کیا "مالک " فلم کسی نے دیکھی ہے؟

"بدترین جمہوریت" بھی آمریت سے بہتر ہے :)

کیا خوبصورت خیال ہے۔ گزشتہ چار بد ترین آمروں کو بھگتنے کے بعد اب پوری قوم کو اس خیال پر متحد ہوجانا چاہیے۔

اگرچہ موجودہ کرپٹ سیاست دانوں کے طرذ عمل نے قوم کو بے حد مایوس کیا ہے لیکن یہ وجہ امپائر کے فیلڈ میں آکر خود کھیلنے کے لیے درست نہیں۔ قوم ووٹ دینا سیکھے گی، ضرور سیکھے گی۔
 

محمداحمد

لائبریرین
"بدترین جمہوریت" بھی آمریت سے بہتر ہے
کیا خوبصورت خیال ہے۔

میرے محترم بھائی!

یہ بدترین جمہوریت کی بات محاورتاً کہی گئی تھی۔ انہیں کس نے کہا تھا کہ محاورے کو سچ کرکے ہی دکھا دیں۔ :)

آج بھی جب اُنہیں کہا جاتا ہے کہ آپ اپنے عہدے سے انصاف نہیں کر رہے ہیں یا آپ اپنے ذاتی مفاد کو قومی مفاد پر ترجیح دے رہے ہیں تو وہ کہتے ہیں کہ جمہوریت خطرے میں آگئی ہے۔ جمہوریت کی گاڑی کو ڈی ریل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

جب یہ لوگ اپنی پارٹیوں میں الیکشن نہیں کرواتے تب جمہوریت خطرے میں نہیں آتی۔ جب یہ لوگ قومی معاملات پر قومی اسمبلی میں بحث کرنے کے بجائے پہلے سے پارٹی پالیسی کے نام پر آمریت کی فضا قائم کردیتے ہیں تب جمہوریت خطرے میں نہیں آتی۔ ہاں ان کی بدعنوانیوں کی بات کی جائے تو فوراً جمہوریت خطرے میں آجاتی ہے۔

اگر یہی جمہوریت ہے تو پھر ہماری طرف سے سلام ہے۔
 

arifkarim

معطل
میرے محترم بھائی!

یہ بدترین جمہوریت کی بات محاورتاً کہی گئی تھی۔ انہیں کس نے کہا تھا کہ محاورے کو سچ کرکے ہی دکھا دیں۔ :)

آج بھی جب اُنہیں کہا جاتا ہے کہ آپ اپنے عہدے سے انصاف نہیں کر رہے ہیں یا آپ اپنے ذاتی مفاد کو قومی مفاد پر ترجیح دے رہے ہیں تو وہ کہتے ہیں کہ جمہوریت خطرے میں آگئی ہے۔ جمہوریت کی گاڑی کو ڈی ریل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

جب یہ لوگ اپنی پارٹیوں میں الیکشن نہیں کرواتے تب جمہوریت خطرے میں نہیں آتی۔ جب یہ لوگ قومی معاملات پر قومی اسمبلی میں بحث کرنے کے بجائے پہلے سے پارٹی پالیسی کے نام پر آمریت کی فضا قائم کردیتے ہیں تب جمہوریت خطرے میں نہیں آتی۔ ہاں ان کی بدعنوانیوں کی بات کی جائے تو فوراً جمہوریت خطرے میں آجاتی ہے۔

اگر یہی جمہوریت ہے تو پھر ہماری طرف سے سلام ہے۔
یہ تو عوام کو جمہوریت کی بحالی کے وقت سوچنا چاہئے تھا کہ انکے ساتھ کیا ہونے جا رہا ہے۔ ایوب کے بعد بھٹو نے جمہوریت بحال کی تو نیشلائیزینش نے قومی انڈسٹری کو شدید نقصان پہنچایا۔ پھر ضیا کے بعد بی بی نے جمہوریت بحال کی تو گھوڑوں کو مربّے اور بیرون ممالک میں اثاثے جمع ہونے شروع ہو گئے۔ بالآخر مشرف کے بعد زرداری نے جمہوریت بحال کی اور قوم لوڈ شیڈنگ کے عذاب میں مبتلا ہو گئی۔ اب عزت ماب نواز شریف جمہوریت بحال کر رہے ہیں اور ملک کا حال سب کے سامنے ہے۔ ہور چپو جمہوری گنے!
 

