کیا بچوں ہاسٹل بھیجا جانا چاہیے؟

بہت آداب حضور اس میں ہمارے ہندو پاک میں پائے جانے والے مدارس کے اقامت گاہوں کو بھی شامل کر لینا شاید غیر مناسب نہ ہو جس میں اسکولوں کے مقابلہ معصوموں کی زندگیاں کچھ زیادہ ہی ٹوٹتی بکھرتی ہے۔
غیر متفق ریٹ کا سبب بھی تو بتا دیتیں اپیا ام نور العين
بات وہی ہے کہ ہر انسان کے اپنے تجربات ہیں جنرلائز نہ کریں۔۔۔ نہ مجھے اس بات سے اتفاق ہے کہ انگریزی مدارس کی اقامت گاہیں دینی مدارس سے بہتر ہیں ۔
 

عسکری

معطل
جب آپ بوٹ کی نوک سے مذہب کا درست علم رکھنے والوں کو دیوار سے لگائیں گے تو یہی ہو گا ۔ مجھے پاکستانی فوج سے اتنی ہی محبت ہے جتنی دینی مدارس و جامعات سے ۔ آپ یہ موضوع یہاں نہ چھیڑیں تو بہتر ہے۔
وہ جو دل میں آئے کریں ہم چھیڑیں بھی نا ؟ :D مدرسے ام الفساد ہیں اس میں تب تک شک رہتا ہے جب تک مدرسے بھیجنے والے والدین کو پولیس آ کر نہین بتاتی کہ آپکا جانیشن کل کس بازار چوراہے مارکیٹ ائیر پورٹ پر پھٹا تھا ۔
 
بات وہی ہے کہ ہر انسان کے اپنے تجربات ہیں جنرلائز نہ کریں۔۔۔ نہ مجھے اس بات سے اتفاق ہے کہ انگریزی مدارس کی اقامت گاہیں دینی مدارس سے بہتر ہیں ۔
میں نے بہتر نا بہتر کی تو بات ہی نہیں کی اپیا میں نے تو محض اس جانب بھی دھیان دینے کی گذارش کی ہاسٹل تو ہاسٹل ہے ۔چاہے آپ اسے چھاترا واس کہیں ،اقامت گاہ ،قیام گاہ ،دارالاقامہ ،بورڈنگ یا کچھ اور مسائل تو یکساں ہونگے نا ۔۔
 
جامعہ حفصہ اور لال مسجدجیسے معیاری دینی مدرسوں میں بچے بچیوں کو بھیجنے اور انکو وہاں اقامت پذیر کروانے میں کوئی قباحت نہیں۔۔:roll:
 
بلند آہنگ فوجی بینڈ سن سن کر آپ کو کسی کی بات سننے کی عادت نہیں رہی ۔ آپ کے کہنے سے سب مدارس ایک سے نہیں ہو جائیں گے نہ سب پاکستانی فوجی آپ جیسے ہیں ۔
وہ جو دل میں آئے کریں ہم چھیڑیں بھی نا ؟ :D مدرسے ام الفساد ہیں اس میں تب تک شک رہتا ہے جب تک مدرسے بھیجنے والے والدین کو پولیس آ کر نہین بتاتی کہ آپکا جانیشن کل کس بازار چوراہے مارکیٹ ائیر پورٹ پر پھٹا تھا ۔
 

عسکری

معطل
بلند آہنگ فوجی بینڈ سن سن کر آپ کو کسی کی بات سننے کی عادت نہیں رہی ۔ آپ کے کہنے سے سب مدارس ایک سے نہیں ہو جائیں گے نہ سب پاکستانی فوجی آپ جیسے ہیں ۔
جی وہ میرے جیسے نہیں کیونکہ وہ ڈائرکٹ انوالو ہیں ان تکفیریوں کے خلاف :sad:
 
