مجھے تو یہ نظام ہی سمجھ نہیں آتا۔
کیا سیاسی جماعتوں کے موجودہ ڈھانچے کے ہوتے ہوئے پارلیمان کی کوئی اہمیت بھی ہےَ
فرض کیجے میں ایک شخص کو ووٹ دے کر اپنا نمائندہ منتخب کرتا ہوں اب وہ قومی اسمبلی میں میرا ترجمان ہے۔ اب ایک قومی نوعیت کا تنازعہ کھڑا ہوتا ہے اس تنازعے کے حوالے سے جو میری رائے ہے وہی میرے چنیدہ نمائندے کی بھی رائے ہیں لیکن وہ ایک سیاسی جماعت کا نمائندہ ہے اور اُس کی پارٹی کا سربراہ اس معاملے میں اس کے برعکس رائے رکھتا ہے۔ کیا یہ شخص پارلیمان میں میری یا کم از کم اپنی سوچ کی نمائندگی کر پائے گا؟
نہیں کر پائے گا کہ پارٹی کا رہنما اس کے برعکس سوچ رکھتا ہے جسے پارٹی پالیسی کا نام دے کر پارلیمان میں پیش کر دیا جائے گا اور اس پر بات کرنے کی جرات اس پارٹی کے کسی نمائندے کی بھی نہیں ہوگی اور نہ ہی پارٹی میں وہ معاملہ زیرِ بحث آسکے گا۔ "جمہوریت"
نواز شریف کی مثال لیجے۔ کچھ لوگوں نے اُن کو اس لئے ووٹ دیا کہ وہ اُنہیں اسلامی نظریات کے قریب سمجھتے تھے۔ لیکن نواز شریف نے اقتدار میں آ کر اپنی سمت بدلی اور بائیں بازو کی طرف جھک گئے۔ اور بھارت نواز پالیسی اختیار کر لی۔ اسی طرح بائیں بازو کی جماعت اے این پی اگر 'نظریہء ضرورت" کے تحت لبرل ازم کے بجائے مذہبی طبقے کو سپورٹ کرنے لگے تو اُس کے ووٹر کی نمائندگی کون کرے گا۔
اگر یہ سیاسی جماعتیں نہ ہوں تو پارلیمان کا ہر نمائندہ اپنی سوچ میں آزاد ہوگا اور جب کوئی مسئلہ پارلیمان میں زیرِ بحث آئے گا تو وہ اپنی سوچ کے مطابق رائے دے گا اور بحث و تمحیص کے بعد نئی راہیں کھلنے کا امکان ہوگا۔ لیکن موجودہ حالات میں پارلیمان صرف سونے اور چائے پینے کی جگہ ہے اس سے بڑھ کر اس کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔
یا پھر ایسی سیاسی جماعتیں وجود میں آئیں کہ جو اپنی ذات میں جمہوری رویے رکھتی ہوں۔ تاہم میں تو اکثریت کے درست ہونے کے فلسفے پر بھی یقین نہیں رکھتا وہ بھی تب کہ جب اکثریت تعلیم اور شعور سے فارغ ہو۔