یہ ہے قادیانی مذہب

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

بلال

محفلین
براہ کرم اگر کسی رکن کو کچھ فراغت میسر ہو تو اس کی بی ڈی ایف تیار کر دے۔

پی ڈی ایف فائل تو عارف بھائی نے بنا دی۔۔۔ میں نے ساری پوسٹس کو ملا کر یونیکوڈ میں ہی ایک م س ورڈ کی فائل بنائی ہے۔ ساتھ میں ہیڈنگ نمبر اور باقاعدہ ہیڈنگ دی ہے۔۔۔ یہاں دیکھیں۔۔۔
 

رانا

محفلین
قادیانی مذہب (جو فرقہ احمدیہ کے نام سے بھی مشہور ہے) ایک جدید فرقہ ہے۔ اس کی بنیاد ہندوستان میں اس دوران پڑی جب مسلمان برصغیر میں برٹش حکومت کے ہوئے کو اپنے ملک سے اکھاڑ پھینکنے کا تہیہ کئے ہوئے تھے۔ تب انگریزی حاکموں کو مسلمانوں کو تقسیم کرنے اور ان کے آتشیں جوش کو ٹھنڈا کرنے کا سب سے زیادہ موثر ذریعہ یہ نظر آیا کہ غلام احمد قادیانی نامی ایک شخص کو، جس کی پیدائش ایک مسلمان خاندان میں ہوئی تھی، ایک ایسے مذہب کا اعلان کرنے کی طرف متوجہ کریں جو اجماع المسلمین کے بالکل خلاف ہو۔ جس کے ذریعہ اسلام کے اصولوں کا بطلان کیا جا سکے اور ان باتوں سے انکار کیا جائے جو اس کے علم میں اس مذہب کا ہی لازمی حصہ تھیں۔

شمشاد بھائی آپ کی خواہش پر اس دھاگے کا تھوڑا سا مطالعہ کیا ہے۔ حیرت ہے کہ مضمون کی ابتدا میں تو دعوی کیا گیا ہے کہ یہ تحقیقی مضمون ہے لیکن اعتراضات کی تمام بنیاد فرضی باتوں پر بلاثبوت رکھی گئی ہے۔ انگریزوں کے پشت پناہی کا کوئی ایک ہی تاریخی ثبوت دیا ہوتا۔ یہ بالکل غلط ہے۔ اسے جب تک حوالے سے ثابت نہ کیا جائے یہ جھوٹ ہی کہلائے گا۔

البتہ میں یہاں ٹھوس تاریخی ثبوت پیش کردیتا ہوں آپ ہی کی کتابوں سے کہ انگریز کن کی پشت پناہی کررہا تھا۔

رسالہ’ طوفان‘ کے ایڈیٹر نے بعض حقائق جمع کئے اور نتیجہ نکالا کہ
’’ انگریزوں نے بڑی ہوشیاری اور چالاکی کے ساتھ تحریکِ نجدیّت کا پودا( یعنی اہلِ حدیث جسے وہابی تحریک یا تحریکِ نجدیّت بھی کہتے ہیں۔ ناقل) ہندوستان میں کاشت کیا اور پھر اسے اپنے ہاتھ سے ہی پروان چڑھایا۔‘‘( طوفان۔ ۷ نومبر ۱۹۶۲ء)

دیکھیں تاریخ کس طرح ثبوت مہیّا کرتی ہے۔ دیوبندی فرقہ کے تعلیمی مذہبی ادارہ ندوۃ العلماء کی بنیاد ہی انگریزوں نے رکھی تھی۔ چنانچہ اس ادارہ کے اپنے رسالہ ’’ النّدوہ‘‘ نے یہ تاریخی شہادت قلمبند کی کہ

’’ ۲۸ نومبر ۱۹۰۸ ء کو دارالعلوم ندوۃ العلماء کا سنگِ بنیاد ہز آنر یبل لیفٹیننٹ گورنر بہادر ممالک متّحدہ سرجان سکاٹ ہیوس کے سی آئی ای نے رکھا۔‘‘( النّدوہ۔ دسمبر ۱۹۰۸ء صفحہ ۴)

اسی صفحہ پر آگے یہ بھی لکھا ہے کہ
’’ یہ مشہور مذہبی درسگاہ ایک انگریز کی مرہونِ منّت ہے۔‘‘

یہی نہیں اس کے قیام کی غرض و غایت اس کا مقصد اور ماٹو یہ بھی بیان کیا کہ اس میں تیّار ہونے والے

’’ علماء کا ایک ضروری فرض یہ بھی ہے کہ گورنمنٹ کی برکاتِ حکومت سے واقف ہوں اور ملک میں گورنمنٹ کی وفاداری کے خیالات پھیلائیں ۔‘‘( النّدوہ۔ جولائی ۱۹۰۸ء)

اسے کہتے ہیں انگریز کا خود کاشتہ پودہ۔ جس کی کاشت بھی انگریز نے کی اور آبیاری بھی۔ اور جب اسے پروان چڑھا چکے تو اس پودے پر ’’ برکاتِ حکومت سے واقفیّت‘‘ اور ’’ملک میں گورنمنٹ کی وفاداری کے خیالات پھیلانے‘‘ کے پھل ہر موسم میں بکثرت لگتے رہے۔ اس خود کاشتہ پودے کی نظر ہمیشہ مالی مفادات پر رہی اور اس کا کاسہ گدائی بھی انگریز کی طرف پھیلا رہا۔

جہانتک اس دیوبندی فرقہ کی ایک تنظیم مجلسِ احرار کا تعلّق ہے جو جماعتِ احمدیہ کی مخالفت میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کرتی۔ اس تنظیم کی حقیقت سے پردہ اٹھاتے ہوئے اس کے ایک بہت بڑے لیڈر مولانا ظفر علی خان، مدیر روزنامہ ’زمیندار ‘لکھتے ہیں۔

’’..... آج ’’ مسجد شہید گنج‘‘ کے مسئلہ میں احرار کی روش پر دوسرے مسلمانوں کی طرف سے اعتراض ہونے پر انگریزی حکومت احرار کی سپر بن رہی ہے۔ اور حکومت کے اعلیٰ افسر حکم دیتے ہیں کہ احرار کے جلسوں میں گڑ بڑ پیدا نہ کی جائے۔ تو کیا اس بدیہی الانتاج منطقی شکل سے یہی نتیجہ نہیں نکلتا کہ مجلسِ احرار حکومت کا خود کاشتہ پودا ہے۔ جس کی آبیاری کرنا اور جسے صرصرِ حوادث سے بچانا حکومت اپنے ذمہ ہمّت پر فرض سمجھتی ہے۔‘‘( روزنامہ ’’زمیندار‘‘ ۳۱ اگست ۱۹۳۵ء)

ان مذکورہ بالا تاریخی ریکارڈ اور حقائق سے بالکل واضح ہو جاتا ہے کہ انگریز کے خود کاشتہ پودے کون کون تھے۔اس کے برعکس جماعتِ احمدیہ ایسی جماعت ہے جس کی نہ تو کبھی انگریز یا کسی اور دنیوی حکومت نے سرپرستی کی اور نہ ہی کبھی اس کے مالی مفادات کسی سے وابستہ ہوئے۔ خدا تعالیٰ کے فضل سے اس کو نہ کسی مادّی سرپرستی کی حاجت ہے نہ مالی استمداد کی، کیونکہ یہ صرف اور صرف خدائے قادرو مطلق کے ہاتھ کا لگایا ہوا پودا ہے۔ حضرت مسیحِ موعود علیہ السلام فرماتے ہیں

آپؑ نے دسمبر ۱۹۹۶ ؁ء کو ایک اشتہار میں فرمایا

’’ اب اے مخالف مولویو! اور سجادہ نشینوں!..... یقیناً سمجھو کہ یہ خدا کے ہاتھ کا لگایا ہوا پودا ہے۔خداا س کو ہرگز ضائع نہیں کرے گا۔ وہ راضی نہیں ہوگا جب تک کہ اس کو کمال تک نہ پہنچاوے اور وہ اس کی آبپاشی کرے گا اور اس کے گرد احاطہ بنائے گااور تعجب انگیز ترقیات دے گا۔کیا تم نے کچھ کم زور لگایا۔پس اگر یہ انسان کا کام ہوتاتو کبھی کا یہ درخت کاٹا جاتا اور اس کا نام و نشان باقی نہ رہتا۔‘‘ (مجموعہ اشتہارات۔جلد ۲ صفحہ۲۸۱،۲۸۲)

نیز آپ نے یہ پر تحدّی اعلان بھی فرمایا کہ

’’ دنیا مجھ کو نہیں پہچانتی لیکن وہ مجھے جانتا ہے جس نے مجھے بھیجا ہے۔ یہ ان لوگوں کی غلطی ہے اور سراسر بد قسمتی ہے کہ میری تباہی چاہتے ہیں۔ میں وہ درخت ہوں جس کو مالکِ حقیقی نے اپنے ہاتھ سے لگایا ہے۔..... اے لوگو! تم یقیناً سمجھ لو کہ میرے ساتھ وہ ہاتھ ہے جو اخیر وقت تک مجھ سے وفا کرے گا۔ اگر تمہارے مرد اور تمہاری عورتیں اور تمہارے جوان اور تمہارے بوڑھے اور تمہارے چھوٹے اور تمہارے بڑے سب مل کر میرے ہلاک کرنے کے لئے دعائیں کریں یہاں تک کہ سجدے کرتے کرتے ناک گل جائیں اور ہاتھ شل ہو جائیں تب بھی خدا ہرگز تمہاری دعا نہیں سنے گا اور نہیں رکے گا جب تک وہ اپنے کام کو پورا نہ کر لے۔..... پس اپنی جانوں پر ظلم مت کرو۔ کاذبوں کے اور منہ ہوتے ہیں اور صادقوں کے اور۔ خدا کسی امر کو بغیر فیصلہ کے نہیں چھوڑتا۔...... جس طرح خدا نے پہلے مامورین اور مکذّبین میں آخر ایک دن فیصلہ کر دیا اسی طرح وہ اس وقت بھی فیصلہ کرے گا۔ خدا کے مامورین کے آنے کے بھی ایک موسم ہوتے ہیں اور پھر جانے کے بھی ایک موسم۔ پس یقیناً سمجھو کہ میں نہ بے موسم آیا ہوں اور نہ بے موسم جاؤں گا۔ خدا سے مت لڑو! یہ تمہارا کام نہیں کہ مجھے تباہ کر دو۔‘‘( ضمیمہ تحفہ گولڑویہ۔روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحہ ۱۳،۱۴)

وقت کی کمی کے باعث صرف مختصر جواب ارسال کیا ہے۔ کیونکہ پڑھنے والوں کے پاس بھی وقت کی کمی ہوگی۔
البتہ تفصیلی جوابات یہاں جاکر پڑھے جاسکتے ہیں۔

خود کاشتہ پودا تاریخی واقعات کے آئینہ میں

ہندوستان میں انگریزوں کے مفادات اور ان کے اصل محافظ
 

شمشاد

لائبریرین
یہ ہے قادیانی مذہب

(مملکت سعودی عرب میں مجلس اعلٰی برائے دعوت و ارشاد نے اس امر کی سفارش کی ہے کہ یہ تحقیقاتی مضمون چھپوا کر شائع کر دیا جائے۔)

