کیا بچوں ہاسٹل بھیجا جانا چاہیے؟

لارنس کالج گھوڑا گلی میں کے جی ون کے بچے بھی داخل ہوسکتے ہیں جبکہ کیڈٹ کالج حسن ابدال میں آٹھویں جماعت سے داخلہ شروع ہوتا ہے۔۔۔ ۔
ہوسکتا ہے کہ ان اداروں میں بچوں کو بھیجنے کے کچھ منفی اثرات بچوں پر مرتب ہوتے ہوں، لیکن ایک بات ہے کہ بچوں کی زندگی میں نظم و ضبط اجاتا ہے اور یہ بات ساری زندگی اسکے کام آتی ہے

اللہ اللہ کیا ظلم ہےکے جی ون کے بچوں کو ہاسٹل:-(
 
اللہ اللہ کیا ظلم ہےکے جی ون کے بچوں کو ہاسٹل:-(
اسکی بھی ایک اصل موجود ہے۔۔سیرت النبی میں ہے کہ مکہ کے اشراف میں یہ رواج تھا کہ اپنے شیر خوار بچوں کو تین چار سال کیلئے بدوؤں کے سپرد کردیا کرتے تھے تاکہ بچہ صحرائی آب و ہوا مین قدرے نامساعد حالات میں پلے برھے ۔۔ایسا بچے کے وسیع تر مفاد کو ہی مد نظر رکھ کر کیا جاتا تھا :)
 

ملائکہ

محفلین
میرا تو خیال ہے نہیں بھیجنا چائیے فیملی ایک یونٹ ہے اور بچپن کا زمانہ انسان کی باقی تمام زندگی کے لئے بیس ہوتا ہے ۔۔۔۔ ایک بچہ اپنے ماں باپ سے دور ہو تو بہت سی کمیاں اس میں رہ جاتی ہیں۔۔ میرے ابو نے اپنا بچپن اپنی فیملی سے الگ گزرا ہے اور اب تک اسکے بہت گہرے اثرات میرے ابو کی شخصیت میں شامل ہوچکے ہیں جبکہ اب وہ دادا بھی بن چکے ہیں ۔۔۔ اس لئے میرا تو خیال ہے کہ بچہ اپنے خاندان کے ساتھ ہی رہے تو آگے ایک نارمل زندگی گزار سکتا ہے۔۔۔۔۔
 
اسکی بھی ایک اصل موجود ہے۔۔سیرت النبی میں ہے کہ مکہ کے اشراف میں یہ رواج تھا کہ اپنے شیر خوار بچوں کو تین چار سال کیلئے بدوؤں کے سپرد کردیا کرتے تھے تاکہ بچہ صحرائی آب و ہوا مین قدرے نامساعد حالات میں پلے برھے ۔۔ایسا بچے کے وسیع تر مفاد کو ہی مد نظر رکھ کر کیا جاتا تھا :)

دور جاہلیت کے رواج کی بات تو آپ نے کی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث کا کیا مطلب نکالیں گے :(مروا اولادکم بالصلوۃ وھم ابناء سبع سنین واضربواھم علیھا وھم ابناء عشر سنین وفرقوا بینھم فی المضاجع ) [ ابو داؤد]
 
یہاں یہ بحث نہیں ہورہی کہ فقہی اعتبار سے اسکی کیا حیثیت ہے۔۔۔اصل مدعا تو یہ ہے کہ ایسا کرنے کے کیا ممکنہ فوائد و نقصانات ہیں۔۔۔میرا خیال تو یہ ہے کہ کچھ عرصہ بچے کو ایسے ماحول کا بھی ذائقہ چکھانا چاہئیے۔۔ایسا اسکی شخصیت کی تشکیل کیلئے مفید ہے۔۔ورنہ ممی ڈیڈی بچے زندگی کی مشکلات کا بہتر طریقے سے سامنا نہیں کر پاتے۔۔۔
 

