یہاں "پیر کنعاں" سے مراد ملتِ اسلامیہ ، حضرت یوسف سے مراد مسلمانوں کا علمی سرمایہ ہے جو اہل یورپ(زلیخا) کی آنکھوں کی روسنی کا وسیلہ بنا ہوا ہے۔ تضمین کی اکثر و بیشتر صورتوں میں اصل شعر کی تشریح و تفسیر ہی ہوتی ہے۔ تضمین کے اس بنیادی مقصد کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے مرزا عزیز بیگ سہارن پوری نے غالب کی اردو غزلیات کی تضمین سعوری طور پر اس انداز سے کی ہے کہ کلام غالب کو ایک عام قاری کے لیے آسان بنایا جاسکے۔ ان کی اس منظوم تشریح کا نام "روحِ کلام غالب" ہے۔ اس تضمینِ کلام غالب کی تعریف کرتے ہوئے نظامی بدایونی لکھتے ہیں:
"اس کی ادنی خصوصیت یہ ہے کہ مشکل ترین اشعار کے معانی اور مطالب اس درجہ واضح ہوجاتے ہیں کہ کسی شرح کےدیکھنے کی ضرورت باقی نہیں رہتی"
حضرت مولانا احمد رضا خان کے کلام کے حوالے سے جب ہم پیر سید نصیر الدین نصیر کی تضمینوں پر نظر ڈالتے ہیں تو ایک خوشگوار حیرت ہوتی ہے کہ ان کی یہ کاوشیں جن میں آٹھ نعتیں ، ایک منقبت اور ایک سلام شامل ہے ، تضمین کے اصل مقصد کو بطریق احسن پورا کرتی دکھائی دیتی ہیں۔ اصل شعر جس پر شاعر تین اضافی مصرعے بہم پچاتا ہے۔ ان مطالب کو کھول کر بیان کردیتے ہیں جن کی طرف اصل شعر میں مبہم اشارے موجود ہوتے ہیں۔ اس طرح تضمین کا ہر بند ایک ایسی وحدت کی شکل اختیار کرلیتا ہے جو اپنی جگہ مکمل اور حد درجہ مربوط ہوتی ہے۔ تضمین کی اس خصوصیت کی طرف علامہ نیاز فتح پوری اپنی تصنیف انتقادیات (ص 283) میں اس کی طرف اشارہ کرتے ہیں:
"تضمین کی خوبی یہ ہے کہ وہ اصل شعر کے ساتھ مل کر بالکل ایک چیز ہو جائے"
نصیر الدین نصیر کی تضمین کا ایک بند بطورِ مثال

دل کے آنگن میں یہ اک چاند سا اترا کیا ہے
موج زن آنکھوں میں یہ نور کا دریا کیا ہے
ماجرا کیا ہے یہ آخر ، یہ معما کیا ہے
کس کے جلوے کی جھلک ہے یہ اجالا کیا ہے
ہر طرف دیدہ حیرت زدہ تکتا کیا ہے

اصل شعر میں جو تحیر کا عنصر تھا ، اس کو باکمال تضمین نگار نے اس طرھ پورے بند میں پھیلا دیا ہے کہ سارے مصرعے مل کر ایک پُرلطف فضا کی تشکیل کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں ،
ایک اور بند دیکھیے

جب چلے حشر کے میدان میں امت کی سپاہ
سرور جیش ہو وہ مطلع کونین کا ماہ
اہل بیت اور صحابہ بھی رواں ہوں ہمراہ
یہ سماں دیکھ کہ محشر میں اٹھے شور کہ واہ
چشم بد ور ہو ، کیا شان ہے رتبہ کیا ہے

ان بندوں میں جزئیات و واقعات کی ترتیب اس طرح رکھی گئی ہے کہ ایک متحرک تصویر چشمِ تصور کے سامنے آجاتی ہے۔ شاعری کا یہ وہ مقام ہے جہاں شعر مصوری کی حدود میں داخل ہوجاتا ہے۔ یہ چند مثالیں بطور نمونہ پیش کی گئیں ورنہ یہ کیفیت ان تضمینوں میں کم و بیش ہر جگہ موجود ہے۔ زور بیاں ہے کہ کہیں کم نہیں ہونے پاتا جس سے پیر نصیر الدین نصیر کی قدرت کلام کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ وہ ایک مدت سے اردو اور فارسی میں داد سخن دے رہے ہیں۔ اب تک ان کے متعدد مجموعہ ہائے کلام زیور طباعت سے آراستہ ہوکر منظر عام پر آچکے ہیں۔ خصوصا انہوں نے اردو اور فارسی میں صنف رباعی کو جس قرینے اور سلیقے سے برتا ہے اس کی نظیر آج کے دور میں مشکل ہی سے ملے گی۔ رباعی اپنی فنی قیود ، خاص بحور اور دوسرے التزامات کے سبب ایک مشکل ترین صنف سمجھی جاتی ہے ، یہی وجہ ہے کہ ہر شاعر اس صنف پر ہاتھ ڈالتے ہوئے ڈرتا ہے۔ نصیر الدین نصیر نے جو ریاضت رباعی کے میدان میں کی ، اس نے ان کے تضمین کے فن کو ان کے لیے آسان بنا دیا۔ جیسے رباعی کے چار مصرعوں میں بتدریج ایک ارتقائی کیفیت اس کے حسن کا باعث ہوتی ہے ، یہی صورت حال ان کی تضمین کے پر بند مٰیں*موجود ہے۔ نصیر الدین نصیر کی عربی اور فارسی کی بنیاد حد درجہ مستحکم ہے۔ اسی لیے وہ تضمین کرتے ہوئے ، ان مشکل مقامات سے با آسانی گزر جاتے ہیں جہاں دوسرے شاعروں کے پاوں لڑکھڑا جائیں۔

