محمد وارث

لائبریرین
مالیر کوٹلہ کے ایک مشاعرے میں پریم وار برٹنی جب مشاعرہ کے دوران سامعین کی صفوں کو چیرتے ہوئے سٹیج کی طرف بڑھنے لگے تو وہ بری طرح دھت تھے، پنڈت ہری چند اختر سے کسی نے کہا، "لیجیئے وہ پریم وار برٹنی بھی آ رہے ہیں۔"

اختر صاحب نے مدہوش پریم وار برٹنی کے چہرے پر نظر ڈالتے ہوئے کہا:

"آ رہے ہیں؟ یہ مردود تو سچ مچ مرد ہے، نام سے تو میں سمجھتا تھا کہ کوئی خاتون ہونگی۔"
 

محمد وارث

لائبریرین
کچھ نقاد حضرات اردو کے ایک شاعر کی مدح سرائی کر رہے تھے، ان میں سے ایک نے کہا۔

"صاحب کیا بات ہے، بہت بڑے شاعر ہیں، اب تو حکومت کے خرچ سے یورپ بھی ہو آئے ہیں۔"

ہری چند اختر نے یہ بات سنی تو نہایت متانت سے کہا۔

"جناب اگر کسی دوسرے ملک میں جانے سے کوئی آدمی بڑا شاعر ہو جاتا ہے تو میرے والد صاحب ملکِ عدم جا چکے ہیں لیکن خدا گواہ ہے کہ کبھی ایک شعر بھی موزوں نہیں کر سکے۔"
 

محمد وارث

لائبریرین
کسی مشاعرے میں نوح ناروی ایک غزل پڑھ رہے تھے جس کی زمین تھی "حالات کیا کیا، آفات کیا کیا"۔

جب وہ اپنے مخصوص انداز میں ایک شعر کا مصرع اولیٰ پڑھ رہے تھے:

ع- یہ دل ہے، یہ جگر ہے، یہ کلیجہ

تو ہری چند اختر جھٹ بول اٹھے:

قصائی لایا ہے سوغات کیا کیا
 

Rashid Ashraf

محفلین
بھائی وارث
آپ کا یہ کام (کارٹون و لطائف،نقوش کا خاص نمبر) آج ہی نظر سے گزرا، اتفاق سے مجھے ایک مضمون کے سلسلے میں اس سے متعلق کچھ معلومات درکار تھیں

اب یہ سن لیجیے کہ اس وقت میں کراچی میں بیٹھا آپ کے دعائیں کررہا ہوں، خدا سلامت رکھے، خوش رکھے

یہ کارٹون ایک جگہ استعمال (پوسٹ) کروں گا، آپ کے حوالے کے ساتھ!

ہمارے فرخ منظور بھائی کا بھی شکریہ، پرلطف لطائف نظر سے گزرے
 

Rashid Ashraf

محفلین
انتظار حسین نے اپنی کتاب میں ایک دو جگہ مظفر علی سید کا بھی ذکر کیا ہے ۔کنہیا لال کپور سے انتظار حسین نے کہا:
’ ’ کپور صاحب! آپ اپنے دوست مظفر علی سید پر کام کررہے ہیں ‘‘
کپور صاحب نے جواب دیا:
’’ ہاں سید صاحب کا خط آیا تھا۔ میں نے انہیں لکھ بھیجا ہے کہ یہاں ایک سکھ مجھ پر کام کرنے کے درپے تھا، مگر ایک سکھ کے ہاتھوں جھٹکا ہونے کے مقابلے میں مجھے ایک سید کی چھری سے ذبح ہونا منظور ہے۔‘‘
 

Rashid Ashraf

محفلین
جزاک اللہ
زمین کے بادل میں فریدی نے عمران کے متعلق کہا تھا کہ کاش یہ میرے ساتھ صرف ایک برس کام کرسکے
میں کہتا ہوں کاش بھائی وارث کراچی آجائیں!
 

Rashid Ashraf

محفلین
جزاک اللہ
زمین کے بادل میں فریدی نے عمران کے متعلق کہا تھا کہ کاش یہ میرے ساتھ صرف ایک برس کام کرسکے
میں کہتا ہوں کاش بھائی وارث کراچی آجائیں!

نقوش ادبی معرکے نمبر 1981ء سے پاکستان کے مشہور کارٹونسٹ جاوید اقبال کے کچھ دلچسپ کارٹونز۔
C_8.jpg
 

شمشاد

لائبریرین
ایک بار پانی کی قلت سے مولانا عبد الحمید سالک بہت پریشان تھے۔ پطرس بخاری کو جب ان کی پریشانی کا علم ہوا تو وہ پانی کی کئی بالٹیاں اپنی کار میں رکھ کر مولانا کی کوٹھی پر لے گئے اور مولانا سے کہنے لگے :

“دیکھئے حضور آپ کو پانی پانی کرنے کے لیے حاضر ہو گیا ہوں۔“

سالک صاحب نے فوراً جواب دیا : “پطرس صاحب، آپ تو کیا، یہاں بڑے بڑے پانی بھرتے نظر آتے ہیں۔“
 

محمد وارث

لائبریرین
جزاک اللہ
زمین کے بادل میں فریدی نے عمران کے متعلق کہا تھا کہ کاش یہ میرے ساتھ صرف ایک برس کام کرسکے
میں کہتا ہوں کاش بھائی وارث کراچی آجائیں!