سید ذیشان

محفلین
یہاں یہ بحث نہیں ہورہی کہ فقہی اعتبار سے اسکی کیا حیثیت ہے۔۔۔ اصل مدعا تو یہ ہے کہ ایسا کرنے کے کیا ممکنہ فوائد و نقصانات ہیں۔۔۔ میرا خیال تو یہ ہے کہ کچھ عرصہ بچے کو ایسے ماحول کا بھی ذائقہ چکھانا چاہئیے۔۔ایسا اسکی شخصیت کی تشکیل کیلئے مفید ہے۔۔ورنہ ممی ڈیڈی بچے زندگی کی مشکلات کا بہتر طریقے سے سامنا نہیں کر پاتے۔۔۔

جی بالکل ایسا ہونا چاہیے لیکن یونیورسٹی کے زمانے میں۔ اس سے پہلے بچوں کو ہاسٹل بھیجنے کے میں بھی سخت خلاف ہوں۔

محمدعلم اللہ اصلاحی بھائی، ایک اچھا دھاگہ شروع کیا ہے اور امید ہے اس پر مزید مفید گفتگو ہو سکے گی۔ میں خود بھی کچھ دیر میں کچھ عرض کرنا چاہوں گا۔
 

عسکری

معطل
ویل میں نے اب تک ایسا کوئی کام نہیں کیا کہ جس سے کوئی مجھے ابو کہے جب میرے بچے ہوں گے تو انہیں ہاسٹل میں تب ہی بھیجوں گا جب میرے پاس اور کوئی آپشن نہیں ہو گی ۔ میرے خیال سے میرے لتر کھا کر وہ زیادہ پڑھیں گے :grin:
 

ساجد

محفلین
ویل میں نے اب تک ایسا کوئی کام نہیں کیا کہ جس سے کوئی مجھے ابو کہے جب میرے بچے ہوں گے تو انہیں ہاسٹل میں تب ہی بھیجوں گا جب میرے پاس اور کوئی آپشن نہیں ہو گی ۔ میرے خیال سے میرے لتر کھا کر وہ زیادہ پڑھیں گے :grin:
یعنی جیسے خود پڑھے ہو ویسے ہی بچوں کو پڑھانے کے ارادے ہیں :)
 

عسکری

معطل
یعنی جیسے خود پڑھے ہو ویسے ہی بچوں کو پڑھانے کے ارادے ہیں :)
لو جی کیا غلط پڑھ بیٹھے ہیں ؟ پڑھیں گے نہین تو ملک کو نئے فوجی کیا فوٹو کاپی مشین سے ملیں گے؟ سب نے پڑھ کر فوج مین جانا ہے ابھی سے لتر کھا لین گے تو آگے مشکل نہین ہو گی :grin:
 
بھائی جان میں
اپیاآپ کو ان بچوں کا احساس نہیں جو بغیر ماں باپ کے ہاسٹل میں یتیموں کی سی زندگی گذارتے ہیں ۔والدین کی محبت سے محروم ایسے بچے نہ صرف احساس کمتری کا شکار ہو جاتے ہیں ۔بلکہ بڑے ہو کر خاندان یا سماج سے وہ رشتہ نہیں منسلک کر پاتے جو گھر میں رہکر پڑھنے والے بچوں کے یہاں پایا جاتا ہے ۔
:giggle: میں خود ٹین ایج میں ہاسٹل میں رہی ہوں ، بہت خوش گوار تجربہ تھا۔ یہ باتیں ہر شخص کے حالات پر منحصر ہیں ۔
 

