ہمیں کیسے سیاسی راہنما کی ضرورت ہے؟

arifkarim

معطل
ہم اس لحاظ سے مجرم ہیں کہ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔
ہم نے دین اور دنیا کو الگ الگ کر دیا ۔ کر لیجئے، سیاست میں تجربے! جتنے کر سکتے ہیں۔
جب تک اللہ کا نظام نہیں لاؤ گے، کچھ فلاح نہیں پاؤ گے۔ عقیدتوں اور مفادات کے سارے خود ساختہ مراکز کو چھوڑنا پڑے گا، نہیں تو کچھ حاصل نہیں!!! اور اُس طرف کوئی آنے کو تیار نہیں۔
۔
پچھلے 60 سالوں سے پاکستان میں اسی اسلامی نظام کیلئے ہی تو انتھک کوششیں کر رہے ہیں۔ جیسے آئین شرعی بنایا۔ قادیانوں کو قانونی طور پر کافر قرار دیا۔ اسلامی مذہبی جماعتوں کو جائز قرار دیا۔ اسکے باوجود بجائے آگے بڑھنے کے مسلسل پیچھے کی طرف جا رہے ہیں!
 

arifkarim

معطل
جناب یہ بات سو فیصد غلط ہے ۔۔۔ مغرب کی نام نہاد جمہوریتیں بھی صرف نام کی ہیں ۔۔۔ اقلیتوں کا حقوق کا مکمل تحفظ وہ بھی نہیں کرتیں۔۔۔ اقلیتوں کے حقوق کا مکمل تحفظ صرف اور صرف اسلامی جمہوری نظام میں ہے ۔۔۔ !
اور اسلامی جمہوریت تو کسی پر بھی اپنے رائے مسلط نہیں کرتی ۔۔۔ ! ہائے رائے دینا والے ضرور رائے دینے کا اہل ہونا چاہئے ۔۔۔ ۔!

کیا کسی اسلامی جمہوریہ میں بہائیوں، قادیانیوں، درزیوں اور دیگر مذاہب کے پیروکاروں کے حقوق و فرائض باقی مسلمان اکثریت کے مشابہ ہیں، بہتر ہیں یا بدتر ہیں؟ تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں۔ جہاں شیعوں کی اکثریت ہے وہاں بہائی اور سنی پِٹ رہے ہیں۔ جہاں سنیوں کی اکثریت ہے وہاں شیعوں اور قادیانیوں کا کوئی درجہ نہیں وغیرہ۔ اگر کہیں تمام اقلیتوں اور تمام مذاہب کے پیروکاروں کے درمیان یکسانیت کی بنیاد پر حقوق دئے گئے ہیں تو وہ مغربی سیکولر ممالک ہیں۔ آج کے دور میں بھی سعودی عرب میں ایک بھی چرچ، مندر یا یہودیوں کی عبادتگاہ موجود نہیں۔ جبکہ مغرب میں آپکو ہزاروں مساجد، گرجا گھر اور یہود کی عبادتگاہیں شانہ بشانہ کھڑی مل جائیں گی۔ اب بتائیں!


جی نہیں ان میں سے اب کسی بھی ملک میں 100 فیصد اسلامی جمہوری نظام نہیں ہے ۔۔! اور نہ ہی کبھی رہا ہے ۔۔۔
ہاں ! البتہ جب افغانستان پر طالبان کی حکومت تھی اس وقت انہوں نے ضرور مکمل اسلامی نظام نافذ کیا تھا۔۔۔ اس وقت کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں ہر قسم کے ظلم و جبر ، چوری ڈاکہ سے وہ معاشرہ پاک ہو گیا تھا۔۔۔ لوگ دکانیں کھلی چھوڑ کر نماز کیلئے جاتے تھے ۔۔۔ ! جس پر دشمنانِ اسلام بہت سیخ پا ہوئے اور اسامہ کو جواز بنا کر افغانستان پر حملہ کردیا ۔
اور انہی ظالمان نے پوری دنیا کے احتجاج کرنے کے باوجود بے ضرر سے قدیم بدھمتوں کا تاریخی ورثہ صرف اسلئے منہدم کر دیا کہ نعوذباللہ وہ ’’بت‘‘ ہیں؟ :)
کیا اب قدیم اہرام مصر بھی گرا دیں؟ کہ وہ کفر کے زمانہ کی مصری تخلیق ہیں؟ :)
http://en.wikipedia.org/wiki/Buddhas_of_Bamiyan#Dynamiting_and_destruction.2C_March_2001
 