رانا صاحب جیسا کہ اوپر لکھا ہے کہ یہ مضمون مملکت سعودی عرب نے شائع کیا ہے، نہ کہ میں نے، اس لیے اس میں جو کچھ ہے وہ انہی کی ذمہ داری ہے۔

دوسری بات یہ کہ اس مضمون میں بہت سارے حوالے ہیں، ان کو دیکھ لیں، آپ نے پورا مضمون پڑھے بغیر فیصلہ صادر فرما دیا ہے جو کہ صحیح نہیں ہے۔
 
شمشاد بھائی آپ کی خواہش پر اس دھاگے کا تھوڑا سا مطالعہ کیا ہے۔ حیرت ہے کہ مضمون کی ابتدا میں تو دعوی کیا گیا ہے کہ یہ تحقیقی مضمون ہے لیکن اعتراضات کی تمام بنیاد فرضی باتوں پر بلاثبوت رکھی گئی ہے۔ انگریزوں کے پشت پناہی کا کوئی ایک ہی تاریخی ثبوت دیا ہوتا۔ یہ بالکل غلط ہے۔ اسے جب تک حوالے سے ثابت نہ کیا جائے یہ جھوٹ ہی کہلائے گا۔

1- مرزا غلام احمد قادیانی انگریزوں کا آلۂ کار :
مرزا قادیانی کا ملکہ وکٹوریہ کو خط: بشكريه : http://www.islamiyat.tk/mazameen/Qadyaniyat/Malka-Victoria-Ko-Mirza-Ka-Khat.htm
ستارہ قیصریہ مرزا قادیانی کا ایک خط ہے جو اس نے ملکہ وکٹوریہ کو تحریر کیا۔ دنیا میں ذلیل تر خوشامدی بھی کسی شخص کی ایسے خوشامد نہیں کرے گا جو مرزا قادیانی نے ایک کافرہ عورت کی شان میں کی۔ اس کا ایک ایک لفظ قادیانیت کی ذلت و رسوائی پر خدائی مہر ہے۔ ستارہ قیصریہ کے صفحات یہاں لگائے جارہے ہیں آپ خود پڑھ کر اندازہ فرمائیں کہ کیا کوئی شریف آدمی کسی کی اتنی خوشامد کر سکتا ہے چہ جائیکہ نبی۔۔۔(معاذاللہ) اس کے تصور سے بھی ہماری روح کانپتی ہے۔
ثبوت :
2.1.jpg

2.2.jpg

2.3.jpg

2.4.jpg

2.5.jpg

2.6.jpg

2.7.jpg


2-مرزا قادیانی انگریز کا ایجنٹ بشكريہ http://www.islamiyat.tk/mazameen/Qadyaniyat/Angrez-Ka-Agent.htm
مرزا غلام احمد قادیانی انگریزوں کا ایجنٹ اور اس کا خاندان انگریز کا نمک خوار تھا اس بات کو ہم خود مرزا قادیانی کی کتاب سے ثابت کرنے جارہے ہیں حق کے متلاشی قادیانیوں کیلئے؛
مرزا لکھتا ہے کہ: "وہ قدیم سے سرکار انگریزی کے پکے خیر خواہ اور خدمت گذار ہیں۔ اس خود کاشتہ پودے کی نسبت نہایت احتیاط اور تحقیق اور توجہ سے کام لے اور اپنے ماتحت حکام کو اشارہ فرمائے کہ وہ بھی اس خاندان کی ثابت شدہ وفاداری اور اخلاص کا لحاظ رکھ کر مجھے اور میری جماعت کو ایک خاص عنایت اور مہربانی کی نظر سے دیکھیں ہمارے خاندان نے سرکار انگریزی کی راہ میں اپنے خون بہانے اور جان دینے سے فرق نہیں کیا اور نہ اب فرق ہے۔ لہٰذا ہمارا حق ہے کہ ہم خدمات گذشتہ کے لحاظ سے سرکار دولتمند کی پوری عنایات اور خصوصیت توجہ کی درخواست کریں"۔
(روحانی خزائن جلد 13 صفحہ 350)
1.1.jpg

اور مجھ سے سرکار انگریزی کے حق میں جو خدمت ہوئی وہ یہ تھی کہ میں نے پچاس ہزار کے قریب کتابیں اور رسائل اور اشتہارات چھپواکر اس ملک اور نیز دوسرے بلاد اسلامیہ میں اس مضمون کے شائع کئے کہ گورنمنٹ انگریزی ہم مسلمانوں کی محسن ہے۔ لہٰذا ہر ایک مسلمان کا یہ فرض ہونا چاہیئے کہ اس گورنمنٹ کی سچی اطاعت کرے اور دل سے اس دولت کا شکر گذار اور دعاگو رہے۔اور یہ کتابیں میں نے مختلف زبانوں یعنی اردو۔ فارسی۔ عربی میں تالیف کرکے اسلام کے تمام ملکوں میں پھیلادیں۔ یہاں تک کہ اسلام کے دو مقدس شہروں مکہ اور مدینہ میں بھی بخوبی شائع کردیں۔ اور روم کے پایہ تخت قسطنطنیہ اور بلاد شام اور مصر اور کابل اور افغانستان کے متفرق شہروں میں جہاں تک ممکن تھا اشاعت کردی گئی جس کا نتیجہ ہوا کہ لاکھوں انسانوں نے جہاد کے وہ غلط خیالات چھوڑ دئیے جو نافہم ملاؤں کی تعلیم سے ان کے دلوں میں تھے۔
(روحانی خزائن جلد 15 صفحہ 114)
1.2.jpg

سرکار انگریزی کے سچے خیر خواہ کا بیٹا ہوں جن کا نام مرزا غلام مرتضٰی تھا۔
(مجموعہ اشتہارات جلد دوم صفحہ 366)

اور میں بذات خود سترہ برس سے سرکار انگریز کی ایک ایسی خدمت میں مشغول ہوں کہ درحقیقت وہ ایک ایسی خیر خواہی گورنمنٹ عالیہ کی مجھ سے ظہورمیں آئی ہے کہ میرے بزرگوں سے زیادہ ہے اور وہ یہ کہ میں نے بیسیویں کتابیں عربی اور فارسی اور اردو میں اس غرض سے تالیف کی ہیں کہ اس گورنمنٹ محسنہ سے ہرگزجہاد درست نہیں بلکہ سچے دل سے اطاعت کرنا ہر ایک مسلمان کا فرض ہے
(مجموعہ اشتہارات جلد دوم صفحہ 366)
1.3.jpg

اور جو لوگ میرے ساتھ مریدی کا تعلق رکھتے ہیں وہ ایک ایسی جماعت تیار ہوتی جاتی ہے کہ جن کے دل اس گورنمنٹ کی سچی خیر خواہی سے لبالب ہیں۔
۔(مجموعہ اشتہارات جلد دوم صفحہ 367)۔2-
1.4.jpg



:
 
البتہ میں یہاں ٹھوس تاریخی ثبوت پیش کردیتا ہوں آپ ہی کی کتابوں سے کہ انگریز کن کی پشت پناہی کررہا تھا۔
رسالہ’ طوفان‘ کے ایڈیٹر نے بعض حقائق جمع کئے اور نتیجہ نکالا کہ
’’ انگریزوں نے بڑی ہوشیاری اور چالاکی کے ساتھ تحریکِ نجدیّت کا پودا( یعنی اہلِ حدیث جسے وہابی تحریک یا تحریکِ نجدیّت بھی کہتے ہیں۔ ناقل) ہندوستان میں کاشت کیا اور پھر اسے اپنے ہاتھ سے ہی پروان چڑھایا۔‘‘( طوفان۔ ۷ نومبر ۱۹۶۲ء)

مرزائے قادِیان اور انگریزی گورنمنٹ

فضيلۃ الشیخ حافظ صلاح الدین یوسف لاہور
بشکریہ :ختم نبوت نمبر دعوت اھل حدیث حیدرآباد
http://www.islamiyat.tk/mazameen/Qadyaniyat/Mirza-Qadyan-Or-Angrezi-Govt.htm

جب سے مرزائیوں کے متعلق یہ فیصلہ دیا گیا ہے کہ "وہ عقل ونقل کی رُو سے اُمت مسلمہ سے الگ ایک غیر اسلامی فرقہ ہیں اور اس کے بانی مرزا غلام احمد قادیانی انگریزوں کے آلۂ کار تھے" اُس وقت سے مرزائی حلقوں میں کھلبلی مچی ہوئی ہے اور وہ مختلف طریقوں سے اس فیصلے کے تاثرات کو روکنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ان کے بعض اہل قلم نے اپنی جماعت کو اس طرح مطمئن کرنے کی کوشش کی ہے کہ یہ ایک ابتلا ءہے، جس سے اہل اﷲ کو دوچار ہونا ہی پڑتا ہے۔
ایک ردعمل کی صورت میں آیا ہے کہ مسلمانوں کی بعض جماعتوں اور بعض افراد کے وہ خیالات پیش کیے جارہے ہیں، جن میں انہوں نے انگریز گورنمنٹ کی ''مذہبی رواداری'' پر ان کا شکریہ اور ان سے وفاداری کا اظہار کیا ہے۔ چنانچہ ان کے اہل قلم کی طرف سے شیعہ سنی اور اہلحدیث سے متعلق بعض اس قسم کے حوالے پیش کیے جارہے ہیں۔ نیز بعض علمائے اہلحدیث کی وہ تحریریں پیش کی گئی ہیں، جس میں مذہبی آزادی پر گورنمنٹ کا شکریہ ادا کیا گیا ہے۔ نیز جماعت اہلحدیث کیلئے ''وہابی'' کے لفظ کے استعمال کی قانونی ممانعت پر اس کیلئے تشکر کے جذبات کا اظہار کیا گیا ہے۔مزید یہ کہ ان اہل قلم کا کہنا ہے کہ اگر یہ حضرات انگریز سے وفاداری کے اظہار کے باوجود انگریز کے آلۂ کار نہیں تو مرزا قادیانی کو اس قسم کے خیالات کی بنا پر انگریزوں کا آلۂ کار کیونکر کہا جاسکتا ہے؟ اس لئے ہم اس فرق اور نوعیت کو واضح کرنا ضروری سمجھتے ہیں، جو انگریزوں سے متعلق مرزا قادیانی اور مسلمانوں کے بعض علماء کے طرزِ عمل میں ہے۔

اس سلسلے میں سب سے پہلے اس فرق پر غور انتہائی ضروری ہے، جو مرزا قادیانی اور دیگر علماء کے جذباتِ وفاداری میں پایا جاتا ہے۔ علمائے اسلام میں سے جن حضرات نے انگریزوں سے وفاداری کا اظہار کیا، تو اس کی وجہ خود ان کے بقول یہ تھی کہ اس حکومت کے زیر سایہ مذہبی آزادی پوری طرح حاصل ہے۔ نیز یہ کہ مسلمانوں کے پاس قوت وطاقت اور اسباب ووسائل بھی نہیں، جن کے ذریعے وہ جنگ کرکے اسے دیس نکالا دے سکیں۔

