محمد وارث

لائبریرین
نقوش ادبی معرکے نمبر 1981ء

C_5.jpg
 

محمد وارث

لائبریرین
ایک شخص نے سر سید کو خط لکھا کہ "میں نے خواب میں دیکھا کہ ایک بزرگ ہیں، جن کی لوگ تعریف کر رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ ان کی ساری عمر قوم کی خیر خواہی اور بھلائی میں گزری، جب میری آنکھ کھلی تو مجھے یقین ہو گیا کہ وہ بزرگ آپ ہی ہیں، پس میری مشکل اگر حل ہوگی تو آپ ہی سے ہوگی۔"

سرسید نے اسے جواب لکھا کہ "جس باب میں آپ سفارش چاہتے ہیں اسکا مجھ سے کوئی تعلق نہیں ہے اور جس کو آپ نے خواب میں دیکھا تھا وہ غالباً شیطان تھا"۔
 

محمد وارث

لائبریرین
ایک مولوی صاحب نے سر سید کو خط لکھا کہ معاش کی طرف سے بہت تنگ ہوں، عربی جانتا ہوں، انگریزی سے ناواقف ہوں، کسی ریاست میں میری سفارش کر دیں۔

سر سید نے جواب دیا کہ "سفارش کی میری عادت نہیں اور معاش کی تنگی کا آسان حل یہ ہے کہ میری تفسیرِ قرآن کا رد لکھ کر چھپوائیں، کتاب خوب بِکے گی اور آپ کی تنگی دور ہو جائے گی۔"
 

محمد وارث

لائبریرین
دلی میں ایک بہت مشہور گانے والی تھی جس کا نام 'شیریں' تھا مگر اسکی ماں بہت بیڈول اور بُری شکل کی تھی، ایک مجلس میں شیریں اپنی ماں کے ساتھ گانے اور مجرے کیلیے آئی، سر سید بھی وہاں موجود تھے اور انکے برابر انکے ایک ایرانی دوست بیٹھے ہوئے تھے، وہ شیریں کی ماں کو دیکھ کر کہنے لگے "مادرش بسیار تلخ است" (اسکی ماں بہت تلخ ہے)۔ اس پر سر سید نے فوراً جواب دیا۔

"گرچہ تلخ است ولیکن بر شیریں دارد" (اگرچہ وہ تلخ ہے لیکن پھل 'شیریں' رکھتی ہے)
 

محمد وارث

لائبریرین
ایک دن دربار میں بعض خاندانی شرفاء کی شرافت اور نجابت کے تذکرے ہو رہے تھے، اتنے میں نواب سعادت علی خان نے کہا "کیوں بھئی ہم بھی نجیب الطرفین ہیں۔" تقدیر کی مار یا شامتِ اعمال بے اختیا انشاء (سید انشاء اللہ خاں انشاء) کے منہ سے نکل گیا۔

"حضور، بلکہ انجب۔"

(انجب کے معنی نہایت درجہ شریف کے بھی ہیں اور لونڈی زادہ کے بھی، نواب سعادت علی خان لونڈی کے بطن سے تھے)۔ یہ بھر پور طنز سن کر تمام دربار سناٹے میں آ گیا اور نواب صاحب بھی دم بخود رہ گئے، فوراً ہی انشاء کو اپنی حماقت کا احساس ہوا مگر اب تیر کمان سے نکل چکا تھا اور بات کہی جا چکی تھی۔ آزاد (مولانا محمد حسین آزاد) لکھتے ہیں کہ یہی لطیفہ انشاء کے تنزل اور بالآخر انکی تباہی کا باعث بنا۔

------
م - "نقوش"
 

محمد وارث

لائبریرین
سہارن پور میں عیدن ایک طوائف تھی، بڑی باذوق، سخن فہم اور سیلقہ شعار، شہر کے اکثر ذی علم اور معززین اسکے ہاں چلے جایا کرتے تھے، ایک دن مولانا فیض الحسن سہارنپوری بھی پہنچے، وہ پرانے زمانے کی عورت نئی تہذیب سے ناآشنا، بیٹھی نہایت سادگی سے چرخہ کات رہی تھی۔

مولانا اس کو اس ہیت میں دیکتھے ہی واپس لوٹے، اس نے آواز دی، "مولانا آیئے، تشریف لایئے، واپس کیوں چلے؟"

مولانا یہ فرما کر چل دیئے کہ "ایسی تو اپنے گھر بھی چھوڑ آئے ہیں۔"
 

محمد وارث

لائبریرین
کل یہ شاگرد سے استاد نے جنجھلا کے کہا
تُو پڑھے گا نہ کبھی، ہٹ مرا بھیجا مت کھا
کُند ہے ذہن ترا، ٹُھس ہے طبیعت تیری
کچھ نہ آئے گا تجھے، قوم کا شاعر بن جا

(پنڈت برجموہن کیفی دہلوی)
 

محمد وارث

لائبریرین
ایک دفعہ کسی نے مولانا شوکت علی سے پوچھا کہ "آپ کے بڑے بھائی ذوالفقار علی کا تخلص 'گوہر' ہے، آپ کے دوسرے بھائی محمد علی کا تخلص 'جوہر' ہے، آپ کا کیا تخلص ہے؟"

"شوہر" مولانا نے فرمایا۔
 

فرخ منظور

لائبریرین
ایک دفعہ کسی نے مولانا شوکت علی سے پوچھا کہ "آپ کے بڑے بھائی ذوالفقار علی کا تخلص 'گوہر' ہے، آپ کے دوسرے بھائی محمد علی کا تخلص 'جوہر' ہے، آپ کا کیا تخلص ہے؟"

"شوہر" مولانا نے فرمایا۔

میرے خیال میں وارث صاحب یہ بات مولانا محمد علی جوہر سے پوچھی گئی تھی۔ بہرحال دروغ بر گردن راوی۔ :)
 

فرخ منظور

لائبریرین
پروفیسر محمد حسن نے ایک دفعہ رشید احمد صدیقی سے پوچھا "بڑے شاعر کی پہچان کیا ہے؟"
اس پر رشید احمد صدیقی نے جواب دیا "جو شاعر عورت سے محتاط اور خدا سے گستاخ ہو ، وہی بڑا شاعر ہوتا ہے۔
 
Top