بڑا مشکل سوال پوچھ لیا ہے زرقا آپ نے ۔ مجھے لگتا ہے کہ ہمیں بہت سارے رہنماوں کی ضرورت ہے تا کہ ہم انتخاب کر سکیں ۔ لیکن اس وقت حالت یہ ہے کہ اچھے لیڈرز یا تو مارے جاتے ہیں یا خاموش کروا دئیے جاتے ہیں ۔ ہمارے ہاں لیڈرز بننے اور ابھرنے کا قدرتی عمل بزور قوت روک دیا گیا ہے ۔ غیر ملکی اثر کہیں یا گراس روٹ لیول کی سیاست پر قدغن کی وجہ سے بہرحال ایسا ہو چکا ہے ۔
جو بھی ہو سو فی صد مسلمان، پاکستانی ، محب وطن ، اصول پسند، ایمان دار، باضمیر ہو۔ اس کے الفاظ بے مول نہ ہوں، جو کہے وہی کرے ۔ ہم وطنوں کے لیے عاجز اور غیر ملکیوں کے لیے لوہے کا چنا ثابت ہو۔ تین گھنٹے تقریریں کرنے کی بجائے تین منٹوں میں بات کہنے کا گر جانتا ہو ۔ کم وعدے کرے لیکن پورے کرے ۔ اس کی شان پروٹوکول میں نہیں اس کی ذات اور فیصلوں میں ہو ۔ وہ کہیں جائے تو ہمیں لگے کہ وہ پاکستان کا نمائندہ ہے وہ پاکستانیوں کی بات سمجھتا ہے اور آگے درست انداز میں پہنچائے گا ۔ ہم لوگ اس کے سیاسی نظریات سے اختلاف رکھتے بھی ہوں تو بحیثیت انسان اس کی عزت و احترام کرتے ہوں ۔
اور اب آنکھ کھول لینی چاہیے ۔ جناحؒ روز روز نہیں ملتے ۔
مجھے آپ کا دھاگا دیکھ کر ان کا قول یاد آ رہا تھا کہ رہنماوں کے انتخاب میں احتیاط کریں ، آدھی جنگ تو رہنما کے انتخاب سے ہی جیت لی جاتی ہے ۔
مجھے لگتا ہے کہ کسی بددیانت کو لیڈر بنا کر ہم عذاب کو دعوت دے رہے ہوتے ہیں ۔ جس شخص کا جھوٹ یا بدیانتی ہم جانتے ہوں اسے کسی صورت رہنما نہیں بنانا چاہیے بھلے وہ ہماری قوم،قبیلے ، فرقے یا برادری کا ہو ۔
 
ہمیں کسی راہنما کی ضرورت نہیں۔۔۔
زرداری ہم، نواز ہم، الطاف ہم، عمران ہم۔۔۔
اس محفل کے اندر پاکستانی حکمران و سیاستدان ہم۔۔۔
 

شمشاد

لائبریرین
طالبان نے مکمل اسلامی نفاذ قائم نہیں کیا تھا۔ ہاں یہ کہہ سکتے ہیں کہ خاصا کیا تھا۔

لڑکیوں کے اسکول تباہ کر دیئے، لڑکیوں اور عورتوں پر ناجائز پابندیاں لگائیں، وغیرہ جو کہ اسلام میں جائز نہیں۔
 