اس لئے ایسے حالات میں وہ حکومتِ وقت سے بغاوت کے جواز کا فتویٰ صادر نہیں کرتے تھے اور ان حالات میں گورنمنٹ انگریزی سے وفاداری کو انسب سمجھتے تھے۔ تاہم یہ قطعی ہے کہ کسی بھی مسلمان عالم نے جہاد کو سرے سے منسوخ اور حرام قرار نہیں دیا اور نہ آخری زمانے میں آنے والے حضرت مہدی کو "خونی مہدی" ہی کہا۔ اس کے برعکس مرزا قادیانی نے نہ صرف یہ کہ پوری بلند آہنگی سے اس طرح انگریز کی حمایت کا صُور پھونکا، جس سے اس شبہ کو تقویت پہنچتی ہے کہ یہ صاحب انگریزوں کے اشارہ ابرو پر ہی دعوائے نبوت پر ''مجبور'' ہوئے، بلکہ خود بدولت کو ''مہدویت'' کے منصب پر فائز کرنے کیلئے مسلمانوں کے عقیدہ ''آمد مہدی موعود'' کو ختم کرنے کی سعیٔ ناکام کرتے ہوئے سيدنا مہدی کو ''خونی مہدی'' کا نام دیا۔

بہرحال اس سلسلے میں چند گزارشات پیشِ خدمت ہیں؛
اولاً خود مرزا قادیانی نے اپنے آپ کو انگریز کا ''خود کاشتہ پودا'' تسلیم کیا ہے۔ (تبلیغ رسالت ج7ص19) اور خود کو گورنمنٹ کی خیرخواہی اور تائید میں یگانہ، بینظیر وبے مثیل اور انگریز گورنمنٹ کیلئے بطور تعویذ اور پناہ (قلعہ) قرار دیا ہے۔ (نور الحق حصہ اول ص34۔33) اور خود اپنے اور اپنی جماعت کیلئے سلطنتِ برطانیہ کو اپنی جائے پناہ تسلیم کیا۔ (تریاق القلوب، ص62)۔

ثانیًا : اپنا مقصد بعثت ہی مرزا قادیانی نے خلقِ خدا کی اصلاح کی بجائے انگریز کی تائید واعانت بتایا ہے۔ ''اس نے مجھے اپنے قدیم وعدے کے موافق آسمان سے بھیجا، تاکہ میں حضور ملکہ معظمہ ۔(وکٹوریہ) کے نیک اور بابرکت مقاصد کی اعانت میں مشغول ہوں، اس (اﷲ) نے مجھے بے انتہا برکتوں کے ساتھ چھوا اور اپنا مسیح بنایا، تاکہ وہ ملکہ معظمہ (وکٹوریہ) کے پاک اغراض کو خود آسمان سے مدد دے۔" (ستارہ قیصرہ ص10)۔

''اے ملکہ معظمہ قیصرۂ ہند! خدا تجھے اقبال اور خوشی کے ساتھ عمر میں برکت دے۔ تیرا عہدِ حکومت کیا ہی مبارک ہے کہ آسمان سے خدا کا ہاتھ تیرے مقاصد کی تائید کر رہا ہے، تیری ہمدردی رعایہ نیک نیتی کی راہوں کو فرشتے صاف کر رہے ہیں… تیری ہی پاک نیتوں کی تحریک سے خدا نے مجھے بھیجا ہے۔'' (ستارہ قیصرہ ص:15)۔

ثالثاً :گورنمنٹ انگلشیہ کو خدا کی نعمت، عظیم الشان رحمت اور آسمانی برکت کہا اور انگریز گورنمنٹ کے شکر کو خدا کا شکر اور اس کے چھوڑنے کو خدا کا چھوڑنا قرار دیا۔ (شہادت القرآن ص:86)۔

رابعًا : اپنا مذہب ہی آسمان پر خدا کی اور زمین پر حکومتِ برطانیہ کی اطاعت اور اس سے سرکشی کو خدا ورسول کی سرکشی قرار دیا۔ (شہادت القرآن ص:86)۔

خامسًا : انگریز گورنمنٹ کی حمایت ووفاداری میں پچاس ہزار کے قریب کتابیں، رسائل اور اشتہار تالیف وطبع کیے۔ (ستارہ قیصرہ ص70)۔
انگریز سے متعلق مرزا صاحب کا یہ تحریری ذخیرہ اگر جمع کیا جائے تو اس سے پچاس الماریاں بھر سکتی ہیں۔ (تریاق القلوب ص:25)۔

سادسًا سب سے بڑھ کر انگریز کے خلاف جہاد کو نہ صرف انتہائی پُرزور الفاظ میں حرام اور منسوخ قرار دیا، بلکہ انگریز کے خلاف دل میں جذبۂ بغاوت یا دشمنی رکھنے والوں کو احمق، سخت نادان، سخت جاہل، نافهم مُاّف، دشن خدا، منکر نبی، شریر، بدذات، حرامی، بدکار، نالائق، ظالم، چور، قزاق اور اسی قسم کے بیہودہ خطابات سے نوازا۔

سابعًا : اس دور میں جہاں کہیں بھی انگریزوں اور مسلمانوں میں تصادم ہوا، اُمت مرزائیہ نے وہاں اپنے ''نبی'' کی تعلیمات کے مطابق مسلمانوں کی تائید وحمایت کی بجائے انگریزوں کی تائید کی، ان کے لئے فتح ونر ت کی دعائیں مانگیں اور مسلمانوں کی شکست اور انگریزوں کی کامیابی پر جشنِ فتح منایا۔ مثلاً :1914ء کی جنگ عظیم اول میں ترکوں کو جو شکست ہوئی اور بعض عرب علاقے ترکیہ کی اسلامی خلافت سے انگریزوں نے الگ کردیے، اس پر اُمت مرزائیہ کا تبصرہ ملاحظہ ہو:
"حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں… کہ گورنمنٹ میری تلوار ہے، پھر ہم احمدیوں کو اس فتح (فتح بغداد) پر کیوں خوشی نہ ہو۔ عراق عرب ہو یا شام، ہم ہر جگہ اپنی تلوار کی چمک دیکھنا چاہتے ہیں… دراصل اس کے محرک خدا تعالیٰ کے دو فرشتے تھے، جن کو گورنمنٹ کی مدد کیلئے خدا نے اتارا تھا۔'' (الفضل 7 ستمبر ٫1918)۔

اس سے کچھ عرصہ پہلے روس نے اسلامی ترکیہ پر حملہ کرکے بعض علاقے ہتھیا لئے تھے۔ اس پر مرزائیوں کا ردِعمل ملاحظہ ہو:
۔"تازہ خبروں سے معلوم ہوتا ہے کہ روسی برابر ترکی کے علاقے میں گھستے چلے جاتے ہیں… اﷲ تعالیٰ ظالم نہیں، اس کا فیصلہ درست اور راست ہے اور ہم اس کے فیصلے پر رضامند ہیں۔'' (الفضل 10 نومبر ٫1914)

۔27 نومبر 1918ء کو ترکوں کی مکمل شکست پر قادیان میں زبردست چراغاں کیا گیا اور جشن منایا گیا۔ اس پر الفضل نے لکھا؛
۔"یہ پُر لطف اور مسرت انگیز نظارہ بہت مؤثر اور خوشنما تھا اور اس سے احمدیہ پبلک کی اس عقیدت پر خوب روشنی پڑتی ہے، جو اسے گورنمنٹ برطانیہ سے ہے۔'' (الفضل 3 دسمبر ٫1918

ثامنًا : مرزا قادیانی نے انگریزوں کی مخبری کا بھی کام کیا اور انہوں نے اپنی جماعت کی مدد سے ایسے ''نافہم مسلمانوں'' کی ایک فہرست مع نام وپتہ مرتب کرکے گورنمنٹ کو پیش کی، جو ہندوستان کو دار الحرب سمجھتے تھے۔" (تبلیغ رسالت ج5 ص11)۔

ان وجوہ ہشت گونہ کی بنا پر مرزا قادیانی کی حکومت برطانیہ کی تائید وحمایت اور مسلمانوں کے بعض علماء کرام کی وفاداری اور شکریے میں جو زمین آسمان کا فرق ہے، اسے بادنیٰ تامل سمجھا جاسکتا ہے۔ دونوں کے طرز عمل کو یکساں باور کراکے مرزا قادیانی کی انگریز پرستی پر پردہ نہیں ڈالا جاسکتا۔ دونوں کے درمیان الفاظ کی دروبست سے لے کر مفہوم و معنیٰ تک میں جو فرق ہے، وہ اتنا عظیم ہے کہ اسے دس بیس حوالے کیا، اس انداز کے سینکڑوں حوالے بھی ختم نہیں کرسکتے۔

جماعت اہلحدیث پر انگریز کی وفاداری کے الزام کی حقیقت؛
پھر ''اشاعة السنة'' کے بعض حوالوں کو بنیاد بنا کر خاص طور پر جماعت اہلحدیث پر انگریز کی وفاداری کا الزام تو بہت ہی عجیب ہے۔ اگر کہ مولانا محمد حسین صاحب بٹالوی نے ایسے خیالات کا اظہار فرمایا ہے، تو ابھی قابلِ غور بات یہ ہے کہ کیا اہلحدیث صرف مولانا بٹالوی کی ذات ہے کہ انفرادی طور پر ان کے ایسے خیالات کو پوری جماعت اہلحدیث پر چسپاں کردیا جائے؟ وہ جماعت کے صرف ایک فرد تھے، جو فی الواقع دوسرے بعض علمائے اسلام کی طرح بعض وجوہات کی بناء پر انگریز حکومت کو بہتر سمجھتےتھے، لیکن کیا اس تاریخی حقیقت سے انکار ممکن ہے کہ ان کے علاوہ علمائے اہلحدیث کی اکثریت انگریز کے خلاف مصروفِ جہاد رہی! کیا علمائے صادق پور اہلحدیث نہیں تھے، جنہوں نے سید احمد شہید اور شاہ اسمٰعیل شہید کی شہادت کے بعد ان کی تحریکِ جہاد کو پورے عزم وحوصلہ سے آگے بڑھایا! کیا یہ واقعہ نہیں کہ 1857ء کی ناکام جنگِ آزادی کے بعد جس جماعت کے افراد سب سے زیادہ انگریزی مظالم کا شکار بنے، وہ اسی جماعت کے افراد تھے۔

صرف 1863ء سے لے کر 1870ء تک کے سات سالہ مختصر عرصے میں اس جماعت کے سرکردہ افراد کے خلاف پانچ عظیم مقدمات قائم کیے گئے۔ انبالہ (1864ء) پٹنہ میں دو مرتبہ (1865ء اور 1870ء) مالدہ (1870ء) راج محل (1870ء) ان مقدمات میں جماعت کے امراء وعلماء کو تختۂ دار پر کھینچا گیا۔ اس کے علاوہ کالے پانی اور ضبطیٔ جائدماد کی انہیں سزائیں دی گئیں۔ جل کے تاریک زندانوں کو اس جماعت کے دیوانوں نے آباد کیا اور ان مجاہدین کی سرگرمیوں نے انگریز کو بوکھلا کر رکھ دیا، جن کو ”وہابی“ کہا جاتا تھا، یہ وہابی کون تھے؟ ہنڑ کی کتاب پڑھئے تو معلوم ہوگا کہ وہ اسی جماعت کے افراد تھے۔ بہرحال چند افراد کے سوا اہلحدیث کی اکثریت از اول تا آخر انگریز سے برسرِ پیکار رہی ہے۔ اس انداز کی انگریز کی کاسہ لسیک ہم نے کبھی نہیں کی، جو آنجہانی مرزا قاديانی کا شعار، بلکہ مذہب رہی ہے۔