زبیر مرزا

محفلین
کم عمربچوں کو ہاسٹل بھیجنا تو میرے خیال میں مناسب نہیں کہ یہ دورتعلیم کے ساتھ تربیت کا بھی ہوتاہے
جس میں والدین نمایاں کردار اداکرتے ہیں - تربیت بچوں کی ہی نہیں والدین کی بھی ہوتی ہیں بلکہ گروتھ کہنا مناسب ہوگا
اولادکے ساتھ رہ کروالدین بھی بہت سی ذمہ داریوں اور جذباتی اُتارچڑھاوسے گذرکرپختگی حاصل کرتے ہیں اور ان کے
بچے ان کے زیرسایہ تربیت پاتے ہیں توگھرجیسے ادارے کی اہمیت سے روشناس ہوتے ہیں بڑے اورچھوٹے بہن بھائی ہوں
تودوستی ، بھائی چارے اورمحبت کا درس گھررہ کرحاصل کرلیتے ہیں-
کالج اوریونیورسٹی کی سطح پرپہنچ کربچوں کا ہاسٹل میں رہنا اگرضرورت ہوتو مناسب ہے اس طرح وہ
خودمختاری سے فیصلے کرنے اور اپنے آپ پربھروسہ کرنے کے اہل ہوجاتے ہیں
 

عینی شاہ

محفلین
بھئی سمپل سی بات ہے اگر آپ کے سٹی میں پڑھنے کی اچھے انسٹیٹیوٹ ہیں اور آپ وہاں پڑھ سکتے ہیں تو اپنے سٹی کو ہی پریفر کریں ۔۔اگر نہیں تو کسی دوسرے سٹی جا کر ہوسٹل میں پڑھنے میں بھی کوئی ھرج نہیں ہے ۔۔میں خود اپنے بی ۔بی۔ اے آنرزکے 4 سال ہاسٹل رہی ہوں ۔۔۔یہ اور بات ہر 4 دن بھاگی آتی تھی گھر:biggrin:
 

سید ذیشان

محفلین
18 سال سے پہلے ہاسٹل میں رہنے کے کچھ فوائد ہیں اور کچھ نقصانات ہیں۔

فوائد یہ ہیں کہ اپنی عمر کے سٹوڈنٹس سے کافی میل جول ہوتا ہے۔ مقابلہ ہونے کی وجہ سے پڑھائی وغیرہ زیادہ کرنی پڑتی ہے۔ کوئی چیز سمجھ نا آئے تو کسی بھی وقت دوستوں یا استادوں سے سمجھ سکتے ہیں۔ اکثر ایسے سکولوں میں کھیل کے میدان بھی کافی اچھے ہوتے ہیں۔ اپنے مسائل خود حل کرنے کا تجربہ ہوتا ہے۔ تاحیات رہنے والی دوستیاں قائم ہو جاتی ہیں۔

نقصانات یہ ہیں کہ والدین اور بہن بھائیوں سے دور رہنے کی وجہ سے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ جس کی وجہ سے ان سے وہ تعلق نہیں بن پاتا جو کہ گھر میں رہنے والے بچوں کا بن سکتا ہے۔ بے جا مقابلوں کی وجہ سے پریشانی رہتی ہے۔ چونکہ بہت نازک عمر ہوتی ہے اس لئے اچھے برے کی تمیز نہیں ہوتی اور سگریٹ نوشی یا منشیات کی لت پڑنے کے کافی مواقع میسر آتے ہیں۔ جنسی تشدد کے امکانات بھی بڑھ جاتے ہیں۔

ڈسپلن کا میں نے ذکر نہیں کیا کیونکہ یہ دونوں فائدہ مند اور نقصان دہ ہو سکتا ہے۔ فائدے کی سب کو سمجھ ہے۔ نقصان تب ہوتا ہے جب بچے کو ایک کام کرنے یا نا کرنے کی وجوہات سے آگاہی نہ ہو۔ مثلاً صبح جلدی اٹھنا اور کچھ ورزش کرنا۔ یہ ایسی چیز ہے کہ اگر بچوں پر مسلط کی جائے اور ان کو اس کی وجوہات نہ سمجھائی جائیں تو یہ امکان ہے کہ وہ ڈسپلن ہونے کی بجائے اس کام سے نفرت کرنے لگیں۔ اس طرح کی اور بھی چیزیں ہیں جن کو بذور مسلط کرنے سے خرابیاں پیدا ہوتی ہیں۔
 