جی وہ میرے جیسے نہیں کیونکہ وہ ڈائرکٹ انوالو ہیں ان تکفیریوں کے خلاف :sad:
الحمدللہ وہ سب آپ جیسے نہیں ہیں ، اور نہ ہی وہ سب دینی مدارس و جامعات کو تکفیری مدارس کہتے ہیں ، وہ فوج ایسا کہہ بھی کیسے سکتی ہے جس کا اپنا موٹو ایمان ، تقوی ، جہاد فی سبیل اللہ ہو ۔
آپ لوگوں کی آنکھوں میں کچھ زیادہ ہی دھول جھونک رہے ہیں ۔ ام الفساد اورام الخبائث وہ ہے جسے بعض لبرل فاشسٹ پی کر بہکی بہکی باتیں کرتے ہیں ۔
 

سعادت

تکنیکی معاون
میری تو رائے یہی ہے کہ بچے کی فطرت اور رجحان کو سامنے رکھتے ہوئے اُسے ہاسٹل میں بھیجنے یا نہ بھیجنے کا فیصلہ کرنا چاہیے۔ اس رائے کی وجہ بننے والے تین افراد ہیں، جنہیں میں ذاتی طور پر جانتا ہوں:

- میرے بڑے بھائی، جو ملک کے ایک مشہور تعلیمی ادارے کے ہاسٹل میں پانچ سال تک زیرِ تعلیم رہے۔ وہاں کے داخلہ امتحان میں حصہ لینے کا فیصلہ خود میرے بھائی ہی کا تھا اور انہوں نے بڑی مشکل سے ہمارے والدین کو اس پر راضی کیا تھا۔ (یاد رہے کہ اس ادارے میں آٹھویں سے بارہویں جماعت تک کی تعلیم دی جاتی ہے، اور جب میرے بھائی نے وہاں جانے کی ضد کی تھی تو وہ محض ساتویں کے طالبعلم تھے۔) آج بھی اُس ادارے میں گزرے ہوئے وقت کو وہ بڑے فخر اور پیار سے یاد کرتے ہیں۔

- میرا ایک بہت اچھا دوست، جس کو اس کے والد صاحب نے اس کی مرضی کے خلاف اُسی تعلیمی ادارے میں داخلہ لینے پر مجبور کیا تھا۔ نتیجتاً میرے دوست نے اس ادارے میں اپنے پانچ سال "باغیانہ" رویے کی روشن مثال بن کر گزارے، اور اب یہ باغیانہ رویہ اس کی فطرت کا ایک اہم جزو بن چکا ہے۔ ironic بات یہ ہے کہ اس کے والد صاحب نے اسے اِس امید پر وہاں بھیجا تھا کہ اس کی زندگی میں کچھ ڈسپلن آئے گا۔

- مَیں، جو اپنے بڑے بھائی کے نقشِ قدم پر چلتا ہوا اپنی مرضی سے اس تعلیمی ادارے میں گیا تھا، اور اپنی مرضی ہی سے صرف دو ماہ بعد واپس لوٹ آیا تھا۔ :) وجہ؟ میں سمجھتا تھا کہ ڈسپلن کی بھی کوئی حد ہونی چاہیے!

گو میں ذاتی طور پر ایسے کسی شخص کو نہیں جانتا، لیکن مجھے یقین ہے کہ ایسے بچوں کی بھی کوئی کمی نہیں ہو گی جو کم عمری میں اپنی مرضی کے خلاف کسی ہاسٹل میں گئے ہوں گے اور پھر وہ ہاسٹل ان کا دوسرا گھر بن گیا ہوگا۔

سو میرا تو یہی خیال ہے کہ بچے کے رجحان اور فطرت کو سامنے رکھ کر اس کا فیصلہ کرنا چاہیے۔ یہ بات درست کہ کچھ مجھ جیسے بھی ہوتے ہیں جو یہ سمجھنے میں غلط ہوتے ہیں کہ وہ ہاسٹل کی زندگی میں کامیابی سے ایڈجسٹ کر سکیں گے، اور پھر کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جو اپنے آپ کو ہاسٹل کی زندگی میں فِٹ نہیں سمجھتے لیکن حقیقتاً ہاسٹل کا ماحول ان کے لیے کافی سازگار ہوتا ہے، لیکن والدین اور اساتذہ اگر غیر جانبداری سے بچوں کی شخصیات کا جائزہ لیں تو ایسا فیصلہ کرنا عمومی کیسز میں زیادہ مشکل نہیں ہونا چاہیے۔ یہ البتہ ایک علیحدہ بحث ہے کہ کیا ہمارے ابتدائی تعلیمی نظام میں بچوں کی شخصیت، رجحان، اور خوبیوں کو سامنے رکھ کر ان کی آئندہ تعلیم اور تربیت کا پروگرام مرتب کیا جاتا ہے یا نہیں۔۔۔