غور وفکر کا ایک اور زاویہ؛
پھر اس بحث کا یہ پہلو بھی قابلِ غور وفکر ہے کہ مرزا صاحب نبوت کے دعویدار تھے، جبکہ مسلمان علماء دعوائے نبوت کو کفر سمجھتے ہیں۔ بعض علماء کی انگریز سے وفاداری اور اس کا شکریہ اور مرزا قادیانی کے برٹش گورنمنٹ کی حمایت کو جزوِ ایمان بنانے کے مابین جو عظیم فرق ہے (جس کی ہم نشاندہی کر آئے ہیں) اس کو تھوڑی دیر کیلئے نظرانداز کردیا جائے، تب بھی یہ بات سوچنے والی ہے کہ غیر نبی افراد کے قدم ڈگمگا سکتے ہیں، ان پر مداہنت آسکتی ہے۔ ہوسکتا ہے کہ بعض موقع پر وہ اس عزیمت واستقامت کا ثبوت پیش نہ کرسکیں، جو کفر کے مقابلہ میں ضروری ہے اور غیر نبی افراد کیلئے بعض صورتوں میں ایسی رخصتوں پر عمل کی اجازت بھی ہے، لیکن انبیاء علیہم السلام نے کبھی ایسی مداہنت روا نہیں رکھی، نہ انہیں اس کی اجازت دی جاتی ہے۔ کفر کے خلاف وہ ایک برہنہ تلوار اور اس راہ کی صعوبتوں کیلئے وہ کوہِ استقامت وعزیمت ہوتے ہیں، وہ کبھی قوم کو درسِ غلامی نہیں دیتے۔

لیکن مرزا قادیانی پتہ نہیں ''نبوت'' کی کون سی قسم سے سرفراز ہوئے تھے کہ انہوں نے کفر سے مقابلے کی بجائے اس کی اطاعت کو فرض اور جزوِ ایمان قرار دیا۔ قوم کو انگریز کی غلامی سے آزاد کرانے کی بجائے قوم میں خوئے غلامی کو پختہ تر کیا اور اپنے خدا سے انگریز کافر سے نجات کی دعا کی بجائے اس کی فتح ونصرت اور اس کے بقاء واستحکام کی دعا مانگتے رہے۔ فیا للعجب۔ کیا انسانی تاریخ میں اس کردار کا کوئی نبی یا مجدّد پیش کیا جاسکتاہے؟ یہی وہ نکتہ ہے، جو اس بات کو صاف کردیتا ہے کہ مرزا قادیانی اُس اﷲ کے فرستادہ نہیں تھے، جو کفر سے مقابلہ کا حکم دیتا ہے، بلکہ اُس برطانوی ڈپلومیسی کی پیداوار تھے، جس کا مقصد مسلمانوں میں افتراق وانتشار پیدا کرنا تھا۔

بنا بریں مرزائیوں کا اس مقام پر اپنے نبی کو بچانے کیلئے ایسے حوالے پیش کرنا، جن میں انگریز سے وفاداری کا اظہار کیا گیا ہے، بالکل بے محل ہے۔ محض انگریز سے وفاداری اور عدم وفاداری حق وباطل کی علامت نہیں، نہ اس نقطۂ نظر سے کبھی حق وباطل کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ حضرات شیعہ بحیثیت مجموعی انگریز کے وفادار رہے ہیں، جس کا اظہار خود انہوں نے اپنی کتاب میں کیا ہے، لیکن ان کے محض اس کردار کو بنیاد بنا کر کبھی ان کے متعلق نہیں کہا گیا کہ وہ اس بنا پر غلط ہیں۔ البتہ ایک نبی کے حق یا باطل ہونے کیلئے فیصلہ کن چیز یہ ہے کہ اس نے اپنی زندگی میں کفر کی تائید کی یا اس کے خلاف عَلَم بغاوت بلند کیا؟ قوم کو کفر کی غلامی سے آزاد کرانے کی کوشش کی یا اسے غلامی کی آہنی زنجیریں بدستور پہنے رہنے پر رضامند کیا۔ اس اعتبار سے بلاشبہ مرزائے قادیان کا کوئی کردار نبوت تو کجا، اصلاح وتجدید کے مقام سے بھی فر وتر ہے کیونکہ کسی مصلح ومجدد اور کسی بڑے لیڈر نے بھی قوم کو درسِ غلامی نہیں دیا مرزا قادیانی بھی ایک عام آدمی ہوتے تو ان کے طرز عمل سےاعراض کرلینا ممکن تھا،

لیکن انہوں نے اپنے متعلق نبوت وتجدید کا جو دعویٰ کیا ہے اور ان کے پیروکار جس طرح ان کی اس حیثیت ومجددیت (معاذ اﷲ) کو منوانے پر مُصر ہیں، اس کے پیش نظر اس کردار کو کہ ساری عمر انگریز کی حمایت میں ہی گزار دی، نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ ان کا یہ کردار ہی ان کے جھوٹا ہونے کیلئے ایک واضح دلیل ہے۔

افراد سے بڑی بڑی غلطیاں ہوسکتی ہیں۔ جن صلحاء کی تحریریں ''الفرقان'' میں شائع کی گئی ہیں، ان سے تعلق رکھنے والی جماعتیں اسے اپنے افراد کی غلطیاں کہہ کر بھی ٹال سکتی ہیں۔ ان کا یہ اعتراف ان کے مسلک پر اثر انداز نہیں ہوسکتا۔ لیکن کیا مرزائی حضرات اپنے نبی کے اس کردار کو غلط کہنے کی جرأت کرسکتے ہیں؟ اور کیا ایسا کرنے کی صورت میں نبوت کا قصر زمین بوس نہیں ہوجاتا؟
 
وقت کی کمی کے باعث صرف مختصر جواب ارسال کیا ہے۔ کیونکہ پڑھنے والوں کے پاس بھی وقت کی کمی ہوگی۔
البتہ تفصیلی جوابات یہاں جاکر پڑھے جاسکتے ہیں۔
خود کاشتہ پودا تاریخی واقعات کے آئینہ میں

مذكوره بالا ربط جماعت احمديہ كى ويب سائٹ كا ہے۔ ماٹو ہے : "محبت سب كے ليے ، نفرت كسى سے نہیں۔"
مسلمانوں كو دھوكہ دينے كے ليے جماعت احمديہ ايسا دعوى تو كر سكتى ہے مگر یہ دعوى باطل ہے۔ ملاحظہ فرمائيے خاتم النبيين حضرت محمد صلى اللہ عليہ وسلم كے امتيوں كے متعلق مرزا غلام احمد قاديانى كذاب كے پيروكاروں كا خبث باطن مع حوالہ جات :
مرزا كا خليفہ مرزا بشير الدين بن غلام احمد قاديانى كہتا ہے:
" ہر وہ مسلمان جو مسيح (يعنى اس كا والد غلام احمد قاديانى ) كى بيعت نہ كرے، خواہ وہ ان كے بارے ميں سنے نہ سنے وہ كافر اور دائرہ ءاسلام سے خارج ہے۔"
آئينہ ءصداقت : ص 35
مزيد اپنے باپ مرزا كے حوالے سے كہتا ہے :
" ہم ہر چیز ميں حتى كہ اللہ ، رسول ، قرآن ، نماز، روزہ، حج، اور زكوة كے بارے ميں مسلمانوں سے اختلاف ركھتے ہیں، ان ميں سے ہر چيز كے بارے ميں ہمارے اور مسلمانوں كے درميان جوہرى اختلاف ہے۔
اخبار الفضل ، مجريہ : 30 جولائى 1931ء

اس سب كے باوجود احمدى خود كو مسلمان كہتے ہیں اور اصرار كرتے ہیں كہ انہيں مسلم سمجھا جائے جب كہ مسلمان ان كے نزديك كافر ہیں؟ اور اس كے باوجود دعوى ہے :
"محبت سب كے ليے ، نفرت كسى سے نہیں؟"
icon5.gif
 

رانا

محفلین
جہاں تک اس بات کا تعلق ہے مرزا صاحب نے دوسرے علما کو کافر کہا کوئی یہ ثابت نہیں کرسکتا کہ مرزا صاحب نے اس میں پہل کی ہو۔ مرزا صاحب کے خلاف 12 سال تک متواتر کفر کے فتوے شائع ہوتے رہے آخر 12 سال کے بعد مرزا صاحب نے یہ لکھا کہ میں ان لوگوں کو بہت سمجھاتا رہا کہ یہ طریق کفر کے فتؤوں کا مناسب نہیں۔ لیکن متواتر سمجھانے کے بعد بھی یہ نہ سمجھے۔ اب اس حدیث مطابق کہ جو کسی مسلمان کو کافر کہے وہ خود کافر ہوتا ہے۔ میں مجبور ہوں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق ان کو کافر سمجھوں۔
 

رانا

محفلین
ملکہ وکٹوریہ کو خراج تحسین پیش کرنے کا جواب:
اس کتاب میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ملکہ معظمہ کے مسلمانوں پر احسانات کا ذکر کر کے اس کی شکرگزاری کی ہے اس کے قیام امن اور قیام انصاف وعدل کی تعریف کی ہے اور قرآنی حکم وَقُولَا لَہٗ قَوْلاً لَّیِّناً کہ اسے نرمی اور ملائمت سے بات کہو ، کے مطابق اسے نہایت ملائمت سے اسلام کی طرف بلایا ، اس پر ایمان لانے کی ترغیب دی نیز اس کے اپنے عقیدے کا بطلان کھول کھول کر بتایا اسی طرح اپنی کتاب ’’ مسیح ہندوستان میں‘‘ کے بارہ میں بتایا ، جس میں اسلام کی حقانیت اور عیسائیت کے رد میں ناقابل تردید ثبوت مہیا کئے گئے ہیں اور اصل حقیقت یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اپنے الفاظ سے ایک بات تو بڑی واضح طور پر ملتی ہے کہ آپ کسی خوشامد کی غرض سے یہ تعریفیں نہیں کرتے تھے بلکہ اسلامی فرض کے طور پر اعتراف حقیقت تھا اس سے بڑھ کر اس کی کوئی اور شکل وصورت نہیں نکلتی۔ آپ ؑ فرماتے ہیں :۔

’’پس سنو اے نادانو ! میں اس گورنمنٹ کی کوئی خوشامد نہیں کرتا بلکہ اصل بات یہ ہے کہ ایسی گورنمنٹ سے جو دین اسلام اور دینی رسوم پر کچھ دست اندازی نہیں کرتی اور نہ اپنے دین کو ترقی دینے کے لئے ہم پر تلواریں چلاتی ہے ، قرآن شریف کی رو سے جنگ مذہبی کرنا حرام ہے کیونکہ وہ بھی کوئی مذہبی جہاد نہیں کرتی۔‘‘ (کشتی نوحؑ ۔ حاشیہ ۔ روحانی خزائن جلد ۱۹صفحہ ۷۵)


پھر فرماتے ہیں :۔

’’میری طبیعت نے کبھی نہیں چاہا کہ ان متواتر خدمات کا اپنے حکّام کے پاس ذکر بھی کروں کیونکہ میں نے کسی صلہ اور انعام کی خواہش سے نہیں بلکہ ایک حق بات کو ظاہرکرنا اپنا فرض سمجھا۔ ‘‘(کتاب البریہ ۔ روحانی خزائن جلد ۱۳صفحہ ۳۴۰)

لیکن اگر ملکہ وکٹوریہ کی تعریف ہی انگریزوں کا ایجنٹ بننے کے لئیے کافی ہے تو پھر اس طرف بھی نظر ڈال لیں:

