12 مئی کو شوال کا چاند نظر آ سکتا تھا یا نہیں؟ معاملہ مزید الجھ گیا

انتہا

محفلین
12 مئی کو شوال کا چاند نظر آ سکتا تھا یا نہیں؟ معاملہ مزید الجھ گیا

انیبہ ضمیر شاہ

time.svg
14 مئی ، 2021



253603_6465198_updates.jpg

فوٹو: فائل

شوال کے چاند پر تنازع اور بحث کا سلسلہ تاحال نہ تھم سکا اور شوال کے چاند کے حوالے سے اب ایک نیا دعویٰ سامنے آیا ہے۔

ڈائریکٹر اسپیس سائنس اینڈ ٹیکنالوجی جامعہ کراچی پروفیسر ڈاکٹر جاوید اقبال کا کہنا ہے کہ علم فلکیات کے تحت 12مئی کو چاند نظر آنے کا امکان نہیں تھا، ٹیلی اسکوپ سے بھی چاند دیکھنا ناممکن تھا۔



یہ بھی پڑھیں


دوسری جانب وزیراعظم کے نمائندہ خصوصی برائے مذہبی ہم آہنگی حافظ طاہر اشرفی نے جمعرات کی شام کے چاند کی تصویر جاری کرتے ہوئے کہا تھا کہ رويت ہلال كميٹی كا فيصلہ درست تھا، روزے كی قضا كی ضرورت ہے اور نہ ہی فيصلہ غلط تھا۔

خیال رہے کہ مرکزی رویت ہلال کمیٹی کی جانب سے 12 مئی کی رات ساڑھے 11 بجے شوال کا چاند نظر آنے کا اعلان کیا گیا جس کے بعد سے اس معاملے پر ایک نہ رکنے والی بحث کا سلسلہ شروع ہے۔

سابق چیئرمین رویت ہلال کمیٹی مفتی منیب الرحمان نے اپنے ایک بیان میں قوم سے ایک روزے کی قضا اور ایک دن کا اعتکاف رکھنے کی اپیل کی تھی۔
12 مئی کو شوال کا چاند نظر آ سکتا تھا یا نہیں؟ معاملہ مزید الجھ گیا
 

حسرت جاوید

محفلین
محسوس ہوتا ہے ہماری قوم کے پاس کوئی تعمیری اور نتیجہ خیز کام نہیں ہے کرنے کو جو اس طرح کی غیر ضروری ابحاث میں خود کو مشغول رکھتی ہے۔ آج جمعہ کے دن بھی مسجد میں یہی موضوع زیرِ بحث رہا۔
 

انتہا

محفلین
ترجیحات کا فرق ہمیشہ ہوتا ہے۔ ممکن ہے کہ جو ہمارے نزدیک غیر ضروری ہے وہ دیگر کے نزدیک انتہائی ضروری اور نازک معاملہ ہو۔
 

زیک

مسافر
بنیادی حقیقت یہ ہے کہ لوگوں کی گواہی کا اس سلسلے میں ریکارڈ بہت خراب ہے۔ لیکن ہم اسی پر اصرار کرتے ہیں
 

حسرت جاوید

محفلین
ترجیحات کا فرق ہمیشہ ہوتا ہے۔ ممکن ہے کہ جو ہمارے نزدیک غیر ضروری ہے وہ دیگر کے نزدیک انتہائی ضروری اور نازک معاملہ ہو۔
اس معاملے کی 'نازکی' ہماری سمجھ سے بالاتر ہے۔ کیا رب اسی انتظار میں ہے کہ ان سے ایک فیصلہ 'غلط' ہو، یہ ایک روزہ نہ رکھیں اور میں ان کے بقیہ انتیس روزے اور نیت پسِ پشت ڈال کر جہنم رسید کر دوں؟ انسانی زندگی میں کیا گیا ہر فیصلہ لازم نہیں کہ صحیح ہو، البتہ کوشش مخلص ہونی چاہیے اور یہی حقیقت انسان کو خدا کی بجائے انسان بناتی ہے۔ اس رو سے چاند دیکھنے کے طریقہ کار پر تو بحث ہو سکتی ہے کہ آیا جو طریقہ ہم نے اپنا رکھا ہے وہ صحیح ہے یا غلط تاکہ مستقبل میں اس طرح کے فیصلوں سے بچا جا سکے۔
 
آخری تدوین:

سید رافع

محفلین
کمیٹی کے چیرمین کو حکومت نے چاند کی رویت کے لیے 'قاضی' مقرر کیا ہے۔ چنانچہ قاضی اگر شواہد کو دیکھتے ہوئے غلط فیصلہ بھی کر دے تو نافذ ہو جاتا ہے۔

کمیٹی میں بریلوی مسلک کے تینوں علماء نے اختلافی نوٹ لکھا ہے۔

مولانا کوکب اور دیگر بریلوی علماء ایک روزے کی قضا اور ایک دن مسجد میں اعتکاف کی قضا کریں گے۔
 

جاسم محمد

محفلین
محسوس ہوتا ہے ہماری قوم کے پاس کوئی تعمیری اور نتیجہ خیز کام نہیں ہے کرنے کو جو اس طرح کی غیر ضروری ابحاث میں خود کو مشغول رکھتی ہے۔ آج جمعہ کے دن بھی مسجد میں یہی موضوع زیرِ بحث رہا۔
یہ پاکستان کا قومی المیہ ہے اور شروع سے ہے۔ پہلے جان بوجھ کر غلط فیصلے کرو۔ اور پھر بعد میں اس پر روتے پٹتے رہو :)
 

جاسم محمد

محفلین
اس رو سے چاند دیکھنے کے طریقہ کار پر تو بحث ہو سکتی ہے کہ آیا جو طریقہ ہم نے اپنا رکھا ہے وہ صحیح ہے یا غلط تاکہ مستقبل میں اس طرح کے فیصلوں سے بچا جا سکے۔
رائج طریقہ درست ہوتا تو ہر سال عید پر اس طرح کے ڈرامے ہوتے؟ قوم اگر ریاستی رویت ہلال کمیٹی کو عید کا چاند دیکھنے کا اختیار دے چکی ہے تو پھر یہ رولا بہت پہلے ہی ختم ہو جانا چاہیے تھا۔ مگر اس سے مسائل مزید بڑھ گئے ہیں کیونکہ قبائلی اس کے فیصلے تسلیم ہی نہیں کرتے۔ اور کل وزیر اعظم آزاد کشمیر نے بھی اعلان کر دیا کہ وہ اپنی الگ رویت ہلال کمیٹی بنا رہے ہیں۔
اس کا حل کیا ہے؟ یہی کہ ریاست اپنے شہریوں کے مذہبی معاملات میں ٹانگ اڑانا بند کرے۔ عید کی تین چھٹیاں دے جس میں لوگ اپنے اپنے علاقوں کے مطابق چاند دیکھ کر عید کر لیں۔ اگر ایسا نہیں ہو سکتا تو پھر بھگتیں جو ہو رہا ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
کمیٹی کے چیرمین کو حکومت نے چاند کی رویت کے لیے 'قاضی' مقرر کیا ہے۔ چنانچہ قاضی اگر شواہد کو دیکھتے ہوئے غلط فیصلہ بھی کر دے تو نافذ ہو جاتا ہے۔
یہی تو المیہ ہے کہ کمیٹی کا غلط فیصلہ بھی نافذ ہو جاتا ہے۔ جو بعد میں لا یعنی بحث کہ ایسا کیوں ہوا، کس نے کروایا میں تبدیل ہو جاتا ہے۔
 

سید رافع

محفلین
یہی تو المیہ ہے کہ کمیٹی کا غلط فیصلہ بھی نافذ ہو جاتا ہے۔ جو بعد میں لا یعنی بحث کہ ایسا کیوں ہوا، کس نے کروایا میں تبدیل ہو جاتا ہے۔

بہرحال اسلام میں اس غلط فیصلے کا آسان حل ہے۔ جن کو بحث میں دلچسپی ہے اس میں انکا مفاد ہے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
اس معاملے کی 'نازکی' ہماری سمجھ سے بالاتر ہے۔ کیا رب اسی انتظار میں ہے کہ ان سے ایک فیصلہ 'غلط' ہو، یہ ایک روزہ نہ رکھیں اور میں ان کے بقیہ انتیس روزے اور نیت پسِ پشت ڈال کر جہنم رسید کر دوں؟ انسانی زندگی میں کیا گیا ہر فیصلہ لازم نہیں کہ صحیح ہو، البتہ کوشش مخلص ہونی چاہیے اور یہی حقیقت انسان کو خدا کی بجائے انسان بناتی ہے۔ اس رو سے چاند دیکھنے کے طریقہ کار پر تو بحث ہو سکتی ہے کہ آیا جو طریقہ ہم نے اپنا رکھا ہے وہ صحیح ہے یا غلط تاکہ مستقبل میں اس طرح کے فیصلوں سے بچا جا سکے۔
اس "نازکی" کی وجہ یہ ہے کہ یہ مسئلہ صرف رویت ہلال تک محدود نہیں ہے بلکہ اس کے کئی ایک پہلو ہیں:

اول تو یہ کہ یہ ایک سیاسی مسئلہ ہے، چونکہ رویت ہلال کمیٹی اور بالخصوص اس کا چیئرمین حکومت مقرر کرتی ہے سو ہر اپوزیشن پر فرض ہے کہ ہر سال اس مسئلے پر تنقید کرے۔ ایک چھوٹی سی مثال ہماری اس محفل ہی کی، ایک بزعمِ خود سیاسی علامہ صاحب، وزیرستان میں اٹھائیس روزوں کی عید پر کمال حسن ظن رکھتے ہوئے فرما رہے تھے کہ ہمیں شہادتیں دینے والوں کی نیت پر شک نہیں کرنا چاہیئے، اور انکی نیتیں اللہ ہی جانتا ہے اور یہ کہ اگر انہوں نے غلط شہادت دی تو روزِ حشر اللہ کو جوا ب دے ہیں، ہمیں کیا۔ بہت خوب بھئی! لیکن اگلے ہی دن سارا حسنِ ظن طاق پر رکھ کر بھونڈے حسنِ زن پر اتر آئے اور فرمانے لگے کہ عید پنکی پیرنی کے حکم پر ہوئی ہے، گویا یہ پیرنی کے مرید خاص ہیں! مطلب یہ کہ حکومت پر جگت بازی اور تنقید کرنی ہے چاہے اپنی دلیلیں اپنے ہی بلیغ فرمودات سے باطل ہو جائیں!

دوسرا یہ کہ اس کا کوئی سائنسی حل بھی ہمارے لوگوں کو قبول نہیں ہے، پچھلے دو دنوں میں سب سے بڑی دلیل یہ دی گئی ہے کہ سائنس کے مطابق چاند نظر آنے کی کوئی صورت ہی نہیں تھی۔ دلیل میں وزن ہے، لیکن جب یہی دلیل پچھلے دو تین سال سے ایک حکومتی وزیر دے رہا تھا کہ سائنس کو بنیاد بنا کر فیصلہ کر لیتے ہیں تو کسی نے نہ اسکی تائید کی نہ اس کو سنجیدگی سے لیا۔ اس کی یہ وجہ بھی ہو سکتی ہے کہ حکومتی وزیر بھی نرے مسخرے ہیں اور اگر وہ کوئی سنجیدہ بات بھی کریں تو لوگ سنجیدگی سے لیتے نہیں، لیکن کسی معتبر شخص سے یہ اعلان کروا کر دیکھ لیں، ہماری عوام الناس اور ان کے امام پھر بھی نہیں مانیں گے۔

اور اگر شرعی شہادتوں پر ہی اعلان کرنا ہے تو پھر کیا پشاور میں عاقل، بالغ، صالح مسلمان نہیں رہتے کہ جن کی شرعی شہادت قبول نہ کی جائے؟ یا وہ علاقے پاکستان کا حصہ نہیں ہیں؟ لیکن ہر سال یہی ہوتا ہے کہ پشاور میں دو عیدیں ہوتی ہیں۔

مجھے بھی کئی دہائیاں ہو گئیں یہ "رولا" دیکھتے ہوئے، اور مجھے یہی لگتا ہے کہ ہماری قوم سیاسی اور مذہبی طور پر اس حد تک پولیرائزیشن کا شکار ہو چکی ہے کہ یہ مسئلہ لاینحل ہی رہے گا سو ہر سال حکومتی کمیٹی جو فیصلہ کرےاس کو مان لینا چاہیئے، جس کا دل نہیں مانتا وہ شور شرابہ کرنے کی بجائے چپکے سے قضا کرے یا تیسویں روزے والے دن عید کرے کیونکہ یہ ساری عبادت اللہ کے لیے ہے نا کہ شور شرابے اور لوگوں کے لیے!
 