ش

شہزاد احمد

مہمان
تبدیلی یک دم نہیں آئے گی ۔۔۔ انتظار تو کرنا ہی پڑے گا ۔۔۔ مذہبی، لسانی اور جغرافیائی حوالے سے تقسیم در تقسیم معاشرے میں ایک ایسا سیاسی رہنما "فوری طور پر" کیسے ابھر کر سامنے آ سکتا ہے جس پر پاکستانیوں کی اکثریت "ایمان" لے آئے ۔۔۔ غالباََ ایک طویل عرصے تک ہنگ پارلیمنٹ ہمارے مقدر میں لکھی جا چکی ہے ۔۔۔ فوجی آمروں سے "امیدیں" باندھنے والے خوابوں کی جنت میں رہتے ہیں جب کہ ان سیاست دانوں سے "معجزانہ تبدیلی" کی توقع بھی بے کار ہے ۔۔۔ تعلیم کو عام ہونے دیجیے ۔۔۔ یہ عمل تو ہو کر ہی رہے گا ۔۔۔ میڈیا بھی مزید آزاد ہو گا ۔۔۔ ہم تو جاگیردارانہ معاشرے کا رونا روتے رہے ۔۔۔ معلوم ہوا کہ یہی جاگیردار سرمایہ دار بن چکے ۔۔۔ ان کی آنی والی نسلیں کئی "گر" سیکھ چکیں لیکن وہ وقت بھی آئے گا جب ان کے ہاتھ سے یہ سب کچھ چھن جائے گا ۔۔۔ لیکن فی الوقت اس کے آثار نظر نہیں آتے ۔۔۔ زمینی حقیقت یہی ہے کہ ابھی "حقیقی تبدیلی" کی خواہش نہیں جاگی ہے ۔۔۔ بڑے شہروں میں رہنے والے تو اپنا "ذہن" بنا چکے لیکن عوام کی اکثریت اب بھی اس بنیادی "شعور" سے عاری ہے جو ایک آدمی کو انسان بناتا ہے ۔۔۔ یہ جو 2013ء کے انتخابات ہوں گے ۔۔۔ ان میں بھی ووٹ شیر کو پڑیں گے، تیر کو پڑیں گے ۔۔۔ اور کچھ ووٹ عمران خان، منور حسن، الطاف حسین اور اسفند یار ولی کی پارٹیاں لے اُڑیں گی ۔۔۔ وہی ہنگ پارلیمنٹ ہو گی ۔۔۔ لیکن اس جیسی تیسی جمہوریت کو پھر بھی چلنا ہی چاہیے ۔۔۔ اور ہمیں مزید انتظار کرنا چاہیے ۔۔۔ اس دوران ہمیں اپنی اپنی جگہ پر "عوامی سطح پر شعور کی بیداری" کے لیے کوشش و کاوش کرنی چاہیے ۔۔۔ ہر شب کے لیے سحر کا وعدہ ہے ۔۔ او وہ سحر ضرور طلوع ہو گی ۔۔۔ ان شاء اللہ
 

زرقا مفتی

محفلین
جو بھی ہو سو فی صد مسلمان، پاکستانی ، محب وطن ، اصول پسند، ایمان دار، باضمیر ہو۔ اس کے الفاظ بے مول نہ ہوں، جو کہے وہی کرے ۔ ہم وطنوں کے لیے عاجز اور غیر ملکیوں کے لیے لوہے کا چنا ثابت ہو۔ تین گھنٹے تقریریں کرنے کی بجائے تین منٹوں میں بات کہنے کا گر جانتا ہو ۔ کم وعدے کرے لیکن پورے کرے ۔ اس کی شان پروٹوکول میں نہیں اس کی ذات اور فیصلوں میں ہو ۔ وہ کہیں جائے تو ہمیں لگے کہ وہ پاکستان کا نمائندہ ہے وہ پاکستانیوں کی بات سمجھتا ہے اور آگے درست انداز میں پہنچائے گا ۔ ہم لوگ اس کے سیاسی نظریات سے اختلاف رکھتے بھی ہوں تو بحیثیت انسان اس کی عزت و احترام کرتے ہوں ۔
اور اب آنکھ کھول لینی چاہیے ۔ جناحؒ روز روز نہیں ملتے ۔
مجھے آپ کا دھاگا دیکھ کر ان کا قول یاد آ رہا تھا کہ رہنماوں کے انتخاب میں احتیاط کریں ، آدھی جنگ تو رہنما کے انتخاب سے ہی جیت لی جاتی ہے ۔
مجھے لگتا ہے کہ کسی بددیانت کو لیڈر بنا کر ہم عذاب کو دعوت دے رہے ہوتے ہیں ۔ جس شخص کا جھوٹ یا بدیانتی ہم جانتے ہوں اسے کسی صورت رہنما نہیں بنانا چاہیے بھلے وہ ہماری قوم،قبیلے ، فرقے یا برادری کا ہو ۔
شکریہ اُمِ نور العین بہت جامع جواب ہے
 

