۳۰ جنوری مہاتما گاندھی کے قتل کی تاریخ

یاز

محفلین
بدقسمتی سے ہمیں جو تاریخ پڑھائی جاتی ہے، اس میں بہت سے حقائق غائب کر دئیے گئے ہیں اور بہت سے حقائق بدل دیئے گئے ہیں۔ اس لئے ایسی بہت سی باتوں سے ہماری قوم کو جانکاری ہی نہیں رہی۔ اور مزید بدقسمتی یہ رہی کہ کتب بینی من حیث القوم ہمارا مزاج ہی نہیں رہا تو نصاب سے ہٹ کے کتب سے استفادہ کرنے کا رجحان ہی نہیں ہے۔ عمران سیریز اور اشتیاق احمد کے ناولوں کے علاوہ اگر کچھ پڑھا بھی ہے تو بس نسیم حجازی نما "تاریخی" مواد۔
اسی نصابی تاریخ کی بدولت جب بھی اس سے ہٹ کر کچھ پڑھنے یا سننے کو ملتا ہے تو پچانوے فیصد لوگ اس کو جھوٹ گردان کر بلاتاخیر مسترد کر دیتے ہیں۔

مجھے خوشی ہوئی ہے کہ کچھ اور احباب نے بھی اس پہ آواز اٹھائی ہے۔

گاندھی کے علاوہ اس دھرتی کے ایک اور عہد ساز سپوت نے بھی ہمارے لئے جان دی تھی جس کا آج نام بھی کوئی نہیں جانتا۔ جی ہاں، بھگت سنگھ صرف تئیس سال کی عمر میں ہمارے جیسوں کے لئے لاہور کی جیل میں پھانسی چڑھ گیا۔ کہتے ہیں کہ اس کی پھانسی والے دن پورے پنجاب (شرقی و غربی) میں کسی گھر میں چولہا نہیں جلا تھا۔

نجانے ہمیں ڈر کس چیز کا رہا ان باتوں کو تسلیم کرنے میں۔ کیا گاندھی کی قربانی کو تسلیم کرنے سے میرے یا ہمارے ہندو ہو جانے کا خدشہ ہے یا بھگت سنگھ کو آزادی کا ہیرو مان لینے سے ہمارے سکھ ہو جانے کا اندیشہ ہے؟
اللہ کرے کہ من حیث القوم ہم اس ذہنی اور اخلاقی مقام تک پہنچ پائیں کہ حقائق کو جان بھی سکیں اور ان کو ہضم بھی کر سکیں۔
 

سارہ خان

محفلین
بدقسمتی سے ہمیں جو تاریخ پڑھائی جاتی ہے، اس میں بہت سے حقائق غائب کر دئیے گئے ہیں اور بہت سے حقائق بدل دیئے گئے ہیں۔ اس لئے ایسی بہت سی باتوں سے ہماری قوم کو جانکاری ہی نہیں رہی۔ اور مزید بدقسمتی یہ رہی کہ کتب بینی من حیث القوم ہمارا مزاج ہی نہیں رہا تو نصاب سے ہٹ کے کتب سے استفادہ کرنے کا رجحان ہی نہیں ہے۔ عمران سیریز اور اشتیاق احمد کے ناولوں کے علاوہ اگر کچھ پڑھا بھی ہے تو بس نسیم حجازی نما "تاریخی" مواد۔
اسی نصابی تاریخ کی بدولت جب بھی اس سے ہٹ کر کچھ پڑھنے یا سننے کو ملتا ہے تو پچانوے فیصد لوگ اس کو جھوٹ گردان کر بلاتاخیر مسترد کر دیتے ہیں۔

مجھے خوشی ہوئی ہے کہ کچھ اور احباب نے بھی اس پہ آواز اٹھائی ہے۔

گاندھی کے علاوہ اس دھرتی کے ایک اور عہد ساز سپوت نے بھی ہمارے لئے جان دی تھی جس کا آج نام بھی کوئی نہیں جانتا۔ جی ہاں، بھگت سنگھ صرف تئیس سال کی عمر میں ہمارے جیسوں کے لئے لاہور کی جیل میں پھانسی چڑھ گیا۔ کہتے ہیں کہ اس کی پھانسی والے دن پورے پنجاب (شرقی و غربی) میں کسی گھر میں چولہا نہیں جلا تھا۔

