کِیا میں نے ہے شور گر اس لڑی میں​
تو وہ تھا فقط ایک جھوٹا فسانہ​
پلٹ کر جھپٹنا، جھپٹ کر پلٹنا
لہو گرم رکھنے کا تھا اک بہانہ
نہ تھی کچھ غرض کیا ہیں منطق، معانی​
مرے دل کا مقصدتھا باتیں بنانا​
اصولِ مذاق آپ کو تو ہے معلوم​
کہ کرتے نہیں اس میں سنجیدہ باتیں​
کیا ترک تھا میں نے اشعار کہنا
سمجھتا نہ تھا کوئی میری زباں کو
سمجھتا نہ تھا کوئی میرے بیاں کو
تو بس رفتہ رفتہ اسی پنج و شش میں
کیا ترک تھا میں نے اشعار کہنا
نہیں متفق مجھ سے کوئی جہاں میں
کہ جیتا نہیں ہوں میں اپنے زماں میں!
زمانے سے آگے ہوں، پیچھے ہوں کیا ہوں؟
غلط ہوں؟ صحیح ہوں؟ بھلا ہوں؟ برا ہوں؟
 
اسی کو تو کہتے ہیں "تہنید" آسی​
کتا بوں کو چھوڑو مری بات مانو​

تہنید ضروری تو نہیں جناب۔ جب ہم اصل کو برقرار رکھ سکتے ہیں تو، بلا ضرورت تبدیلی کیوں؟ بتدریج ہونے والی اور نسلوں کے عمل میں ایک زبان کا دوسری میں نفوذ اور لفظیاتی تغیر قابلِ قبول! مگر ’’لازم‘‘ نہیں!!!۔
’’فی البدیہہ‘‘ کے بارے میں جو کچھ میں نے عرض کیا ہے، میں اسی کو درست مانتا ہوں۔
 
میں کالج میں تھا سچ مگر یہ ہے بھائی​
تھا جسما وہا ں، پر یہاں میرا دل تھا​
مجھے یاد آتے رہے سارے ساتھی​
نہ ہر گز مرا دل وہاں لگ رہا تھا​
ملی جوں ہی چھٹی تو گھر کو میں بھاگا​
پہنچتے ہی کمرے میں لپ ٹاپ کھولا​
جو دیکھا تو محفل سجی کی سجی تھی​
وہی پیاری باتیں، وہی پیارے نغمے​
وہاں جا بجا یونہی بکھرے پڑے تھے​
نہ پوچھو کہ خوش کس قدر دل ہوا ہے​
مزمل بھی ہیں، یاں الف عین بھی ہیں​
یہیں ایک کونے میں عمران بھی ہیں​
اسامہ بھی بیٹھے ہیں آرام سے یاں​
 
ن

نامعلوم اول

مہمان
میں نے لغت کی بنیاد پر آپ سے اختلاف کیا، آپ نے تہنید کو سند پر ترجیح دی، سو میرا بیان ختم ہوا۔
بہت زیادہ آداب۔

سند آپ کی خوب تھی بھائی آسی​
مگر کیا کروں کوئی عالِم نہیں ہوں​
دُکھاؤں جودل آپ کا ،یہ نہ ہو گا​
میں ہوں بے ضرر شخص، ظالم نہیں ہوں​
معافی کا طالب ہوں، بخشش عطا ہو
کریں درگزر آپ تو دل رہا ہو
محمد یعقوب آسی
 
میں کالج میں تھا سچ مگر یہ ہے بھائی​
تھا جسما وہا ں، پر یہاں میرا دل تھا​
مجھے یاد آتے رہے سارے ساتھی​
نہ ہر گز مرا دل وہاں لگ رہا تھا​
ملی جوں ہی چھٹی تو گھر کو میں بھاگا​
پہنچتے ہی کمرے میں لپ ٹاپ کھولا​
جو دیکھا تو محفل سجی کی سجی تھی​
وہی پیاری باتیں، وہی پیارے نغمے​
وہاں جا بجا یونہی بکھرے پڑے تھے​
نہ پوچھو کہ خوش کس قدر دل ہوا ہے​
مزمل بھی ہیں، یاں الف عین بھی ہیں​
یہیں ایک کونے میں عمران بھی ہیں​
اسامہ بھی بیٹھے ہیں آرام سے یاں​
بہت اچھے ، اعلی ، پسندیدہ ، دلکش
یہ دل کر اٹھا پڑھ کے یہ باتیں اش اش
 
سند آپ کی خوب تھی بھائی آسی​
مگر کیا کروں کوئی عالِم نہیں ہوں​
دُکھاؤں جودل آپ کا ،یہ نہ ہو گا​
میں ہوں بے ضرر شخص، ظالم نہیں ہوں​
معافی کا طالب ہوں، بخشش عطا ہو
کریں درگزر آپ تو دل رہا ہو
مزہ آگیا اس کو پڑھ کر اے کاشف
وہ شخص بنتا ہے اللہ کا عارف
جو عجز و تواضع کی پوشاک پہنے
تکبر کے کانٹوں سے ہر دم ہو خائف
 