صوم و صلوۃ ہیں کہ سجود و رکوع ہیں
ہر چند شرع میں یہ اہم الوقوع ہیں
حبِ نبی نہ ہو تو یہ سب لا نفوع ہیں
ثابت ہوا کہ جملہ فرائض فروع ہیں
اصل الاصول بندگی اس تاجور کی ہے
تضمین کے لغوی معانی پر اگر غور کرلیا جائے تو اس سے یہ نتیجہ بھی نکلتا ہے کہ جس شاعر کا کلام ، تضمین کے لیے منتخب کیا جاتا ہے ، دراصل ایک طرف تو اس خاص شاعر سے یہ اظہار عقیدت کی صورت ہے تو دوسری طرف تضمین کرنے والے شاعر کی اثر پذیر طبیعت کا ثبوت بھی ہے۔ نصیر میاں نے بھی ، حضرت مولانا احمد رضا خاں رحمۃ اللہ علیہ کی نعت ، منقبت اور سلام کا انتخاب ، تضمین کے لیے کر کے ایک طرح ان کو خراج عقیدت پیش کیا ہے ورنہ وہ یہ کبھی نہ کہتے

اہل نظر میں تیرا ذہن رسا مسلم
دنیائے علم و فن میں تیری جا مسلم
نزد نصیر تیری طرزِ نوا مسلم
ملک سخن کی شاہی تجھ کو رضا مسلم
جس سمت آگئے ہو سکے بٹھا دئیے ہیں

پیر سید نصیر الدین نصیر کو نعتیہ تضمین کرتے ہوئے ، دوسرے عام شاعروں کے مقابلہ میں ایک یہ فضیلت بھی حاصل ہے کہ وہ اعلی حضرت سید پیر مہر علی شاہ صاحب گولڑوہ قدس سرہ کے خانوادہ سے ہیں ، یوں وہ دوسرے نعت گو شعراء کے مقابلہ میں حمد و ثنا کی اسی مقدس فضا میں سانس لے رہے ہیں ، جو حضرت فاضل بریلوی کو میسر تھی۔
شعر کے معانی و مطالب کے پہلو بہ پہلو ، اس کا دوسرا جزو زبان و بیان سے تعلق رکھتا ہے۔ حضرت احمد رضا خان ، اردو زبان کے ایک ایسے مرکز U-P سے متعلق تھے ، جو شعر میں حسن محاورہ اور لطف روزمرہ کا قائل تھا۔ اسی لیے ان کی نعتوں میں زبان و بیان کی ایک خاص چاشنی ملتی ہے۔ پیر سید نصیر الدین نصیر بھی اپنی ان تضمینوں میں ، اصل نعت کی فضا کو برقرار رکھنے کے لیے ، اسی زبان و بیان سے کام لیتے ہیں ، جو اس کا اولین تقاضا تھی۔ حیرت اس بات پر ہوتی ہے کہ اردو زبان و ادب سے کے مراکز سے دور ، گولڑہ شریف میں رہ کر انہوں نے اس زبان کو کیسے سیکھا ،ان کا ایک اور بند دیکھیے:

سر پر سجا کے حمد و ثنا کی کی گھڑولیاں
وہ عاشقوں کی بھیڑ ، وہ لہجے ، وہ بولیاں
جالی کے سامنے وہ فقیروں کی ٹولیاں
لب وا ہیں ، آنکھیں بند ہیں ، پھیلی ہیں جھولیاں
کتنے مزے کی کی بھیک ، ترے پاک در کی ہے
امید واثق ہے کہ یہ نعتیہ تضمین ، صاحبان دل کے حلقوں میں ذوق و شوق سے پڑھی جائیں گی اور اپنی روحانیت اور اعلی شعری خصوصیات کے سبب دربارِ بقا میں جگہ پائیں گی
 
پیر نصیر الدین نصیر گولڑوی رحمۃ اللہ علیہ کی زمین میں ایک نعت۔
کیسے اثر کریں گے ستم کے بلا کے ہاتھ
جب مجھ کو چھو چکے ہیں مرے مصطفٰی کے ہاتھ

مجھ کو مری طلب سے زیادہ عطا کیا
کھینچے کبھی نہ آپ نے لطف و عطا کے ہاتھ

قاصد کوئی بھی مجھ کو میسر نہیں حضور
پیغام اب کے بھیج رہا ہوں ہوا کے ہاتھ

مجھ کو بلائیے در_ اقدس پہ یا نبی
بیٹھا ہوں میں تو دونوں جہاں سے اٹھا کے ہاتھ

اس شیر_ کردگار کی کیا شان میں لکھوں?
پرچم اٹھائے رکھا ہے جس نے کٹا کے ہاتھ

ہو مجھ کو بھی نصیب مدینے کی حاضری
سائل تک اس سے پہلے نہ پہنچیں قضا کے ہاتھ
 
Top