نجانے ہمیں ڈر کس چیز کا رہا ان باتوں کو تسلیم کرنے میں۔ کیا گاندھی کی قربانی کو تسلیم کرنے سے میرے یا ہمارے ہندو ہو جانے کا خدشہ ہے یا بھگت سنگھ کو آزادی کا ہیرو مان لینے سے ہمارے سکھ ہو جانے کا اندیشہ ہے؟
اللہ کرے کہ من حیث القوم ہم اس ذہنی اور اخلاقی مقام تک پہنچ پائیں کہ حقائق کو جان بھی سکیں اور ان کو ہضم بھی کر سکیں۔
بھگت سنگھ کے بارے میں کچھ مزید بتائیں
 

محمد وارث

لائبریرین

محمد امین

لائبریرین
خان صاحب اطلاعا عرض ہے کہ سینٹرل انڈیا مدھیا پردیش ہے، مطلب وسطی صوبہ یا علاقہ۔ یو پی اتر پردیش ہے، شمالی صوبہ یا علاقہ۔

جانے دیں، ہمت صاحب جب گاندھی کو مسلمان اور مہاجر کروانے پر تل سکتے ہیں تو کچھ بھی کر سکتے ہیں :p اس وقت مجھے محفل کے معطل رکن عمران عرف عسکری شدت سے یاد آرہے ہیں ۔۔۔ ہاہاہاہاہا
 

محمد وارث

لائبریرین
سینٹرل انڈیا کے مسلمانوں نے انھیں ازادی دلائی مگر ان کو شعور نہیں
آزادی صرف یو پی کے سیاستدانوں کی مرہونِ منت نہیں ہے، یو پی کے بیشتر سیاستدان تو جاگیردار، نوابزادے تھے۔ بنگال کے سیاستدان تحریک آزادی میں اپنے پورے قد کاٹھ کے ساتھ کھڑے ہیں۔ بنگال کی عوام کا سیاسی شعور شاید سارے ہندوستان کی عوام کے مقابلے میں زیادہ تھا۔ بنگالی سیاستدانوں کی خدمات کون نظر انداز کر سکتا ہے؟

نیز یہ کہ پاکستان کی تخلیق میں بہت سارے عوامل کار فرما تھے۔اور یہ ایسے عوامل ہیں کہ ہر ایک پر بے شمار کتب لکھی جا چکی ہیں اور لکھی جاتی رہیں گی۔

- عالمی سیاست، یہ زمانہ پچھلی صدی کا عالمی سطح پر سب سے زیادہ ہنگامہ خیزعہدتھا۔تاجِ برطانیہ کا سورج غروب ہو رہا تھا اور امریکہ کا طلوع۔"ڈائی ہارڈ" جاپانیوں کو کون بھول سکتا ہے، کلکتہ جن کی زد میں تھا۔پورے ہندوستان پر قبضے کا خدشہ تھا۔
-مسلم لیگ کی سیاست، آخری چند ماہ سے پہلے تک مسلم لیگ کو علم ہی نہیں تھا کہ ان کو مل کیا رہا ہے ۔پنجاب اورخاص طور پر بنگال کی تقسیم نے کمر توڑ کر رکھ دی، کلکتہ معاشی "ہب" تھا، مرکز تھا۔
-کانگرس کی سیاست، نہرو اور پٹیل کا گاندھی اور ابوالکلام سےتقسیم پر اختلاف۔
-سکھوں کی سیاست، پنجاب اسمبلی کے باہر کرپانیں لہرانا کون بھول سکتا ہے۔
-نیشنلسٹ مسلمانوں کی سیاست، "کافرِ اعظم" کا خطاب کوئی معمولی بات نہیں تھا۔
-بیسیوں "خود مختار" ریاستوں کی سیاست۔ جونا گڑھ، حیدرآباداور شہرہ آفاق کشمیر، پاکستانیوں کو خاص طور پر یاد ہیں۔

اتنے سارے "ہیوی ویٹ" عوامل اور محرکات کے ہوتے ہوئے سارا کریڈٹ یو پی کے تعلقہ داروں کو دے دینا محض تجاہل ہے، عارفانہ خدا جانے ہے کہ نہیں۔
 