علاّمہ اقبال انگریز کے مدح خواں
یہ تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا موقف تھا لیکن وہ لوگ جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام پر یہ اعتراض کرتے ہیں کہ چونکہ آپ نے انگریزوں کی تعریف کی ہے اس لئے انگریز کا ایجنٹ ہونا ثابت ہو گیا ۔ اب ان کے کلماے سنیئے ۔ ان میں سے ایک علامہ سر محمد اقبال کی شخصیت ہے۔ آپ اس زمانہ میں انگریزوں کے متعلق کیا کہا کرتے تھے اور کیا لکھا کرتے تھے ، ان کے جذبات اور خیالات کیا تھے وہ ملاحظہ ہوں ملکہ وکٹوریہ کی وفات پر آپ نے ایک مرثیہ لکھا اس میں فرماتے ہیں

میت اٹھی ہے شاہ کی ، تعظیم کے لئے
اقبال اڑ کے خاک سر رہ گزار ہو

صورت وہی ہے نام میں رکھا ہوا ہے کیا
دیتے ہیں نام ماہ محرم کا ہم تجھے

جس مہینے میں ملکہ وکٹوریہ فوت ہوئیں اقبال کہتے ہیں کہ اس مہینہ کا نام جو مرضی رکھ لو حقیقت میں یہ محرم کے واقعہ سے مختلف نہیں ہے ، محرم میں جو دردناک واقعہ گذرا تھا یہ واقعہ اس کی ایک نئی صورت ہے ۔ یعنی امام حسینؓ کی شہادت اور ملکہ وکٹوریہ کی موت ایک ہی مقام اور مرتبہ کی حامل ہیں ۔پھر مزید فرماتے ہیں ۔

کہتے ہیں آج عید ہوئی ہے ہوا کرے
اس عید سے تو موت ہی آئے خدا کرے

یہ ہیں مجاہد ملّت علامہ سر محمد اقبال جو احمدیت کی مخالفت میں سرفہرست شمار کئے جاتے ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام پر یہ الزام لگانے میں آگے آگے ہیں کہ چونکہ آپ ؑ انگریز کی تعریف کرتے تھے اس لئے آپ انگریزکاپوداہیں۔ پھر لکھتے ہیں ۔ع

’’اے ہند! تیرے سر سے اٹھا سایہ خدا‘‘

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام پر تو جھوٹے طور پر الزام لگایا جاتا ہے کہ آپ نے انگریزوں کو سایہ خدا کہا ہے جبکہ خود علامہ اقبال نے اس مرثیہ میں سایہ خدا کا لفظ استعمال کیا ہے۔

اے ہند! تیرے سر سے اٹھا سایہ خدا
اک غم گسار تیرے مکینوں کی تھی ، گئی

ہلتا ہے جس سے عرش یہ رونا اسی کا ہے
زینت تھی جس سے تجھ کو جنازا اسی کا ہے

(باقیات اقبال ۔ مرتبہ سید عبدالواحد معینی ایم ۔ اے ۔ آکسن ۔ شائع کردہ آئینہ ادب ۔ انارکلی لاہور ۔ بار دوم صفحہ ۷۱ ، ۷۲ ، ۷۳ ، ۹۰)

یہ ہے اصل خوشامد ، جھوٹی تعریف اور مبالغہ آمیز عقیدت کا اظہار ۔

انگریزی حکومت ،اہلحدیث اور دیوبندی علماء کی نظر میں

اہل حدیث اور دیوبندی فرقہ جو اس وقت جماعت احمدیہ کی مخالفت میں سرفہرست ہے ، ان کے چوٹی کے عالم اور بزرگ شمس العلماء مولانا نذیر احمد دہلوی فرماتے ہیں :۔

’’سارے ہندوستان کی عافیت اسی میں ہے کہ کوئی اجنبی حاکم اس پر مسلط رہے جو نہ ہندو ہو نہ مسلمان ہو کوئی سلاطین یورپ میں سے ہو۔ (انگریز ہی نہیں جو بھی مرضی ہو یورپ کا ہو سہی ) مگر خدا کی بے انتہا مہربانی اس کی مقتضی ہوئی کہ انگریز بادشاہ آئے۔ ‘‘(مجموعہ لیکچرز مولانا نذیر احمد دہلوی صفحہ ۴ ، ۵مطبورہ ۱۸۹۰ء)

پھر فرماتے ہیں :۔

’’کیا گورنمنٹ جابر اور سخت گیر ہے؟ توبہ توبہ ماں باپ سے بڑھ کر شفیق‘‘ (مجموعہ لیکچرز مولانا نذیر احمد دہلوی صفحہ ۱۹ مطبوعہ ۱۸۹۰ء)

پھر فرماتے ہیں:۔

’’ میں اپنی معلومات کے مطابق اس وقت کے ہندوستان کے والیان ملک پر نظر ڈالتا تھا اور برما اور نیپال اور افغانستان بلکہ فارس اور مصر اور عرب تک خیال دوڑاتا تھا اس سرے سے اس سرے تک ایک متنفس سمجھ میں نہیں آتا تھا جس کو میں ہندوستان کا بادشاہ بناؤں (یعنی اگر میں نے خیالات میں بادشاہ بنانا ہوتا تو کس کو بناتا) امیدواران سلطنت میں سے اور کوئی گروہ اس وقت موجود نہ تھا کہ میں اس کے استحقاق پر نظر کرتا پس میرا اس وقت فیصلہ یہ تھا کہ انگریز ہی سلطنت ہندوستان کے اہل ہیں سلطنت انہی کا حق ہے انہی پر بحال رہنی چاہئے۔ ‘‘(مجموعہ لیکچرز مولانا نذیر احمد دہلوی صفحہ ۲۶ )

یعنی ان کی قلبی تمنا یہ تھی انگریزی حکومت ہمیشہ ہمیش کے لئے بحال رہے اور مسلمان اس کی غلامی میں رہیں۔

انگریز اولی الامر تھے

ایڈیٹر رسالہ ’’ چٹان ‘‘ شورش کاشمیری صاحب لکھتے ہیں :۔

’’ جن لوگوں نے حوادث کے اس زمانے میں نسخ جہاد کی تاویلوں کے علاوہ اَطِیْعُوا اللّٰہَ وَاَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَاُوْلِی الاَمْرِ مِنْکُمْ میں اولی الامر کا مصداق انگریزوں کو ٹھہرایا ان میں مشہور انشاء پرداز ڈپٹی نذیر احمد کا نام بھی ہے۔‘‘ (کتاب ’’ عطاء اللہ شاہ بخاری ‘‘ صفحہ ۱۳۵)

انگریزی حکومت ، باعثِ افتخار

اب سنیئے مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کے انگریزی سلطنت کے متعلق خیالات ۔ وہ لکھتے ہیں :۔

’’ سلطان روم ایک اسلامی بادشاہ ہے لیکن امن عامہ اور حسن انتظام کے لحاظ سے (مذہب سے قطع نظر ) برٹش گورنمنٹ بھی ہم مسلمانوں کے لئے کچھ کم فخر کا موجب نہیں ہے اور خاص گروہ اہل حدیث کے لئے تو یہ سلطنت بلحاظ امن وآزادی اس وقت کی تمام اسلامی سلطنتوں (روم ، ایران ، خراسان ) سے بڑھ کر فخر کا محل ہے۔ ‘‘(رسالہ اشاعۃ السنۃ۔ جلد ۶نمبر ۱۰ صفحہ ۲۹۲ ، ۲۹۳)

یہ تھی کل تک ان لوگوں کی زبان ! پھر فرماتے ہیں :۔

’’ اس امن وآزادی عام وحسن انتظام برٹش گورنمنٹ کی نظر سے اہل حدیث ہند اس سلطنت کو از بس غنیمت سمجھتے ہیں اور اس سلطنت کی رعایا ہونے کو اسلامی سلطنتوں کی رعایا ہونے سے بہتر جانتے ہیں۔ ‘‘(رسالہ اشاعۃ السنۃ۔ جلد۶نمبر ۱۰،صفحہ ۲۹۲ ،۳ ۲۹)

یہ لوگ آج کہہ رہے ہیں کہ احمدیوں کو چونکہ اسلامی سلطنتیں پسند نہیں اس لئے یہ انگریزی راج میں پنپے ،وہیں بڑھے اور چاہتے تھے کہ وہی حکومت ہمیشہ کے لئے رہے لیکن خود ان کے آباؤ اجداد تو کل تک یہ فرمایا کرتے تھے کہ :۔

’’ اسلامی سلطنتوں کی رعایا ہونے سے بہتر جانتے ہیں ۔‘‘

اب دیکھ لیجئے ان تحریروں میں ایسا کوئی ذکر نہیں ہے جیسا کہ حکومت کی تعریف سے متعلق مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے وجہ بیان فرمائی ہے کہ سکھوں کے مظالم سے نجات بخشی ، مذہبی آزادی دی اس لئے ہم تعریف کرتے ہیں مگر ان لوگوں کو تو ایسی وجوہات کے بغیر ہی انگریزی حکومت اسلامی سلطنتوں سے کل تک بہتر نظر آرہی تھی اور اہلحدیث جہاں کہیں وہ رہیں اور جائیں (عرب میں خواہ روم میں خواہ اور کہیں ) کسی اور ریاست کی محکوم رعایا ہونا نہیں چاہتے سوائے انگریز کے۔

جہاں تک شیعوں کا تعلق ہے وہ بھی ایسی ہی تحریریں پیش کرتے رہے۔ علامہ علی حائری کا ایک اقتباس ہے جو موعظہ تحریف قرآن ۔ لاہور ۱۹۲۳ء مرتبہ محمد رضی الرضوی القمّی پر درج ہے اس میں بھی اسی مضمون کی باتیں بیان کی گئی ہیں۔

انگریزوں کی نگاہِ فیض اثر کا ملتجی

مولانا ظفر علی خان جو ایک وقت میں احرار کے ساتھ منسلک تھے اور بعد میں ان کو ملک و وطن اور اسلام کا غدّار قرار دیا وہ ایک لمبے تجربہ کے بعد لکھتے ہیں:۔

’’ مسلمان ۔۔۔ ایک لمحہ کے لئے بھی ایسی حکومت سے بدظن ہونے کا خیال نہیں کر سکتے (یعنی انگریزوں سے ناقل) ۔۔۔ اگر کوئی بدبخت مسلمان ، گورنمنٹ سے سرکشی کرے تو ہم ڈنکے کی چوٹ سے کہتے ہیں کہ وہ مسلمان مسلمان نہیں ۔‘‘ (اخبار زمیندار لاہور ۱۱ نومبر ۱۹۱۱ء)

یہ ہے فتویٰ کہ حکومت برطانیہ کی سرکشی کرنے والا مسلمان ، مسلمان ہی نہیں رہتا۔ پھر فرماتے ہیں :۔

’’اپنے بادشاہ عالم پناہ کی پیشانی کے ایک قطرے کی بجائے اپنے جسم کا خون بہانے کے لئے تیار ہیں اور یہی حالت ہندوستان کے تمام مسلمانوں کی ہے۔‘‘ (اخبار زمیندار لاہور ۲۳ نومبر ۱۹۱۱ ء)

کیا یہ حالت تھی جسے بدلنے کے لئے انگریزوں نے یہ خود کاشتہ پودا کھڑا کیا تھا ؟پھر نظم کی صورت میں فرماتے ہیں۔