عائشہ عزیز

لائبریرین
مجھے نہیں پتا کہ ہاسٹل میں رہنے کے کیا فائدے ہوتے ہیں۔ لیکن اپنے کالج ہوسٹل کو دیکھتی ہوں تو سوچتی ہوں میں یہاں ایک دن بھی نہیں گزار سکتی :(
 

سید ذیشان

محفلین
تاریخی لحاظ سے ایک نہایت دلچسپ بات یہ ہے کہ قدیم یونان (400 ق م) میں سپارٹا کے نام سے ایک ملک تھا، اس ملک میں جب بچے 7 سال کے ہو جاتے تو ان کو فوجی ٹریننگ دی جاتی تھی اور وہ بھی ہاسٹلوں میں رہتے تھے۔

وکیپیڈیا آرٹیکل میں اس کی مزید تفصیل بیان کی ہوئی ہے:​
When male Spartans began military training at age seven, they would enter theAgogesystem. TheAgogewas designed to encourage discipline and physical toughness and to emphasise the importance of the Spartan state. Boys lived in communal messes and, according to Xenophon, whose sons attended the agoge, the boys were fed "just the right amount for them never to become sluggish through being too full, while also giving them a taste of what it is not to have enough."[72]Besides physical and weapons training, boys studied reading, writing, music and dancing. Special punishments were imposed if boys failed to answer questions sufficiently 'laconically' (i.e. briefly and wittily).[73]
There is some evidence that in late-Classical and Hellenistic Sparta boys were expected to take an older male mentor, usually an unmarried young man. However, there is no evidence of this in archaic Sparta. According to some sources, the older man was expected to function as a kind of substitute father and role model to his junior partner; however, others believe it was reasonably certain that they had sexual relations (the exact nature of Spartan pederasty is not entirely clear).[74] It is notable, however, that the only contemporary source with direct experience of the agoge, Xenophon, explicitly denies the sexual nature of the relationship.[72]
Post 465 BC, some Spartan youth apparently became members of an irregular unit known as the Krypteia. The immediate objective of this unit was to seek out and kill vulnerable helot Laconians as part of the larger program of terrorising and intimidating the helot population.[75]
Less information is available about the education of Spartan girls, but they seem to have gone through a fairly extensive formal educational cycle, broadly similar to that of the boys but with less emphasis on military training. In this respect, classical Sparta was unique in ancient Greece. In no other city-state did women receive any kind of formal education
 
ہاسٹل

جناب محمدعلم اللہ اصلاحی

آداب۔ برقی رو کی غیر یقینی صورت کے پیشِ نظر میں نے مناسب جانا کہ اپنی گزارشات کو لکھتا چلا جاؤں اور پھر آپ کی خدمت میں پیش کر دوں۔ آپ نے جو سوالات اٹھائے ہیں اور جو سوالات اب تک کے مباحث میں اٹھے ہیں، ان کو ممکنہ ترتیب میں لے آئیں تو بات کرنا آسان ہو جائے گا۔
۱۔ ہاسٹل اس کی مختلف صورتیں اور پس منظر
۲۔ ہاسٹل کیوں؟
۳۔ گھر، والدین اور بچے کا فطری تعلق
۴۔ ایمان و عقیدہ اور معاشرتی اقدار
۵۔ شخصیت سازی اور والدین کی ذمہ داریاں
۶۔ اقامت گاہ کا انتخاب اور مقصد
۷۔ ترجیحات اور صورتِ حالات
۸۔ اقامت گاہ میں بچے سے روابط
۹۔ دیگر امور
۔۔۔۔ ان نکات پر بات ہو گی، ان شاء اللہ۔
 
Top