خرم شہزاد خرم

لائبریرین
فعو لن ہے قصہ ،فعو لن کہانی
مجھےیاد آئی ہیں باتیں پُرانی
کبھی شاعری کا جنوں تھا ہمیں بھی
یہ قصہ سنائیں گے اپنی زبانی
تھا راجہ ،بھی شاعر کراچی کا باسی
نا سمجھے الف بے وزن کی ذرا سی
وہ مجھ کو میں ان کو سناتا غزل تھا
غزل کیا وہی تھی بیاسی چراسی
بس اک دن الف عین وارث کو پایا
کرم یا خدایا کرم یا خدایا
کہانی بنائی فسانا بنایا
غزل کہنے کا کچھ سلیقہ تو آیا
فعو لن کو پڑتے فعولن کو سنتے
فعولن فعولن فعولن ہی کرتے
فعولن پہ جو کچھ بھی لکھا سنایا
اسے اک کتابی شکل میں بنایا
 
فعو لن ہے قصہ ،فعو لن کہانی
مجھےیاد آئی ہیں باتیں پُرانی
کبھی شاعری کا جنوں تھا ہمیں بھی
یہ قصہ سنائیں گے اپنی زبانی
تھا راجہ ،بھی شاعر کراچی کا باسی
نا سمجھے الف بے وزن کی ذرا سی
وہ مجھ کو میں ان کو سناتا غزل تھا
غزل کیا وہی تھی بیاسی چراسی
بس اک دن الف عین وارث کو پایا
کرم یا خدایا کرم یا خدایا
کہانی بنائی فسانا بنایا
غزل کہنے کا کچھ سلیقہ تو آیا
فعو لن کو پڑتے فعولن کو سنتے
فعولن فعولن فعولن ہی کرتے
فعولن پہ جو کچھ بھی لکھا سنایا
اسے اک کتابی شکل میں بنایا
خدا خوش رکھے تم کو ہر آن ، بے غم
نہیں تم کسی اچھے شاعر سے اب کم
جو قصہ لکھا ہے یہ تم نے اے خرم
خوشی اور جذبے سے آنکھیں پر پُرنم
 
ن

نامعلوم اول

مہمان
قیافی نہیں یہ ، قوافی ہے بھائی
مجھے کیوں سمجھتے ہوں تم دل کا اندھا
مجھے بھی پتہ ہے کہ ہے لفظ کیا یہ
جو لکھتا رہا ہوں میں اس کو "قیافی"
تو سہوِ کتابت سے بڑھ کر نہیں کچھ

سبق یاد ہیں مجھ کو اچھی طرح سے
ہے مادّہ "قفی" جس کے معنی ہیں "پیچھے"
اسی لفظ سے "قافیہ" بن گیا ہے
اسی قافیے سے ہے مشتق "قوافی"
جسے میں نے تیزی میں لکھا "قیافی"
مگر دل کہتا رہا میں "قوافی"

"قوافی" نہ لکھا تو کیا یہ غضب تھا
کہ شاعر ہوں میں کوئی کاتب نہیں ہوں
نہیں گر یقیں تم کو تو اس کو دیکھو
جہاں میں نے ٹھیک اس کو ٹائپ کیا ہے

مگر انگلیاں جب غلط سیکھ لیں تو
نہیں سہل ان کو دوبارہ سکھانا
کئی مرتبہ "یہ" کو لکھتا "یہی" ہوں
"یہی" کو بھی "ہی" بول بیٹھا ہوں اکثر
قرینے سے کیوں تم سمجھتے نہیں ہو
نکالی ہے جو بال کی کھال تم نے

قسم سے خدا کی مرا دل دُکھایا
مجھے تم نے آج اس قدر کیوں ستایا؟
 
ن

نامعلوم اول

مہمان
ن

نامعلوم اول

مہمان
کتابوں میں ڈھونڈا تو میں نے یہ پایا
تلفظ درست اس کا ہے ’’فی البدیہہ‘‘
۔۔۔ ۔۔ صوتیت: ’’فِل بَ دی ہَہ‘‘

تلفظ تو یہ ہے زبانِ عرب میں
مگر اس طرح سے نہیں بولتے ہم
سنا ہے کبھی "’فِل بَ دی ہَہ" کہیں پر؟
اسی کو تو کہتے ہیں "تہنید" آسی
کتا بوں کو چھوڑو مری بات مانو
یہاں بھی تو کی تھی یہی بحث میں نے