جھکا فرطِ عقیدت سے مرا سر
ہوا جب تذکرہ کنگ ایمپرر کا

جلالت کو ہے کیا کیا ناز اس پر
کہ شاہنشاہ ہے وہ بحرو بر کا

زہے قسمت جو ہو اک گوشہ حاصل
ہمیں اس کی نگاہ فیض اثر کا

(زمیندار ۱۹ ؍اکتوبر ۱۹۱۱ء)

اصل یہ ہے جھوٹی تعریف اور سچی خوشامد پر مبنی نظم ونثر کی صورت میں کاسۂ گدائی جو مسلمان لیڈروں نے انگریز کے آگے پھیلایا۔

مسلمان علماء کی منافقانہ چالیں

پس یہ تو ہے ان لوگوں کا اپنا کردار اور ان کا ماضی ،جو آج احمدیت پر بڑھ بڑھ کر الزام لگا رہے ہیں لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو صرف یہی ضرورت نہیں تھی کہ حسن خلق کے نتیجہ میں ایک محسن حکومت کا شکریہ ادا کریں بلکہ بعض ایسی وجوہات بھی تھیں جو خود مخالفین کی پیدا کردہ تھیں ۔ ایک طرف تو یہ علماء مسلمانوں کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے خلاف بھڑکاتے تھے کہ آپ انگریز کی تعریف کرتے ہیں اور جہاد کے منکر ہیں جبکہ یہ حکومت اس لائق ہے کہ اس سے جہاد کیا جائے اور اسے ختم کیا جائے ، تباہ وبرباد کر دیا جائے۔ دوسری طرف انگریزوں کی تعریف میں وہ کلمات لکھ رہے تھے جو ابھی آپ نے ملاحظہ فرمائے ہیں ۔ اور تیسری طرف انگریزوں کو خفیہ بھی اور شائع شدہ درخواستیں بھی پیش کر رہے تھے کہ یہ نہایت ہی خطرناک آدمی ہے اس کی باتوں میں نہ آجانا ، یہ امام مہدی ؑ ہونے کا دعویدار ہے اور خونی مہدی ہے جو ساری انگریزی سلطنت کو تباہ کرنے کے لئے اٹھا ہے ۔ اس قدر منافقت، ظلم اور جھوٹ کہ ایک طرف مسلمانوں میں یہ اعلان ہو رہا ہے کہ انگریز کا خود کاشتہ پودا ہے اور دوسری طرف انگریز کو یہ خبریں پہنچائی جا رہی ہیں کہ یہ تو تمہاری قوم کا دشمن ہے اور تمہیں تباہ وبرباد کرنے کے لئے اٹھا ہے اس لئے اس کو ہلاک کر دو۔ چنانچہ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی رسالہ اشاعۃ السنہ جلد ۶حاشیہ صفحہ ۴پر رقم طراز ہیں :۔

’’ اس کے (یعنی مرزا غلام احمد صاحب قادیانی ۔ ناقل ) دھوکہ ہونے پر یہ دلیل ہے کہ دل سے وہ گورنمنٹ غیر مذہب کی جان مارنے اور اس کا مال لوٹنے کو حلال اور مباح جانتا ہے ‘‘

دلیل بھی کیسی کمال کی ہے کہ ’’ دل سے جانتا ہے۔ ‘‘

’’ لہذا گورنمنٹ کو اس کا اعتبار کرنا مناسب نہیں اور اس سے پر حذر رہنا ضروری ہے ورنہ اس مہدی قادیانی سے اس قدر نقصان پہنچنے کا احتمال ہے جو مہدی سوڈانی سے بھی نہیں پہنچا۔ ‘‘

منشی محمد عبداللہ صاحب انگریزوں کو مخاطب کر کے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے خلاف متنبہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔

’’ ایسے ہی دیگر آیات قرآنیہ اپنے چیلوں کو سنا سنا کر گورنمنٹ سے جنگ کرنے کے لئے مستعد کرنا چاہتا ہے۔ ‘‘ (شہادت قرآنی ۔صفحہ ۲۰مطبوعہ ۱۹۰۵ء اسلامیہ سٹیم پریس لاہور)

مخالفین کے ان تاثرات کو بڑی سنجیدگی سے لیا گیا چنانچہ اس زمانہ کا واحد انگریزی اخبار جو نہایت مؤقّر سمجھاجاتا تھا اور بڑی دیر تک چلتا رہا ۔ یعنی ’’ سول اینڈ ملٹری گزٹ لاہور ‘‘ اس میں ایک اداریہ شائع ہوا۔ جس میں انگریز قوم کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے خلاف بھڑکایا گیا اور حکومت کو متنبہ کیا گیا کہ یہ نہایت خطرناک آدمی ہے اس کی باتوں میں نہ آئیں اس کی صلح پسندی صرف ظاہری ہے ورنہ یہ انگریزی حکومت کو تباہ وبرباد کر کے رکھ دے گا۔

یہ تو تم لوگوں کا کردار رہا ہے کہ ایک طرف حکومت کی چاپلوسی کرتے رہے اس کی خوشامدیں کر کر کے اس کے آگے کاسۂ گدائی پھیلاتے رہے اور دوسری طرف حضرت بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ کی مخالفت میں ایڑی چوٹی کا زور لگایا اور جب خدا تعالیٰ کے مامور کے سامنے ناکام ونامراد رہے تو حکومت وقت کو ان کے خلاف بھڑکانے کے لئے جھوٹی اور خلاف واقعہ شکایتیں کرنے لگے۔ تمہاری ان شکایتوں اور پرانگیخت کارروائیوں پر اگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی پوزیشن صاف کرنے کے لئے ایک سچی اور حق بات کی تو تم اپنی چاپلوسیوں اور خوشامدوں کے طوق اتار کر ان کے گلے میں ڈالنے کی کوشش کرنے لگے۔ پس یہ ہے تمہاری شکل اور یہ ہے تمہارا کردار ، جو تمہارے جھوٹا ہونے کا کھلا کھلا ثبوت ہے۔
 

رانا

محفلین
کیا مرزا صاحب نے اپنی کتاب میں اپنے آپ کو خود کاشتہ پودا لکھا؟
اوپر جو صفحہ اسکین کر کے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے وہ سامنے ہی ہے اس کو دوبارہ پڑھ جائیں اس میں انہوں نے صرف اپنے خاندان کی نسبت وہ الفاظ استعمال کیئے گئے ہیں جو کہ مرزا صاحب کا مخالف اور سنی خاندان تھا۔ اگر وہ تھا تو ہوتا پھرے جماعت احمدیہ کا اس خاندان سے کیا تعلق ہے۔ جماعت کا تو آغاز ہی مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام سے ہوتا ہے۔
ہمارا چیلنج ہے کہ کوئی حضرت مسیحِ موعود علیہ السلام کی کسی کتاب سے یہ بیان نہیں نکال سکتا کہ جس میں آپ نے یہ فرمایا ہو کہ’’ میں یا حکومتِ برطانیہ کا خود کاشتہ پودا ہوں ۔ ‘‘

جیسا اس سے پہلے جو حوالے میں نے دیئے ہیں ان سے واضع ہے کہ اس زمانہ میں حضرت مسیحِ موعود علیہ السلام کے مخالف مولوی شرمناک منافقت میں مبتلا تھے۔ ایک طرف تو وہ خودحکومتِ وقت کی کاسہ لیسی اور خوشامدوں میں انتہائی پستہ ہو رہے تھے تو دوسری طرف حکومت کے پاس بار بار ایسی جھوٹی مخبریاں کرتے تھے کہ حکومت کو اس شخص سے ہوشیار رہنا ضروری ہے کیونکہ یہ خونی مہدی ہونے کا دعویدار ہے اور اپنے مریدوں کو فساد کی تعلیم دیتا ہے۔ ایسی جھوٹی شکایتوں پر جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام حکومت کے سامنے ا پنی پوزیشن واضح کرتے تو وہ مولوی عوام میں یہ منادی کرنے لگتے کہ یہ شخص حکومت کی چاپلوسی کرتا ہے۔

ان مولویوں کی ایسی چالوں کے پیشِ نظر حضرت مسیحِ موعود علیہ السلام نے حکومت کو بتایاکہ میں گورنمنٹ کا غدّار نہیں بلکہ خدمتگذار ہوں۔ اسی طرح اپنے خاندان کا ذکر کرتے ہوئے لکھاکہ وہ اس کا ہمیشہ وفادار رہا ہے اور حکومت کے لئے اس کی بہت خدمات ہیں۔اس لئے کسی قسم کی بغاوت یا فساد کی اس خاندان کے کسی فرد سے توقع ہی نہیں کی جا سکتی۔ چنانچہ آپ نے فرمایا

’’ مجھے متواتر اس بات کی خبر ملی ہے بعض حاسد بد اندیش جو بوجہ اختلافِ عقیدہ یا کسی اور وجہ سے مجھ سے بغض اور عداوت رکھتے ہیں یا جو میرے دوستوں کے دشمن ہیں۔ میری نسبت اور میرے دوستوں کی نسبت خلافِ واقعہ امور گورنمنٹ کے معزّز حکّام تک پہنچاتے ہیں۔ اس لئے اندیشہ ہے کہ ان کی ہر روز کی مفتریانہ کاروائیوں سے گورنمنٹ عالیہ کے دل میں بدگمانی پیدا ہو کر وہ تمام جانفشانیاں پچاس سالہ میرے والد مرحوم مرزا غلام مرتضیٰ اور میرے حقیقی بھائی مرزا غلام قادر مرحوم کی جن کا تذکرہ سرکاری چٹھیات اور سر لیبل گریفن کی کتاب ’’ رئیسانِ پنجاب‘‘ میں ہے۔ نیز میرے قلم کی وہ خدمات جو میری اٹھارہ سال کی تصنیفات سے ظاہر ہیں، سب کی سب ضائع اور برباد ہو جائیں۔ اور خدانخواستہ سرکار انگریزی اپنے قدیم وفادار اور خیر خواہ خاندان کی نسبت کوئی تکدّرِ خاطر اپنے دل میں پیدا کرے۔اس بات کا علاج تو غیر ممکن ہے کہ ایسے لوگوں کا منہ بند کیا جائے کہ جو اختلافِ مذہبی کی وجہ سے یا نفسانی حسد اور بغض اور کسی ذاتی غرض کے سبب سے جھوٹی مخبری پر کمر بستہ ہوجاتے ہیں، التماس ہے کہ سرکارِ دولتمدار ایسے خاندان کی نسبت جس کو پچاس برس کے متواتر تجربہ سے ایک وفادار جانثار خاندان ثابت کر چکی ہے ۔اور جس کی نسبت گورنمنٹ عالیہ کے معزّز حکّام نے ہمیشہ مستحکم رائے سے یہ گواہی دی ہے کہ وہ قدیم سے سرکار انگریزی کے پکّے خیر خواہ اور خدمتگذار ہیں۔ اس خود کاشتہ پودہ کی نسبت نہایت حزم اور احتیاط اور تحقیق اور توجّہ سے کام لے۔‘‘( مجموعہ اشتہارات۔جلد ۳ صفحہ۲۱)