محمداحمد

لائبریرین
میں اس نظام کے تسلسل کے حق میں ہوں. پیپلزپارٹی پچھلے دور کی کارکردگی کے باعث سندھ تک محدود ہو گئی ہے.
عوام کو خود بھی میچور ہونے کا وقت ملنا چاہیے. تسلسل رہے گا تو بہتری آئے گی.

مجھے تو یہ نظام ہی سمجھ نہیں آتا۔

کیا سیاسی جماعتوں کے موجودہ ڈھانچے کے ہوتے ہوئے پارلیمان کی کوئی اہمیت بھی ہےَ

فرض کیجے میں ایک شخص کو ووٹ دے کر اپنا نمائندہ منتخب کرتا ہوں اب وہ قومی اسمبلی میں میرا ترجمان ہے۔ اب ایک قومی نوعیت کا تنازعہ کھڑا ہوتا ہے اس تنازعے کے حوالے سے جو میری رائے ہے وہی میرے چنیدہ نمائندے کی بھی رائے ہیں لیکن وہ ایک سیاسی جماعت کا نمائندہ ہے اور اُس کی پارٹی کا سربراہ اس معاملے میں اس کے برعکس رائے رکھتا ہے۔ کیا یہ شخص پارلیمان میں میری یا کم از کم اپنی سوچ کی نمائندگی کر پائے گا؟

نہیں کر پائے گا کہ پارٹی کا رہنما اس کے برعکس سوچ رکھتا ہے جسے پارٹی پالیسی کا نام دے کر پارلیمان میں پیش کر دیا جائے گا اور اس پر بات کرنے کی جرات اس پارٹی کے کسی نمائندے کی بھی نہیں ہوگی اور نہ ہی پارٹی میں وہ معاملہ زیرِ بحث آسکے گا۔ "جمہوریت" :)

نواز شریف کی مثال لیجے۔ کچھ لوگوں نے اُن کو اس لئے ووٹ دیا کہ وہ اُنہیں اسلامی نظریات کے قریب سمجھتے تھے۔ لیکن نواز شریف نے اقتدار میں آ کر اپنی سمت بدلی اور بائیں بازو کی طرف جھک گئے۔ اور بھارت نواز پالیسی اختیار کر لی۔ اسی طرح بائیں بازو کی جماعت اے این پی اگر 'نظریہء ضرورت" کے تحت لبرل ازم کے بجائے مذہبی طبقے کو سپورٹ کرنے لگے تو اُس کے ووٹر کی نمائندگی کون کرے گا۔

اگر یہ سیاسی جماعتیں نہ ہوں تو پارلیمان کا ہر نمائندہ اپنی سوچ میں آزاد ہوگا اور جب کوئی مسئلہ پارلیمان میں زیرِ بحث آئے گا تو وہ اپنی سوچ کے مطابق رائے دے گا اور بحث و تمحیص کے بعد نئی راہیں کھلنے کا امکان ہوگا۔ لیکن موجودہ حالات میں پارلیمان صرف سونے اور چائے پینے کی جگہ ہے اس سے بڑھ کر اس کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔

یا پھر ایسی سیاسی جماعتیں وجود میں آئیں کہ جو اپنی ذات میں جمہوری رویے رکھتی ہوں۔ تاہم میں تو اکثریت کے درست ہونے کے فلسفے پر بھی یقین نہیں رکھتا وہ بھی تب کہ جب اکثریت تعلیم اور شعور سے فارغ ہو۔ :)
 