نوٹ: چونکہ یہ میرا نہایت پسندیدہ موضوع ہے، اس لیے نہ چاہنے کے با جود لفظ "حرّیّت" کے تلفظ پر کی گئی اپنی پرانی بحث کو یہاں نقل کر رہا ہوں۔ میری تو بڑی خواہش کہ ہم سب مل جل کر اردو زبان کی مزید اصلاح کریں، اور عربی کے ثقیل الفاظ کو اردو میں ڈھالنے کے عمل کو تیز تر بنائیں:

لفظ "حرّیّت" کے تلفظ پر کی گئی میری پرانی بحث:

"یہ تو فلسفیانہ بحث چھڑ گئی۔ میرے نزدیک دوسری تشدید نہایت ثقیل اور اردو شاعری (اور زبان)کے لحاظ سے ہرگز قابلِ قبول نہیں۔ میں نے آج تک کسی اہلِ زبان کو ایسے "جھٹکے" لے کر یہ لفظ ادا کرتے نہیں سنا۔ ڈکشنری کی اور بات ہے۔ ڈکشنری ہمیشہ اپنے عصر سے ایک قدم پیچھے رہتی ہے۔ یاد رہے کہ عربی زبان اور شاعری ،نغمگی اور روانگی میں اردو سے کہیں پیچھے ہے۔ اور اس کا ایک بڑا سبب عربی زبان کی ثقالت ہے۔ اردو شاعری خالص عربی لہجے کی اندھی تقلید کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ اگر "ح ر ر یت" منظور نہیں تو پھر شعر میں اس لفظ سے اجتناب ہی بہتر ہو گا۔ خصوصًایہاں تو معنی بھی واضح نہیں ہو پا رہا۔ مزید یہ کہ دوسرا مصرعہ بہت رواں اور "اُردوانہ" ہے۔ دوسرے مصرعے کا حق بنتا ہے کہ اسے اپنی ٹکر کا پہلا مصرعہ ملے۔ تو میری طرف سی ایک بار پھر: نہیں میں قائل نہیں ہوا۔ شعر میں اگر شعریت ہی نہ بچی تو پھر کاہے کا شعر!"
 
ن

نامعلوم اول

مہمان
تلفظ تو یہ ہے زبانِ عرب میں
مگر اس طرح سے نہیں بولتے ہم
سنا ہے کبھی۔۔۔ اِلخ

یہی تو عوامل تھے جن کے سبب سے
کیا ترک تھا میں نے اشعار کہنا
سمجھتا نہ تھا کوئی میری زباں کو
سمجھتا نہ تھا کوئی میرے بیاں کو
تو بس رفتہ رفتہ اسی پنج و شش میں
کیا ترک تھا میں نے اشعار کہنا

نہیں متفق مجھ سے کوئی جہاں میں
کہ جیتا نہیں ہوں میں اپنے زماں میں!

زمانے سے آگے ہوں، پیچھے ہوں کیا ہوں؟
غلط ہوں؟ صحیح ہوں؟ بھلا ہوں؟ برا ہوں؟

بھلا کیا بگاڑا ہے میں نے تمہارا
"خبردار جو میری ما نو کو مارا"
 
مجھے کیوں سمجھتے ہوں تم دل کا اندھا
مجھے بھی پتہ ہے کہ ہے لفظ کیا یہ
جو لکھتا رہا ہوں میں اس کو "قیافی"
تو سہوِ کتابت سے بڑھ کر نہیں کچھ

سبق یاد ہیں مجھ کو اچھی طرح سے
ہے مادّہ "قفی" جس کے معنی ہیں "پیچھے"
اسی لفظ سے "قافیہ" بن گیا ہے
اسی قافیے سے ہے مشتق "قوافی"
جسے میں نے تیزی میں لکھا "قیافی"
مگر دل کہتا رہا میں "قوافی"

"قوافی" نہ لکھا تو کیا یہ غضب تھا
کہ شاعر ہوں میں کوئی کاتب نہیں ہوں
نہیں گر یقیں تم کو تو اس کو دیکھو
جہاں میں نے ٹھیک اس کو ٹائپ کیا ہے