ارلی ٹِین ایج کے عرصے میں ہاسٹل میں جانا، اور یونیورسٹی کی سطح پر ہاسٹل میں رہنا واقعی دو مختلف باتیں ہیں، اور اسی لیے ان کا موازنہ کرنا بھی نہیں چاہیے۔
 

عسکری

معطل
الحمدللہ وہ سب آپ جیسے نہیں ہیں ، اور نہ ہی وہ سب دینی مدارس و جامعات کو تکفیری مدارس کہتے ہیں ، وہ فوج ایسا کہہ بھی کیسے سکتی ہے جس کا اپنا موٹو ایمان ، تقوی ، جہاد فی سبیل اللہ ہو ۔
آپ لوگوں کی آنکھوں میں کچھ زیادہ ہی دھول جھونک رہے ہیں ۔ ام الفساد اورام الخبائث وہ ہے جسے بعض لبرل فاشسٹ پی کر بہکی بہکی باتیں کرتے ہیں ۔
جی بالکل کوئی بھی انسان دوسرے جیسا نہیں ہے دینی مدارس ؟ کہ دہشت گردی مدارس ؟ مجھے لوگوں کی آنکھوں میں کی اجھونکنا ان کی آنکھوں کے سامنے اپکے پیارے دینی بھائیوں نے 50 ہزار پاکستنای مار ڈالے ہیں مدارس اور شراب کو اگر تولا جائے تو مدارس نے زیادہ خون بہایا ہو گا :D
 

طالوت

محفلین
حالات کی مناسبت سے وقتی طور پر تو یہ فیصلہ درست مانا جا سکتا ہے کہ بچے کو ہاسٹل بھیج دیا جائے مگر کوئی تعلیمی ادارہ کتنا ہی اچھا کیوں نہ ہو وہ اس ماحول کی تربیت فراہم نہیں کر سکتا جس میں آئندہ زندگی گزارنا ہوتی ہے ۔والدین اگر خود نظم و ضبط کے پابند اور ذمہ دار طبعیت کے مالک ہوں تو بچوں کی غیر ذمہ داری اور نظم و ضبط سے عاری زندگی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ہاسٹل لائف بھی ایک "جہان" ہے اس کا مزہ بھی چکھنا چاہیے مگر کالج کے بھی بعد یونیورسٹی کی تعلیم میں (بغیر یونیورسٹی اور تعلیم کے یہاں چکھ رہے ہیں)۔
ادارہ آپکا کچھ نہیں بگاڑ سکتا چاہے وہ کتنا ہی اچھا اور اعلٰی ہو جبتکہ گھر میں بچوں کو والدین کی زندگی میں کمزوریاں نظر آتی رہیں ، وہ کمزوریاں وقتا فوقتا ظاہر ہوتی رہتی ہیں ۔ درسگاہ اور گھر کی اہمیت اپنی اپنی جگہ مگر گھر سب سے زیادہ اہم اور ضروری ہے۔ زمانہ قدیم کے عربی رواجوں کی مثال یہاں کوئی حل پیش نہیں کر سکتی کہ نہ تو ہمارا خطہ خطہ عرب ہے اور نہ یہ اس دور کی بات ۔
 
ارلی ٹِین ایج کے عرصے میں ہاسٹل میں جانا، اور یونیورسٹی کی سطح پر ہاسٹل میں رہنا واقعی دو مختلف باتیں ہیں، اور اسی لیے ان کا موازنہ کرنا بھی نہیں چاہیے۔[/quote]