مجھے تو یہ نظام ہی سمجھ نہیں آتا۔

کیا سیاسی جماعتوں کے موجودہ ڈھانچے کے ہوتے ہوئے پارلیمان کی کوئی اہمیت بھی ہےَ

فرض کیجے میں ایک شخص کو ووٹ دے کر اپنا نمائندہ منتخب کرتا ہوں اب وہ قومی اسمبلی میں میرا ترجمان ہے۔ اب ایک قومی نوعیت کا تنازعہ کھڑا ہوتا ہے اس تنازعے کے حوالے سے جو میری رائے ہے وہی میرے چنیدہ نمائندے کی بھی رائے ہیں لیکن وہ ایک سیاسی جماعت کا نمائندہ ہے اور اُس کی پارٹی کا سربراہ اس معاملے میں اس کے برعکس رائے رکھتا ہے۔ کیا یہ شخص پارلیمان میں میری یا کم از کم اپنی سوچ کی نمائندگی کر پائے گا؟

نہیں کر پائے گا کہ پارٹی کا رہنما اس کے برعکس سوچ رکھتا ہے جسے پارٹی پالیسی کا نام دے کر پارلیمان میں پیش کر دیا جائے گا اور اس پر بات کرنے کی جرات اس پارٹی کے کسی نمائندے کی بھی نہیں ہوگی اور نہ ہی پارٹی میں وہ معاملہ زیرِ بحث آسکے گا۔ "جمہوریت" :)

نواز شریف کی مثال لیجے۔ کچھ لوگوں نے اُن کو اس لئے ووٹ دیا کہ وہ اُنہیں اسلامی نظریات کے قریب سمجھتے تھے۔ لیکن نواز شریف نے اقتدار میں آ کر اپنی سمت بدلی اور بائیں بازو کی طرف جھک گئے۔ اور بھارت نواز پالیسی اختیار کر لی۔ اسی طرح بائیں بازو کی جماعت اے این پی اگر 'نظریہء ضرورت" کے تحت لبرل ازم کے بجائے مذہبی طبقے کو سپورٹ کرنے لگے تو اُس کے ووٹر کی نمائندگی کون کرے گا۔

اگر یہ سیاسی جماعتیں نہ ہوں تو پارلیمان کا ہر نمائندہ اپنی سوچ میں آزاد ہوگا اور جب کوئی مسئلہ پارلیمان میں زیرِ بحث آئے گا تو وہ اپنی سوچ کے مطابق رائے دے گا اور بحث و تمحیص کے بعد نئی راہیں کھلنے کا امکان ہوگا۔ لیکن موجودہ حالات میں پارلیمان صرف سونے اور چائے پینے کی جگہ ہے اس سے بڑھ کر اس کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔

یا پھر ایسی سیاسی جماعتیں وجود میں آئیں کہ جو اپنی ذات میں جمہوری رویے رکھتی ہوں۔ تاہم میں تو اکثریت کے درست ہونے کے فلسفے پر بھی یقین نہیں رکھتا وہ بھی تب کہ جب اکثریت تعلیم اور شعور سے فارغ ہو۔ :)
اس بات سے مکمل اتفاق، کہ موجودہ نظام میں کئی خرابیاں موجود ہیں، اور بہتر کرنے کی ضرورت ہے، مگر کسی بھی کام کا تسلسل اسے بہتر بناتا ہے.
روز روز نئے تجربات کسی پائیدار بہتری کے ضامن نہیں ہوتے.
نظام بذاتِ خود کچھ نہیں ہوتا، افراد اسے بہتر یا بدتر بناتے ہیں، جو انفرادی و اجتماعی خرابیاں ہمارے اندر موجود ہیں وہ کسی بھی نظام کو برباد کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں، ضرورت اس امر کی ہے کہ اپنی اپنی حیثیت میں انفرادی اور اجتماعی خرابیوں کی نشاندہی کی جائے اور حل کی ممکنہ کوشش کی جائے.

یہ بہرحال دو دن کا کام نہیں، مسلسل جد و جہد کا متقاضی ہے.
 