طالوت

محفلین
السلام علیکم
محفل میں ملکی سیاست پر بحث جاری ہے۔ مگر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہماری قوم کی مثال ایک ایسے گروہ کی مانند ہے جو اندھیری راہوں میں بھٹک رہا ہو اور نشانِ منزل گم کر چکا ہو ایسے میں جو شخص امید کا جگنو ہاتھ میں لئے نظر آتا ہے گروہ کے کچھ افراد اسے ہی اپنا نجات دہندہ سمجھ بیٹھتے ہیں۔
ایک توقحط الرجال ہے اور دوسرے نا پُختہ سیاسی و سماجی شعور
تو کیا ہم یہ طے کر سکتے ہیں کہ ہمارے نجات دہندہ کو کن اوصاف کا حامل ہونا چاہیئے
اپنی رائے دیجئے
سچا ہو ، مصلحتا بھی جھوٹ برا جانے۔
 

عمراعظم

محفلین
باکردار، حق کو سمجھنے اور حق پر عمل کرنے والا ہو۔گو ہماری سرزمین ایسے لوگوں کی پیداوار کے لئے بانجھ نہیں ہوئی لیکن ایسے لوگ یا تو خود ہی اس غلیظ دلدل میں پھنسنے کے لئے تیار نہیں یا پھر پیچھے دھکیل دئیے جاتے ہیں۔ ہم ایسے شکاریوں کے جال میں پھنسے ہوئے ہیں جن کے جال جھوٹ،فریب،ریاکاری اور لوٹ مار کی دولت سے بنائے گئے ہیں۔جب تک ہم خود اپنے آپ کو با شعور، باکردار اور حق کا ساتھ دینے والا نہیں بنائیں گے تبدیلی کا خواب شرمندہ تعبیر نہ ہو سکے گا۔
 

علی خان

محفلین
To a question by BBCin 1999 as to what was the difference between a Politicion and a Leader, Nelson Mandela replied. ........... A "Politicion" thinks of the next "Election" while the "Leader" thinks of the next "Generation" ......... Do we have a Leader​
 

سید زبیر

محفلین
باکردار، حق کو سمجھنے اور حق پر عمل کرنے والا ہو۔گو ہماری سرزمین ایسے لوگوں کی پیداوار کے لئے بانجھ نہیں ہوئی لیکن ایسے لوگ یا تو خود ہی اس غلیظ دلدل میں پھنسنے کے لئے تیار نہیں یا پھر پیچھے دھکیل دئیے جاتے ہیں۔ ہم ایسے شکاریوں کے جال میں پھنسے ہوئے ہیں جن کے جال جھوٹ،فریب،ریاکاری اور لوٹ مار کی دولت سے بنائے گئے ہیں۔جب تک ہم خود اپنے آپ کو با شعور، باکردار اور حق کا ساتھ دینے والا نہیں بنائیں گے تبدیلی کا خواب شرمندہ تعبیر نہ ہو سکے گا۔
اگر مایوسی کفر نہ ہوتی تو میں آپ کے جواب سے متفق تھا
 

عمراعظم

محفلین
اصلاح کی ابتَدا اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں پر احساسِ شرمندگی سے ہوتی ہے۔مایوسی کفر ہے نہ کہ اصلاح کی کوشش۔
 
Top