مگر انگلیاں جب غلط سیکھ لیں تو
نہیں سہل ان کو دوبارہ سکھانا
کئی مرتبہ "یہ" کو لکھتا "یہی" ہوں
"یہی" کو بھی "ہی" بول بیٹھا ہوں اکثر
قرینے سے کیوں تم سمجھتے نہیں ہو
نکالی ہے جو بال کی کھال تم نے
قسم سے خدا کی مرا دل دُکھایا
مجھے تم نے آج اس قدر کیوں ستایا؟
غلط آپ بھی کہہ رہے ہیں مجھی کو؟
دیا ہے جواب اس کا میں نے مفصل
ذرا مجھ پر اتنا کرم کیجیے گا
اگر ہو نہ زحمت تو پڑھ لیجیے گا۔
یہی تو عوامل تھے جن کے سبب سے
کیا ترک تھا میں نے اشعار کہنا
سمجھتا نہ تھا کوئی میری زباں کو
سمجھتا نہ تھا کوئی میرے بیاں کو
تو بس رفتہ رفتہ اسی پنج و شش میں
کیا ترک تھا میں نے اشعار کہنا
نہیں متفق مجھ سے کوئی جہاں میں
کہ جیتا نہیں ہوں میں اپنے زماں میں!
زمانے سے آگے ہوں، پیچھے ہوں کیا ہوں؟
غلط ہوں؟ صحیح ہوں؟ بھلا ہوں؟ برا ہوں؟
بھلا کیا بگاڑا ہے میں نے تمہارا
"خبردار جو میری ما نو کو مارا"
نہ باتیں بنانے میں ثانی تمھارا​
نہ ٹھنڈا کرے قلب ، پانی تمھارا​
بہت جوش و جذبے کے حامل ہو تم بھی​
ہوں گویا عدو میں بھی جانی تمھارا​
یہ باتیں تو ہوتی ہیں برداشت سیکھو​
نہیں کم یہ طرزِ بیانی تمھارا​
اسے کہتے ہیں ٹائپنگ کی خرابی
وہ جو لفظ تھا "اک" نہیں لکھ سکے ہو

نہیں یہ رباعی کہ اوزان اس کے
برابر نہیں ہیں، برابر نہیں ہیں
یہ ہےبس "دو بیتی" عجب اک زباں میں
خدا کی قسم مجھ کو اس کا یقیں ہے۔
"دو بیتی" سے یہ فائدہ تو ہوا ہے
کہ لفظ ایک تم کو نیا آ گیا ہے
بس اب بحث چھوڑو، مصارع بناؤ
کہ اس کھیل کا اصل مقصد یہی ہے

جو پوچھا ہے تم نے سوال ایک مانی
مناسب ہے لیکن نہیں بحر میں ہے
"بَحَث" حائے مفتوحہ کے ساتھ کیوں ہے؟
سراسر غلط ہے، سراسر غلط ہے

خبردار پھر بحر کی ناک ٹوٹی

کہاں عشق ہے؟ دونوں جانب ہیں مونچھیں۔
یہ رشتہ ادب ہے، نہیں عاشقی یہ
سنبھالو قلم کو اسامہ کہ اب یہ
بہکنے لگا ہے، بھٹکنے لگا ہے!
اسامہ کو استاد ہم ہیں سمجھتے
مگر پھر بھی اس سے خطا ہو گئی ہے
یہ لفظِ "شرَِف"ہے بہ وزنِ فعَل ہی
اسے "شَرف" کر کے غضب کر دیا ہے

یہ عزت کی باتیں تو "مانی" نے کی تھیں
جو دیکھو لڑی کو ذرا غور سے تم
سمجھتا ہوں میں آج حاضر نہیں تم
کہاں ہے خیالِ اسامہ؟ بتاؤ
یہی اک نصیحت ہے میری تمھیں اب
کہ استاد صاحب سے کچھ سیکھ لو ڈھب
میاں فکر کیوں ہے جو ‘غلطی‘ ہوئی ہے
کہ ’غلطی‘ کی ’غلطی‘ بھی میں کر رہا ہوں
یہاں سب جو کہتے ہیں کہتے رہیں گے
اس طرح ایک مثنوی بن رہی ہے
اور آخر میں ہوں معذرت خواہ تم سے
مکمل نہ تھا اب تک آگاہ تم سے
 