سعادت بھائی جان بہت بہت شکریہ کہ آپ نے بہت تفصیل سے جواب دیا ۔کیا ہی اچھا ہوتا کہ آپ ارلی ٹین ایج میں ہاسٹل بھیجے جانے کے بارے میں بھی کچھ لکھتے ۔جس کے بارے میں بچہ کو کچھ پتا ہی نہیں ہوتا اور وہ معصوم بکری کی طرح زبردستی والد کے ڈر اور پٹائی سے ہاسٹل جانا گوارہ کر لیتا ہے ۔اور پھر اس کے سبب وہ کس کس طرح کے ذہنی اور نفسیاتی امراض کا شکار ہو جاتا ہے ۔
 

عبدالحسیب

محفلین
سب سے پہلے تو مبارک باد کہ اتنا بہترین دھاگہ شروع کیا۔ نہایت ہی اہم موضوع ہے جس کا باریک بینی سے مشاہدہ وقت کی اہم ضرورت ہے۔​

ہوسٹل میں تعلیم حاصل کرنے کہ جہاں چند فوائد بھی ہیں ۔ وہیں کئی نقصان بھی۔ جیسے ہوسٹل میں رہنے والے بچوں پر صحبت کا اثر گھر پر رہنے والے بچوں کی بنسبت زیادہ پڑتا ہے۔ اسکی وجہ یہی ہے کہ گھر پر رہنے والا بچہ اکثر جو نئی چیز اسکول وغیرہ میں معلوم ہو وہ اپنے کسی قریبی بھائی۔بہن۔والدہ۔والد کسی سے بھی تشویش کے سبب پوچھتا ضرور ہے اور بچہ کی ترجیحات میں اپنے قریبی کی رائے سر فہرست ہوتی ہے ایسا بھی نہیں کہ قریبی کی رائے ہمیشہ صحیح ہو اور دوست احباب ہی ہمیشہ غلط باتیں سکھائٰیں۔ایسا بھی ہوتا ہے لیکن بہت ہی کم۔​
پھر آج کل جہاں بچہ گھر پر ہی ، ماں بات کے ساتھ رہ کر وہ اخلاق سوز حرکتیں اسکول ، ٹیوشن میں کر رہے، ہوسٹل میں رہنے کے بعد کیا ہوتا گا یہ تو اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ بڑھتی ہوئی فحاشت، انٹرنٹ پر ایک کلک دور فحاشی کے اڈے اور نو عمر بچوں پر اسکے اثرات ، اسی موضوع پر گزشتہ دنوں ایک مضمون شائع ہوا تھا۔ یہ مضمون در اصل ایک تجزیاتی رپورٹ تھی جس میں ہندوستان کے تمام بڑے شہروں کے نامور اسکولوں کا تجزیہ کیا گیا تھا۔ اور جو حقائق سامنے آئے تھے وہ رونگٹے کھڑے کردینے والے تھے۔ یہ مضمون ضرور پڑھیں۔ اب ذرا سوچئے ایسے ماحول میں جہاں بچوں کو ماں باپ کا بھی خوف نہیں کیا وارڈن کی سر پرستی انھیں اس بے حیائی کی طرف جانے یا اور کسی بری صحبت میں پڑھنے سے روک سکتی ہے؟​
 
بھائی عبدالحسیب صاحب بحث میں حصہ لینے کا شکریہ۔تہلکہ کی رپورٹ واقعی چشم کشا اور ہلا دینے والی ہے ۔اس قدر معلوماتی لنک شیر کرنے کا بے حد شکریہ ۔واقعی اس طرح کے حقائق سے بہت سارے گوشے وا ہوتے ہیں اور بہت کچھ سوچنے پر مجبور کرتے ہیں ۔
 
میں نہیں سمجھتا کہ ہاسٹل بچوں کے لیے کوئی اچھی جگہ ہے۔۔
ہاں یونیورسٹی کے اسٹوڈنٹ جو اعلی تعلیم کے حصول لیے دوسرے شہروں میں آتے ہیں ان کے لیے صحیح ہیں۔
 