یہ عبارت کسی وضاحت کی محتاج نہیں۔ اس میں حضرت مسیحِ موعود علیہ السلام نے جماعتِ احمدیہ یا اپنے دعاوی کو سرکار کا ’’ خود کاشتہ پودہ‘‘ قرار نہیں دیا بلکہ اپنے خاندان کی گزشتہ خدمات کے متعلق فرمایا ہے۔ وہ خاندان نہ صرف یہ کہ احمدیّت سے پہلے کا ہے بلکہ اس کی سب خدمات بھی احمدیّت کے آغاز سے پہلے کی ہیں۔ ان خدمات کا احمدیّت سے کوئی تعلق نہیں تھا ۔ خاندان کی ان خدمات کو آپ ؑ کے دعاوی یا آپ کی جماعت کی طرف منسوب کرنا محض بدیانتی ہے۔ حضرت مسیحِ موعود علیہ السلام کو خدا تعالیٰ نے اس خاندان کے بارہ میں الہاماً بتایا کہ

ینقطع من اٰ بآءِ ک و یبدء منک

یعنی اب آپ کا آبائی خاندان آپ سے کٹ گیا ہے اور آپ سے آئندہ خاندان قائم ہو گا۔ پس وہ خاندان جس کے بارہ میں ’’ خود کاشتہ پودہ ‘‘کے الفاظ تھے وہ آپ سے بالکل کٹ کر پیچھے رہ گیا۔
 

شمشاد

لائبریرین
رانا صاحب آپ اپنے نبی کو اقبال ، ظفر علی خان اور محمد حسن بٹالوی سے ملا رہے ہیں، جبکہ ہم اپنے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق یہ کہتے ہیں "بعد از خدا بزرگ تو ہی قصہ مختصر"

اُم نور العین صاحبہ نے آپ ہی کی کتابوں کی تصویر لگا دی ہے، اب اس کو جھٹلا دیں گے کیا۔
 
ڈاکٹر اقبال یا مولوی نذیر حسین دہلوی یا ظفر علیخاں۔۔۔۔یہ نبی نہیں تھے نہ ہی نبی ہونے کے دعویدار تھے۔۔۔کیا آپ یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ چونکہ ان حضرات نے یہ یہ لکھا یا کہا، چنانچہ نبی بھی ایسا کہیں تو جائز ہے۔۔۔:shameonyou:بہت خوب گویا عام انسان کوئی برا فعل کریں تو نبی کو بھی جائز ہے کہ وہ بھی ایسا کر کے دکھادے۔۔۔سبحان اللہ کیا فہم ہے:grin:۔۔
 

دوست

محفلین
رانا صاحب جانے دیں، کیوں گڑے مُردے اکھاڑتے ہیں۔ آپ اپنے دین پر ہم اپنے دین پر۔ ورنہ قادیانیت کے رد پر تو لائبریری بھری پڑی ہے ہماری۔ پھر آپ کہیں گے کہ سکین کرکر کے لگائے جاتے ہیں۔ وہ کیا ہے کہ میرے پاس بھی سکینر ہے، اور آج کل وقت بھی ہے۔ کوئی تعمیری کام کریں صاحب۔ مرزا صاحب کی وکالت جانے دیں، ہمیں انھیں نہ ماننے کے لیے اتنی دلیل ہی کافی ہے کہ موصوف نے بعد از محمد ﷺ دعوائے پیغمبری کیا تھا۔ محمد ﷺ ایک اور مرزا صاحب جیسوں سے اسلامی تاریخ بھری پڑی ہے۔ پہلے عالم دین، پھر مجتہد دین، پھر امام مہدی، پھر مسیح موعود اور آخر میں نبی۔ بڑا سادہ سا پیٹرن ہے جی اپنے آپ کو نبی ڈیکلئیر کرنے کا، گوہر شاہی ہو، مرزا ہو یا کوئی تیسرا۔
 

رانا

محفلین
شمشاد بھائی بات ملانے کی نہیں۔ بلکہ الزامی طور پر میں یہ بتا رہا ہوں کہ اگر تعریف ہی کرنا انگریز کا ایجنٹ ہونے کے لئے کافی ہے تو پھر یہ کام تو ان کے اجداد بھی کرتے رہے تھے۔ جبکہ مرزا صاحب نے تو کسی وجہ سے تعریف کی تھی۔ اور ہرجگہ یہ ذکر کیا کہ میں اس لئے تعریف کرتا ہوں کہ ہندوستان کے مسلمان خصوصا پنجاب کے مسلمانوں کی حالت زار اس درجہ خراب ہوچکی تھی کہ ان کا کوئی بھی حق باقی نہیں رہا تھا اور سکھوں کی حکومت نے ایسے ایسے مظالم توڑے تھے کہ اس کی کوئی نظیر دوسری جگہ نیں آتی۔ اس جلتے اور دہکتے ہوئے تنور سے انگریزی حکومت نے آکر ہمیں نکالا اور ہمارے جملہ حقوق بحال کئے یہ وجہ ہے کہ میں اس حکومت کی تعریف کرنے پر مجبور ہوں۔ کیونکہ یہ سنت انبیاء ہے بلکہ عام انسانی شرافت کا بھی یہی تقاضا ہے کہ احسان کو احسان کے ساتھ یاد کیا جائے۔ میں یہاں دو حوالے دیتا ہوں جس سے پتہ چلتا ہے کہ جس زمانہ میں انگریزوں نے آکر مسلمانوں کو اس مصیبت سے نجات دی اس وقت مسلمانوں کی حالت کیا تھی۔

تلسی رام صاحب اپنی کتاب "شیر پنجاب" مطبوعہ 18272 میں لکھتے ہیں:
"ابتدا میں سکھوں کا طریق غارت گری اور لوٹ مار کا تھا۔ جو ہاتھ آتا تھا لوٹ کر اپنی جماعت میں تقسیم کرلیا کرتے تھے۔ مسلمانوں سے سکھوں کو بڑی دشمنی تھی۔ اذان یعنی بانگ بآواز بلند نہیں ہونے دیتے تھے۔ مسجدوں کو اکثر اپنے تحت میں لے کر ان میں گرنتھ پڑھنا شروع کرتے اوراس کا نام موت کڑا رکھتے تھے۔ اور شراب خور ہوتے۔ دیکھنے والے کہتے ہیں کہ جہاں وہ پہنچتے تھے جو کوئی برتن مٹی استعمالی کسی مذہب والے کا پڑا ہوا ان کو ہاتھ آجاتا پانچ چھتر مار کر اس پر کھانا پکا لیتے تھے یعنی پانچ جوتے اس پر مارنا اس کو پاک ہونا سمجھتے تھے۔"

یہ وہ سکھ راج والے تھے جن کے چنگل سے انگریز نے آکر مسلمانوں کے نجات دی ہے۔ اور مختلف تاریخوں میں ان سے متعلق بڑے دردناک حالات ملتے ہیں۔

سوانح احمدی (مولفہ محمد جعفر تونسوی) میں حضرت سید احمد بریلوی رحمہ اللہ کا ایک بیان شائع شدہ ہے آپ فرماتے ہیں:
"ہم اپنے اثناء راہ ملک پنجاب میں ایک کنویں پر پانی پینے کو گئے تھے۔ ہم نے دیکھا کہ چند سکھنیاں (سکھوں کی عورتیں) اس کنویں پر پانی بھر رہی ہیں۔ ہم لوگ دیسی زبان نہیں جانتے تھی ہم نے اپنے مونہوں پر ہاتھ رکھ کر ان کو بتلایا کہ ہم پیاسے ہیں ہم کو پانی پلاو۔ تب ان عورتوں نے ادھر ادھر دیکھ کر پشتو زبان میں ہم سے کہا کہ ہم مسلمان افغان زادیاں فلانے ملک اور بستی کی رہنے والی ہیں۔ یہ سکھ لوگ ہم کو زبردستی لائے"۔ (صفحہ 24)

علاوہ ازیں انسائکلوپیڈیا میں میں سکھوں کے مظالم سے متعلق جو تفصیلات دی گئیں ہیں وہ بھی بہت دردناک ہیں جن میں کثرت کے ساتھ مسلمان عورتوں کی بے حرمتی کا ذکر کیا گیا ہے۔ مسجدوں کو برباد کرنا، ان میں گدھے باندھنا، مسلمانوں کا قتل عام اور اذان دینے پر قتل کردینا۔ یہ ساری باتیں اس میں مذکور ہیںِ۔ پس یہ وہ زمانہ تھا جس میں مسلمانوں کو سکھوں کی طرف سے زندگی کے ہر حق سے محروم کیا گیا تھا۔ خیر! اذان دینے سے تو آج بھی (احمدیوں کو) محروم کیا جارہا ہے۔ یہ اب پرانی بات نہیں رہی۔ اس زمانہ میں بھی ایسے نئے لوگ پیدا ہوگئے ہیں کہ جنہیں اذان کی آواز تکلیف دیتی ہے۔ کچھ عرصہ قبل ہندوستان کے ایک سکھ نے اخبار میں ایک خط شائع کروایا ہے جس میں وہ لکھتا ہے کہ ہمیں بڑا لطف آیا کیونکہ مسلمان کسی زمانہ میں سکھوں کو چھیڑا کرتے تھے کہ تم ایسی جاہل قوم ہو کہ مسلمانوں کی اذان سے تم بھرشٹ ہوجایا کرتے تھے اور تم نے زبردستی مسلمانوں کی اذانیں بند کروادی تھیِں۔ تو وہ کہتے ہیں کہ آج ہمارا دل ٹھنڈا ہوا ہے کہ مسلمانوں نے بھی مسلمانوں کی اذانیں بند کروائی ہیں۔ آج ہم پر وہ الزام ختم ہوگیا ہے۔
زندگی میں یہ دور تو آتے جاتے رہتے ہیں۔ جب بھی جہالت بڑھتی ہے تو اس قسم کی حرکتیں ہوتی رہتی ہیں۔ اس لئے بحث یہ نہیں کہ سکھ برا کرتے تھے، بحث یہ ہے کہ اس مصیبت سے جس قوم نے مسلمانوں کو نجات دلائی ہو اس کا اگر شکریہ ادا نہ کیا جائے تو یہ کون سی انسانیت ہے۔
 
رانا صاحب جانے دیں، کیوں گڑے مُردے اکھاڑتے ہیں۔ آپ اپنے دین پر ہم اپنے دین پر۔ ورنہ قادیانیت کے رد پر تو لائبریری بھری پڑی ہے ہماری۔ پھر آپ کہیں گے کہ سکین کرکر کے لگائے جاتے ہیں۔ وہ کیا ہے کہ میرے پاس بھی سکینر ہے، اور آج کل وقت بھی ہے۔ کوئی تعمیری کام کریں صاحب۔ مرزا صاحب کی وکالت جانے دیں، ہمیں انھیں نہ ماننے کے لیے اتنی دلیل ہی کافی ہے کہ موصوف نے بعد از محمد ﷺ دعوائے پیغمبری کیا تھا۔ محمد ﷺ ایک اور مرزا صاحب جیسوں سے اسلامی تاریخ بھری پڑی ہے۔ پہلے عالم دین، پھر مجتہد دین، پھر امام مہدی، پھر مسیح موعود اور آخر میں نبی۔ بڑا سادہ سا پیٹرن ہے جی اپنے آپ کو نبی ڈیکلئیر کرنے کا، گوہر شاہی ہو، مرزا ہو یا کوئی تیسرا۔
جزاك اللہ خيرا
 
