کیا ٹوٹا ہے اندر اندر ، کیوں چہرہ کُملایا ہے
تنہا تنہا رونے والوں ، کون تمہیں یاد آیا ہے
چپکے چپکے سُلگ رہے تھے ، یاد میں ان کی دیوانے
ایک تارے نے ٹُوٹ کے یارو ! ، کیا اُن کو سمجھایا ہے
رنگ برنگی اس محفل میں ، تُم کیوں اتنے چُپ چاپ ہو
بھول بھی جاؤ پاگل لوگو ! ، کیا کھویا ، کیا پایا ہے
شعر کہاں ہے ، خون ہے دل کا ، لفظوں میں بکھرا ہے
دل کے زخم دکھا کر ہم نے ، محفل کو گرمایا ہے
اب شہزاد یہ جھوٹ نہ بولو ، وہ اتنا بیدرد نہیں
اپنی چاہت کو بھی پرکھو ، گر الزام لگایا ہے