عبدالجبار
محفلین
یہ زمانہ یہ دور کچھ بھی نہیں
اک تماشہ ہے اور کچھ بھی نہیں
اک تماشہ ہے اور کچھ بھی نہیں
اک تری آرزو سے ہے آباد
ورنہ اس دل میں اور کچھ بھی نہیں
ورنہ اس دل میں اور کچھ بھی نہیں
عشق رسم و رواج کیا جانے
یہ طریقے یہ طور کچھ بھی نہیں
یہ طریقے یہ طور کچھ بھی نہیں
وہ ہمارے ہم ان کے ہو جائیں
بات اتنی ہے اور کچھ بھی نہیں
بات اتنی ہے اور کچھ بھی نہیں
جلنے والوں کو صرف جلنا ہے
ان کی قسمت میں اور کچھ بھی نہیں
ان کی قسمت میں اور کچھ بھی نہیں
اے نصیر انتظار کا عالم
اک قیامت ہے اور کچھ بھی نہیں
اک قیامت ہے اور کچھ بھی نہیں
(سید نصیرالدین نصیر)