1- مرزا غلام احمد قادیانی انگریزوں کا آلۂ کار :
مرزا قادیانی کا ملکہ وکٹوریہ کو خط: بشكريه : http://www.islamiyat.tk/mazameen/Qadyaniyat/Malka-Victoria-Ko-Mirza-Ka-Khat.htm
ستارہ قیصریہ مرزا قادیانی کا ایک خط ہے جو اس نے ملکہ وکٹوریہ کو تحریر کیا۔ دنیا میں ذلیل تر خوشامدی بھی کسی شخص کی ایسے خوشامد نہیں کرے گا جو مرزا قادیانی نے ایک کافرہ عورت کی شان میں کی۔ اس کا ایک ایک لفظ قادیانیت کی ذلت و رسوائی پر خدائی مہر ہے۔ ستارہ قیصریہ کے صفحات یہاں لگائے جارہے ہیں آپ خود پڑھ کر اندازہ فرمائیں کہ کیا کوئی شریف آدمی کسی کی اتنی خوشامد کر سکتا ہے چہ جائیکہ نبی۔۔۔(معاذاللہ) اس کے تصور سے بھی ہماری روح کانپتی ہے۔
ثبوت :
2.1.jpg

2.2.jpg

2.3.jpg

2.4.jpg

2.5.jpg

2.6.jpg

2.7.jpg


2-مرزا قادیانی انگریز کا ایجنٹ بشكريہ http://www.islamiyat.tk/mazameen/Qadyaniyat/Angrez-Ka-Agent.htm
مرزا غلام احمد قادیانی انگریزوں کا ایجنٹ اور اس کا خاندان انگریز کا نمک خوار تھا اس بات کو ہم خود مرزا قادیانی کی کتاب سے ثابت کرنے جارہے ہیں حق کے متلاشی قادیانیوں کیلئے؛
مرزا لکھتا ہے کہ: "وہ قدیم سے سرکار انگریزی کے پکے خیر خواہ اور خدمت گذار ہیں۔ اس خود کاشتہ پودے کی نسبت نہایت احتیاط اور تحقیق اور توجہ سے کام لے اور اپنے ماتحت حکام کو اشارہ فرمائے کہ وہ بھی اس خاندان کی ثابت شدہ وفاداری اور اخلاص کا لحاظ رکھ کر مجھے اور میری جماعت کو ایک خاص عنایت اور مہربانی کی نظر سے دیکھیں ہمارے خاندان نے سرکار انگریزی کی راہ میں اپنے خون بہانے اور جان دینے سے فرق نہیں کیا اور نہ اب فرق ہے۔ لہٰذا ہمارا حق ہے کہ ہم خدمات گذشتہ کے لحاظ سے سرکار دولتمند کی پوری عنایات اور خصوصیت توجہ کی درخواست کریں"۔
(روحانی خزائن جلد 13 صفحہ 350)
1.1.jpg

اور مجھ سے سرکار انگریزی کے حق میں جو خدمت ہوئی وہ یہ تھی کہ میں نے پچاس ہزار کے قریب کتابیں اور رسائل اور اشتہارات چھپواکر اس ملک اور نیز دوسرے بلاد اسلامیہ میں اس مضمون کے شائع کئے کہ گورنمنٹ انگریزی ہم مسلمانوں کی محسن ہے۔ لہٰذا ہر ایک مسلمان کا یہ فرض ہونا چاہیئے کہ اس گورنمنٹ کی سچی اطاعت کرے اور دل سے اس دولت کا شکر گذار اور دعاگو رہے۔اور یہ کتابیں میں نے مختلف زبانوں یعنی اردو۔ فارسی۔ عربی میں تالیف کرکے اسلام کے تمام ملکوں میں پھیلادیں۔ یہاں تک کہ اسلام کے دو مقدس شہروں مکہ اور مدینہ میں بھی بخوبی شائع کردیں۔ اور روم کے پایہ تخت قسطنطنیہ اور بلاد شام اور مصر اور کابل اور افغانستان کے متفرق شہروں میں جہاں تک ممکن تھا اشاعت کردی گئی جس کا نتیجہ ہوا کہ لاکھوں انسانوں نے جہاد کے وہ غلط خیالات چھوڑ دئیے جو نافہم ملاؤں کی تعلیم سے ان کے دلوں میں تھے۔
(روحانی خزائن جلد 15 صفحہ 114)
1.2.jpg

سرکار انگریزی کے سچے خیر خواہ کا بیٹا ہوں جن کا نام مرزا غلام مرتضٰی تھا۔
(مجموعہ اشتہارات جلد دوم صفحہ 366)

اور میں بذات خود سترہ برس سے سرکار انگریز کی ایک ایسی خدمت میں مشغول ہوں کہ درحقیقت وہ ایک ایسی خیر خواہی گورنمنٹ عالیہ کی مجھ سے ظہورمیں آئی ہے کہ میرے بزرگوں سے زیادہ ہے اور وہ یہ کہ میں نے بیسیویں کتابیں عربی اور فارسی اور اردو میں اس غرض سے تالیف کی ہیں کہ اس گورنمنٹ محسنہ سے ہرگزجہاد درست نہیں بلکہ سچے دل سے اطاعت کرنا ہر ایک مسلمان کا فرض ہے
(مجموعہ اشتہارات جلد دوم صفحہ 366)
1.3.jpg

اور جو لوگ میرے ساتھ مریدی کا تعلق رکھتے ہیں وہ ایک ایسی جماعت تیار ہوتی جاتی ہے کہ جن کے دل اس گورنمنٹ کی سچی خیر خواہی سے لبالب ہیں۔
۔(مجموعہ اشتہارات جلد دوم صفحہ 367)۔2-
1.4.jpg



:

انگریزوں کے حسن انتظام کی بناء پر انکی تحسین کرنے میں اور چاپلوسی و خوشامد کرنے میں بڑا فرق ہے۔۔۔۔
 

محمد امین

لائبریرین
مجھے تو تعجب ہوتا ہے مسلمان گھروں میں پیدا ہونے والے ان افراد پر کہ جو اس جھوٹے دوزخی انسان کے باطل دعووں پر ایمان لے آتے ہیں اور معاذ اللہ اسے مسیحِ موعود کہتے ہیں۔ استغفر اللہ من ذٰلک۔

ان بیوقوفوں کو اتنی سی بات سمجھ نہیں آتی کہ امت کے اجماع کے خلاف کیوں کر فلاح کا راستہ ہوگا۔ انکے دلوں پر واقعی مہریں ہیں۔ اللہ انہیں ہدایت نصیب فرمائے اور ان میں سے شریروں اور سازشیوں کو نیست و نابود اور رسوا فرمائے۔
 
بسم اللہ الرحمن الرحیم
اللہ سبحان تعالیٰ اور اللہ کے دین کے دشمن ، خدا کے آخری رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمن ، عامۃ المسلمین کے دشمن ، ننگ دین و ننگ وطن مرزائی ٹولے کے غلیظ عقائد اور ناپاک و مکروہ سازشوں سے پردہ اٹھانے کیلئے میں سب مسلمانوں کی خدمت میں ایک مفصل اور جامع تحریر پیش کر رھا ھوں تاکہ ھر اس مسلمان کو ان کے دجالی عقائدشیطانی مذھب کے بارے آگاھی ھو جو اس مذھب کے غلیظ عقائد اور ان کی اسلام دشمن سوچ سے ابھی تک واقف نہیں ھیں ان قادیانی کفار کو ان کے دجالی فتنے اور غلیظ الزبان مرزا قادیانی ہی کی لکھی ہوئی تحریروں کے آئینے میں دیکھئے، سوچئے اور فیصلہ کیجئے کیا یہ ہمارے دوست ہیں یا بد ترین دشمن ؟ کیا یہ دل آزار ، توہین آمیز اور اشتعال انگیز تحریریں مسلمانوں کیلئے قابل برداشت ہیں اور امت مسلمہ ایسے لوگوں کو گوارا کر سکتی ہے ؟ قادیانیت کے ان گندے اور غلیظ شیطانی عقائد کو پڑھ کر آپ دوستوں کو بڑی حد تک اس بات کا بھی اندازہ ھو جائے گا کہ پاکستان سے فرار ھو کر مغربی ممالک میں اپنے گورے مالکوں کی گود میں بیٹھے شاتم ِ اسلام اور گستاخ ِ قرآن مرزائی اور جعلی آئی ڈیوں میں چھپے دینی اور ملی ھستیوں کی توہین کرنے والے قادیانی یہاں نیٹ پر کیوں کھلے عام اللہ سبحان تعالی کی شان ، قرآن حکیم کی عظمت ، انبیا اکرام، صحابہ اجمعین اور اھل ِ بیت کی توھین میں غلاظت لکھتے ھیں اور کیا وہ منافق مسلمان لوگ جو ان سے دوستیاں نبھاتے اور ان کے آلہ کار بن کر نیٹ پر اسلام دوست اور محب الوطن مسلمانوں کے بارے شر پھیلاتے ہیں ان کی دینی غیرت کس روشن خیالی میں گم ہے؟

قسطوں میں فراڈ اور عیارانہ دعوے

مرزا نے اپنی تصانیف میں اتنا جھوٹ لکھا ہے جو ایک صحیح الدماغ شخص لکھ ہی نہیں سکتا۔ اس نے قسطوں میں بہت سے
دعوے کئے اور یہ بات مد نظر رھے کہ ھر جھوٹے دعوے سے مکر جانے کے بعد اگلے منصب کا دعویٰ اس کے پہلے دعوے کو باطل اور فراڈ ثابت کرتا رھا ۔

دعوی نمبر ۱مجدد ہونے کا دعویٰ کیا۔۔۔۔ تصنیف الاحمدیہ ج ۳ ص ۳۳ ۔۔۔۔۔۔
دعوی نمبر ۲ دوسرا دعویٰ محدثیت کا کیا۔۔۔۔۔۔
دعوی نمبر ۳ تیسرا دعویٰ مھدیت کا کیا ۔۔۔ تذکرہ الشہادتین ص ۲۔۔۔۔۔۔
دعوی نمبر ۴ چھوتھا دعویٰ مثلیت مسیح کا کیا ۔۔۔۔ تابلیغِ رسالت ج ۲ ص ۲۱۔۔۔۔۔
دعوی نمبر ۶ پانچواں دعویٰ مسیح ہونے کا کیا ۔۔۔ جس میں کہا کہ خود مریم بنا رہا اور مریمیت کی صفات کے ساتھ نشو و نما پاتا رہا اور جب دو برس گزر گئے تو دعوی نمبر عیسیٰ کی روح میرے پیٹ میں پھونکی گئی اور استعاراً میں حاملہ ہو گیا اور پھر دس ماہ لیکن اس سے کم مجھے الہام سے عیسیٰ بنا دیا گیا
کشتیِ نوح ۔۔۔ ص ۶۸ ۔ ۶۹۔۔۔۔۔۔
دعوی نمبر ۶ چھٹا دعویٰ ظلی نبی ہونے کا کیا ۔۔۔ کلمہ فصل ۔۔۔ ص ۱۰۴۔۔۔۔۔۔
دعوی نمبر ۷ ساتواں دعویٰ بروزی بنی ہونے کا کیا ۔۔۔ اخبار الفصل۔۔۔۔۔۔
دعوی نمبر ۸ آٹھواں دعویٰ حقیقی نبی ہونے کا کیا۔۔۔۔۔۔
دعوی نمبر ۹ نواں دعویٰ کیا کہ میں نیا نبی نہیں خود محمد ہوں اور پہلے والے محمد سے افضل ہوں انہیں ۳۰۰۰ معجزات دیے گئے جب کہ مجھے ۳ لاکھ معجزات ملے روحانی خزائن ۔۔۔ ج ۱۷ ص ۱۵۳۔۔۔۔۔۔
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top