زیک

مسافر
آسان حل ہیں:
  1. فکسڈ کیلنڈر
  2. کیلکولیشن سے فیصلہ کیا جائے
  3. چاند دیکھنے کی ذمہ داری ملک کی تمام رصدگاہوں کو دے دی جائے
  4. عام گواہی کو صرف اس صورت مانا جائے جب وہ سائنس کی رو سے ممکن ہو
ان میں سے کوئی بھی طریقہ چلے گا لیکن اس پر خواص و عوام کا اتفاق ضروری ہے۔ مسئلہ چاند دیکھنے کا نہیں بلکہ شدید اختلاف کا ہے۔

سالہا سال پہلے یہاں اٹلانٹا میں عید مختلف مساجد میں الگ الک دن ہوتی تھی کہ کوئی چاند دیکھتا تھا کوئی سعودیہ یا کسی اور ملک کو فالو کرتا تھا اور کوئی کیلنڈر اور کیلکولیشن۔ چھوٹی کمیونٹی ہونے کی وجہ سے یہ بڑا مسئلہ تھا۔ اکثر مساجد نے آخر مل کر فیصلہ کیا کہ کسی بھی طریقے سے ہو عید اکٹھی کی جائے تاکہ کمیونٹی اکٹھی ہو سکے۔
 

حسرت جاوید

محفلین
آخری تدوین:

علی وقار

محفلین
مرکزی رویت ہلال کمیٹی کا فیصلہ صحیح ہو یا غلط ہو، اُسی پر ہی چلنا چاہیے مگر شہادتوں کے پرکھنے کا کوئی معیاری ضابطہ تشکیل دیا جانا چاہیے۔ اس کمیٹی کے نتائج تسلیم نہ کرنے والوں کا کوئی علاج نہیں۔ وہ الگ سے عید کرتے پھریں۔ ان کی جانب سے ڈیڑھ اینٹ کی الگ مسجد بنانے سے کوئی قیامت آئی ہے اور نہ آئے گی۔
 

انتہا

محفلین
جب تک گھڑی ایجاد نہیں ہوئی تھی تو مسلمان یہی سورج و چاند کے حساب سے نمازوں کے اوقات کا تعین کرتے تھے۔ پھر جب گھڑی ایجاد ہوئی اور سورج اور چاند کے روزانہ شروق و غروب کے اوقات کی دائمی جنتریاں قائم ہو گئیں اسی حساب سے نمازوں کے اوقات تبدیل ہونے لگے۔ یہی نہیں روزے بھی مسلمان اسی صبح صادق کے وقت اور غروب کے وقت کے لیے ان ہی گھڑی گھنٹوں پر بھروسہ کرنے لگے۔
جب نماز روزوں کے لیے اس حد تک چلے گئے اور اب کوئی مولوی جنتری کے بجائے اوقات نماز یا سحر و افطار کے اوقات کا خود اندازہ کرنے کی کوشش نہیں کرتا تو پھر چاند دیکھنے کے معاملے میں کیوں ابھی تک قدامت پسندی ہے؟
رفتار زمانہ کی تیزی نے جب آج یہ دن بھی دکھلا دیا کہ اب چاند کی عمر کی بھی کافی حد تک درست پیمائش ہو رہی ہے تو اب تو یہ سوائے ضد کے اور کیا ہو سکتا ہے؟
خود خدا نے بار بار اپنے کلام میں دن و رات کے ادلنے بدلنے اور سورج و چاند کی منزلوں میں عقل والوں کے لیے نشانیاں بتا کر متوجہ کیا ہے۔
اب غور و فکر پر یہ نشانیاں واضح ہو رہی ہیں تو ان سے کیوں فائدہ نہیں اٹھایا جا رہا؟
 

جاسم محمد

محفلین
اب کوئی مولوی جنتری کے بجائے اوقات نماز یا سحر و افطار کے اوقات کا خود اندازہ کرنے کی کوشش نہیں کرتا تو پھر چاند دیکھنے کے معاملے میں کیوں ابھی تک قدامت پسندی ہے؟
مولوی نے ہر جگہ سے بیروزگار ہو جانے کے بعد اپنی دکان بھی تو لگانی ہے۔ :)
 

انتہا

محفلین
Eid-Calendar.jpg

اس بارے میں کیا خیال ہے؟
پورے 100 سال کا حساب لگایا گیا ہے۔ لگتا ہے پشاور والوں کے پاس ایسا ہی کوئی source ہے۔
اپنے طور پر source ڈھونڈنے کی پوری کوشش ہے۔ ابھی تک کامیابی نہیں ہوئی ہے۔
 
آخری تدوین:
Top