Déjà vu کیا ہے؟

فرخ منظور

لائبریرین
کسی واقعہ کا احساس ہونا کہ ایسا پہلے بھی ہو چکا Déjà vu کہلاتا ہے۔
میرے خیال میں سب ایسی چیزیں جو فی الوقت یا اس وقت جبکہ یہ وقوع پذیر ہورہی ہوتی ہیں، چونکہ اس وقت ان کی کوئی عقلی توجیہہ بیان نہیں کی جا سکتی اسی لئے ان واقعات کو پراسرار یا فوق الفطرت قرار دے دیا جاتا ہے۔ اصل میں انسانی ذہن بہت پیچیدہ ہے اور اسے سمجھنے کے لئے ابھی بہت سی تحقیق کی ضرورت ہے۔ جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ کچھ ایسا واقعہ وقوع پذیر ہوا جو آپ کو لگا کہ پہلے بھی ہوچکا ہے۔ میرا خیال ہے اسے سمجھنا اتنا مشکل نہیں ہے۔ پہلی بات تو یہ کہ یہ ایسے واقعات ہوتے ہیں جو کہ روزمرہ زندگی کا حصہ ہوتے ہیں۔ اور روز مرہ زندگی میں آپ روز ہی ایک جیسی باتیں دہراتے ہیں۔ جیسے روز ہی آپ برش کرتے ہیں، وضور کرتے ہیں۔ نہاتے ہیں، مہمان آتے ہیں، وغیرہ وغیرہ۔ جیسے کسی کال بیل کا بجنا۔ دن میں شاید کئی بار آپ کال بیل کی آواز سنتے ہوں گے۔ یا کسی کو اچانک یہ احساس ہونا کہ اس کی کزن باہر بیٹھی ہوگی۔ وہ کزن یقینا ان سے اکثر ملتی ہوگی۔ اسی کو دوسری زبان میں دل سے دل کی راہ والی اصطلاح میں بیان کیا جاتا ہے۔ یہ سارے واقعات ہماری روز مرہ کا حصہ ہیں چونکہ اسطرح کے واقعات روزانہ ہی دہرائے جاتے ہیں اس لئے کچھ عجب نہیں کہ آپ کو یہ احساس ہو کہ یہ پہلے بھی ہوچکا ہے۔ ایسے واقعات کا مشاہدہ زیادہ تر خواتین کو ہوتا ہے ۔۔ کیونکہ خواتین زیادہ receptive ہوتی ہیں۔ یعنی ان میں روزمرہ کے واقعات کو جذب کرنے کی صلاحیت اور خفیف سے خفیف تر اشارہ اور بات سمجھنے کی صلاحیت زیادہ ہوتی ہے۔ اس لئے خواتین کو اس قسم کے تجربات زیادہ ہوتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں خواتین کی چھٹی حس زیادہ بہتر ہوتی ہے۔ آئیے اب تھوڑا سا چھٹی حس کو سمجھتے ہیں کہ چھٹی حس کیا ہوتی ہے۔
انسانی ذہن کے پاس تین طرح کا data ہوتا ہے۔ جسے فرائیڈ نے شعور، لاشعور اور تحت الشعور کا نام دیا ہے ۔ اب ہم یہ سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہ تینوں data کا منبع یعنی origin کیا ہے۔
انسان جب ماں کے پیٹ میں ہوتا ہے اسی وقت سے اسکا شعور اور لاشعور بننا شروع ہوجاتا ہے۔ وہ آوازیں سنتا ہے اور یہی سے اسکے لاشعور کے بننے کی بنیاد شروع ہوتی ہے۔ پھر روزمرہ کے کئی ایسے واقعات جو ہمیں یاد نہیں رہتے ہمارے شعور سے نکل کر لاشعور میں چلے جاتے ہیں۔ ہم جب سوتے ہیں تب بھی ہمیں جو خواب دکھائی دیتے ہیں اور جو آوازیں سنائی دیتی ہیں وہ بھی لاشعور کے data میں محفوظ ہوتی چلی جاتی ہیں۔ اس طرح کوئی ایسی بات جو ہم بھول چکے ہوتے ہیں اور ہمارے لاشعور میں جا چکی ہوتی ہیں اگر دوبارہ ظہور پذیر ہوں تو یوں لگتا ہے جیسے یہ پہلے ہوچکا ہے۔ کئی ایسے واقعات یا چیزیں جسے ہم سرسری طور پر بھی دیکھتے ہیں وہ بھی لاشعور میں محفوظ ہو جاتی ہیں۔ یعنی انسانی ذہن ہر وقت data اکٹھا کرتا رہتا ہے شعوری طور پر بھی اور لاشعوری طور پر بھی۔ اس لاشعور کے data سے ملتی جلتی situation جب بھی ظہور پذیر ہوگی آپ کو ایسا لگے گا کہ یہ سب پہلے ہوچکا ہے۔