آزادی صرف یو پی کے سیاستدانوں کی مرہونِ منت نہیں ہے، یو پی کے بیشتر سیاستدان تو جاگیردار، نوابزادے تھے۔ بنگال کے سیاستدان تحریک آزادی میں اپنے پورے قد کاٹھ کے ساتھ کھڑے ہیں۔ بنگال کی عوام کا سیاسی شعور شاید سارے ہندوستان کی عوام کے مقابلے میں زیادہ تھا۔ بنگالی سیاستدانوں کی خدمات کون نظر انداز کر سکتا ہے؟

نیز یہ کہ پاکستان کی تخلیق میں بہت سارے عوامل کار فرما تھے۔اور یہ ایسے عوامل ہیں کہ ہر ایک پر بے شمار کتب لکھی جا چکی ہیں اور لکھی جاتی رہیں گی۔

- عالمی سیاست، یہ زمانہ پچھلی صدی کا عالمی سطح پر سب سے زیادہ ہنگامہ خیزعہدتھا۔تاجِ برطانیہ کا سورج غروب ہو رہا تھا اور امریکہ کا طلوع۔"ڈائی ہارڈ" جاپانیوں کو کون بھول سکتا ہے، کلکتہ جن کی زد میں تھا۔پورے ہندوستان پر قبضے کا خدشہ تھا۔
-مسلم لیگ کی سیاست، آخری چند ماہ سے پہلے تک مسلم لیگ کو علم ہی نہیں تھا کہ ان کو مل کیا رہا ہے ۔پنجاب اورخاص طور پر بنگال کی تقسیم نے کمر توڑ کر رکھ دی، کلکتہ معاشی "ہب" تھا، مرکز تھا۔
-کانگرس کی سیاست، نہرو اور پٹیل کا گاندھی اور ابوالکلام سےتقسیم پر اختلاف۔
-سکھوں کی سیاست، پنجاب اسمبلی کے باہر کرپانیں لہرانا کون بھول سکتا ہے۔
-نیشنلسٹ مسلمانوں کی سیاست، "کافرِ اعظم" کا خطاب کوئی معمولی بات نہیں تھا۔
-بیسیوں "خود مختار" ریاستوں کی سیاست۔ جونا گڑھ، حیدرآباداور شہرہ آفاق کشمیر، پاکستانیوں کو خاص طور پر یاد ہیں۔

اتنے سارے "ہیوی ویٹ" عوامل اور محرکات کے ہوتے ہوئے سارا کریڈٹ یو پی کے تعلقہ داروں کو دے دینا محض تجاہل ہے، عارفانہ خدا جانے ہے کہ نہیں۔

یہ بات درست ہے کہ پاکستان بنانے میں بنگال کا بہت بڑا کردار تھا۔ اتنا ہی یوپی اور دوسرے علاقوں کا جن کا آپ نے ذکر کیا ہے
جوناگڑھ، حیدراباد یہ سب پاکستان کی حامی ریاستیں تھیں۔ حتیٰ کے بننے کے بعد بھی پاکستان کی مالی امداد کی جاتی رہی۔ کشمیر کا معاملہ دوسرا ہے۔
الغرض کہ پاکستان بننے میں سب سے بڑا کردار ان علاقوں کا ہے جو اج پاکستان میں شامل نہیں۔ پنجاب سندھ، سرحد اور بلوچستان چونکہ مسلمان اکثریت میں تھے لہذا ان کو ازادی ملی۔ یہ ایک ایسی نعمت ہے جس کا ان کو اب تک ادراک نہیں
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
شکریہ سارہ کہ یہ موضوع چھیڑا۔ آزادی کی تاریخ کے بارے میں جب میں نے تفصیل سے پڑھا تو مہاتما گاندھی سے عقیدت مزید بڑھ گئی میری۔
درست حالات جاننے ہوں تو Larry Collins and Dominique Lapierre. کی کتاب فریڈم ایٹ مڈ نائٹ پڑھیں۔ مولانا آزاد کی کتاب India Wins Freedom کا مشورہ بھی دے سکتا تھا لیکن شاید اسے تعصب کی نظر سے دیکھا جاتا!!
 
Top