دوسرا یہ کہ نظام کے بدلے نظام پر بحث اور تجزیہ کیا جا سکتا ہے اور ہونا بھی چاہیے، لیکن نظام پر فردِ واحد کو کسی طور ترجیح دینا مناسب نہیں.
 

arifkarim

معطل
مجھے تو یہ نظام ہی سمجھ نہیں آتا۔

کیا سیاسی جماعتوں کے موجودہ ڈھانچے کے ہوتے ہوئے پارلیمان کی کوئی اہمیت بھی ہےَ

فرض کیجے میں ایک شخص کو ووٹ دے کر اپنا نمائندہ منتخب کرتا ہوں اب وہ قومی اسمبلی میں میرا ترجمان ہے۔ اب ایک قومی نوعیت کا تنازعہ کھڑا ہوتا ہے اس تنازعے کے حوالے سے جو میری رائے ہے وہی میرے چنیدہ نمائندے کی بھی رائے ہیں لیکن وہ ایک سیاسی جماعت کا نمائندہ ہے اور اُس کی پارٹی کا سربراہ اس معاملے میں اس کے برعکس رائے رکھتا ہے۔ کیا یہ شخص پارلیمان میں میری یا کم از کم اپنی سوچ کی نمائندگی کر پائے گا؟

نہیں کر پائے گا کہ پارٹی کا رہنما اس کے برعکس سوچ رکھتا ہے جسے پارٹی پالیسی کا نام دے کر پارلیمان میں پیش کر دیا جائے گا اور اس پر بات کرنے کی جرات اس پارٹی کے کسی نمائندے کی بھی نہیں ہوگی اور نہ ہی پارٹی میں وہ معاملہ زیرِ بحث آسکے گا۔ "جمہوریت" :)

نواز شریف کی مثال لیجے۔ کچھ لوگوں نے اُن کو اس لئے ووٹ دیا کہ وہ اُنہیں اسلامی نظریات کے قریب سمجھتے تھے۔ لیکن نواز شریف نے اقتدار میں آ کر اپنی سمت بدلی اور بائیں بازو کی طرف جھک گئے۔ اور بھارت نواز پالیسی اختیار کر لی۔ اسی طرح بائیں بازو کی جماعت اے این پی اگر 'نظریہء ضرورت" کے تحت لبرل ازم کے بجائے مذہبی طبقے کو سپورٹ کرنے لگے تو اُس کے ووٹر کی نمائندگی کون کرے گا۔

اگر یہ سیاسی جماعتیں نہ ہوں تو پارلیمان کا ہر نمائندہ اپنی سوچ میں آزاد ہوگا اور جب کوئی مسئلہ پارلیمان میں زیرِ بحث آئے گا تو وہ اپنی سوچ کے مطابق رائے دے گا اور بحث و تمحیص کے بعد نئی راہیں کھلنے کا امکان ہوگا۔ لیکن موجودہ حالات میں پارلیمان صرف سونے اور چائے پینے کی جگہ ہے اس سے بڑھ کر اس کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔

یا پھر ایسی سیاسی جماعتیں وجود میں آئیں کہ جو اپنی ذات میں جمہوری رویے رکھتی ہوں۔ تاہم میں تو اکثریت کے درست ہونے کے فلسفے پر بھی یقین نہیں رکھتا وہ بھی تب کہ جب اکثریت تعلیم اور شعور سے فارغ ہو۔ :)
ناروے میں بھی وہی پارلیمانی نظام ہے جو پاکستان میں ہے البتہ ان تضادات سے پاک ہے جو پاکستان کا خاصا ہیں۔ جیسے یہاں شخصیت کی بجائے نظریے کی بنیاد پر ووٹ پڑتا ہے۔ لوگوں کو اس سے کوئی غرض نہیں ہوتی کہ وہ کسے وزیر اعظم دیکھنا چاہتے ہیں۔ مختلف پارٹیز اپنے امید وار کھڑی کرتی ہیں اور پارٹی کا منشور انہیں ووٹ ڈلواتا ہے۔ اس طرح عوام کی رائے کی نمائندگی ایوان میں ہو جاتی ہے۔
اس وقت دائیں بازوں کی جماعتوں کی مخلوط حکومت ہے اور مختلف مسائل پر ڈیبیٹ کمیٹیوں میں ہوتی ہے۔ صرف ووٹنگ کیلئے ایوان سجایا جاتا ہے یا جب حکومتی وزرا کی کلاس اپوزیشن نے لینی ہو۔ یہ سب جمہوری کلچر کا نتیجہ ہے۔ خالی الیکشن کروا دینے سے ملک جمہوری نہیں ہو جاتے۔ اسکے پیچھے کئی سالوں کی جمہوری قوت چاہیے جو بہت افسوس کیساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے عوام میں نہیں ہے۔ ہم جسکی لاٹھی اسکی بھینس کو مانتے ہیں۔ جبکہ یہاں اکثریت کے باوجود کوئی بل اپوزیشن کی حمایت کے بغیر پاس نہیں ہوتا۔ پاکستانی جمہوریت میں اکثریت سیٹیں حاصل کرنے کا مقصد اپنی من مانی ہوتا ہے۔ جبکہ یہاں سیٹیں کم ہوں یا زیادہ ہر بل کی منظوری یا تبدیلی اجماع کے بغیر ممکن نہیں ہو سکتی۔
 