تحت الشعور وہ شعور ہے جو ہمیں وراثتاً منتقل ہوتا ہے۔ اور اس کا data بہت زیادہ ہوتا ہے لیکن ہمیں اس کا شعوری احساس نہیں ہوتا۔ مثلاً اکثر لوگ آپ کو کہتے ہوں گے کہ تمہاری عادتیں بالکل اپنے باپ، چچا یا دادا وغیرہ سے ملتی ہیں۔ یا لڑکیوں کو کہا جاتا ہے کہ تمہاری عادتیں اپنی ماں، خالہ یا نانی وغیرہ جیسی ہیں۔ ہمیں اپنی عادتوں کی مشابہت کا احساس نہیں ہوتا لیکن خارجی طور پر دیکھنے والے کو فوراً احساس ہوجاتا ہے ۔ اس کا مطلب ہے کہ ہم موروثی بہت سا data inherit کرتے ہیں۔ جس کا ہمیں شعوری احساس نہیں ہوتا۔

ایک اور لاشعور بھی ہوتا ہے جسے اجتماعی لاشعور کہا جاتا ہے۔ یعنی اجتماعی طور پر سب انسان ایک ہی طرح سوچ رہے ہوتے ہیں۔ مثلاً قبل از مسیح میں جب کمیونیکیشن نہ ہونے کے برابر تھی، پوری دنیا کے فلاسفر ایک ہی طرح سوچ رہے ہوتے تھے۔ اسے اجتماعی لاشعور کہا جاتا ہے۔

تمام قارئین سے درخواست ہے کہ اپنے اپنے تجربات یا خیالات ضرور شئیر کریں۔ بہت شکریہ!
 

محمد وارث

لائبریرین
مجھے بہت پہلے کبھی احساس ہوتا تھا کہ یہ واقعہ پہلے بھی ہو چکا ہے، یا یہ لگتا تھا کہ میں اسکے متعلق خواب دیکھ چکا ہوں یا یہ کہ میں نے اس واقعے کے متعلق بالکل ایسا ہی سوچا تھا اور ساتھ ہی یہ خیال آتا کہ اوہ میں تو کوئی "پہنچی ہوئی شے" بنتا جا رہا ہوں لیکن غالب کا مصرع بھی ساتھ ہی یاد آ جاتا تھا، 'تجھے ہم ولی سمجھتے جو نہ بادہ خوار ہوتا' :)
 

فرخ منظور

لائبریرین
مجھے بہت پہلے کبھی احساس ہوتا تھا کہ یہ واقعہ پہلے بھی ہو چکا ہے، یا یہ لگتا تھا کہ میں اسکے متعلق خواب دیکھ چکا ہوں یا یہ کہ میں نے اس واقعے کے متعلق بالکل ایسا ہی سوچا تھا اور ساتھ ہی یہ خیال آتا کہ اوہ میں تو کوئی "پہنچی ہوئی شے" بنتا جا رہا ہوں لیکن غالب کا مصرع بھی ساتھ ہی یاد آ جاتا تھا، 'تجھے ہم ولی سمجھتے جو نہ بادہ خوار ہوتا' :)

:) شکریہ وارث صاحب۔ مجھے بھی یہ احساس ہوتا تھا لیکن جب میں نے ان واقعات کی عقلی توجیہہ کرنا شروع کی تب سے ایسا نہیں‌ ہوتا۔ اور محترم اس تحریر کا کوئی تنقیدی جائزہ بھی پیش کریں۔
 
بھئ میں تو اس توقع میں یہاں آیا تھا کہ کچھ Dejavu فائل فارمیٹ کی بات ہو گی جو پی ڈی ایف سے ملتی جلتی چیز ہے۔ پر یہاں تو جہان ہی دوسرا ہے۔
 

محمدصابر

محفلین
میں تو اکثر اس کا مشاہدہ کرتا ہوں۔ لیکن اپنا وہم قرار دے کر مسترد کر دیتا ہوں۔
لیکن خوابوں کے بارے میں ایسا نہیں ہے۔ کچھ ایسے خواب ہیں جو ہو بہو بعد میں وقوع پذیر ہوئے ہیں اوراس بارے میں مجھے کوئی شبہ نہیں ہے۔
 

