ہر لفظ کو کاغذ پہ اُتارا نہیں جاتا از انعام الحق جاوید

محمد بلال اعظم

لائبریرین
ہر لفظ کو کاغذ پہ اُتارا نہیں جاتا
ہر نام سرِعام پکارا نہیں جاتا
ہوتی ہیں محبت میں کئی راز کی باتیں
ویسے ہی اس کھیل میں ہارا نہیں جاتا
آنکھوں میں لگایا نہیں جاتا یونہی کاجل
زلفوں کو بلاوجہ سنوارا نہیں جاتا
ہر شخص کو طوفان بچانے نہیں آتے
ہر ناؤ کے ہمراہ کنارہ نہیں جاتا
تب تک نہیں کھلتے کبھی اسرارِ محبت
جب تک کوئی اس راہ میں مارا نہیں جاتا
(انعام الحق جاوید)
 

محمداحمد

لائبریرین
ہر لفظ کو کاغذ پہ اُتارا نہیں جاتا​
ہر نام سرِعام پکارا نہیں جاتا​
ہر شخص کو طوفان بچانے نہیں آتے​
ہر ناؤ کے ہمراہ کنارہ نہیں جاتا​
تب تک نہیں کھلتے کبھی اسرارِ محبت​
جب تک کوئی اس راہ میں مارا نہیں جاتا​

واہ واہ بہت خوبصورت غزل ہے۔ کیا کہنے۔

تیسرے شعر کے مصرعہ ثانی میں شاید کچھ گڑ بڑ ہے۔ "یونہی" کی گنجائش نہیں نکل رہی ہے۔
 
Top