arifkarim

معطل
چھوٹے بچے جو اپنی کم عمری کے باعث اپنا دفاع خود نہیں کر سکتے کو ہاسٹلز کی تلخ زندگی میں دھکیلنا قانونی جرم ہونا چاہئے۔ سارا زمانہ جانتا ہے کہ اس قسم کے اسکولوں بعض ایسے لوگ بھی گھس آتے ہیں جو خفیہ طور پر ان معصوم کم سن بچوں کا جنسی استحصال کر کے انکی زندگیاں برباد کر دیتے ہیں۔ مغربی دنیا میں سنسرشپ نہ ہونے کے باعث یہ سب باہر آجاتا ہے۔ مشرقی دنیا کا مجھے پتا نہیں لیکن وہاں بھی تو انسان ہی بستے ہیں، کوئی فرشتے تو نہیں:
http://www.nospank.net/n-n33r.htm
http://www.guardian.co.uk/commentisfree/2012/jan/16/boarding-school-bastion-cruelty
http://www.dailymail.co.uk/news/article-2172102/Maths-teacher-attacked-boys-boarding-school-30-years-ago-finally-jailed.html
 
۱۔ ہاسٹل اس کی مختلف صورتیں اور پس منظر
ہاسٹل کا تصور کوئی نئی بات نہیں ہے۔ قبل از تاریخ کے زمانے میں بھی ہاسٹل موجود تھے انہیں جو نام بھی دیا گیا۔ اس کی دو نمایاں صورتیں تھی۔
الف: ملک گیری تہذیب انسانی کے ساتھ ساتھ چلتی رہی ہے؛ کہیں یہ مشن تھی، کہیں ہوس، کہیں کسی نہ کسی انداز میں اسے ضرورت کی حیثیت حاصل تھی۔ وجوہات اور عوامل جو کچھ بھی رہے ہوں، ملک گیری کے لئے افرادی قوت اور اس کی حربی تربیت کا انتظام ہر معاشرے میں رہا ہے۔ کہیں تو سات آٹھ سال کی عمر کے بچوں کو تربیت گاہوں میں ڈالا گیا اور کہیں عنفوانِ شباب میں۔ زیر تربیت بچوں اور جوانوں کو اقامتی تربیت گاہوں میں رہنا ہوتا تھا، بارِ دگر آپ اس کو جو نام بھی دے لیں۔
باء: ہندومت کو دنیا کا قدیم ترین مذہب کہا جاتا ہے، اس کے بعد شاید بدھ مت ہے اور دیگر مذاہب ہیں۔ ان مذاہب میں صرف لڑکوں کو نہیں لڑکیوں کو بھی مختلف قسم کی تربیتوں سے گزرا جاتا اور انہیں شب و روز ایک خاص ماحول میں رہنا ہوتا تھا جس کا اہتمام انفرادی طور پر کوئی گھرانہ بھی نہیں کر سکتا تھا بلکہ بچوں کو کسی نہ کسی اقامتی درسگاہ کے سپرد کر دیا جاتا۔ جہاں سے فارغ التحصیل لوگ معاشرے میں اپنا متعینہ کردار ادا کرنے کے قابل ہو سکتے۔
یہودیت اور عیسائیت میں بھی ایسی اقامتی درسگاہیں اپنا کردار ادا کرتی رہی ہیں، اور یہ سلسلہ اسلام میں بھی رہا ہے۔ تاہم یہ ضرور ہے کہ ہر معاشرے میں اور ہر زمانے میں اس کے مقاصد اور طرز میں تبدیلی آتی رہی ہے۔ بہت دور جانے کی ضرورت نہیں برصغیر میں بھی (خاص طور پر مسلمانوں میں) مدرسہ کی ایک صورت ہوا کرتی تھی جس کا پورا انتظام و انصرام کسی ایک شخص کے ہاتھ میں ہوتا تھا۔ دور درازسے نہ صرف بچے بلکہ ہر عمر کے لوگ ان مدرسوں میں آ کر رہتے اور تعلیم حاصل کرتے۔ یہاں اساتذہ کی بھی تربیت ہوا کرتی تھی۔ طالب علموں کو نہ صرف مختلف علوم سکھائے جاتے بلکہ اُن کی کردار سازی بھی کی جاتی۔ یہ محض اتفاق نہیں ہے کہ ماضی کے نمایاں اہلِ علم، مفکر، جرنیل، سائنسدان، ہیئت دان ایسے ہی کسی نہ کسی مدرسے کے تربیت یافتہ تھے (ناموں اور شعبوں کی تفصیل میں جانے کا موقع نہیں ہے)۔ تصوف کی مروجہ صورت سے فکری ہم آہنگی نہ رکھتے ہوئے بھی مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ وہاں شخصیت اور کردار کی تشکیل ہوتی تھی۔
یہاں برصغیر میں انگریز کی حکومت بنی توسکول، کالج اور یونیورسٹی کا جدید نظام لاگو ہوا، اور بیشتر انفرادی مدرسے یا تو سرے سے ختم ہو گئے یا پھر اُن کا صرف نام باقی رہ گیا۔ سکول کالج اور یونیورسٹی کے بدیسی نظام کا طرۂ امتیاز یہ ہے کہ یہاں کردار سازی اور شخصیت کی تعمیر کو یکسر خارج کر دیا گیا۔ استاد معلم کی بجائے مدرس رہ گیا، اور علم کے معانی ’’معلومات‘‘ میں بدل گئے۔ درسگاہوں کے ہاسٹل خانقاہوں کا نظام بھی نہ اپنا سکے۔