ذرّہ نوازی ہے آپ کی بندہ پرور، بہت شکریہ آپ کا، نوازش آپ کی۔
 

محمد ساجد

محفلین
مرزا محمد رفیع سودا سے میر تقی میر کی معاصرانہ چشمک رہتی تھی۔ ایک مرتبہ سودا نے کہا:

سودا تو اس غزل کو غزل در غزل ہی لکھ
ہونا ہے تجھ کو میر سے استاد کی طرف

اس کے جواب میں میر صاحب نے لکھا:

طرف ہونا مرا مشکل ہے میرا اس شعر کے فن میں
یوں ہی سودا کبھی ہوتا ہے سو جاہل ہے کیا جانے
 

محمد ساجد

محفلین
راجندر سنگھ بیدی کی باتیں بہت دلچسپ اور بے ساختہ ہوتی تھیں۔ ایک بار دہلی کی ایک محفل میں بشیر بدر کو کلام سنانے کے لیے بلایا گیا، تو بیدی صاحب نے جو میرے برابر بیٹھے ہوئے تھے، اچانک میرے کان میں کہا، “یار، ہم نے دربدر، ملک بدر اور شہر بدر تو سنا تھا، یہ بشیر بدر کیا ہوتا ہے؟ “

(مجتبٰی حسین کی کتاب “ سو ہے وہ بھی آدمی“ سے اقتباس
 

محمد ساجد

محفلین
ابراھیم ذوق بہادر شاہ ظفر کے استاد مقرر تھے غالب اور ذوق ایک دوسرے کے رقیب تھے ایک دن ابراھیم ذوق اپنے ٹولے کے ساتھ گزر رہا تھا کہ غالب نے مصرعہ اچھالا

بنا ہے شہ کا مصاحب، پھرے ہے اتراتا

ابھی صرف یہ مصرعہ ہی اپنے رقیب کی شان میں عرض کیا تھا کہ بادشاہ کو خبر ہو گئ۔ دربار بلا کر پوچھا کہ آپ نے ہمارے استاد ابراھیم زوق کی شان میں گستاخی کی ہے- عقلمند آدمی تھے۔ کہنے لگے حضور یہ تو میری ایک تازہ غزل کے مقطع کا پہلا مصرعہ آپ تک پہنچایا گیا ہے ۔ بادشاہ نے پورا مقطع سنانے کا کہا تو غالب نے مقطع عرض کیا :

بنا ہے شہ کا مصاحب ، پھرے ہے اتراتا
وگرنہ شہر میں غالب کی آبرو کیا ہے

مقطع سن کر بادشاہ سمیت سب شعرا واہ واہ کر اٹھے اور پوری غزل سننے کی خواہش کی- غالب نے پوری غزل پیش کی غزل سن کر بادشاہ اور ذوق سمیت سمیت سب حاظرین غالب کی عظمت کے قائل ہو گئے
 

محمداحمد

لائبریرین
بہت خوب وارث بھائی !

کیا اچھا دھاگہ یاد دلا دیا آپ نے۔

اردو محفل کی کچھ سالگرہ بے حد شاندار رہیں۔ یہ دھاگہ بھی لاجواب ہے۔

سوچ سوچ کر حیرت ہوتی ہے کہ اردو محفل کے ادبی تشخص کو کیا ہو گیا۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
یہ دھاگا میرے پسندیدہ دھاگوں میں سے ایک ہے ۔ یعنی دھاگوں میں ہے عمدہ دھاگا :):):)
اس لطافت کدے میں کچھ نمک میں بھی شامل کرنا چاہوں گا ۔

بہت پہلے کی بات ہے ۔ کراچی مرحوم میں ایک مشاعرہ ہورہا تھا ۔ ایک نوجوان شاعر کو دعوتِ کلام دی گئی تو وہ مائک پر آکر گویا ہوئے ۔ ’’ ایک غزل کے کچھ اشعار پیشِ خدمت ہیں۔ ‘‘
فوراً ہی پچھلی صفوں سے ایک آواز آئی۔ ’’ کس کی غزل کے ؟‘‘
شاعر نے متانت برقرار رکھتے ہوئے کہا ۔ ’’ اپنی غزل کے۔‘‘
وہاں سے فوراً جواب آیا ۔ ’’ آپ نے پچھلی دفعہ بھی یہی کہا تھا ۔‘‘
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
جوش صاحب کے متعلق مشہور ہے کہ ایک مشاعرے میں وہ ایک نوآموز شاعر کی معمولی سی غزل پر بہت پرجوش انداز میں داد دیئے چلے جارہے تھے۔ وہ ہر شعر پر جھوم جھوم کر اور اچھل اچھل کر واہ واہ کررہے تھے ۔ ان کے ایک معاصر شاعر نےسرگوشی کر کے حیرت سے پوچھا کہ جوش صاحب یہ آپ کیا کررہے ہیں؟ جوش نے داد جاری رکھتے ہوئے اسی روانی میں جواب دیا ۔ " منافقت" ۔
 
Top