ن

نامعلوم اول

مہمان
نہ باتیں بنانے میں ثانی تمھارا​
نہ ٹھنڈا کرے قلب ، پانی تمھارا​
بہت جوش و جذبے کے حامل ہو تم بھی​
ہوں گویا عدو میں بھی جانی تمھارا​
یہ باتیں تو ہوتی ہیں برداشت سیکھو​
نہیں کم یہ طرزِ بیانی تمھارا​
یہی اک نصیحت ہے میری تمھیں اب
کہ استاد صاحب سے کچھ سیکھ لو ڈھب

اور آخر میں ہوں معذرت خواہ تم سے
مکمل نہ تھا اب تک آگاہ تم سے

بھلا کیا بگاڑا ہے میں نے تمہارا
"خبردار جو میری ما نو کو مارا"
 
میں خوش ہوں خوشی کا جو باعث بنا ہوں
1188.jpg

میں خوش ہوں کہ خرم کا وارث بنا ہوں۔
 
ن

نامعلوم اول

مہمان
نہ باتیں بنانے میں ثانی تمھارا​
نہ ٹھنڈا کرے قلب ، پانی تمھارا​
بہت جوش و جذبے کے حامل ہو تم بھی​
ہوں گویا عدو میں بھی جانی تمھارا​
یہ باتیں تو ہوتی ہیں برداشت سیکھو​
نہیں کم یہ طرزِ بیانی تمھارا​
یہی اک نصیحت ہے میری تمھیں اب​
کہ استاد صاحب سے کچھ سیکھ لو ڈھب​
اور آخر میں ہوں معذرت خواہ تم سے​
مکمل نہ تھا اب تک آگاہ تم سے​

مکمل نہیں مجھ سے آگاہ اب بھی​
نیا پاؤ گے مجھ کو دیکھو گے جب بھی​
مری شاعری کا برا تم نہ مانو​
ہوں معصوم بندہ، کمینہ نہ جا نو​
ہٹ اے مثنوی سامنے سے ہمارے​
کہ کرنے ہیں اب نظم کے کچھ نظارے​
نظم
کِیا میں نے ہے شور گر اس لڑی میں​
تو وہ تھا فقط ایک جھوٹا فسانہ​
پلٹ کر جھپٹنا، جھپٹ کر پلٹنا
لہو گرم رکھنے کا تھا اک بہانہ
نہ تھی کچھ غرض کیا ہیں منطق، معانی​
مرے دل کا مقصدتھا باتیں بنانا​
تمھیں یہ لگا میں ہوں "لُوزر"، غلط ہے​
کہ "لُوزر" نہیں، میں "وِنر" ہوں پرانا​
ہوئی نظم ختم اب، مجھے مثنوی کی​
پرانی طرح پر پلٹ کر ہے جانا​
-------​
ببحرِ فعولن ہوئی نظم بھی اب​
مگر میں نہ بدلا، نہ بدلا مرا ڈھب​
وہی بحر بھی ہے، وہی مثنوی ہے​
دمادم رواں پھر یمِ شاعری ہے​
نہیں دونوں عالم پہ چھایا ہوا میں​
مگر آج ہوں لےَ میں آیا ہوا میں​
سناؤں گا قصے، بناؤں گا باتیں​
اسامہ جو چاہے کرے وارداتیں​
ہوں تیار کیا ہے جو ظالم ہے آسی
"مجھے آج لڑنی ہے جنگِ پلاسی"​
مرا کیا بگاڑے گا یاں آج خرم
کہ وہ مبتدی اور میں استادِ اعظم​
مزمل کہ ہے میری ٹکر کا استاد​
مگر وہ بھی چاہے تو کر لے سبق یاد​
الف عین کو جا کے کوئی بلا لے​
کہ ہیں سینیئر، جج بنیں گے ہمارے​
کہاں ہے مرا اسپِ تازی، بلاؤ​
مری تیغِ تیز و تبر لے کر آؤ​
لڑوں گا، مروں گا، نہ ہرگز جھکوں گا​
چلوں گا، رکوں گا، رکوں گا، چلوں گا​
اسامہ سنو آخری یہ نصیحت​
نہیں خوب، خوبوں سے طرزِ شریّت​
نہیں تھا کچھ اس نے بگاڑا تمہارا​
"مگر تم نے پھر میری مانو کو مارا"​
 
Top