فرقان احمد

محفلین
پاکستان بننے کے بعد یہاں ایسی جمہوریت رائج کب رہی ہے جو عسکری سایوں سے آزاد ہو؟ اس ملک میں جو مسائل موجود ہیں، ان کی ذمہ داری سیاست دانوں کے ساتھ ساتھ بدقسمتی سے فوج پر بھی عائد ہوتی ہے۔ اور پھر یہ بھی دیکھیے، اس ملک کے ساتھ کھلواڑ کرنے والے بیسیوں سیاست دان بھی خاکیوں کی طرف سے عوام کے لیے بہترین 'تحفے' کی حیثیت رکھتے ہیں۔ مسائل کا حل یہی ہے کہ جمہوریت کو پنپنے دیا جائے اور سول معاملات میں فوج کی مداخلت کم سے کم ہو۔ پاک فوج کے لیے بھی یہی بہتر ہے کہ وہ خود کو پیشہ وارانہ سرگرمیوں تک محدود رکھے۔ جنرل راحیل شریف اس ادارے کی شان بڑھا رہے ہیں اور امید کی جا سکتی ہے کہ وہ سیاست میں بے جا مداخلت کے مرتکب نہ ہوں گے۔ ایسا ہوا تو وہ یہ سب نیک نامی گنوا دیں گے۔
 
آخری تدوین:

محمداحمد

لائبریرین
اس بات سے مکمل اتفاق، کہ موجودہ نظام میں کئی خرابیاں موجود ہیں، اور بہتر کرنے کی ضرورت ہے، مگر کسی بھی کام کا تسلسل اسے بہتر بناتا ہے.
روز روز نئے تجربات کسی پائیدار بہتری کے ضامن نہیں ہوتے.
نظام بذاتِ خود کچھ نہیں ہوتا، افراد اسے بہتر یا بدتر بناتے ہیں، جو انفرادی و اجتماعی خرابیاں ہمارے اندر موجود ہیں وہ کسی بھی نظام کو برباد کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں، ضرورت اس امر کی ہے کہ اپنی اپنی حیثیت میں انفرادی اور اجتماعی خرابیوں کی نشاندہی کی جائے اور حل کی ممکنہ کوشش کی جائے.

یہ بہرحال دو دن کا کام نہیں، مسلسل جد و جہد کا متقاضی ہے.

متفق ہوں۔

مگر مجھے لگتا ہے کہ صدارتی نظام موجودہ نظام کے مقابلے میں زیادہ فعال ثابت ہوگا کہ اختیارات نچلے طبقے تک پہنچ جاتے ہیں اور انتظامی بنیادوں پر مالی وسائل زیادہ لوگوں تک پہنچتے ہیں اور کسی ایک بڑے گروہ کا مالی وسائل کے ہڑپ کر جانے کا امکان کم ہو تا ہے۔

یوں بھی فعال بلدیاتی نظام کی موجودگی میں صوبائی حکومتوں کی کوئی خاص ضرورت نہیں رہتی۔ اگر ہم چاروں صوبائی اسمبلیاں ختم کردیں تو بہت سے مالی وسائل بچا سکیں گے۔
 

محمداحمد

لائبریرین
ہم جسکی لاٹھی اسکی بھینس کو مانتے ہیں۔ جبکہ یہاں اکثریت کے باوجود کوئی بل اپوزیشن کی حمایت کے بغیر پاس نہیں ہوتا۔ پاکستانی جمہوریت میں اکثریت سیٹیں حاصل کرنے کا مقصد اپنی من مانی ہوتا ہے۔ جبکہ یہاں سیٹیں کم ہوں یا زیادہ ہر بل کی منظوری یا تبدیلی اجماع کے بغیر ممکن نہیں ہو سکتی۔