ایسے میں یہ سوال اور بھی اہمیت اختیار کر لیتا ہے کہ ۔۔۔
۲۔ ہاسٹل کیوں؟
ہماری گفتگو کا اگلا حصہ اس نکتے پر ہو گا۔

 
۱۔ ہاسٹل اس کی مختلف صورتیں اور پس منظر
ہاسٹل کا تصور کوئی نئی بات نہیں ہے۔ قبل از تاریخ کے زمانے میں بھی ہاسٹل موجود تھے انہیں جو نام بھی دیا گیا۔ اس کی دو نمایاں صورتیں تھی۔
الف: ملک گیری تہذیب انسانی کے ساتھ ساتھ چلتی رہی ہے؛ کہیں یہ مشن تھی، کہیں ہوس، کہیں کسی نہ کسی انداز میں اسے ضرورت کی حیثیت حاصل تھی۔ وجوہات اور عوامل جو کچھ بھی رہے ہوں، ملک گیری کے لئے افرادی قوت اور اس کی حربی تربیت کا انتظام ہر معاشرے میں رہا ہے۔ کہیں تو سات آٹھ سال کی عمر کے بچوں کو تربیت گاہوں میں ڈالا گیا اور کہیں عنفوانِ شباب میں۔ زیر تربیت بچوں اور جوانوں کو اقامتی تربیت گاہوں میں رہنا ہوتا تھا، بارِ دگر آپ اس کو جو نام بھی دے لیں۔
باء: ہندومت کو دنیا کا قدیم ترین مذہب کہا جاتا ہے، اس کے بعد شاید بدھ مت ہے اور دیگر مذاہب ہیں۔ ان مذاہب میں صرف لڑکوں کو نہیں لڑکیوں کو بھی مختلف قسم کی تربیتوں سے گزرا جاتا اور انہیں شب و روز ایک خاص ماحول میں رہنا ہوتا تھا جس کا اہتمام انفرادی طور پر کوئی گھرانہ بھی نہیں کر سکتا تھا بلکہ بچوں کو کسی نہ کسی اقامتی درسگاہ کے سپرد کر دیا جاتا۔ جہاں سے فارغ التحصیل لوگ معاشرے میں اپنا متعینہ کردار ادا کرنے کے قابل ہو سکتے۔
یہودیت اور عیسائیت میں بھی ایسی اقامتی درسگاہیں اپنا کردار ادا کرتی رہی ہیں، اور یہ سلسلہ اسلام میں بھی رہا ہے۔ تاہم یہ ضرور ہے کہ ہر معاشرے میں اور ہر زمانے میں اس کے مقاصد اور طرز میں تبدیلی آتی رہی ہے۔ بہت دور جانے کی ضرورت نہیں برصغیر میں بھی (خاص طور پر مسلمانوں میں) مدرسہ کی ایک صورت ہوا کرتی تھی جس کا پورا انتظام و انصرام کسی ایک شخص کے ہاتھ میں ہوتا تھا۔ دور درازسے نہ صرف بچے بلکہ ہر عمر کے لوگ ان مدرسوں میں آ کر رہتے اور تعلیم حاصل کرتے۔ یہاں اساتذہ کی بھی تربیت ہوا کرتی تھی۔ طالب علموں کو نہ صرف مختلف علوم سکھائے جاتے بلکہ اُن کی کردار سازی بھی کی جاتی۔ یہ محض اتفاق نہیں ہے کہ ماضی کے نمایاں اہلِ علم، مفکر، جرنیل، سائنسدان، ہیئت دان ایسے ہی کسی نہ کسی مدرسے کے تربیت یافتہ تھے (ناموں اور شعبوں کی تفصیل میں جانے کا موقع نہیں ہے)۔ تصوف کی مروجہ صورت سے فکری ہم آہنگی نہ رکھتے ہوئے بھی مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ وہاں شخصیت اور کردار کی تشکیل ہوتی تھی۔
یہاں برصغیر میں انگریز کی حکومت بنی توسکول، کالج اور یونیورسٹی کا جدید نظام لاگو ہوا، اور بیشتر انفرادی مدرسے یا تو سرے سے ختم ہو گئے یا پھر اُن کا صرف نام باقی رہ گیا۔ سکول کالج اور یونیورسٹی کے بدیسی نظام کا طرۂ امتیاز یہ ہے کہ یہاں کردار سازی اور شخصیت کی تعمیر کو یکسر خارج کر دیا گیا۔ استاد معلم کی بجائے مدرس رہ گیا، اور علم کے معانی ’’معلومات‘‘ میں بدل گئے۔ درسگاہوں کے ہاسٹل خانقاہوں کا نظام بھی نہ اپنا سکے۔