معذرت خواہ ہوں، صاحبو!
کھیل جاری رہے، احباب خوش رہیں۔
اپنا کیا ہے، خاموش ہوئے جاتے ہیں! بیان تو اپنا پہلے ہی ختم ہو چکا۔
اللہ حافظ۔
 
معذرت خواہ ہوں، صاحبو!
کھیل جاری رہے، احباب خوش رہیں۔
اپنا کیا ہے، خاموش ہوئے جاتے ہیں! بیان تو اپنا پہلے ہی ختم ہو چکا۔
اللہ حافظ۔
رکھے آپ کو رب حفاظت میں ہردم
سدا مسکراتے رہیں آپ بے غم
یہ باتیں یہ بحثیں تو ہوتی ہیں رہتی
جو دل میں تھا میں نے بھی وہ بات کہہ دی
 
ن

نامعلوم اول

مہمان
مزہ آگیا اس کو پڑھ کر اے کاشف
وہ شخص بنتا ہے اللہ کا عارف
جو عجز و تواضع کی پوشاک پہنے
تکبر کے کانٹوں سے ہر دم ہو خائف

تشکر، تشکر، اسامہ تشکر​
مٹایا مرے دل سے سارا تفکر​
مری خوش نصیبی تمہارا تدبر​
کہاں میرا دل اور کہاں یہ تکبر​
کہ ہے ذاتِ باری کو یہ زیب دیتا​
مجھے تو ہے بس اپنے آپے میں رہنا​
فعولُن، فعولُن، فعولُن، فعولُن​
مرے شعر سب ہیں برائے تفنّن​
خدا کے لیے کیجیے یہ تیقّن​
جو کرنا ہے سچائی کا کچھ تعیّن​
تو سوچیں کہ گر مشق ہی نہ کروں گا​
تو کیسے کبھی ایک شاعر بنوں گا​
ہوئے مجھ سے ناراض ہیں بھائی آسی
گلے پڑ گئی ہے خطا اک ذرا سی​
مری بات جو تھی بڑی خود نما سی​
گلے کا بنی طوق "جنگِ پلاسی"​
خدا کے لیے کوئی ان کو منا لے​
مری ڈوبتی کشتیِ دل بچا لے​

محمد یعقوب آسی
 
کسی سے میں ناراض کاہے کو ہوں گا
جو ہوں گا بھی تو کیا کسی سے کہوں گا
مری عمر بھر سے یہ عادت بنی ہے
جہاں بھی کوئی بزمِ یاراں سجی ہے
کبھی میں نے خود کو ابھارا نہیں ہے
ابھاروں بھی کیا اس کا یارا نہیں ہے
مرے دوست گرچہ مکرم ہیں مجھ کو
اصول اور ضوابط مقدم ہیں مجھ کو
رعایت رعایت ہے، بنیاد کب ہے
اصولوں سے بڑھ کر نہیں ہے کوئی شے
اصولوں سے کوئی جو منہ موڑتا ہے
نہ جانے وہ کتنوں کے دل توڑتا ہے
رہی بات ’’میں یہ ہوں‘‘، بے کار ہے یہ
رگِ زیست کے حق میں تلوار ہے یہ
زباں تو زبان ہے کوئی جیسے بولے
کوئی جس طرح اپنے بولے کو تولے
جو وُوں بولنا ہے تو چُپکے بھلے ہم
’’فقیرانہ آئے صدا کر چلے‘‘ ہم
۔۔۔۔۔۔

نثر:
میرے دل میں کسی دوست کے بارے میں کوئی خار نہیں ہے، خاطر جمع رکھئے۔
 
ن

نامعلوم اول

مہمان
کسی سے میں ناراض کاہے کو ہوں گا
جو ہوں گا بھی تو کیا کسی سے کہوں گا--- الخ۔
۔۔۔ ۔۔۔
نثر:
میرے دل میں کسی دوست کے بارے میں کوئی خار نہیں ہے، خاطر جمع رکھئے۔

جسے تختہءِ مشق سمجھا تھا کامل
خبر کیا تھی نکلے گا دل اک سخی کا​
نہ اب پھر کبھی بات چھوٹی کروں گا​
کہ مجھ کو پتا ہے مقام آدمی کا​
کہا جو بھی میں نے زراہِ تفنّن​
پشیماں ہوں اس پر پشیماں رہوں گا​
خدا حافظ اے بزمِ خوش اب چلا میں​
نہ ایسی خطا پھر دوبارہ کروں گا​
 
Top