بڑا مشکل سوال پوچھ لیا ہے زرقا آپ نے ۔ مجھے لگتا ہے کہ ہمیں بہت سارے رہنماوں کی ضرورت ہے تا کہ ہم انتخاب کر سکیں ۔ لیکن اس وقت حالت یہ ہے کہ اچھے لیڈرز یا تو مارے جاتے ہیں یا خاموش کروا دئیے جاتے ہیں ۔ ہمارے ہاں لیڈرز بننے اور ابھرنے کا قدرتی عمل بزور قوت روک دیا گیا ہے ۔ غیر ملکی اثر کہیں یا گراس روٹ لیول کی سیاست پر قدغن کی وجہ سے بہرحال ایسا ہو چکا ہے ۔
جو بھی ہو سو فی صد مسلمان، پاکستانی ، محب وطن ، اصول پسند، ایمان دار، باضمیر ہو۔ اس کے الفاظ بے مول نہ ہوں، جو کہے وہی کرے ۔ ہم وطنوں کے لیے عاجز اور غیر ملکیوں کے لیے لوہے کا چنا ثابت ہو۔ تین گھنٹے تقریریں کرنے کی بجائے تین منٹوں میں بات کہنے کا گر جانتا ہو ۔ کم وعدے کرے لیکن پورے کرے ۔ اس کی شان پروٹوکول میں نہیں اس کی ذات اور فیصلوں میں ہو ۔ وہ کہیں جائے تو ہمیں لگے کہ وہ پاکستان کا نمائندہ ہے وہ پاکستانیوں کی بات سمجھتا ہے اور آگے درست انداز میں پہنچائے گا ۔ ہم لوگ اس کے سیاسی نظریات سے اختلاف رکھتے بھی ہوں تو بحیثیت انسان اس کی عزت و احترام کرتے ہوں ۔
اور اب آنکھ کھول لینی چاہیے ۔ جناحؒ روز روز نہیں ملتے ۔
مجھے آپ کا دھاگا دیکھ کر ان کا قول یاد آ رہا تھا کہ رہنماوں کے انتخاب میں احتیاط کریں ، آدھی جنگ تو رہنما کے انتخاب سے ہی جیت لی جاتی ہے ۔
مجھے لگتا ہے کہ کسی بددیانت کو لیڈر بنا کر ہم عذاب کو دعوت دے رہے ہوتے ہیں ۔ جس شخص کا جھوٹ یا بدیانتی ہم جانتے ہوں اسے کسی صورت رہنما نہیں بنانا چاہیے بھلے وہ ہماری قوم،قبیلے ، فرقے یا برادری کا ہو ۔