ایسے میں یہ سوال اور بھی اہمیت اختیار کر لیتا ہے کہ ۔۔۔
۲۔ ہاسٹل کیوں؟
ہماری گفتگو کا اگلا حصہ اس نکتے پر ہو گا۔


استاذ محترم بہت شکریہ آپ نے تفصیل سے اس پر گفتگو کرنا منظور فرمایا اس سے یقینا ہم سب کو بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملے گا۔ابھی میں کلاس میں ہوں ۔بریک میں لائبریری آیا تھا سوچا محفل دیکھ لوں ۔آپ کی یہ تحریر پڑھ کر بڑی خوشی ہوئی ۔ مجھے لگا یہ آپ نے ابھی صرف تمہیدی سلسلہ شروع کیا ہے ۔بات بہت آگے تک جائے گی ۔چلئے اچھا ہے یہی بہانے ایک مسئلہ پر کسی نتیجہ تک پہونچنے میں کامیابی ملے گی ۔ انشائ اللہ میں آپ سے اپنی تشویشات اور ترددات بھی شیر کروں گا لیکن اس وقت جب بحث مکمل ہو جائے گی ۔دوبارہ آپ کا شکریہ ۔
 
انتہائی مفیدموضوع ہے اور آجکل کے حالات کے پیش نظر مسائل میں سے ایک مسلہ جن سے اکثر والدین کا واسطہ پڑتا ہے ۔۔میں نے یہ تھریڈ شروع سے ابھی پڑھا ہے اور اب تک کیئے گئے تبصروں کے مطابق تمام احباب کی رائے ملی جلی یا متضاد کیفیات لیے ہوئے ہے ۔۔دوٹوک انداز بہت کم دیکھنے میں آیا ہے جس سے یہ اندازہ ہو جاتا ہے کہ جملہ احباب ہوسٹل سے خوفزدہ نہیں بلکہ وہاں کے ماحول سے شاکی ہیں ۔۔جو کہ بہر طور ایک سنگین مسلہ ہے ۔
تاہم برا بھلا ماحول ہمیں ہر جگہ ملتا ہے اور وہی ایک پرانی گھسی پٹی بات کہ ماحول انسان خود بناتا ہے ۔۔بذات خود ایک بہت بڑی بات ہے ۔ آجکل کے تیزی سے بدلتے ہوئے مقابلے کے رجحانات نے جہاں بچوں میں آگے بڑھنے کی لگن پیدا کی جا چکی ہے (کی جا چکی اس لیئے کہا کہ بچے کے پیدا ہوتے ہی ہم اس کے کان میں یہ ڈالنا شروع کر دیتے ہیں کہ تم نے بڑے ہو کر یہ بننا ہے تو وہیں سے ہی ہم بچے سے اسکی اظہار کی بنیادی آزادی چھین لیتے ہیں ) وہاں والدین میں بھی ایک عجب بے چینی و اضطراب بھر دیا ہے وہ چاہتے ہیں کہ انکا بچہ اچھی تعلیم حاصل کرے اور اس کے لیئے وہ انہیں اپنے سے دور کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ ہوسٹل یا اقامت گاہ بری جگہ نہیں ہے ۔۔