یہ بات بہت اہم ہے اور شاید اس نظام کی کامیابی کی وجہ بھی یہی ہو۔

ہمارے ہاں تو ضمنی انتخاب میں اپوزیشن کے نمائندوں کو محض اس لئے ووٹ نہیں دیا جاتا کہ یہ منتخب ہو بھی گئے تو ان کے پاس اختیار کچھ بھی نہیں ہوگا۔ سو ہمیشہ کی طرح نظریے کو ایک طرف ڈال دیا جاتا ہے۔
 

arifkarim

معطل
متفق ہوں۔

مگر مجھے لگتا ہے کہ صدارتی نظام موجودہ نظام کے مقابلے میں زیادہ فعال ثابت ہوگا کہ اختیارات نچلے طبقے تک پہنچ جاتے ہیں اور انتظامی بنیادوں پر مالی وسائل زیادہ لوگوں تک پہنچتے ہیں اور کسی ایک بڑے گروہ کا مالی وسائل کے ہڑپ کر جانے کا امکان کم ہو تا ہے۔

یوں بھی فعال بلدیاتی نظام کی موجودگی میں صوبائی حکومتوں کی کوئی خاص ضرورت نہیں رہتی۔ اگر ہم چاروں صوبائی اسمبلیاں ختم کردیں تو بہت سے مالی وسائل بچا سکیں گے۔

امریکہ میں بھی تو صدارتی نظام ہے اور ایک چھوٹا سا طبقہ ملک کی دولت پر قابض ہے۔
پاکستان کا اصل مسئلہ گلی محلے تک جمہوری اختیارات کا پہنچانا ہے۔ یہ کام کسی خاص نظام کا محتاج نہیں۔ جب تک لوگ خود یہ اختیارات نہیں چھینیں گے انہیں پلیٹ میں کوئی بھی لیڈر یہ اختیارات دینے نہیں والا۔
 

محمداحمد

لائبریرین
پاکستان کا اصل مسئلہ گلی محلے تک جمہوری اختیارات کا پہنچانا ہے۔ یہ کام کسی خاص نظام کا محتاج نہیں۔ جب تک لوگ خود یہ اختیارات نہیں چھینیں گے انہیں پلیٹ میں کوئی بھی لیڈر یہ اختیارات دینے نہیں والا۔

یعنی وہی پی ٹی آئی اور دھرنے۔ :)
 

رانا

محفلین
ہمیں تو پتہ بھی نہیں تھا کہ کوئی مالک فلم بنی ہے وہ تو حکومت نے پابندی لگا کر بتایا کہ دھواں والے نے کوئی فلم بنائی ہے۔ اب دل کررہا ہے دیکھنے کو۔
 

محمداحمد

لائبریرین
کل پرسوں مصطفیٰ کمال اتا پاکستان کی تقریر سن رہا تھا اور انہوں نے بھی اختیارات بالکل نچلی سطح پر منتقل کرنے کی بات کی ہے۔

ایم کیو ایم تو شروع سے ہی اختیارات کی نچلی سطح کی بات کرتی ہے لیکن ہمارے ہاں کسی بھی جماعت کا قول و فعل ایک نہیں ہے۔
 
آگسٹس سیزر بهی حکمران بن جائے تب بهی کوئی خاص نتیجے نهیں آئیں گے . هر کوئی جب اپنی اصلاح کرے گا تب هی قوم ترقی کی راه پر گامزن هوگی.
خواهی که عیب هائے تو روشن شود ترا
یکدم منافقانه نشیں در کمینِ خویش
(اگر تو چاهتا هے که تیرے عیب تجھ پر روشن هو جائیں تو هیئت بدل کر ایک دم کے لیے اپنی گهاٹ میں بیٹھ جا)

اس لیے همیں حکمرانوں کی فکر کیے بغیر اپنے فرائض نبهانے چاهئیں. کیونکه وه بهی عوام میں سے هی چنے جاتے هیں.
 
آخری تدوین:
Top