ماوراء

محفلین
مجھے تو اکثر ہی لگتا ہے کہ یہ لمحہ جو ابھی آیا ہے۔۔یہ پہلے بھی آ چکا ہے۔۔اور ایسی کیفیت پہلے بھی رہ چکی ہے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
:) شکریہ وارث صاحب۔ مجھے بھی یہ احساس ہوتا تھا لیکن جب میں نے ان واقعات کی عقلی توجیہہ کرنا شروع کی تب سے ایسا نہیں‌ ہوتا۔ اور محترم اس تحریر کا کوئی تنقیدی جائزہ بھی پیش کریں۔

سوائے اس کے کہ یہ لکھوں کہ بہت اچھا موضوع اور تحریر ہے اور کچھ نہیں لکھ سکتا کہ نفسیات میرا موضوع ایک عرصے سے نہیں رہا :)
 

arifkarim

معطل
فلم میٹرکس میں ڈیجا وو کا ایک نقشہ کھینچا گیا تھا۔ بعض اووقات تسلسل کیساتھ پیش آنے والے واقعات آپس میں باہم مشابہت کی وجہ سے ہمیں یہ تاثر دیتے ہیں کہ ایسا پہلے بھی ہو چکا ہے۔
 

تعبیر

محفلین
:eek: آپ اور یہاں وہ بھی ایک عدد ٹاپک کے ساتھ ۔یہ تو کمال ہی ہو گیا :)

زبردست اچھا ٹاپک ہے

ایسا عموماً تب ہوتا ہے جب ہم خواب میں وہ جگہ دیکھتے ہیں یا ہمارے ساتھ خواب مین پہلے سے کچھ ہو چکا ہوتا ہے اسے ہندو دوسرا جنم سمجھتے اور کہتے ہیں

میں نے یہ بھی پڑھا ہے کہ سوتے وقت ہماری روحیں گھومتی پھرتی ہین تو وہ جس جس جگہ جاتی ہیں اور جس جس سے ملتی ہیں جب ہم جاگنے پر وہ دیکھتے ہیں یا ان میں سے کسی سے ملتے ہیں تو ہمیں لگتا ہے کہ یہ سب ہمارے ساتھ پہلے بھی ہوا ہے۔
 

فرخ منظور

لائبریرین
:eek: آپ اور یہاں وہ بھی ایک عدد ٹاپک کے ساتھ ۔یہ تو کمال ہی ہو گیا :)

زبردست اچھا ٹاپک ہے

ایسا عموماً تب ہوتا ہے جب ہم خواب میں وہ جگہ دیکھتے ہیں یا ہمارے ساتھ خواب مین پہلے سے کچھ ہو چکا ہوتا ہے اسے ہندو دوسرا جنم سمجھتے اور کہتے ہیں

میں نے یہ بھی پڑھا ہے کہ سوتے وقت ہماری روحیں گھومتی پھرتی ہین تو وہ جس جس جگہ جاتی ہیں اور جس جس سے ملتی ہیں جب ہم جاگنے پر وہ دیکھتے ہیں یا ان میں سے کسی سے ملتے ہیں تو ہمیں لگتا ہے کہ یہ سب ہمارے ساتھ پہلے بھی ہوا ہے۔
بہت شکریہ تعبیر صاحبہ! لیکن سوتے وقت ہماری روحیں کہیں نہیں جاتی جہاں تک کسی جگہ پڑھنے کا تعلق ہے تو بہت سی کتابیں خرافات سے بھری پڑی ہیں۔ :)
 
دی گئی معلومات قابل قدر ہیں Deja Vu کے بارے میں ایک عرصہ تک میری یہ ذاتی رائے رہی کہ جب کوئی واقعہ انسان کے ساتھ گزرتا ہے یا کسی کیفیت سے گزرتا ہے تو ایک خاص تاثر اس واقعے کے بارے میں انسان کے لاشعور میں محفوظ ہوجاتا ہے۔ پھر جب کچھ عرصے کے بعد کوئی اور واقعہ انسان کے ساتھ گزرے جس کا تاثر بھی پہلے جیسے تاثر جیسا تھا تو انسان کو یوں لگتا ہے کہ یہی واقعہ میرے ساتھ پہلے بھی گزرا یا یہ واقعہ میں نے پہلے کبھی خواب میں دیکھا ہے۔
پتہ نہیں میری یہ رائے کس حد تک درست ہے شائد حاتم راجپوت بھائی اسکے بارے میں روشنی ڈال سکیں۔:)
 
Top