تاہم ہماری ذاتی رائے و تجربے کی روشنی میں میٹرک والدین کو اپنے سامنے کرانی چاہیئے اور اس میں بھی والدین کی تربیت و ماحول بہت حد تک کاؤنٹ کرتا ہے۔اور اسکے بعد اگر آپ کے اپنے شہر کوئی ااچھا مناسب ادارہ نہیں ہے تو پھر بچے کو ہوسٹل بھیجنے میں کوئی ہرج نہیں ہے لیکن وہاں بھی والدین کو اسکی خبر گیری کرتے رہنا چاہیے ۔۔اسکی ہفتہ وار رپورٹ لینا چاہیئے۔
ہم سب بہن بھائیوں نے ہوسٹل ہی میں پڑھا ہے جب بھی ضرورت پیش آئی ۔اللہ کا شکر ہے کبھی کوئی مسلہ احساس کمتری یا برتری کا شکار نہیں ہوئے لیکن عینی نے تھوڑا سا تنگ ضرور کیا تھا چھوٹے ہونے کی وجہ سے :)
اور اس کے علاوہ ہم نے تو یہاں تک بھی دیکھا ہے کہ میڈیکل کے اکثر طلباء اپنے شہر میں رہنے کے باوجود ہوسٹل میں رہنے کوترجیح دیتے ہیں وجہ کہ گھر میں پڑھ نہیں سکتے تو بچوں کا میلان اور رجحان بھی دیکھا جانا ضروی ہے ۔ تاہم ہر چیز کے دو پہلو بہر طور ہوتے ہی ہیں ۔۔۔جہاں فائدے ہیں وہاں لازماََ تھوڑے گھاٹے بھی ہوں گے ۔
 

اشفاق احمد

محفلین
بچے کو ماں کی شفقت بھری درسگاہ اور والد کی پدرانہ دیکھ بھال سے محروم نہیں کرنا چاہیئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگر حالات 5 فیصد بھی اجازت دیں تو اُن کو ہاسٹل سے دور رکھیں۔۔۔۔۔جب بچہ لڑکا بن جائے یعنی ینگ مین تب اس کو ہاسٹل کی ہوا لگنے دیں
اس بات سے انکار نہیں کہ بچے کو کچھ نہ کچھ سیکھنے کو ملتا ہے لیکن بہت سی باتیں وقت پر ہی سیکھنا اچھا ہوتا ہے
ہوسٹل میں فروکش بچے بہت کچھ وقت سے پہلے سیکھ لینے کے عذاب سے گذرتے ہیں
 
ہم سب بہن بھائیوں نے ہوسٹل ہی میں پڑھا ہے جب بھی ضرورت پیش آئی ۔اللہ کا شکر ہے کبھی کوئی مسلہ احساس کمتری یا برتری کا شکار نہیں ہوئے لیکن عینی نے تھوڑا سا تنگ ضرور کیا تھا چھوٹے ہونے کی وجہ سے​
:)

عینی شاہ کہاں ہیں! ارے آپ کی اپیا تو بھی آپ کی اس تنگ کرنے والی عادت کی عینی شاہد ہیں!!! ۔۔۔۔
اس سے پہلے کہ عزیزہ مدیحہ گیلانی گرامر کی غلطی پکڑیں، ہم اس کو درست کیے لیتے ہیں۔ عینی شاہد نہیں؛ عینی شاہدہ!!!

عینی شاہ + دہ ۔۔۔ یعنی؟ ’’دَس 10 عینی شاہ‘‘ !!!!!!!!!!
 
Top